Al-Qurtubi - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ : اور جب ابْتَلٰى : آزمایا اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم رَبُّهٗ : ان کا رب بِکَلِمَاتٍ : چند باتوں سے فَاَتَمَّهُنَّ : وہ پوری کردیں قَالَ : اس نے فرمایا اِنِّيْ : بیشک میں جَاعِلُکَ : تمہیں بنانے والا ہوں لِلنَّاسِ : لوگوں کا اِمَامًا : امام قَالَ : اس نے کہا وَ : اور مِنْ ذُرِّيَّتِي : میری اولاد سے قَالَ : اس نے فرمایا لَا : نہیں يَنَالُ : پہنچتا عَهْدِي : میرا عہد الظَّالِمِينَ : ظالم (جمع)
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے خدا نے کہا میں تم لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار ! ) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو) خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کیلئے نہیں ہوا کرتا
آیت نمبر 124 اس میں بیس مسائل ہیں (٭) ۔ مسئلہ نمبر 1: جب کعبہ اور قبلہ کا ذکر جاری تھا تو اس کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرما دیا کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کو بنایا تھا۔ یہود کا حق تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے انحراف نہ کرتے کیونکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے تھے۔ الابتلاء کا معنی آزمائش کرنا ہے۔ اس کا معنی حکم دینا ہے اور مکلف بنانا ہے۔ ابراھیم، اس کی سریانی زبان میں تفسیر وہ ہے جو ماوردی نے ذکر کی ہے اور عربی میں وہ ہے جو ابن عطیہ نے ذکر کی ہے اب رحیم (4) (مہربان باپ) سہیلی نے کہا : اکثر سریانی اور عربی زبان میں اتفاق واقع ہوتا ہے یا لفظ میں ایک دوسری کے قریب واقع ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ابراہیم کی تفسیر ابٌ راحمٌ (مہربان باپ) بچوں پر ان کی شفقت کی وجہ سے ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی حضرت سارہ قیامت تک مومنوں کے ان بچوں کے کفیل ہیں جو بچپن میں فوت ہوگئے ہیں۔ میں کہتا ہوں : اس پر بخاری کی حدیث دلالت کرتی ہے، حضرت سمرہ ؓ سے مروی ہے، یہ ایک لمبا خواب ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ایک باغ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا ان کے اردگرد لوگوں کی اولاد تھی۔ ہم نے اس پر تفصیلی گفتگو کتاب “ التذکرہ ” میں کی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا شجرہ نسب یہ ہے ابراہیم بن تارخ بن تاخور۔ یہ بعض مؤرخین کے قول کے مطابق ہے (1) اور قرآن حکیم میں ہے : واذ قال ابراھیم لابیہ آزر (جب ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے کہا) اسی طرح صحیح بخاری میں بھی ہے۔ ان میں اختلاف اور تناقض نہیں ہے جیسا کہ اس کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة انعام میں آئے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چار بیٹے تھے۔ اسماعیل، اسحاق، مدین، مدائن۔ جیسا کہ سہیلی نے ذکر کیا ہے۔ اس آیت میں مفعول کو اہتمام کی خاطر مقدم کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی حضرت ابراہیم کو آزمانے والا تھا۔ فاعل کے ساتھ ضمیر کا متصل ہونا عربی میں مفعول کی تقدیم کا موجب ہوتا ہے اس اہتمام پر کلام کی بنیاد رکھی گئی ہے (2) ۔ عام قراءت ابراھیم نصب کے ساتھ ہے ربہ رفع کے ساتھ ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ جابر بن زید سے مروی ہے انہوں نے اس کا الٹ پڑھا ہے اور انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس نے انہیں اسی طرح پڑھایا۔ معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سوال کیا دعا مانگی۔ اس میں بکلمات میں باء کی وجہ سے بعد ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بکلمتٍ یہ کلمہ کی جمع ہے ان کی تحقیق اللہ تعالیٰ کے کلام کی طرف لوٹتی ہے لیکن یہاں کلمات سے مراد وہ وظائف ہیں جن کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مکلف بنایا گیا تھا جب ان وظائف کی تکلیف کلام کے ساتھ تھی اس لئے اسے کلمات سے تعبیر فرمایا جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہا گیا کیونکہ وہ کن کے کلمہ سے صادر ہوئے۔ کسی شے کا اس کے مقدمہ کے ساتھ نام رکھنا مجاز کی ایک قسم ہے۔ یہ ابن عربی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 3: الکلمات کی مراد میں علماء کا اختلاف ہے۔ پہلا قول یہ ہے کہ اس سے مراد شرائع اسلام ہیں اور یہ تیس ہیں۔ دس کا ذکر سورة برأت میں ہے التأئبون العبدون۔۔۔ الی اخرہ۔ دس کا ذکر سورة احزاب میں ہے ان المسلمین والمسلمت الخ۔ دس کا ذکر سورة المومنون میں ہے قد افلح المؤمنون۔۔۔۔۔ علی صلوٰتھم یحافظون۔ تک اور سورة سال سائل میں الا المصلین۔ سے لے کر والذین ھم علیٰ صلاتھم یحافظون۔ تک ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان کلمات کے ساتھ جس کو بھی آزمایا تو صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو پورا کیا۔ اسلام کے ساتھ آزمایا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے مکمل کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے برأ‌ ت لکھی۔ فرمایا : وابرھیم الذی وفی (النجم :37) ۔ بعض علماء نے فرمایا : کلمات سے مراد امرو نہی ہے، بعض نے فرمایا : اپنے بیٹے کا ذبح کرنا ہے۔ بعض نے فرمایا : رسالت کی ادائیگی ہے۔ یہ معانی قریب قریب ہیں۔ مجاہد نے کہا : اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : میں تجھے ایک امر سے آزمانے والا ہوں۔ حضرت ابراہیم نے عرض کی : تو مجھے لوگوں کے لئے امام بنا دے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں۔ حضرت ابراہیم نے عرض کی : من ذریتی میری اولاد سبے بھی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی : تو اپنے گھر کو لوگوں کے لوٹنے کی جگہ بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی : امن والا بنائے گا۔ فرمایا : ہاں۔ تو ہمیں مناسک دکھائے گا اور ہم پر نظر کرم فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں۔ عرض کی : اس کے باسیوں کو پھلوں سے رزق دے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں۔ اس قول کے مطابق اللہ تعالیٰ مکمل فرمانے والا ہوگا (2) ۔ اس سے زیادہ صحیح وہ روایت ہے جو عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے ابن طاؤس سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے واذابتلیٰ ابرھم ربہ بکلمتٍ فاتمنھن کے تحت روایت کی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو طہارت کے ساتھ آزمایا۔ پانچ چیزیں سر میں تھیں اور پانچ پورے جسم میں تھیں : مونچھوں کا کاٹنا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا، مانگ نکالنا اور جسم میں یہ چیزیں تھی : ناخن کاٹنا، زیر ناف بال صاف کرنا، ختنہ کرنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، پیشاب، پاخانہ کی جگہ کو پانی کے دھونا (3) ۔ اس قول پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مکمل کرنے والے ہوں (4) ۔ یہی قرآن کا ظاہر ہے۔ مطر نے ابو الجلد سے روایت کیا ہے کہ یہ بھی دس کلمات تھے۔ انہوں نے مانگ کی جگہ اعضاء کے جوڑوں کو دھونا، اور استنجاء کی جگہ زیر ناف بال صاف کرنے کو رکھا ہے۔ قتادہ نے کہا : یہ خاص مناسک حج ہیں۔ حسن نے کہا : یہ چھ خلال ہیں : ستارہ، چاند، سورج، آگ، ہجرت اور ختنہ کرنا۔ ابو اسحاق الزجاج نے کہا : یہ اقوال ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں ان تمام کے ساتھ حضرت ابراہیم علی السلام کو آزمایا گیا۔ میں کہتا ہوں : مؤطا وغیرہ میں یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت سعید بن مسیب کو یہ فرماتے سنا : ابراہیم (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے ختنہ کیا اور پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی، پہلے شخص ہیں جنہوں نے زیر ناف بال صاف کئے، پہلے شخص ہیں جنہوں نے ناخن تراشے، پہلے شخص ہیں جنہوں نے مونچھیں کاٹیں، پہلے شخص ہیں جن کے بال سفید ہوئے، جب سفید بالوں کو دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ وقار ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی : یا رب ! میرے وقار میں اضافہ فرما۔۔۔۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے سعید بن ابراہیم سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : سب سے پہلے جس نے منبر پر خطبہ دیا وہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ تھے، دوسرے علماء نے فرمایا : سب سے پہلے جس نے ثرید (سالن میں روٹی کے ٹکڑے ڈال کر کھانا) بنائی، جس نے سب سے پہلے تلوار چلائی، جس نے سب سے پہلے مسواک کیا، جس نے سب سے پہلے پانی سے استنجا کیا، جس نے سب سے پہلے شلوار پہنی وہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ تھے۔ حضرت معاذ بن جبل سے روایت کیا ہے، فرمایا : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم (علیہ السلام) نے منبر بنایا تھا، اگر میں لاٹھی پکڑوں تو میرے باپ ابراہیم نے لاٹھی پکڑی تھی۔ میں کہتا ہوں : یہ ایسے احکام ہیں جن کا بیان اور جن پر آگاہی اور جن پر کلام کرنا ضروری ہے، ان میں سے پہلا ختنہ کرنا ہے اور اس کے متعلق جو روایات آئی ہیں۔ یہی مسئلہ ہے ؟ مسئلہ نمبر 4: علماء کا اجماع ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ختنہ کیا تھا، جس عمر میں آپ نے ختنہ کیا اس میں اختلاف ہے۔ مؤطا میں حضرت ابوہریرہ سے موقوفاً مروی ہے ختنہ کرنے کے وقت آپ کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور اس کے بعد آپ اسی سال زندہ رہے۔ اس قسم کی روایت، اپنی رائے سے نہیں ہو سکتی۔ اوزاعی نے مرفوعاً یحییٰ بن سعید سے انہوں نے حضرت سعید بن مسیب سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ختنہ کیا تو آپ کی عمر ایک سو بیس سال تھی پھر اس کے بعد آپ اسی سال زندہ رہے۔ یہ ابو عمر نے ذکر کیا ہے۔ یحییٰ کے علاوہ کئی واسطوں سے مسند مرفوع روایت کی ہے کہ انہوں نے ختنہ کیا جب آپ کی عمر اسی سال کو پہنچ گئی تھی اور تی سے کے ساتھ آپ نے ختنہ کیا تھا۔ اسی طرح صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ آپ کی عمر اسی سال تھی یہی حدیث عجلان میں اور حدیث اعرج عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ سے محفوظ ہے (1) ۔ حضرت عکرمہ نے کہا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ختنہ کیا تو آپ کی عمر اسی سال تھی۔ اس کے بعد ملت ابراہیم پر کسی نے بیت اللہ کا طواف نہ کیا مگر وہ مختون تھا۔ اسی طرح عکرمہ نے کہا اور مسیب بن رافع نے کہا ہے۔ مروزی نے یہ ذکر کیا ہے۔ القدوم (تیسہ) یہ دال کی تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے۔ ابو الزنادنے کہا : القدوم دال کی شد کے ساتھ ہو تو اس سے مراد جگہ کا نام ہے۔ (2) مسئلہ نمبر 5: ختنہ کرنے کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا نظریہ ہے کہ یہ مؤکدہ سنن میں سے ہے اور فطرت اسلام میں سے ہے۔ مردوں کو اس کے ترک کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک جماعت نے کہا : یہ فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اتبع ملۃ ابرھیم حنیفاً (النحل :123) قتادہ نے کہا : اس سے مراد ختنہ کرنا ہے۔ بعض مالکیوں کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ یہ امام شافعی کا قول ہے، ابن سریج نے اس کے وجوب پر شرمگاہ کی طرف دیکھنے کی حرمت سے استدلال کیا ہے۔ اس نے کہا : اگر ختنہ کرنا فرض نہ ہوتا تو مختون کی شرمگاہ کو دیکھنا مباح نہ ہوتا۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے جسم کی مصلحت کے لئے یہ مباح ہوتا ہے جیسے طبیب کے لئے دیکھنا مباح ہوتا ہے اور طب بالاجماع واجب نہیں۔ مزید بیان انشاء اللہ سورة النحل میں آئے گا۔ ہمارے بعض اصحاب نے اس روایت سے حجت پکڑی ہے جو حجاج ارطاۃ نے ابو الملیح سے اور انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے شداد بن اوس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ختنہ کرنا مردوں کے لئے سنت ہے اور عورتوں کے لئے اچھا عمل ہے) حجاج قابل حجت نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں جس حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے وہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : فطرت پانچ چیزیں ہیں : ختنہ کرنا۔۔۔۔ الحدیث۔ آگے تفصیل سے آئے گی۔ ابو داؤد نے حضرت ام عطیہ سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت مدینہ طیبہ میں عورتوں کے ختنے کرتی تھیں۔ اسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کاٹنے میں مبالغہ نہ کیا کر کیونکہ یہ عورت کے لئے اچھا ہے اور خاوند کے لئے پسندیدہ ہے۔ ابو داؤد نے کہا : یہ حدیث ضعیف ہے اس کا راوی مجہول ہے (1) ۔ وہ روایت جس کو رزین نے ذکر کیا ہے اس میں مبالغہ نہ کر کیونکہ چہرہ کے لئے زیادہ نور کا باعث ہے اور مرد کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اگر بچہ مختون پیدا ہو تو دوبارہ ختنہ کی ضرورت نہیں۔ میمونی نے کہا : مجھے احمد نے کہا : یہاں ایک شخص ہے اس کا مختون بچہ پیدا ہوا ہے وہ اس وجہ سے شدید غمگین ہوا، میں نے اسے کہا جب اللہ تعالیٰ نے خود تیری اس مسئلہ میں کفایت فرمائی ہے تو تو پریشان کس لئے ہے۔ مسئلہ نمبر 7: ابو لفرج جوزی نے کہا : مجھے حضرت کعب الاحبار سے بتایا گیا ہے، فرمایا : تیرہ انبیاء کرام مختون پیدا ہوئے تھے۔ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت ادریس، حضرت نوح، حضرت سام، حضرت لوط، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ ، حضرت شعیب، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ ، حضرت عیسیٰ اور نبی کریم ﷺ وعلیہم اجمعین۔ محمد بن حبیب ہاشمی نے کہا : وہ چودہ انبیاء کرام تھے۔ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ ، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت عیسیٰ ، حضرت حنظلہ بن صفوان (یہ اصحاب الرس کے نبی تھے) اور حضرت محمد ﷺ وعلیہم اجمعین۔ میں کہتا ہوں : نبی کریم ﷺ کے متعلق روایات مختلف ہیں۔ ابو نعیم الحافظ نے اپنی کتاب “ الحلیۃ ” میں اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ مختون پیدا ہوئے تھے۔ ابو عمرو نے ” التمہید “ میں اس سند، حدثنا احمد بن محمد بن احمد حدثنا محمد بن عیسیٰ حدثنا یحییٰ بن ابوب بادی العلاف حدثنا محمد بن ابی السری العسقلانی حدثنا الولید بن مسلم عن شعیب عن عطاء الخراسانی عن عکرمہ عن ابن عباس کے ساتھ روایت کیا ہے۔ عبد المطلب نے ساتویں دین نبی کریم ﷺ کا ختنہ کیا تھا اور دستر خوان لگایا تھا اور آپ ﷺ کا نام (محمد) رکھا تھا۔ ابو عمر نے کہا : یہ حدیث مسند غریب ہے۔ ٰیحییٰ بن ایوب نے کہا : میں نے یہ حدیث تلاش کی تو مجھے ان محدثین میں سے کسی کے پاس نہیں ملی جن سے میری ملاقات ہوئی ہے مگر ابن ابی السری کے پاس ملی۔ ابو عمر نے کہا : یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ مختون پیدا ہوئے تھے۔۔ مسئلہ نمبر 8: علماء کا اختلاف ہے کہ بچے کا ختنہ کب کیا جائے۔ اخبار میں علماء کی ایک جماعت سے ثابت ہے وہ کہتے ہیں : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ختنہ تیرہ سال کی عمر میں کیا تھا، اپنے بیٹے اسحاق کا ختنہ ساتویں روز کیا تھا۔ حضرت سیدہ فاطمہ سے مروی ہے کہ وہ اپنی اولاد کا ساتویں روز ختنہ کرتی تھی۔ امام مالک نے اس کا انکار کیا اور کہا یہ یہود کا عمل ہے۔ مالک سے ابن وہب نے یہ ذکر کیا ہے۔ لیث بن سعد نے کہا : بچے کا ختنہ سات سال سے دس سال تک کے درمیان کیا جائے۔ ابن وہب نے مالک سے اس طرح روایت کیا ہے۔ احمد نے فرمایا : اس کے متعلق میں نے کچھ نہیں سنا۔ بخاری میں سعید بن جبیر سے مروی ہے، فرمایا : حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا : تم کتنی عمر کے تھے جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تھا ؟ حضرت ابن عباس نے کہا : میں اس وقت مختون تھا۔ فرمایا : اور لوگ مرد کا ختنہ نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ وہ بالغ ہوجاتا یا قریب البلوغ ہوتا۔ (1) بڑا آدمی جو اسلام قبول کرے علماء نے اس کا ختنہ کرنا مستحب قرار دیا ہے۔ عطا کہتے ہیں : اس کا اسلام مکمل نہ ہوگا حتیٰ کہ اس کا ختنہ کیا جائے اگرچہ وہ اسی سال کو پہنچ جائے۔ حسن سے مروی ہے : وہ بوڑے شخص کو ختنہ نہ کرنے کی رخصت دیتے تھے جو مسلمان ہوتا تھا اور اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے اور اس کی شہادت، اس کا ذبیحہ، اس کے حج اور نماز میں بھی کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے۔ ابن عبدا لبر نے کہا : اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے اور غیر مختون کے حج کے بارے میں حضرت بریدہ کی حدیث ثابت نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت جابر بن زید اور عکرمہ سے روایت ہے کہ غیر مختون کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا اور اس کی شہادت جائز نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 9: اول من استحد کا قول۔ استحداد کا مطلب ہے زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے لئے لوہا استعمال کرنا۔ حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب نورہ (چونا) استعمال کرتے تھے تو زیر ناف بالوں کے لئے اپنے ہاتھ سے نورہ استعمال کرتے تھے (2) ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو نورہ لگایا حتیٰ کہ جب زیر ناف تک پہنچا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا : تو یہاں سے چلا جا پھر اپنے ہاتھ سے زیر ناف نورہ لگایا۔ حضرت انس نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نورہ نہیں لگاتے تھے جب زیر ناف بال زیاد ہوتے تو انہیں مونڈ دیتے۔ ابن خویز منداد نے کہا : یہ دلیل ہے کہ آپ کا اکثر فعل حلق تھا اور نورہ کبھی استعمال کرتے تھے، یہ اس لئے تاکہ دونوں حدیثوں کو جمع کرنا صحیح ہو۔ مسئلہ نمبر 10: تقلیم الاظفار (ناخن کاٹنا) ۔ قلامہ اس حصہ کو کہتے ہیں جو ناخن سے تراشا جاتا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : میں عورتوں کے لئے ناخن کاٹنا اور زیر ناف بال صاف کرنا پسند کرتا ہوں جس طرح مردوں پر ہے۔ یہ حارث بن مسکین اور سحنون نے ابن قاسم سے روایت کیا ہے۔ حکیم ترمذی نے ” نوادرالاصول “ میں الاصل التاسع والعشرون فصل میں ذکر کیا ہے، فرمایا : ہمیں عمر بن ابی عمر نے بتایا فرمایا ہمیں ابراہیم بن العلاء زبیدی نے بتایا انہوں نے عمر بن بلال فرازی سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے حضرت عبد اللہ بن بشیر مازنی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے ناخن کاٹو اور ناخنوں کے تراشوں کو دفن کرو، اپنے جوڑوں کو صاف کرو، کھانے سے اپنے مسوڑھوں کو صاف کرو، مسواک کرو اور میرے پاس پیلے دانتوں اور بدبو کے ساتھ نہ آیا کرو۔ پھر اس حدیث پر کلام فرمائی اور عمدہ کلام فرمائی۔ امام ترمذی نے فرمایا : رہا ناخن کاٹنا یہ اس لئے ہے کیونکہ اس سے خراش لگتی ہے اور نقصان ہوتا ہے اور ان میں میل جمع ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات انسان جنبی ہوجاتا ہے اور اس میل کی وجہ سے پانی جلد تک نہیں پہنچتا اور وہ ہمیشہ جنبی رہتا ہے۔ جو آدمی جنبی ہو اور غسل کرنے کے بعد سوئی کی جگہ بھی خشک رہ جائے تو وہ اپنی حالت پر جنبی ہی ہوتا ہے حتیٰ کہ پورے جسم کا غسل کرلے۔ اسی وجہ سے ناخن کاٹنے کی ترغیب دی۔ اظافیر جمع ہے اظفور کی۔ اور الاظفار جمع ہے الظفر کی۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں ہے : جب آپ نماز میں بھول گئے فرمایا : مجھے کیا ہے کہ میں نہ وہم کرو جبکہ تم میں سے کسی کے ناخنوں اور پوروں کے درمیان میل ہوتی ہے تم میں سے کوئی مجھ سے آسمان کی خبر کے متعلق پوچھتا ہے جبکہ اس کے ناخنوں میں جنابت اور میل ہوتی ہے (1) ۔ اس خبر کو ابو الحسن علی بن محمد الطبری المعروف ال کیا نے ” احکام القرآن “ میں سلیمان بن فرح ابو واصل سے روایت کر کے ذکر کیا ہے۔ فرمایا : میں حضرت ابو ایوب کے پاس آیا میں نے ان سے مصافحہ کیا تو انہوں نے میرے لمبے ناخن دیکھے۔ حضرت ابو ایوب نے فرمایا : ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آسمان کی خبر کے متعلق پوچھنے کے لئے آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی آسمان کی خبر کے متعلق پوچھنے کے لئے آتا ہے جبکہ اس کے ناخن پرندوں کے ناخنوں کی طرح ہوتے ہیں حتیٰ کہ ان میں میل کچیل جمع ہوجاتی ہے (2) ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ادفنوا قلاماتکم ناخنوں کے تراشے دفن کردو کیونکہ مومن کا جسم حرمت والا ہے، جو مومن کے جسم سے ساقط ہو اور زائل ہو اس کی بھی حرمت قائم ہے (3) ۔ پس اسے دفن کردینا چاہیے جیسے مومن جب مرجاتا ہے تو اسے دفن کیا جاتا ہے۔ اور جب اس کا بعض حصہ مر جائے تو دفن کر کے اس کی حرمت قائم کی جائے گی تاکہ وہ بکھر نہ جائے : آگ میں نہ گرے یا کسی گندی جگہ نہ گرے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خون دفن کرنے کا حکم دیا جب آپ نے پچھنے لگوائے تھے تاکہ اسے کتے نہ پئیں۔ اس کے متعلق میرے والد (رح) نے ہمیں بتایا اور کہا : ہمیں موسیٰ بن اسماعیل نے بتایا فرمایا : ہمیں مفید بن قاسم بن عبد الرحمٰن بن ماغر نے بتایا فرمایا : میں نے عامر بن عبد اللہ بن زبیر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ان کے والد نے انہیں بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ پچھنے لگوا رہے تھے۔ جب فارغ ہوئے تو فرمایا : اے عبد اللہ ! یہ خون لے جاؤ اور ایسی جگہ انڈیل دو جہاں تجھے کوئی نہ دیکھے۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ سے اوجھل ہوگئے تو انہوں نے آپ ﷺ کا خون پی لیا، جب وہ واپس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے عبد اللہ ! تو نے اس خون کو کیا کیا ؟ حضرت عبد اللہ نے کہا : میں اسے مخفی جگہ رکھ دیا ہے۔ میرا گمان ہے وہ لوگوں سے مخفی رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : لعلک شربتہ۔ شاید تو نے وہ پی لیا ہے۔ حضرت عبد اللہ نے کہا : ہاں آپ ﷺ نے پوچھا : تو نے خون کیوں پیا ہے ؟ لوگوں کے لئے تجھ سے ہلاکت ہے اور تیرے لئے لوگوں سے ہلاکت ہے۔ میرے باپ نے مجھے بتایا، فرمایا : مالک بن سلیمان ہر وی نے ہمیں بتایا انہوں نے کہا : ہمیں داؤد عبد الرحمن نے بتایا انہوں نے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ انسان کی سات چیزوں کو دفن کرنے کا حکم دیتے ہیں : بال، ناخن، خون، حیض، دانت، قلفہ (وہ حصہ جو ختنہ کرنے والا کا ٹا جاتا ہے) اور قے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : نقوا براجمکم اپنے جوڑ صاف کرو جہاں میل جمع ہوجاتی ہے۔ براجم کا مفرد برجمۃٌ ہے ہر جوڑ کی گرہ۔ پس ہر گرہ کی پیٹھ کو برجمہ کہا جاتا ہے اور جو دو گرہوں کے درمیان ہوا سے راجبۃ کہتے ہیں اس کی جمع رواجب ہے۔ یہ وہ حصہ ہوتا ہے جو ظاہر سے ملا ہوا ہوتا ہے یہ انگلی کا قصبہ ہے ہر انگلی کے دو برجم اور تین رواجب ہوتے ہیں سوائے انگوٹھے کے اس کا ایک برجم اور دوراجب ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی صفائی کا حکم دیا تاکہ میل نہ ہو اور جنابت باقی نہ رہے اور میل، پانی اور جلد کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : نظفوا الثاتکم (اپنے مسوڑوں کو صاف کرو) ۔ لثۃ ٌ واحد ہے اور اس کی جمع لثات ہے۔ یہ وہ گوشت ہوتا ہے جو دانتوں کے اوپر اور دانتوں کے نیچے ہوتا ہے دانتوں کے نکلنے کی جگہ اور العمور اس تھوڑے سے گوشت کو کہتے ہیں جو دانتوں کے درمیان ہوتا ہے، اس کا مفرد عمر ہے۔ ان کے صاف کرنے کا حکم دیا تاکہ اس میں کھانے کا کوئی ٹکڑا باقی نہ رہے اور اس میں بدبو نہ پیدا ہوجائے اور فرشتوں کو کوئی تکلیف ہو۔ کیونکہ یہ قرآن کا راستہ ہے اور فرشتوں کے بیٹھنے کی جگہ بڑے دانتوں کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ما یلفظ من قولٍ الا لدیہ رقیبٌ عتیدٌ۔ (ق) کے تحت خبر روایت کی گئی ہے کہ فرشتہ آدمی کے بڑے دانتوں کے پاس ہے۔ محمد بن علی الثقیقی نے ہمیں یہ بیان کیا، فرمایا : میں نے اپنے باپ کو سفیان بن عینیہ سے یہ ذکر کرتے ہوئے سنا۔ انہوں نے بہت عمدہ ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ لفظ، ہونٹوں کا عمل ہے وہ کلام کو اپنی زبان سے باہر پھینکتا ہے لدیہ سے مراد اس کے پاس ہے۔ لدی اور عند کا معنی لغت میں ایک ہے اسی طرح لدن ہے، اس میں نون زائدہ ہے۔ گویا آیت سے معلوم ہوتا ہے سخت کلام کرنے والے کے پاس تاڑنے والا سخت موجود ہے اور وہ بڑا دانت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشا ہے : تسننوا یہ السن سے ماخوذ ہے اس کا معنی ہے مسواک کرو، یعنی دانت صاف کرو۔ لا تدخلوا علی قحرا بخراً میرے نزدیک محفوظ قحلاً وقلحاً ہے۔ یعنی میرے پاس پیلے دانتوں اور منہ کی بدبو کے ساتھ نہ آؤ۔ میں نے جارود کو نضر سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ اقلح اس شخص کو کہتے ہیں جس کے دانت پیلے ہوں حتیٰ کہ ان کے اندر سے بدبو آئے۔ میں القخر نہیں جانتا، البخر اس شخص کو کہتے ہیں جس کے جسم سے بدبو آئے۔ کہا جاتا ہے : رجلٌ ابخر، رجال بخرٌ۔ ہمیں جارود نے بتایا، فرمایا : ہمیں جریر نے بتایا انہوں نے منصور سے انہوں نے ابو علی سے انہوں نے ابو جعفر بن تمام بن عباس سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسواک کرو تمہیں کیا ہے تم میرے پاس پیلے دانتوں کے ساتھ آتے ہو۔ مسئلہ نمبر 11: قص الشارب (مونچھوں کا کاٹنا) مونچھیں اتنی کاٹنا کہ ہونٹ کی طرف ظاہر ہوجائے۔ بالکل نہ مونڈ دے کہ اپنے آپ کو مثلہ کر دے (1) ۔ امام مالک نے یہی فرمایا۔ ابن عبد الحکم نے مالک سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں دیکھتا ہوں کہ جو مونچھوں کا حلق (مونڈ دے) کرائے اسے ادب سکھایا جائے۔ اشہب نے مالک سے روایت کیا ہے، فرمایا : مونچھیں مونڈنا بدعت ہے جو ایسا کرے اسے سزا دی جائے۔ ابن خویز منداد نے کہا : امام مالک نے فرمایا : جو مونچھوں کا حلق کرے اسے مار کر تکلیف دینی چاہئے گویا وہ اسے مثلہ دیکھتے تھے، حلق کی نسبت مونچھوں کو چھوٹا کرنا امام مالک کے نزدیک اولیٰ ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ کے بال لمبے تھے۔ آپ کے صحابہ میں سے کسی کے بال لمبے ہوتے تھے اور کسی کے چھوٹے ہوتے تھے۔ عمرہ اور حج کے موقع پر آپ ﷺ کا سر کا حلق کرایا تو صحابہ نے بھی حلق کرایا۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کی طرف جانے سے پہلے ناخن اور مونچھیں کاٹتے تھے۔ امام طحاوی نے فرمایا : ہم امام شافعی سے اس کے بارے میں کوئی نص نہیں پاتے اور ان کے اصحاب جن کو ہم نے دیکھا مزنی اور ربیع یہ اپنی مونچھوں کو خوب پست کرتے تھے۔ یہ دلیل ہے کہ انہوں نے امام شافعی (رح) سے یہ عمل لیا ہوگا۔ فرمایا : امام ابو حنیفہ، امام زفر، امام ابو یوسف اور امام محمد کا مذہب سر کے بالوں اور مونچھوں کے بارے میں یہ تھا کہ تقصیر سے احفاء افضل ہے۔ یعنی بال اور مونچھیں چھوٹی کرنے سے بالکل مونڈ دینا افضل ہے۔ ابن خویز منداد نے امام شافعی سے روایت کیا ہے کہ ان کا مذہب مونچھوں کو حلق (مونڈنے) کرنا امام ابوحنیفہ کے مذہب کے مطابق ہے۔ ابوبکر اثرم نے کہا : میں نے امام احمد بن حنبل کو دیکھا وہ مونچھوں کو انتہائی پست کرتے تھے۔ میں نے سنا کہ ان سے مونچھوں کے انتہائی پست کرنے کے سنت ہونے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : اسی طرح انتہائی پست کی جائیں جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا : احفوا الشوارب مونچھوں کو انتہائی پست کرو۔ ابو عمر نے کہا : اس بات میں دو اصل ہیں۔ ایک لفظ ہے احفوا مونچھوں کو انتہائی پست کرو۔ یہ لفظ تاویل کا احتمال رکھتا ہے دوسرا لفظ قص الشارب ہے یہ لفظ مفسر ہے اور مفسر، مجمل پر غال ہوتا ہے۔ یہی اہل مدینہ کا عمل ہے یعنی (مونچھوں کو کاٹنا) اور جو کچھ اس کے متعلق کہا گیا ہے اس میں سے یہ بہتر ہے۔ ترمذی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، رسول اللہ ﷺ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور فرماتے تھے : ابراہیم خلیل الرحمن ایسا کرتے تھے (2) ۔ فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : فطرت پانچ چیزیں ہیں : ختنہ کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا، مونچھیں کاٹنا، ناخن کاٹنا، بغلوں کے بال نوچنا (3) ۔ حضرت عمر سے ترمذی میں مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرکین کی مخالفت کرو مونچھوں کو انتہائی پست کرو، داڑھیوں کو بڑھاؤ اور عجمی لوگ اپنی داڑھیوں کو کاٹتے ہیں اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں یا دونوں کو اکٹھا بڑھاتے ہیں۔ یہ جمال اور نظامت کے برعکس ہے۔ رزین نے نافع سے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابن عمر اپنی مونچھوں کو اتنا پست کرتے تھے کہ ان کی جلد نظر آتی تھی، اور مونچھوں اور داڑھی کو کاٹتے تھے۔ بخاری میں ہے حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی جو قبضہ سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے۔ ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن عمرو العاص سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی داڑھی کو عرض اور طول سے کاٹتے تھے (1) ۔ فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔ مسئلہ نمبر 12: بغلوں کے بال نوچنا سنت ہے جس طرح زیر ناف بالوں کا حلق (مونڈنا) سنت ہے اگر کوئی اس کا الٹ کر دے تو بھی جائز ہوگا کیونکہ نظافت حاصل ہوگئی۔ پہلا طریقہ بہتر ہے اور آسان ومعتاد ہے۔ مسئلہ نمبر 13: فرق الشعر (بالوں کی مانگ نکالنا) ۔ نبی کریم ﷺ کی صفت میں ہے۔ جب آپ کے بندھے ہوئے بال بکھر جاتے تو آپ مانگ نکالتے۔ کہا جاتا ہے : فرقت الشعرا فرقہ فرقاً بالوں کو جدا جدا کرنا۔ کہتے ہیں : ان انفرق شعر راسہ فرقہ فی مفرقہ۔ سر کے بال بکھر جاتے تو اسے اپنی مانگ میں علیحدہ علیحدہ کردیتے اور اگر بکھر تے نہیں تھے تو سر پر اکٹھا رکھتے۔ نسائی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بالوں کو پیشانی پر ڈالے رکھتے تھے جب کہ مشرک لوگ اپنے بالوں کی مانگ نکالتے تھے۔ آپ ﷺ ہراس کام میں اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے جس میں آپ کو کوئی حکم نہیں دیا گیا ہوتا پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بالوں میں مانگ نکالتے تھے۔ یہ حدیث، بخاری اور مسلم نے حضرت انس سے روایت کی ہے (2) ۔ قاضی عیاض نے کہا : سدل الشعر کا مطلب بالوں کو کھلا چھوڑ دینا اور اس حدیث میں علماء کے نزدیک بالوں کو پیشانی پر چھوڑنا ہے اور ان کا گچھا بنانا ہے۔ بال میں مانگ نکالنا سنت ہے کیونکہ اس طرف نبی کریم ﷺ نے رجوع کیا تھا، روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز جمعہ سے واپس آتے تھے تو مسجد کے دروازے پر اپنے سپاہیوں کو کھڑا کرتے تھے اور ہر اس شخص کی پیشانی کے بال کاٹ دیتے تھے جو اپنے بالوں کی مانگ نکالے ہوئے نہ ہوتا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت تھی۔ مسئلہ نمبر 14: سفید بال نور ہیں اور ان کا نکالنا مکروہ ہے۔ نسائی اور ابو داؤد میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفید بال نہ نوچو، جس مسلمان کے اسلام میں بال سفید ہوتے ہیں وہ قیامت کے روز اس کے لئے نور ہوں گے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھے گا اور اس سے گناہ معاف فرمائے گا۔ میں کہتا ہوں : جس طرح سفید بال نوچنا مکروہ ہے اسی طرح سفید بالوں کو سیاہی میں بدلنا بھی مکروہ ہے لیکن سیاہی کے علاوہ کسی رنگ سے بدلنا جائز ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ابو قحافہ کے حق میں فرمایا۔۔۔۔ انہیں لایا گیا تھا جب ان کے بال ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔۔۔۔ اس کو کسی چیز سے تبدیل کردو، اور سیاہ (خضاب) سے اجتناب کرو۔ کتنا خوبصورت شعر کہا ہے جس نے : یسود اعلاھا ویبیض اصلھا ولا خیر فی الاعلی اذا فسد الاصل اوپر سے سیاہ اور اصل سفید ہے، اوپر والے رنگ میں کوئی بھلائی نہیں جب اصل بری ہو۔ ایک اور شاعر نے کہا : یا خاضب الشیب بالحناء تسترہ سل الملیک لہ ستراً من النار اے مہندی کے ساتھ سفید بالوں کو خضاب کر کے چھپانے والے ! اللہ تعالیٰ سے آگ سے پردہ کا سوال کر۔ مسئلہ نمبر 15: الثرید (سالن میں ٹکڑے بھگو کر چوری بنا کر کھانا) یہ عمدہ کھانا ہوتا ہے اور زیادہ برکت والا ہوتا ہے۔ یہ عربوں کا کھانا ہے نبی کریم ﷺ نے تمام کھانوں پر اس کھانے کی فضیلت کی گواہی دی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت تمام عورتوں پر اس طرح ہے جس طرح ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے (1) ۔ صحیح البستی میں حضرت اسماء بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ وہ جب ثرید بناتی تھیں تو اسے کسی چیز سے ڈھانپ دیتی تھی حتیٰ کہ اس کی گرمی ختم ہوجائے اور فرماتی تھیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے یہ بڑی برکت والا کھانا ہے۔ مسئلہ نمبر 16: میں کہتا ہوں : یہ سب اس روایت کا مفہوم تھا جو عبد الرزاق نے حضرت ابن عباس سے روایت کی اور جو سعید بن مسیب وغیرہ نے کہا، کلی، ناک میں پانی ڈالنا اور مسواک کا ذکر سورة النساء میں آئے گا اور استنجا کا حکم سورة برأت میں اور ضیافت کا حکم سورة ہود میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسلم نے حضرت انس سے اس روایت کیا ہے، فرمایا : مونچھیں کاٹنے، ناخن تراشتے، بغلوں کے بال نوچنے، زیر ناف بال مونڈنے کا ہمارے لئے وقت متعین کیا گیا ہے کہ چالیس راتوں سے زیادہ انہیں نہ چھوڑے رکھیں۔ ہمارے علماء نے فرمایا : چالیس راتیں یہ اکثر مدت کی حد ہے۔ مستحب یہ ہے کہ ہر جمعہ کو یہ صفائی کی جائے۔ یہ حدیث جعفر بن سلیمان نے روایت کی ہے۔ عقیلی نے کہا : اس کی حدیث میں نظر ہے۔ ابو عمر نے اس کے متعلق کہا : جعفر بن سلیمان اپنے حافظہ کی خرابی اور غلطیوں کی کثرت کی وجہ سے حجت نہیں ہے۔ نقل کے اعتبار سے یہ حدیث قوی نہیں ہے لیکن ایک قوم نے اس کا قول کیا ہے اور اکثر علماء کا خیال ہے کہ اس کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ وباللہ التوفیق مسئلہ نمبر 17: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی جاعلک للناس اماماً ، الامام کا معنی، قدوہ ہے۔ اسی سے خیط البناء کو امام کہا جاتا ہے، راستہ کو بھی امام کہا جاتا ہے کیونکہ چلنے کے لئے اس کا قصد کیا جاتا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے امام بنائیں گے۔ ان خصال میں وہ تیری اقتداء کریں گے، نیک لوگ تیری پیروی کریں گے اللہ تعالیٰ نے انہیں اہل اطاعت کے لئے امام بنایا۔ اسی وجہ سے تمام امتوں کا آپ کے بارے میں اجتماعی دعویٰ ہے کہ آپ باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف مائل ہونے والے تھے۔ (2) مسئلہ نمبر 18: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن ذریتی اللہ کی بارگاہ میں رغبت کی جہت سے دعا ہے۔ یعنی اے میرے رب ! میری اولاد سے بھی امام بنا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اولاد کے متعلق استفہام کی جہت سے ہے یعنی اے میرے رب ! میری اولاد سے کیا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان میں گنہگار، ظالم ہوں گے وہ امامت کے مستحق نہ ہوں گے (1) ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا کہ ان کی اولاد سے امام بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آگاہ کیا کہ اس کی اولاد میں نافرمان بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔ مسئلہ نمبر 19: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن ذریتی، ذریۃٌ یہ الذر سے فعلیۃ ٌ کا وزن ہے کیونکہ انسانی مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیٹھ سے ذروں کی طرح نکالا تھا جب انہیں ان کے نفسوں پر گواہ بنایا تھا۔ بعض نے فرمایا : یہ ذرأ اللہ الخلق یذرؤھم ذرءاً سے مشتق ہے جس کا معنی ہے : اللہ نے انہیں پیدا کیا، اسی سے الذریۃ ہے جس کا معنی ہے جن وانس کی نسل لیکن عربوں نے اس کا ہمزہ ترک کردیا، اس کی جمع الذراری ہے (2) ۔ حضرت زید بن ثابت نے ذریۃ ذال کے کسرہ کے ساتھ اور ذریۃ ذال کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن جنی ابو الفتح عثمان نے کہا : اس حرف کی اصل چار الفاظ کا احتمال رکھتی ہے : (1) ذرأ (2) ذرر (3) ذرو (4) ذری۔ ہمزہ والی صورت ہو تو یہ ذرأاللہ الخلق سے مشتق ہوگا ذرر ہو تو الذر کے لفظ سے ماخوذ ہوگا۔ یہ اس لئے ہے کہ خبر میں وارد ہے کہ مخلوق ذروں کی مانند تھی۔ واو اور یاء سے ہو تو یہ ذروت الحب وذریتہ سے ہوگا یہ دونوں اکٹھے بولے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاصبح ھشیماً تذروہ الریح (الکہف :45) یہ اس کے لطاف اور خفت کی وجہ سے ہوگا یہ دانے کی حالت ہے۔ جوہری نے کہا : ذرت الریح التراب وغیرہ تذروہ و تذریۃ ذرواً وذریاً یعنی ہوا نے مٹی کو اڑایا۔ اسی سے ہے : ذری الناس الحنطۃ۔ لوگوں نے دانوں کو اڑایا۔ اذریت الشی۔ جب تو کسی چیز کو پھینکے جیسے تو کھیتی کے لئے دانے کو پھینکتا ہے۔ و طعنہ فاذراہ عن ظھر دابتہ۔ اس نے اسے نیزہ مارا اور سواری کی پیٹھ سے پھینک دیا۔ خلیل نے کہا : اسے ذریۃ کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی مخلوق کو زمین پر اس طرح پھینک دیا جس طرح کسان دانے پھینکتا ہے۔ بعض نے کہا ذریۃ کی اصل ذرورۃ ہے لیکن جب تضعیف زیادہ ہوئی تو ایک را کو یا سے بدل دیا گیا تو ذرویۃ ہوگیا پھر واو کو یا میں ادغام کیا گیا تو ذریۃ ہوگیا، یہاں ذریت سے مراد بیٹے ہی ہیں۔ کبھی اس کا اطلاق آباء اور ابناء دونوں پر ہوتا ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وایۃٌ لھم انا حملنا ذریتھم (یسین :41) یہاں ذریت سے مراد آباء ہیں۔ مسئلہ نمبر 20: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا ینال عھدی الظلمین عہد کے مراد میں علماء کا اختلاف ہے، ابو صالح نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد نبوت ہے۔ سدی نے بھی یہی کہا ہے۔ مجاہد نے کہا : اس سے مراد امامت ہے۔ قتادہ نے کہا : ایمان ہے۔ عطا نے کہا : رحمت ہے۔ ضحاک نے کہا : اللہ تعالیٰ کا دین ہے، بعض نے کہا : اس کا امر ہے (3) ۔ عہد کا اطلاق امر پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اللہ عھد الینا (آل عمران : 183) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا۔ فرمایا : الم اعھد الیکم (یسین :60) ۔ یعنی میں نے پہلے تمہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ جب عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کا امر ہو تو لا ینال عھدی الظلمین کا مطلب ہوگا کہ یہ جائز نہیں ہے کہ ظالم لوگ ان کی جگہ آئیں جو اللہ کے اوامر کو قبول کرتے ہیں وہ ان کو قائم نہیں کریں گے۔ اس کا بیان ابھی قریب ہی انشاء اللہ آئے گا۔ معمر نے قتادہ سے اس ارشاد لا ینال عھدی الظلمین کے تحت روایت کیا ہے کہ قتادہ نے فرمایا : اللہ عہد آخرت میں ظالموں کو نہیں ملے گا (1) ۔ رہا دنیا میں تو ظالم نے اس کو پایا، اس کے ساتھ اس نے امن پایا، کھایا، زندہ رہا اور دیکھا۔ زجاج نے کہا : یہ عمدہ قول ہے لا ینال امانی الظالمین یعنی میں انہیں اپنے عذاب سے امن نہیں دوں گا۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا : یہاں ظالم سے مراد مشرک ہے۔ حضرت ابن مسعود، طلحہ بن مصرف نے لا ینال عھدی الظالمون پڑھا ہے یعنی ظالمون کے رفع کے ساتھ۔ اور باقی قراء نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے، حمزہ، حفظ اور ابن محیصن نے عھدی میں یاء کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے باقی قراء نے یاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر 21: اس آیت سے علماء کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ امام عادل، محسن اور فضل والا ہونا چاہئے ساتھ ساتھ اس کو عدل کے قیام کی قوت بھی ہو۔ اس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا : الاینازعوا الامر اھلہ۔ یعنی جو حکمرانی کے حقدار ہیں ان سے جھگڑا نہ کرو گے، اس کے متعلق گفتگو گزر چکی ہے۔ رہے فاسق، ظالم اور جابر لوگ وہ حکمرانی کے اہل نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لا ینال عھدی الظلمین اسی وجہ سے حضرت ابن زبیر اور امام حسین ؓ نے خروج کیا تھا، اہل عراق میں سے نیک لوگوں نے اور عراقی علماء نے حجاج بن یوسف پر خروج کیا تھا۔ اہل مدینہ نے بنی امیہ پر خروج کیا تھا اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ حرہ کا واقعہ جو ان پر مسلم بن عقبہ نے واقع کیا تھا۔ یہی وجہ تھی اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ ظالم امام کی اطاعت پر صبر کرنا، خروج سے اولیٰ ہے کیونکہ اس سے لڑنے اور اس پر خروج کرنے میں امن کو خوف سے بدلنا ہے اور خون بہانا ہے اور بیوقوفوں کے ہاتھ کو کھولنا ہے اور مسلمانوں پر حملہ کا دروازہ کھولنا ہے اور زمین میں فساد کا شروع کرنا ہے۔ پہلا مسلک معتزلہ کے ایک گروہ کا ہے یہی خوارج کا مذہب ہے۔ مسئلہ نمبر 22: ابن خویز منداد نے کہا، جو ظالم ہو وہ نہ نبی ہوتا ہے نہ خلیفہ نہ حاکم ہوتا ہے نہ مفتی۔ نہ نماز کا امام ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی روایت قبول کی جاتی ہے جو وہ صاحب شریعت سے روایت کرتا ہے، نہ احکام میں اس کی گواہی قبول ہوتی ہے مگر وہ اپنے فسق کی وجہ سے معزول نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ اسے دانشمند لوگ معزول کریں۔ جو اس نے پہلے احکام دئیے وہ صحیح احکام تھے تو وہ جاری ونافذ ہوں گے وہ نہیں ٹوٹیں گے۔ امام مالک نے خوارج اور باغیوں کے متعلق اس پر نص قائم کی ہے کہ ان کے احکام نہیں ٹوٹیں گے جب وہ ان میں اجتہاد کے ساتھ صحیح سمت پر پہنچے ہوں اور انہوں نے اجماع کو نہ توڑا ہو اور نصوص کی مخالفت نہ کی ہو۔ یہ ہم نے صحابہ کے اجماع کی وجہ سے کہا ہے، واقعہ یہ ہے کہ خوارج نے صحابہ کے ایام میں خروج کیا، نہ کوئی منقول ہے کہ ائمہ نے ان کے احکام کی جستجو کی تھی اور نہ ان میں سے کسی چیز کو توڑا اور نہ دوبارہ زکوٰۃ لی، نہ دوبارہ حدود کو قائم کیا، جو کھچ خوارج نے کہا تھا اسے ہی قائم رکھا۔ پس یہ دلیل ہے کہ اجتہاد کی وجہ کو انہوں نے صحیح پایا ہو تو ان کے احکام سے تعارض نہ کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 23: ابن خویز منداد نے کہا : ظالم حکمرانوں سے تنخواۃ لینا، اس کے تین احوال ہیں اگر جوان کے قبضہ میں ہے وہ شریعت کے مطابق انہوں نے حاصل کیا ہے تو پھر اس کا لینا جائز ہے۔ صحابہ اور تابعین نے حجاج وغیرہ کے ہاتھ سے مال لیا تھا اگر ملا جلا مال ہو حلال بھی ہو اور حرام بھی جیسا کہ آجر کے امراء کے ہاتھ میں ہے تو تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ نہ لیا جائے۔ اور محتاج کے لئے اس کا لینا جائز ہے وہ چور کی مانند ہے اس کے ہاتھ میں چوری کا مال بھی ہے اور پاکیزہ حلال مال بھی ہے ایک شخص نے اس مال کا اسے وکیل بنایا ہے۔ چور نے اس مال سے کسی انسان پر صدقہ کردیا تو اس سے صدقہ لینا جائز ہے۔ اگرچہ جائز تھا کہ چور نے چوری شدہ سے کچھ صدقہ کیا ہو جبکہ کوئی چیز چوری شدہ مال سے معروف نہ ہو۔ اسی طرح اگر کوئی چیز بیچے یا خریدے تو عقد صحیح لازم ہوگی اگرچہ تقویٰ یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اموال بذات خود حرام نہیں ہوتے بلکہ اپنی جہالت کی وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اگر صراحۃً ظلماً لیا گیا ہو تو پھر ان سے لینا جائز نہیں اور اگر ان کے ہاتھوں میں غصب شدہ مال ہو مگر اس مال کا مالک اور مطالبہ کرنے والا معروف نہ ہو تو وہ اسی طرح ہے اگر وہ چوروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں پایا جائے اسے بیت المال میں رکھا جائے گا اور بقدر اجتہاد اس کے طالب کا انتظار کیا جائے گا جب معلوم نہ ہوگا تو امام اسے مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کردے گا۔
Top