Al-Qurtubi - Al-Baqara : 127
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ١ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَ : اور اِذْ : جب يَرْفَعُ : اٹھاتے تھے اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم الْقَوَاعِدَ : بنیادیں مِنَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی وَ : اور اِسْمَاعِيلُ : اسماعیل رَبَّنَا : ہمارے رب تَقَبَّلْ : قبول فرما مِنَّا : ہم سے اِنَکَ : بیشک اَنْتَ : تو السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اور ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کیے جاتے تھے کہ) اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔
آیت نمبر 127 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ یرفع۔۔۔۔ واسمعیل، القواعد سے مراد اس کی بنیادیں ہیں۔ یہ ابو عبیدہ اور فراء کا قول ہے۔ کسائی نے کہا : اس سے مراد دیواریں ہیں، معروف بنیاد ہے۔ حدیث میں ہے : نیت اللہ کو جب گرایا گیا تو اس سے بڑے بڑے پتھر نکلے۔ ابن زبیر نے کہا : یہ وہ پتھر ہیں جن سے حضرت ابراہیم نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ بعض نے فرمایا : وہ بنادیں مٹ گئی تھیں پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان پر مطلع فرمایا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : بیت اللہ کو ان ارکان پر رکھا گیا تھا جو آپ نے دیکھے تھے اور دنیا کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے۔ پھر زمین کو اس کے نیچے سے پھیلایا گیا۔ القواعد کا واحد قاعدہ ہے اور القواعد من النساء کا واحد قاعد ہے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ سب سے پہلے کس نے کعبہ کی بنیاد رکھی۔ بعض نے فرمایا : ملائکہ نے سب سے پہلے اس کی بنیاد رکھی۔ جعفر بن محمد سے مروی ہے، فرمایا : میرے باپ سے بیت اللہ کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں پوچھا گیا جب کہ میں بھی موجود تھا تو میرے والد صاحب نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا : انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرہ : 30) (میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں) تو فرشتوں نے کہا : کیا تو اسمیں اسے خلیفہ بناتا ہے جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خونریزی کرے گا جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ پاکی بیان کرتے ہیں اور تیری تقدیس کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں پر ناراض ہوا تو انہوں نے اس کے عرش کے ذریعے پناہ طلب کی۔ انہوں نے عرش کے اردگرد سات چکر لگائے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا : میرے لئے زمین میں ایک گھر بناؤ۔ بنی آدم میں سے جس پر میں ناراض ہوں گا وہ اسکی پناہ لے گا اور اس کے اردگرد طواف کرے گا جس طرح تم نے میرے عرش کے اردگرد طواف کیا۔ پس میں اس سے راضی ہوجاؤں گا جس طرح میں تم سے راضی ہوا، پس فرشتوں نے بیت اللہ بنایا۔ عبد الرزاق نے ابن جریج سے انہوں نے عطا اور ابن مسیب وغیرہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ جب تو نیچے زمین پر اترے تو میرے لئے ایک گھر بنا پھر اس کو گھیرلے جس طرح تو نے ملائکہ کو دیکھا کہ انہوں نے میرے عرش کو گھیرا تھا جو آسمان میں تھا۔ عطا نے کہا : لوگوں کا خیال ہے حضرت آدم (علیہ السلام) نے کعبہ کو پانچ پہاڑوں سے بنایا : حرا، طور، سینا، لبنان، جودی اور طور سینا۔ اس کی ربض حرا سے تھی۔ خیل نے کہا : الریض سے یہاں مراد پتھر سے بنی ہوئی بیت اللہ کی گول بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے مدینہ کے اردگرد کی جگہ کو ربض کہا جاتا ہے۔ مارودی نے عطا سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) جنت سے زمین کی طرف اترے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے کہا : اے آدم ! تو جا اور میرے لئے ایک گھر بنا اور اس کا طواف کر اور اس کے پاس مجھے یاد کر جس طرح تو نے ملائکہ کو میرے عرش کے اردگرد کرتے دیکھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) چلتے ہوئے آئے اور زمین ان کے لئے لپیٹی گئی تھی اور جنگل ان کے لئے سکیڑے گئے تھے آپ جہاں قدم رکھتے تھے وہ جگہ آباد ہوجاتی تھی حتیٰ کہ آپ بیت حرام کی جگہ پر پہنچے۔ جبریل نے اپنے پر زمین پر مارے اور نچلی ساتوں زمین پر قائم بنیاد کو ظاہر کردیا۔ پس ملائکہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف پتھر پھینکے۔ وہ اتنے بڑے تھے کہ تیس آدمی انہیں نہیں اٹھاسکتے تھے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے پانچ پہاڑوں سے کعبہ بنایا جس طرح ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ بعض اخبار میں مروی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے جنت کے خیموں سے ایک خیمہ اتارا گیا وہ کعبہ کی جگہ پر لگایا گیا تاکہ آپ اس سے سکون حاصل کریں اور اس کا طواف کریں وہ خمیہ باقی رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی روح قبض فرمائی تو پھر اٹھا لیا گیا۔ یہ حضرت وہب بن منبہ کے طریق سے ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ ایک بیت (گھر) اتارا گیا آپ اس کا طواف کرتے تھے اور آپ کی اولاد میں سے مومنین، غرق کے زمانہ تک طواف کرتے رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اسے اٹھا لیا تو وہ آسمان میں ہوگیا اسی گھر کو بیت المعور کہا جاتا ہے۔ قتادہ سے روایت ہے جسے حلیمی نے اپنی کتاب ” منہاج القرآن “ میں ذکر کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : جو معنی قتادہ نے بیان کیا وہ جائز ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ ایک گھر اتار گیا یعنی وہ طولا، عرضا اور بلندی کے اعتبار سے بہت المعمور کی مقدار کا تھا پھر حضرت آدم (علیہ السلام) سے کہا گیا : اتنا بناؤ اور کوشش کرو کہ یہ اس کے بالمقابل ہو، وہ کعبہ کی جگہ کے سامنے تھا۔ پس آپ نے اس میں کعبہ بنایا۔ رہا وہ خیمہ یہ جائز ہے کہ وہ اتارا گیا ہو اور کعبۃ کی جگہ لگایا گیا ہو۔ جب کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا گیا تو آپ نے کعبہ تعمیر کیا اور کعبہ کے اردگرد حضرت آدم (علیہ السلام) کے دل کے لئے طمانیت تھی جب تک آپ زندہ رہے وہ خمیہ قائم رہا پھر اسے اٹھا لیا گیا۔ پس یہ اخبار اس طرح متفق ہوجاتی ہے۔ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی بنا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے بنایا۔ ابن جریج نے کہا : لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا جس میں ایک سر تھا۔ اس سر نے کہا : اے ابراہیم ! تیرا رب تجھے حکم دیتا ہے کہ تو اس بادل کی مقدار لے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے دیکھنا شروع کیا اور اس کی مقدار خط کھینچ دیا۔ پھر اس سر نے کہا : تو نے کردیا۔ پھر آپ نے اس جگہ کی کھدائی کی اور زمین میں قائم اساس کو ظاہر کیا۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت ابراہیم کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا تو آپ شام سے نکلے اور آپ کے ساتھ آپ کا بیٹا اسماعیل اور اس کی ماں ہاجرہ بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ سکینت (ہوا) کو بھیجا جس کی ایک زبان تھی جس کے ساتھ وہ کلام کرتی تھی۔ صبح کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے ساتھ چلتے جب وہ چلتی اور اس کے ساتھ آپ واپس آجاتے جب وہ واپس آتی، حتیٰ کہ وہ سکینت حضرت آدم (علیہ السلام) کو لے کر مکہ تک پہنچ گئی۔ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا : میری جگہ پر بنیاد رکھو۔ پس حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے دیواریں بلند کیں حتیٰ کہ حجر اسود کی جگہ پہنچ گئے۔ حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل سے کہا : اے میرے بیٹے ! میرے لئے ایک پتھر تلاش کر جسے میں لوگوں کے لئے علامت بناؤں۔ حضرت اسماعیل ایک پتھر لے آئے جسے آپ نے پسند نہ فرمایا اور فرمایا اور کوئی پتھر تلاش کرو۔ آپ تلاش کرتے رہے پھر آپ خود آئے اور حجراسود لے آئے اور اسے اپنے جگہ پر رکھ دیا۔ حضرت اسماعیل نے کہا : اے میرے اباجان ! یہ پتھر تمہارے پاس کون لایا ہے۔ حضرت ابراہیم نے کہا : وہ جو مجھے تیرے سپرو نہیں کرتا۔ حضرت ابن عباس نے کہا : جبل ابو قبیس نے پکارا اے ابراہیم، اے خلیل الرحمن ! تیرے لئے میرے پاس ایک ودیعت ہے وہ تم لے لو۔ تو وہ جنت کے یاقوت میں سے ایک سفید پتھر تھا وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ جنت سے اترا تھا۔ جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے بیت اللہ کی بنادیں بلند کیں تو چکور شکل کا ایک بادل آیا جس میں ایک سر تھا اس بادل نے آواز دی میری مقدار پر بلند (تعمیر) کرو۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعمیر ہے۔ روایت ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیت اللہ تعمیر کرنے پر جزا عطا فرمائی۔ حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے کہ ہمیں عمر بن ابی عمر نے بتایا انہوں نے کہا : مجھے نعیم بن حماد نے بتایا انہوں نے کہا : ہمیں عبد الوہاب بن ہمام نے بتایا جو عبد الرزاق کے بھائی تھے، انہوں نے ابن جریج سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے حضرت ابن عاس سے روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : پہلے گھوڑے بھی دوسرے وحشی جانوروں کی طرح وحشی تھے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل کی بنادیں بلند کرنے کی اجازت دی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں تم دونوں کو ایک خزانہ دینے والا ہوں جو میں نے تم دونوں کے لئے ذخیرہ کر رکھا ہے پھر حضرت اسماعیل کو وحی فرمائی کہ تم اجیاد کی طرف جاؤ اور دعا مانگو تمہارے پاس خزانہ آجائے گا آپ اجیاد کی طرف گئے۔۔۔ وہاں گھوڑے رہتے تھے۔۔۔ آپ نہیں جانتے تھے کہ دعا کہ ہے اور خزانہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام فرمایا۔ پس سطح زمین پر کوئی گھوڑا باقی نہ رہا جو عرب کی زمین پر رہتا تھا مگر وہ آپ کے پاس آگیا۔ تمام گھوڑوں کو اپنی پیشانیوں پر آپ کو قدرت بخشی اور ان کو آپ کا مطیع کردیا۔ پس تم ان پر سوار رہو اور انہیں چارہ ڈالو کیونکہ یہ برکت ہیں یہ تمہارے باپ اسماعیل کی میراث ہیں۔ الفرس کو عربی اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اسماعیل (علیہ السلام) کو دعا کا حکم دیا گیا تھا اور آپ نے دعا فرمائی۔ عبد المنعم بن ادریش نے حضرت وہب بن منبہ سے روایت کیا ہے فرمایا : جس نے سب سے پہلے مٹی اور پتھر سے کعبہ بنایا وہ حضرت شیث (علیہ السلام) تھے، رہی قریش کی تعمیر کعبہ تو وہ مشہور ہے اور اس میں سانپ کو خبر مذکور ہے۔ سانپ انہیں کعبہ گرانے سے روکتا تھا، حتیٰ کہ تمام قریش مقام ابراہیم کے پاس جمع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑائے اور عرض کی : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں نہ ڈرا ہم تیرے گھر کی تشریف و تزئین کا ارادہ رکھتے ہیں اگر تو اس سے راضی ہے تو فبہا ورنہ جو تو چاہے کر۔ انہوں نے آسمان سے پرندے کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنی۔ دیکھا تو گدھ سے بڑا ایک پرندہ تھا جس کی پیٹھ سیاہ تھی پیٹ اور پاؤں سفید تھے اس نے اپنے نیچے سانپ کی گدی میں گاڑھے پھر اس کو لے اڑا وہ سانپ اتنی بڑی دم کھینچتا گیا حتیٰ کہ وہ پر ندا سے اجیاد کی طرف لے گیا۔ پھر قریش نے کعبہ کو گرایا اور پھر اسے وادی کے پتھروں سے بنانے لگے جن کو قریش اپنی گردنوں پر اٹھا کر لاتے تھے۔ قریش نے اس کو آسمان کی طرف بیس ہاتھ بلند کیا، اسی اثنا میں نبی کریم ﷺ اجیاد سے پتھر اٹھا کر لا رہے تھے آپ کے اوپر ایک چادر تھی۔ چادر آپ پر تنگ ہوگئ۔ آپ نے چادر کو کندھے پر اٹھانا شروع کیا تو چادر کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے شرمگاہ ظاہر ہوگئی۔ ندا آئی اے محمد ! ﷺ اپنی شرمگاہ کو ڈھانپ لے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کبھی برہنہ نہ دیکھے گئے۔ کعبہ کی تعمیر اور نزول قرآن کے درمیان پانچ سال کا فاصلہ تھا۔ آپ کی ہجرت اور تعمیر کعبہ کے درمیان پندرہ سال کا فاصلہ تھا۔ یہ عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عثمان سے انہوں نے ابو الطفیل سے روایت کیا ہے۔ معمر بن الزھری سے مروی ہے حتیٰ کہ جب قریش نے کعبہ بنا لیا اور حجر اسود رکھنے کی جگہ پہنچے تو قریش اس کو رکھنے میں جھگڑنے لگے کہ کون سا قبیلہ اسے اٹھا کر رکھے گا ؟ حتیٰ کہ ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ انہوں نے کہا : آؤ ہم اس کا فیصلہ تسلیم کرلیں جو اس گلی سے سب سے پہلے ہمارے پاس آئے گا۔ اس پر صلح ہوگی۔ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے آپ ابھی جوان تھے آپ کے اوپر ایک دھاری دار چادر تھی۔ انہوں نے آپ کو ثالث مقرر کردیا۔ آپ نے پتھر کو ایک کپڑے میں رکھنے کا حکم دیا پھر ہر قبیلہ کے سردار کو حکم دیا اور اسے کپڑے کی ایک طرف ایک عطا فرمائی پھر آپ اوپر چڑھے۔ تمام سرداروں نے وہ پتھر آپ کو اٹھا کردیا اور آپ ﷺ نے اسے اپنی جگہ پر لگا دیا۔ ابن اسحاق نے کہا : مجھے یہ بیان کیا گیا ہے کہ قریش نے حجر اسود میں، سریانی زبان میں لکھی ایک تحریر پائی وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا ہے حتیٰ کہ ایک یہودی نے انہیں پڑھا کر سنائی۔ اس میں یہ لکھا تھا، میں اللہ ہوں، مکہ کا مالک۔ میں نے اس کو اس دن پیدا کیا تھا جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اور چاند اور سورج کو صورت بخشی تھی اور میں نے اسے سات املاک سے گھیرا ہوا ہے، یہ زائل نہ ہوگا حتیٰ کہ اس کے ابو قبیس اور احمر پہاڑ زائل ہوجائیں گے۔ اس کے رہنے والوں کے لئے پانی اور دودھ میں برکت رکھی گئی ہے۔ ابو جعفر محمد بن علی سے مروی ہے، فرمایا : کعبہ کا دروازہ عمالقہ، جرہم اور حضرت ابراہیم کے دور میں زمین پر تھا حتیٰ کہ قریش نے اسے تعمیر کیا (تو دروازہ اونچا کردیا) ۔ مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : یہ کعبہ کے ساتھ والی دیوار کعبہ سے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ میں نے عرض کی : انہوں نے اس کو کعبہ میں داخل کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے فرمایا : تیری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔ میں نے عرض کی : اس کا دروازہ بلند کیوں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تیری قوم نے یہ اس لئے کہا تھا تاکہ جنہیں چاہیں داخل کریں اور جنہیں چاہیں منع کریں اگر تمہاری قوم کا زمانہ جاہلیت قریب نہ ہوتا مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل انکار کریں گے تو میں اس دیوار کو کعبہ میں داخل کردیتا، اور اس کے دروازے کو زمین سے ملا دیتا۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر سے روایت کیا ہے، فرمایا : میری خالہ حضرت عائشہ نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اے عائشہ ! اگر تیری قوم کا زمانہ شرک قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کو گرا دیتا اور اس کو زمین سے ملا دیتا اور اس کے دو دروازے بناتا۔ ایک مشرق سے اور ایک مغرب سے اور اس میں چھ ہاتھ حطیم سے زیادہ کرتا کیونکہ قریش نے اسے چھوٹا بنایا تھا جہاں انہوں نے کعبہ بنایا تھا۔ عروہ اپنے باپ سے اور وہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اسے ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر بناتا کیونکہ قریش نے جب کعبہ تعمیر کیا تو چھوٹا کردیا اور میں اس کا خلف بناتا۔ بخاری میں ہشام بن عروہ نے کہا : یعنی (بابا) دروازہ بناتا۔ بخاری میں یہ بھی ہے کہ میں اس کے دروازے بناتا یہ قریش کی بنا ہے پھر جب اہل شام نے حضرت عبد اللہ بن زبیر پر حملہ کیا اور ان کے جلاؤ نے کعبہ کو کمزور کردیا۔ تو حضرت ابن زبیر نے اسے گرایا اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کے مطابق بنایا۔ اس میں پانچ ہاتھ حطیم سے زیادہ کیا حتیٰ کہ وہ بنیاد ظاہر کردی اور لوگوں نے اسے دیکھا اور اس پر کعبہ کی تعمیر کی۔ کعبہ کا طول اٹھا رہ ہاتھ تھا جب اس میں زیادتی کی تو لمبائی کم کردی پھر اسکی لمبائی میں دس ہاتھ کا اضافہ کیا اور اس کے دو دروازے بنائے۔ ایک میں سے لوگ داخل ہوتے دوسرے سے نکل جاتے اسی طرح صحیح مسلم میں ہے۔ حدیث کے الفاظ مختلف ہیں۔ سفیان نے داؤد بن شابورعن مجاہد کے سلسلہ سے ذکر کیا ہے کہ مجاہد نے کہا : جب حضرت ابن زبیر نے کعبہ کو گرانے اور دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں کو کہا : کعبہ کو گرا دو ۔ لوگوں نے اسے گرانے سے انکار کیا اور وہ ڈر گئے کہ کہیں عذاب نہ آجائے۔ مجاہد نے کہا : ہم منیٰ کی طرف نکل گئے اور ہم وہاں تین دن ٹھہرے رہے اور عذاب کا انتظار کرتے رہے۔ فرمایا : حضرت عبد اللہ بن زبیر خود کعبہ کی دیوار پر چڑھے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ کو کچھ نہیں ہوا تو لوگوں نے حوصلہ باندھا۔ فرمایا : لوگوں نے کعبہ کو گرایا۔ جب اسے حضرت عبد اللہ بن زبیر نے بنایا تو اس کے دو دروازے بنائے۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکل جاتے اور اس میں دیوار والی طرف سے چھ ہاتھ کا اضافہ کیا اور اس کے طول میں نو ہاتھ کا اضافہ کیا۔ مسلم نے اپنی حدیث میں کہا : جب حضرت عبد اللہ بن زبیر شہید ہوئے تو حجاج نے عبد الملک بن مروان کو اس کے متعلق بتانے کے لئے خط لکھا اور اسے بتایا کہ ابن زبیر نے کعبہ کو اس بنیاد پر تعمیر کیا جس کی طرف اہل مکہ میں سے عادل لوگوں نے دیکھا۔ عبد الملک نے اس کی طرف لکھا کہ ہم ابن زبیر کی کسی چیز کو باقی رکھنے والے نہیں جو اس نے اس کی لمبائی میں زیادتی کی ہے اس کو برقرار رکھو اور جو اس نے حطیم سے زیادتی کی، اس کو پہلی بنا پر لوٹا دو اور جو اس نے دروازہ کھولا تھا اسے بند کر دو ۔ پس حجاج نے اسے توڑا اور پہلی بنا پر لوٹا دیا۔ ایک روایت میں ہے، عبد الملک نے کہا : میں گمان نہیں کرتا کہ ابا خبیب (ابن زبیر) نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا ہے جو وہ کہتا ہے کہ اس نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا ہے۔ حارث بن عبد اللہ نے کہا : کیوں نہیں میں نے یہ حضرت عائشہ ؓ سے سنا تھا، اس نے کہا : تو نے اسے کیا کہتے ہوئے سنا ؟ انہوں نے کہا : حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری قوم نے بیت اللہ کی عمارت کم کردی ہے۔ اگر ان کے شرک کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں اسے لوٹا دیتا جو انہوں نے چھوڑ دیا تھا اگر میرے بعد تیری قوم کو اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا خیال آئے تو ادھر آؤ میں تجھے دکھاؤں جو انہوں نے کعبہ میں سے چھوڑ دیا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ کو سات ہاتھ کے قریب دکھایا۔ ایک اور روایت میں ہے، عبد الملک نے کہا : اگر میں اس کے گرانے سے پہلے یہ حدیث سن لیتا تو میں اسے حضرت ابن زبیر کی بنیاد پر چھوڑ دیتا۔ یہ کعبہ کی تعمیر کے بارے میں آثار مروی ہیں۔ روایت ہے کہ رشید نے حضرت مالک بن انس کے سامنے ذکر کیا کہ وہ حجاج کی تعمیر کعبہ کو گرانا چاہتا ہے اور اسے حضرت ابن زبیر کی تعمیر پر لوٹا نا چاہتا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے اور حضرت ابن زبیر نے اس کی پیروی کی تھی۔ امام مالک نے رشید کو کہا : اے امیر المومنین ! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم اس گھر کو بادشاہوں کے لئے کھونا نہ بناؤ، ہر آنے والا بیت اللہ کو توڑ دے گا اور نئی تعمیر کرے گا اور اس کی ہیت لوگوں کے دلوں سے چلی جائے گی۔ واقدی نے ذکر کیا ہے کہ ہمیں معمر نے ہمام بن منبہ سے روایت کرکے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسعد حمیری کو گالی دینے سے منع فرمایا۔ یہ تبع تھا یہ پہلا شخص تھا جس نے بیت اللہ کو غلاف پہنایا تھا اور یہ دوسرا تبع تھا۔ ابن اسحاق نے کہا : پہلے قباطی کپڑے پہنائے جاتے تھے پھر یمنی چادریں بنائی جاتی تھیں اور جس نے سب سے پہلے دیباج (ریشم) کا کپڑا پہنایا وہ حجاج تھا۔ علماء نے فرمایا : کعبہ کے غلاف سے کوئی چیز نہیں لینی چاہئے کیونکہ وہ کعبہ کو ہدیہ کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی چیز کم نہیں کی جائے گی۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ کعبہ کی خوشبو میں سے کوئی چیز لینا شفا حاصل کرنے کے لئے مکروہ ہے۔ جب وہ خادم کو کوئی چیز لیتے ہوئے دیکھتے تو اسے سر کے پیچھے طمانچہ مارتے وہ اسے تکلیف پہنچانے میں کمی نہیں کرتے تھے۔ عطا نے کہا : ہم میں سے کوئی جب اس سے شفا طلب کرنے کا ارادہ کرتا تو وہ خوشبو لے آتا اس کو پتھر کے ساتھ مس کرتا پھر اسے اٹھا لیتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ربنا تقبل منا معنی ہے وہ دونوں کہہ رہے تھے : ربنا تقبل یقولان کو حذف کیا گیا ہے۔ حجرت ابی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قراءت میں اسی طرح ہے : راذ یرفع ابراھیم القواعد من البیت واسماعیل و یقولان ربنا تقبل منا۔ اسماعیل کی تفسیر یہ ہے : اسمع یا اللہ (اے اللہ ! سن لے) کیونکہ ایل، سریانی زبانی میں اللہ کو کہتے ہیں۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے رب سے دعا مانگی تو کہا : اسمع یا ایل (اے اللہ ! سن لے میری فریاد) جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بچہ عطا فرمایا تو اس کا نام اپنی دعا کے ساتھ رکھا۔ یہ ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انک انت السمیع العلیم یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے دو اسم ہیں۔ ان کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی میں کردی ہے۔
Top