Al-Qurtubi - Al-Baqara : 134
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : تم سے پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
یہ جماعت گزر چکی ان کو ان کے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال (کا) اور جو عمل وہ کرتے تھے ان کی پرسش تم سے نہیں ہوگی
آیت نمبر 134 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تلک امة قدخلت، تلک مبتدا ہے اور امة خبر ہے اور قد خلت، امة کی صفت ہے اگر تو چاہے تو قدخلت کو خبر بنادے اور امة، تلک سے بدل ہوگا۔ لھا ما کسبت، ما محل رفع میں ہے یا کو فیوں کے ایک قول کے مطابق صفت ہے ولکم ما کسبتم یہ لھاما کسبت کی مثل ہے۔ خیر اور شرکا ارادہ فرمایا ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ اعمال اور کساب کی نسبت بندے کی طرف کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر اسے قدرت دی ہے اگر وہ اچھے اعمال پر اچھی جزا دے تو یہ اس کا فضل ہوتا ہے اور برے اعمال پر سزا دے تو یہ اسکا عدل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے قرآن میں اس مفہوم کی آیات کثیر ہیں۔ بندہ اپنے افعال کا مکتسب ہے اس معنی پر کہ فعل کے متصل اللہ تعالیٰ اسکے لئے قدرت پیدا فرما دیتا ہے اسکے ساتھ حرکت اختیاری اور حرکت رعشہ کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ یہی قدرت اور تکلیف کا مدار ہے۔ جبریہ فرقہ نے بندے کے اکیساب کی نفی کی ہے وہ کہتے ہیں : بندہ نبات کیطرح ہے ہوائیں اسے گردش دیتی رہتی ہیں قدریہ اور معتزلہ کا قول ان دونوں قولوں کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں : بندہ اپنے افعال کا خالق ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تسئلون عما کانوا یعملون یعنی کسی کے گناہ کی وجہ سے دوسرے سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ مثلا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تسئلون عما کانو یعملون یعنی کسی کے گناہ کی وجہ سے دوسرے سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لاتزر وازرۃ وزراخرٰی (انعام : 164) یعنی کوئی دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔
Top