Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے تو وہ راہ یاب ہوئے اور اگر وہ اعراض کریں تو پھر وہ درپئے مخالفت ہیں۔ ان کے مقابل میں تمہارے لیے اللہ کافی ہوگا، وہ سننے اور جاننے والا ہے
یہود و نصاری کے لیے نجات کی راہ : یعنی اگر یہی کلمہ جامعہ وہ بھی قبول کرلیں، جس طرح تم تمام انبیاء اور تمام ہدایتوں پر ایمان لائے ہو اسی طرح یہ بھی ایمان لائیں تو بلاشبہ وہ راہ یاب ہوں گے۔ راہ یاب ہونے کا راستہ یہودی یا نصرانی ہونا نہیں ہے جیسا کہ یہود و نصاری دعوی کرتے ہیں، بلکہ اس کا راستہ وہی ہے جو تم نے اختیار کیا ہے۔ یعنی تمام نبیوں اور تمام رسولوں پر بلا کسی تفریق و تعصب کے ایمان لانا۔ اگر وہ اس چیز سے انکار کرتے ہیں تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ تمہاری مخالفت کے درپے ہیں اور اتحاد و اتفاق کی راہ چھور کر یہ اللہ اور اس کے رسولوں کے خلاف اپنی ایک الگ پارٹی کھری رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو انہیں ان کی اختیار کی ہوئی راہ پر چلنے دو ، ان کے مقابلہ کے لیے تمہاری طرف سے اللہ کافی ہے۔ آخر میں اپنی صفات میں سے سمیع وعلیم کا حوالہ دینے کا مقصد نبی ﷺ کو اطمینان دلانا ہے کہ تمہاری مخالفت میں یہ جو سازشیں اور ریشہ دوانیاں بھی کریں تم ان سے مطلق ہراساں نہ ہو، جو خدا تمہاری طرف سے ان سے لڑنے کھڑا ہوا ہے وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔
Top