Al-Qurtubi - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
بیشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے
آیت نمبر 158 اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: بخاری نے عاصم بن سلیمان سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے حضرت انس بن مالک سے صفا ومروہ کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : ہم دیکھتے تھے کہ صفاء ومروہ زمانہ جاہلیت کے امور سے ہیں۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کے طواف سے رک گئے، اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل کیا : ان الصفا۔۔۔۔ الخ۔ ترمذی نے حضرت عروہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے حضرت عائشہ سے کہا : میں کسی پر کوئی گناہ نہیں دیکھتا جو صفا ومروہ کے دعمیان طواف نہ کرے اور میں بھی کوئی پروا نہیں کرتا کہ میں ان کے درمیان طواف نہ کروں۔ حضرت عائشہ نے کہا : اے میرے بھانجے ! تو نے بری بات کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کا طواف کیا اور مسلمانوں نے طواف کی اجو منات بت کے لئے احرام باندھتا تھا، جو مثلل میں تھا تو صفا ومروہ کے درمیان طواف نہیں کرتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : فمن حج البیت۔۔۔۔ بھما۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح تو نے کہا ہے تو عبارت اس طرح ہوتی۔ فلا جناع علیہ الایطوف بھما۔ زہری نے کہا : میں نے روایت ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث کے سامنے ذکر کی تو انہوں نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا : یہ علم ہے۔ میں نے بہت سے اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جو عربوں میں سے صفا ومروہ کا طواف نہیں کرتے تھے وہ کہتے تھے : ہمارا طواف ان دو پہاڑوں کے درمیان امر جاہلیت سے تھا اور انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا : ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا گیا ہے، صفا ومروہ کے طواف کا حکم نہیں دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان الصفا والمروۃ من شعآئر اللہ۔ ابوبکر بن عبد الرحمن نے کہا : میرا خیال ہے یہ آیت ان لوگوں اور ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور فرمایا یہ حدیث حسن، صحیح ہے۔ بخاری نے اسکا معنی نقل کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان الصفا والمروۃ من شعآئر اللہ، کے الفاظ کے بعد یہ ہے، حضرت عائشہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کے درمیان طواف کی سنت قائم فرمائی، اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان کا طواف چھوڑ دے۔ پھر میں نے ابوبکر بن عبد الرحمن کو بتایا تو انہوں نے کہا : جو تو نے سنا ہے یہ علم ہے۔ میں نے اہل علم سے سنا ہے وہ ذکر کرتے تھے کہ لوگ۔۔۔ مگر جن کا حضرت عائشہ نے ذکر کیا، منات بت کے لئے احرام باندھتے تھے وہ تمام صفا ومروہ کے درمیان طواف کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا اور قرآن میں صفا ومروہ کا ذکر نہیں کیا۔ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم صفا ومروہ کا طواف کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا ہے اور صفا کا ذکر نہیں کیا ہے حتیٰ کہ بیت اللہ کے طواف کے بعد اس کا ذکر کیا۔ ترمذی نے عاصم بن سلیمان الاحول سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے حضرت انس بن مالک سے صفا ومروہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ دونوں جاہلیت کے شعائر سے تھیں جب اسلام آیا تو ہم ان کے طواف سے رک گئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان الصفا۔۔۔۔ یطوف بھما فرمایا یہ تطوع ہے۔۔۔ ومن تطوع۔۔۔۔ شاکر علیم۔۔۔ فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ یہ بخاری نے نقل کی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں شیاطین ساری رات صفا ومروہ کے درمیان طواف کرتے رہتے تھے اور صفا ومروہ کے درمیان بت رکھے ہوئے تھے۔ جب اسلام ظاہر ہوا تو مسلمانوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم صفا ومروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے کیونکہ یہ شرک ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ شعبی نے کہا : زمانہ جاہلیت میں صفا پر ایک بت تھا جس کو اساف کہا جاتا تھا۔ اور مروہ پر ایک بت تھا جسے نائلہ کہا جاتا تھا۔ جب لوگ طواف کرتے تو ان بتوں کو چھوتے تھے۔ مسلمان اس وجہ سے ان کے درمیان طواف کرنے سے رک گئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ مسئلہ نمبر 2: لغت میں الصفاء صاف پتھر کو کہتے ہیں۔ مکہ میں یہ ایک معروف پہاڑ ہے اسی طرح مروہ بھی ایک پہاڑی ہے، اسی وجہ سے دونوں کو معرف بالام ذکر کیا۔ الصفا ذکر کیا ہے کیونکہ اس پر حضرت آدم (علیہ السلام) ٹھہرے تھے تو ان کے نام سے اسے موسوم کیا گیا اور حضرت حوا مروہ پر ٹھہری تھیں تو اسے عورت کے اسم سے تعبیر کیا۔ اس وجہ سے اسے مؤنث ذکر کیا۔ شعبی نے کہا : صفا پر ایک بت تھا جس کو اساف کہا جاتا تھا اور مروہ پر ایک بت تھا جس کو نائلہ کہا جاتا تھا، اسی اعتبار سے ان کی تذکیر و تانیث جاری ہوئی۔ مذکر کو مقدم کیا۔ یہ عمدہ ہے کیونکہ احادیث اس معنی پر دلالت کرتی ہیں اور جو لوگ ان میں طواف ناپسند کرتے تھے اس کی وجہ بھی یہی تھی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حرج کو اٹھا دیا۔ اہل کتاب کا خیال ہے کہ اساف اور نائلہ نے کعبہ میں زنا کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھروں میں مسخ کردیا۔ انہیں صفا ومروہ پر رکھا گیا تاکہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں جب عرصہ زیادہ گزر گیا تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کی عبادت ہونے لگی۔ واللہ اعلم الصفا (مقصود ہے) یہ صفاۃ کی جمع ہے اس سے مراد صاف پتھر ہے۔ بعض نے فرمایا : الصفا، مفرد اسم ہے اس کی جمع صفی اور اصفاء ہے جسے ارجاء جمع ہے۔ راجز نے کہا : کأن متنیہ من النفی مواقع الطیر علی الصفی بعض علماء نے فرمایا : صفا کی شروط میں سے سفیدی اور صلابت ہے اور یہ صفا یصفر سے مشتق ہے یعنی مٹی سے پاک۔ المروہ یہ المرد کا واحد ہے، یہ چھوٹے چھوٹے پتھر جن میں نرمی ہوتی ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ سخت پتھر ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ مروہ پتھر ہے۔ شاعر نے کہا : وتولی الارض خفا ذابلا فاذا ما صادف المرو رضع شاعر نے مرد کو پتھر کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ابو ذؤیب نے کہا : حتی کانی للحوادث مروۃ بصفا المشقر کل یوم تقرع شاعر نے یہاں بھی پتھر کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ کالے پتھر ہیں۔ بعض نے فرمایا : یہ سفید چمکدار پتھر ہیں جن میں آگ ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من شعآئر اللہ یہ عبادت کی جگہوں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ شعیرۃ کی جمع ہے۔ الشعاء ر وہ جگہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے علامات بنایا۔ جیسے موقف، سعی اور نحر۔ شعار کا مطلب علامت ہے۔ کہا جاتا ہے : اشعر الھدی۔ لوہے کی نوک سے اونٹ کی کوہان میں علامت بنانا، یہ تیرے قول اشعرت سے ہے میں نے علامت بنائی۔ کمیت نے کہا : نقتلھم جیلا فجیلا تراھم شعائر قربان بھم یتقرب مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن حج البیت۔ حج کا معنی قصد ہے الحج کا معنی قصد کرنا ہے۔ شاعر نے کہا : فاشھد من۔۔۔ حلولا کثیرۃ یحجون سب الزبرقان المزعفرا السب، یہ مشترک لفظ ہے، ابو عبیدہ نے کہا : السب (کسرہ کے ساتھ) بہت زیادہ گالی دینے والا۔ سبک، جو تجھے گالی دے۔ شاعر نے کہا : لا تسبننی فلست بسبی ان سبی من الرجال الکریم السب کا معنی دوپٹہ بھی ہے اسی طرح عمامہ بھی اس کا معنی ہے۔ مخبل سعدی نے کہا : یحجون سب الزبرقان المزعفرا وہ زعفران سے رنگے ہوئے عمامے باندھے ہوئے حج کرتے ہیں۔ لغت ہزیل میں السب، رسی کو بھی کہتے ہیں۔ ابو ذؤیب نے کہا : تدلی علیھا بین سب و خیطة بجرداء مثل الوکف یکبو غرابھا السبوب، رسیاں۔ روئی کا باریک دھاگہ۔ السبیبۃ اس کی مثل ہے جمع السبوب والسبائب۔ یہ جوہری کا قول ہے۔ حج الطبیب الشجۃ، جب طبیب سر مچو کے ساتھ زخم کی پیمائش کا قصد کرے۔ شاعر نے کہا : یحج مأمرمۃ فی قعرھا لجف وہ دماغ کے زخم کا علان کرتا ہے جس کی گہرائی خوفناک ہے۔ اللجف، دھنسنے کو کہتے ہیں تلجفت البر کنویں کا نچلا حصہ دھنس گیا۔ پھر یہ اسم بیت اللہ کی طرف افعال مخصوصہ کھے ساتھ قصد کرنے کے لئے خاص ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اواعتمر یعنی زیارت کرنا۔ العمرۃ کا معنی زیارت ہے۔ شاعر نے کہا : لقد سما ابن معمر حین اعتمر مغزی بعیدا من بعید وضبر مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا جناح علیہ یعنی اس پر گناہ نہیں ہے۔ اس کی اصل جنوح سے ہے۔ اس کا معنی مائل ہونا ہے اسی سے الجوانح ہے۔ اعضاء کو ان کے ٹیڑھے ہونے کی وجہ سے جو انح کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کی تاویل اس آیت کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ ابن عربی نے کہا : اس میں قول کی تحقیق یہ ہے کہ کہنے والے کا قول لا جناح علیک ان تفعل کا مطلب کا مباح کرنا ہے اور لا جناح علیک الاتفعل کا مطلب ہے فعل کے ترک کی اباحت۔ جب عروہ نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا : فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔ فرمایا : یہ دلیل ہے کہ طواف کا ترک کرنا جائز ہے۔ پھر شریعت کو اس پر پایا کہ طواف چھوڑنے میں رخصت نہیں پھر ان دو متعارض کو جمع کرنا طلب کیا۔ حضرت عائشہ نے عروہ سے کہا : فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔ طواف کے ترک کی دلیل نہیں ہے۔ یہ ترک کی دلیل تب ہوتا اگر عبارت اس طرح ہوتی : فلا جناح علیہ الایطوف بھما۔ پس یہ لفظ طواف کے ترک کی اباحت کیلئے نہیں آیا، اس میں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ طواف کی اباحت کے افادہ کے لئے آیا ہے اس شخص کے لئے جو جاہلیت میں اجتناب کرتے تھے یا جو جاہلیت میں ان کا طواف کرتے تھے ان بتوں کا قصد کرتے ہوئے جو ان پہاڑوں کے اوپر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ طواف ممنوع نہیں ہے جب طواف کرنے والا باطل کا قصد نہ کرے، اگر کہا جائے کہ عطا نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فلا جناح علیہ الایطوف بھما پڑھا ہے اور یہی حضرت ابن مسعود کی قراءت ہے اور روایت ہے کہ حضرت ابی کے مصحف میں بھی اسی طرح ہے۔ حضرت انس سے اس کی مثل مروی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب اس کے خلاف ہے جو مصحف میں ہے اس لئے ایک قراءت کی وجہ سے اس کو نہیں چھوڑا جاسکتا جو مصحف میں ہے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ قراءت صحیح ہے یا نہیں ہے۔ عطا بغیر سماع کے حضرت ابن عباس سے مرسل روایات نقل کرتے ہیں اور حضرت انس سے جو روایت ہے وہ بھی ثقہ نہیں ہے یا (لا) تاکید کے لئے زائدہ ہوگا۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : وما ألوم البیض الا تسخرا لما راین الشمط القفندرا اس شعر میں ألا تاکید کے لئے زائدہ ہے۔ مسئلہ نمبر 7: ترمذی نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ میں آئے تو بہت اللہ کے سات چکر لگائے اور پھر آیت پڑھی : واتخذا من مقام ابراھیم مصلی (البقرہ : 125) پھر مقام کے پیچھے نما پڑھی پھر حجر اسود کے پاس آئے اسے استلام کیا پھر فرمایا : ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے اللہ تعالیٰ نے آغاز فرمایا آپ نے صفا سے شروع فرمایا اور فرمایا : صفا اور مروہ شعائر اللہ سے ہیں۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس پر اہل علم کے نزدیک عمل ہے صفا سے آغاز کرے۔ اگر مروہ سے پہلے شروع کیا تو یہ جائز نہ ہوگا پھر صفا سے شروع کرے۔ مسئلہ نمبر 8: صفا ومروہ کے درمیان سعی کے وجوب میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے فرمایا : یہ رکن ہے۔ یہ امام مالک کا مشہور مذہب ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : سعی کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کی ہے۔ اس حدیث کو دارقطنی نے نقل کیا ہے۔ اور کتب بمعنی اوجب ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کتاب علیکم الصیام (البقرہ : 183) تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں۔ ابن ماجہ نے شیبہ کی ام ولد سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے دیکھا آپ فرما د ہے تھے : ” درمیانی وادی کو تیز چل کر طے کیا جائے گا “۔ جو سعی کو چھوڑ دے یا ایک چکر بھول کر جان بوجھ کو چھوڑ دے تو وہ اپنے شہر سے لوٹ آئے یا جہاں سے اسے یاد آئے مکہ کی طرف لوٹ آئے طواف کرے اور سعی کرے کیونکہ سعی ہمیشہ طواف کے ساتھ متصل ہوتی ہے۔ امام مالک کے نزدیک یہ برابر ہے خواہ حج میں ہو یا عمرہ میں ہو۔ اگرچہ عمرہ میں فرض نہیں۔ اگر اس نے حقوق زوجیت ادا کر لئے ہوں تو اس پر امام مالک نے نزدیک تمام مناسک پورے کرنے کے باوجود اس پر عمرہ اور ہدی ہوگی۔ امام شافعی نے فرمایا : اس پر ہدی ہوگی عمرہ کا کوئی معنی نہیں جب وہ لوٹ آئے طواف کرے اور سعی کرے۔ امام ابوحنیفہ نے اور ان کے اصحاب، ثوری اور شعبی نے کہا : سعی واجب نہیں ہے اگر کوئی حاجی سعی چھوڑ دے حتیٰ کہ وہ اپنے شہر چلا جائے تو اس کا تقصان دم سے پورا کیا جائے گا کیونکہ سعی حج کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ یہ امام مالک کا قول العتبیۃ میں ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن زبیر، حضرت انس بن مالک اور ابن سیرین سے روایت ہے کہ سعی تطوع (نفل) ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ومن تطوع خیرا حمزہ اور کسائی نے یطوع مضارع مجزوم پڑھا ہے اسی طرح فمن تطوع خیرا فھو خیر لہ میں پڑھا ہے۔ باقی قراء نے ماضی کا صیغہ تطوع پڑھا ہے۔ تطوع سے مراد وہ نیک عمل ہوتا ہے جو مومن اپنی طرف سے کرتا ہے پس جو نوافل ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قدردانی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بندے کے لئے شکریہ ہے کہ وہ اسے اپنی اطاعت پر ثابت رکھتا ہے۔ صحیح وہ ہے جو امام شافعی کا نظریہ ہے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : مجھ سے اپنے مناسک (حج) سیکھ لو۔ پس یہ حج کے مجمل کا بیان ہوگیا۔ پس فرض ہونا واجب ہے جس طرح نماز کی رکعات تعداد بیان فرمائی۔ جو اس طرح ہو تو اتفاق نہیں ہوتا کہ سنت ہے یا نفل ہے۔ طلیب نے کہا : حضرت ابن عباس نے ایک قوم کو صفا ومروہ کے درمیان طواف کرتے دیکھا تو فرمایا : یہ تمہیں تمہاری ماں ام اسماعیل نے وراثت میں دیا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح بخاری میں ثابت ہے جیسا کہ اس کا بیان سورة ابراہیم میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر 9: کسی کے لئے بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی سوار ہو کرنی جائز نہیں مگر عذر ہو تو جائز ہے۔ اگر عذر کی بناء پر سوار ہو کر طواف کیا تو اس پر دم ہوگا اور اگر غیر معذور نے سوار ہو کر طواف کیا تو وہ دوبارہ ادا کرے اگر بیت اللہ کے قریب ہو اور اگر دور جا چکا ہو تو بدی دے۔ یہ ہم نے اس لئے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خود طواف کیا اور فرمایا : خذوا عنی مناسکم مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔ اور عذر کی بناء پر ہم نے جائز قرار دیا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر کیا تھا اور اپنی کھونٹی سے حجر اسود کو استلام کیا تھا۔ اور حضرت عائشہ ؓ کو فرمایا : جب انہوں نے اپنی تکلیف کی شکایت کی : لوگوں کے پیچھے طواف کر دراں حالیکہ تو سوار ہو۔ ہمارے اصحاب نے اونٹ پر طواف کرنے اور انسان کی پیٹھ پر طواف کرنے کے درمیان فرق کیا ہے اگر انسان کی پیٹھ پر طواف کرے گا تو جائز نہ ہوگا۔ کیونکہ اس وقت وہ طواف کرنے والا نہ ہوگا بلکہ اٹھانے والا طواف کرنے والا ہوگا جب اونٹ پر طواف کرے گا تو وہ خود طواف کرنے والا ہوگا۔ ابن خویز منداد نے کہا : یہ اختیار کا تفرقہ ہے۔ رہا کفایت کرنا تو یہ کفایت کر جائے گا۔ جیسے اگر کسی پر غشی طاری ہو اور اسے اٹھا کر طواف کرایا جائے یا اٹھا کر عرفات میں اسے وقوف کرایا گیا تو اس کی طرف سے جائز ہوجائے گا۔
Top