Al-Qurtubi - Al-Baqara : 171
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً١ؕ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَثَلُ : اور مثال الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا كَمَثَلِ : مانند حالت الَّذِيْ : وہ جو يَنْعِقُ :پکارتا ہے بِمَا : اس کو جو لَا يَسْمَعُ : نہیں سنتا اِلَّا : سوائے دُعَآءً : پکارنا وَّنِدَآءً : اور چلانا صُمٌّۢ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : پس وہ لَا يَعْقِلُوْنَ : پس وہ نہیں سمجھتے
اور جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ سن نہ سکے (یہ) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ (کچھ) سمجھ نہیں سکتے
آیت نمبر 171 اللہ تعالیٰ نے کفار کو وعظ کرنے والے اور ان کو دعوت دینے والے کو اس چروا ہے کے ساتھ تشبیہ دی جو بکریوں اور اونٹوں کو آواز دیتا ہے۔۔۔ وہ داعی حضرت محمد ﷺ تھے۔۔۔ اور وہ جانور صرف اس کی آواز اور ندا کو سنتے ہیں اور جو وہ کہتا ہے اس کو سمجھتے نہیں ہیں اسی طرح حضرت ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سدی، زجاج، فراء اور سیبویہ نے اس کی اسی طرح تفسیر کی ہے۔ یہ انتہائی ایجاز کے ساتھ کلام ہے۔ سیبویہ نے کہا : ان کفار کو پکارنے والے سے تشبیہ نہیں دی بلکہ جانوروں سے تشبیہ دی ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اے محمد ! ﷺ تیری مثال اور کفار کی مثال ان جانوروں کو آواز دینے والے اور ان جانوروں کی ہے جو سمجھتے نہیں ہیں۔ پس معنی کی دلالت کو حذف کیا گیا ہے۔ ابن زید نے کہا : اس کا معنی ہے کہ کفار کی اپنے پتھر کے خداؤں کو پکارنے کی مثال رات کے درمیان میں چیخنے والے کی ہے۔ پس صدی اس کو جواب دیتی ہے وہ ان کو آواز دیتا ہے جو سنتے نہیں ہیں اور وہ ایسا جواب دیتا ہے جس کی حقیقت نہیں ہے اور نفع بخش نہیں ہے۔ قطرب نے کہا : اس کا معنی ہے کفار کا انہیں پکارنا جو ان کی بات سمجھتے ہی نہیں ہیں جس طرح چرواہا اپنی بکریوں کو آواز دیتا ہے وہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں۔ طبری نے کہا : اس سے مراد کافروں کا پانے بتوں کو پکارنے کی مثال اس شخص کی ہے جو دور سے کسی چیز کو پکارتا ہے اور دوری کی وجہ سے اس کی آواز نہیں سنی جاتی۔ پس پکارنے والے کے لئے صرف پکار اور ندا ہے جو اسے مشقت اور تھکن میں ڈالتی ہے۔ ان تینوں تاویلات میں کفار کو پکارنے والے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور بتوں کو جانوروں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ النعیق کا معنی بکریوں کو جھڑکنا اور ان کو آواز دینا ہے۔ کہا جاتا ہے : نعق الراعی بغنمہ ینعق نعیقا ونعاقاً ونعقاناً ۔ یعنی چرواہا اپنی بکریوں پر چلایا اور انہی جھڑکا۔ اخطل نے کہا : انعق بضانک یا جریر فانما منتک نفسک فی الخلاء ضلالا شاعر نے یہاں آواز دینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال کیا۔ یعنی اے جریر ! اپنی بکریوں کو آواز دے۔ قتبی نے کہا : جریر بھیڑیں چرانے والا نہیں تھا۔ اس نے یہ ارادہ کیا کہ بنی کلیب کو بھیڑیں چرانے کی وجہ سے عار دلائل جاتی تھی اور جریر ان میں سے تھا، وہ ان کی جہالت میں تھا۔ عرب جہالت میں بکریوں کے چروا ہے سے مثال دیتے تھے وہ کہتے تھے : اجھل من راعی الضان، وہ بھیڑیں چرانے والے سے بھی زیادہ جاہل ہے۔ قتبی نے کہا : جو اس آیت کا یہ معنی بیان کرتا ہے یہ اس کا اپنا مذہب ہے مگر ہماری معلومات کے مطابق علماء میں سے کسی کا یہ نظریہ نہیں۔ ندابعید کے لئے اور دعا قریب کیلئے ہوتی ہے اسی وجہ سے نماز کی اذان کو ندا کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دور والوں کے لئے ہوتی ہے۔ ندا کو کبھی نون کے ضمہ کے ساتھ بولا جاتا ہے جبکہ اصل نون پر کسرہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو تشبیہ دی کہ وہ گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ یہ سورت کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔
Top