Al-Qurtubi - Al-Baqara : 18
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ
صُمٌّ : بہرے بُكْمٌ : گونگے عُمْيٌ : اندھے فَهُمْ : سو وہ لَا : نہیں يَرْجِعُونَ : لوٹیں گے
(یہ) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ (کسی طرح سیدھے راستے کی طرف) لوٹ ہی نہیں سکتے
آیت نمبر 18 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے صم بکم عمی۔ صم یعنی ھم ھم یعنی یہ مبتدا محذوف کی خبریں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت حفصہ کی قراءت میں صماً بکما ًعیماً میں بطور ذم نصب (1) بھی جائز ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ملعونین اینما ثقفوا (الاحزاب :61) (ان پر لعنت برس رہی ہوگی جہاں وہ پائے جائیں گے ) ۔ اسی طرح فرمایا : وامراتہ حما لۃ الحب۔ (اللہب) (اور اس کی جورو بھی بدبخت ایندھن اٹھانے والی ہے ) ۔ شاعر نے کہا : سقول اتخمر ثم تکنفونی عداۃ اللہ من کذب وزور انہوں نے مجھے شراب پلائی پھر مجھے گھیر لیا۔ اللہ ! دشمنوں کی جھوٹ اور غلط بیانی پر میں مذمت کرتا ہوں۔ اس شعر میں عداۃ اللہ بطور ذم منصوب ہے۔ اس مذہب کے مطابق مبصرون پر وقف صحیح ہے اور صما کو ترکھم کی وجہ سے نصب بھی جائز ہے۔ گویا فرمایا : ترکھم صمًا بکمًا عمیًا۔ انہیں بہر، گونگا، اندھا چھوڑ دیا۔ اس مذہب کے مطابق یبصرون پر وقف بہتر نہ ہوگا۔ الصمم کا معنی عرب کلام میں بند ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے ؟ قناۃ صماء ایسا نیزہ جو اندر سے کھوکھلا نہ ہو صممت القارورۃ میں نے بوتل کو بند کردیا۔ فالاصم جس کے کان کے سوراخ بند ہوں۔ الابکم جو نہ بولتا ہے نہ سمجھتا ہے اور جو سمجھتا ہو بولتا نہ ہو اسے اخرس کہتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا : اخرس اور ایکم ایک ہی ہیں۔ کہا جاتا ہے : رجل ایکم و بکیم یعنی جو پوری طرح گونگا ہو، گونگا پن بالکل ظاہر ہو۔ شاعر نے کہا : فلیت لسانی کان نصفین منھما بکیم ونصف عندی مجری الکواکب العمی، کا معنی بینائی کا چلا جانا، عمی فھواعمی، قوم عمی، اعماہ اللہ، تعامی الرجل جو آدمی اپنے آپ کو اندھا ظاہر کرے۔ عمی علیہ الامر، جب معاملہ ملتبس ہوجائے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فعمیت علیھم الانباء یومئذ (القصص :66) (اندھی ہوجائیں گی ان پر خبریں اس دن) جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس سے مقصود ان کے حواس سے جملہ اور اکات کی نفی نہیں بلکہ ایک مخصوص جہت سے ان کی نفی مقصود ہے۔ تو کہتا ہے : فلان اصم عن الخنا۔ شاعر نے کتنا خوب کہا ہے : اصم عما ساءہ سمیع۔ یعنی بری بات سننے سے بہرہ اس کے علاوہ کو خوب سننے والا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : وعوراء الکلام صممت عنھا ولو انی اشاء بھا سمیع ٹیڑھی کلام والی، اس سے میں بہرہ ہوں اگر میں چاہوں تو اسے خوب سننے والا ہوں۔ دارمی نے کہا : اعمی اذا ما جارتی خرحت حتی یواری جارتی الجدر میں اندھا ہوتا ہوں جب میری پڑوسن نکلتی ہے حتیٰ کہ میری پڑوسن کو دیواریں چھپا لیتی ہیں۔ کسی نے ایک شخص کو وصیت کی جو اکثر بادشاہوں کے پاس جاتا تھا : ادخل اذا ما دخلت اعمی واخرج اذا ما خرجت اخرس جب تو بادشاہ کے پاس جائے تو اندھا ہو کر داخل ہو اور جب تو نکلے تو گونگا ہو کر نکل۔ قتادہ نے کہا : وہ حق سننے سے بہرے ہیں، حق کہنے سے گونگے ہیں، حق دیکھنے سے اندھے ہیں۔ میں کہتا ہوں : یہی معنی مراد ہے نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا جو آپ نے آخر زمانہ کے والیوں کے متعلق حدیث جبریل میں فرمایا۔ واذا رایت الحفاۃ العراۃ الصم البکم ملوک الارض فذاک من اشراطھا۔ (جب تو دیکھے کہ ننگے پاؤں، برہنہ بدن، (حق سننے سے) بہرے، (حق کہنے سے) گونگے زمین کے بادشاہ بن گئے ہیں تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے (1 ) ۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فھم لا یرجعون وہ حق کی طرف نہیں لوٹیں گے۔ یہ اس لئے فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم ازل میں تھا کہ وہ حق کی طرف نہیں لوٹیں گے۔ رجع بنفسہ رجوعاً رجعہ غیرہ کہا جاتا ہے یعنی یہ لازم اور متعدی استعمال ہوتا ہے۔ ہذیل کہتے ہیں : ارجعہ غیرہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یرجع بعضھم الی بعض القول (سبا : 31) یعنی آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کریں گے۔ جیسا کہ قرآن نے سورة سبا میں بیان فرمایا ہے۔
Top