Al-Qurtubi - Al-Baqara : 19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
یا ان کی مثال مینہ کی سی ہے کہ آسمان سے (برس رہا ہو اور) اس میں اندھیرے پر اندھیرا (چھا رہا ہو) اور (بادل) گرج (رہا) ہو اور بجلی (کوند رہی) ہو تو یہ کڑک سے (ڈر کر) موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور خدا کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے
آیت نمبر 19 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او کصیب من السماء طبری نے کہا : او بمعنی واؤ ہے (2) ۔ فراء نے یہی کہا ہے۔ وقد زعمت لیلی بانی فاجر لنفسی تقاھا او علیھا فجورھا لیلیٰ نے کہا کہ میں گنہگار ہوں میرے نفس کے لئے تقویٰ ہے اور اس کے خلاف اس کا فجور ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : نال الخلافۃ لہ قدراً کما اتی ربہ موسیٰ علی قد اس نے خلافت کو پایا اور خلافت اس کا مقدر تھی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کی بارگاہ میں آئے جو ان کے حق میں مقدر تھا۔ ان اشعار میں او بمعنی واؤ ہے۔ بعض نے فرمایا : او تخییر کے لئے ہے۔ یعنی تم ان منافقوں کو اس سے تشبیہ دو یا اس سے، کسی ایک امر پر اکتفا نہیں۔ معنی ہے : او کا صحاب صیب۔ یا وہ بارش والوں کی طرح ہیں۔ الصیب سے مراد بارش ہے۔ یہ صاب یصوب سے مشتق ہے جس کا معنی ہے : نازل ہونا۔ علقمہ نے کہا : فلا تعدلی بینی وبین مغمر سقتک روایا المذن حیث تصوب میرے اور جاہل کے درمیان برابری نہ کر بادل تجھے سیراب کرے جہاں برسے۔ صیب اصل میں صیوب تھا۔ واو اور یا جمع ہوئے پہلا ان میں سے ساکن ہے اس لئے واویا سے بدلی اور پھر مدغم ہوگئی جیسا کہ ھیت، ھین اور لین میں کہا گیا ہے۔ بعض کو فیوں نے کہا : اس کی اصل صویب ہے فعیل کے وزن پر۔ نحاس نے کہا : اگر اس طرح اس کی اصل ہوتی تو اس کا ادغام جائز نہ نہ ہوگا جیسا کہ طویل میں ادغام جائز نہیں ہے۔ صیب کی جمع صیایب ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : مثلھم کمثل الذی استوقد ناراً او کمثل صیب۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من السماء، السماء، مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اس کی جمع اسمیۃ، سموات اور سمی (بروزن فعول) بنائی جاتی ہے۔ عجاج نے کہا : تلفہ الریاح والسمی۔ ہواؤن اور بارشوں نے اسے گھیر رکھا ہے۔ السماء ہر وہ چیز جو تیرے اوپر ہو اور تجھ پر سایہ کرے وہ سماء ہے۔ اسی وجہ سے گھر کی چھت کو سماء کہا جاتا ہے۔ بارش کو سماء کہا جاتا ہے۔ بارش کو سماء کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ آسمان سے اترتی ہے۔ حضرت حسان بن ثابت نے کہا : دیار من بنی الحسح اس قفر تعفیھا الروامس والسماء بنی حسح اس کے گھر چٹیل میدان ہیں۔ ہواؤں اور بارش نے ان کے نشانات مٹا دئیے ہیں۔ ایک اور شاعر نے کہا : اذا سقط السماء بارض قوم رعیناہ وان کانوا غضابا جب کسی قوم کی زمین پر بارش برستی ہے تو ہم اس زمین پر چراتے ہیں اگرچہ اس کے مالک ناراض بھی ہوں۔ مٹی اور گھاس کو بھی سماء کہا جاتا ہے۔ مازلنا نطأ السماء حتی اتیناکم۔ ہم گھاس اور مٹی کو روندتے رہے حتیٰ کہ تمہارے پاس پہنچے۔ گھوڑے کی پیٹھ کو بھی اس کے بلند ہونے کی وجہ سے سماء کہا جاتا ہے۔ واحمر کالدیباج اما سماؤہ فریا واما ارضہ فمحول ریشم کی طرح سرخ ہے، رہی اس کی پیٹھ تو وہ بہت عمدہ ہے اور اس کے پاؤں بڑے سخت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فیہ ظلمت یہ مبتدا خبر ہیں (ورعد وبرق) معطوف علیہ ہے۔ ظلمات جمع ذکر فرمایا یہ اشارہ ہے رات کی تاریکی اور بادل کی تاریکی کی طرف، تہہ در تہہ تاریکی ہے اس لئے جمع ذکر فرمایا، اس کی وضاحت پہلے ذکر ہوچکی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ علماء کا رعد کے متعلق اختلاف ہے۔ ترمذی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے، فرمایا : یہود نے نبی کریم ﷺ سے رعد کے متعلق پوچھا کہ یہ (کڑک) کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے (جو بادل پر مقرر ہے) اس کے پاس آگ کے کوڑے ہیں جن کے ساتھ وہ بادل کو ہانک کرلے جاتا ہے جہاں اللہ چاہتا ہے۔ یہود نے کہا : یہ آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ فرشتہ بادل کو جھڑکتا ہے جب وہ اسے جھڑکتا ہے حتی کہ وہ وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ یہود نے کہا : آپ نے سچ کہا (1) ۔ الخ اس تفسیر پر اکثر علماء کا اتفاق ہے۔ پس الرعد (کڑک) سنی جانے والی آواز کا اسم ہے۔ حضرت علی ؓ نے یہ فرمایا۔ یہ لغت عرب میں معلوم ہے۔ لبید نے زمانہ جاہلیت میں کہا تھا : فجعنی الرعد والصواعق مجھے کڑک اور بجلیوں نے ڈرایا۔۔۔۔۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے، فرمایا : الرعد ایک ہوا ہے۔ بادل کے درمیان چھا جاتی ہے تو آواز پیدا کرتی ہے (2) ۔ البرق کے بارے میں اختلاف ہے، حضرات علی، ابن مسعود، ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ البرق لوہے کا کوڑا ہے جو فرشتے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس کے ساتھ وہ بادل کو چلاتا ہے۔ میں کہتا ہوں : ترمذی کی حدیث سے یہی ظاہر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے کہ یہ نور کا کوڑا ہے جو فرشتے کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ بادل کو جھڑکتا ہے (3) ۔ حضرت ابن عباس سے ہی مروی ہے کہ البرق فرشتہ ہے جو نظر آتا ہے۔ فلاسفہ کہتے ہیں : الرعد بادل کے اجرام کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی آواز ہے اور اجرام کے ٹکراؤ سے جو آگ چمکتی ہے وہ البرق ہے۔ یہ قول مردود ہے اس کی نقل صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ کہا جاتا ہے : رعد کی اصل حرکت سے ہے۔ اسی سے الرعدید، (بزدل کی کپکپی) ہے، ارتعد کا معنی ہے : حرکت کرنا، اس معنی میں حدیث ہے : فجی بھما ترعد فرائصھما (4) (ان دونوں کو لایا گیا تو ان کے کندھوں کا گوشت حرکت کر رہا تھا) ۔ یہ حدیث ابو داؤد نے روایت کی ہے۔ البرق کا اصل معنی چمک اور روشنی ہے۔ اسی سے البراق ہے وہ سواری جس پر معراج کی رات رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) سوار ہوئے۔ رعدت السماء، یہ الرعد سے ہے جس کا معنی ہے : گرج، اور برقت، البرق سے ہے اور رعدت المرأۃ وبرقت، عورت جب بناؤ سنگھار کر کے سامنے آئے، رعد الرجل وبرق، جب آدمی دھمکی دے اور ڈرائے۔ ابن احمر نے کہا : یا جل ما بعدت علیک بلادنا وطلابنا فابرق بارضک وارعد اے جل ! تجھ پر ہمارے شہر اور ہمارے مطلوب تجھ سے کتنے ہی دور ہوگئے ہیں اب تو اپنی زمین کو ڈرا دھمکا دے۔ ارعد القوم ابرقوا یعنی قوم کو کڑک اور بجلی نے آلیا۔ ابو عبیدہ اور ابو عمرو نے بیان کیا ہے : ارعدت السماء وابرقت۔ آسمان گرجا اور بجلی چمکی۔ ارعد الرجل وابرق فلاں نے دھمکی دی اور ڈرایا۔ اصمعی نے اس کا انکار کیا ہے اور اس پر اس کے خلاف کمیت کے قول سے حجت پکڑی گئی ہے۔ ابرق وارعد یا یزید فما وعیدک لی بضائر اے یزید ! تو دھمکی دے تیری دھمکی مجھے کچھ مضر نہیں۔ اصمعی نے کہا کمیت حجت نہیں ہے۔ فائدہ : حضرت ابن عباس سے مروی ہے، فرمایا : ہم حضرت عمر کے ساتھ مدینہ اور شام کے درمیان ایک سفر میں تھے اور ہمارے ساتھ حضرت کعب الاحبار بھی تھے۔ فرمایا : تیز ہوا چلنے لگی، بادل گرجنے لگا اور شدید بارش اور ٹھنڈک ہوگئی۔ لوگ گھبرا گئے۔ حضرت عباس نے کہا : مجھے کعب الاحبار نے کہا جس نے کڑک کی آواز سن کر کہا سبحان من یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ تو اس بادل، ٹھنڈک اور بجلی میں جو مصیبت ہوگی اس سے وہ بچا لیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : میں نے اور کعب نے یہ کلمات پڑھے جب صبح ہوئی تو لوگ جمع ہوئے تو میں نے حضرت عمر سے کہا : اے امیر المومنین ! لوگوں میں جو گھبراہٹ تھی وہ ہم میں نہ تھی۔ حضرت عمر نے پوچھا : وہ کیسے ؟ حضرت ابن عباس نے کہا : میں نے حضرت عمر سے حضرت کعب کی بات کہی تو حضرت عمر نے کہا : سبحان اللہ ! کیوں تم نے ہمیں نہیں بتایا کہ ہم بھی وہ کہتے جیسا تم نے کہا۔ ایک روایت میں ہے، ٹھنڈک حضرت عمر کے ناک کو لگی اور اس نے حضرت عمر پر اثر کیا۔ یہ روایت انشاء اللہ سورة رعد میں آئے گی۔ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب نے تابعین سے صحابہ کی روایات میں دو روایتیں ذکر کی ہیں۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کڑک اور بجلیوں کو سنتے تو یہ دعا کرتے : اللھم لا تقتلنا بغضبک ولا تھلکنا بعذابک وعانا قبل ذالک۔ (1) اے اللہ ! تو ہمیں اپنے غضب کے ساتھ ہلاک نہ کر اور تو ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک نہ کر اور ہمیں اس سے پہلے عافیت دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے : یجعلون اصابعھم فی اذانھم انگلیوں کو اپنے کانوں میں ڈالنا اس لئے تھا تاکہ وہ قرآن نہ سنیں۔ کہیں ایسا نہ کہ وہ قرآن مجید اور محمد ﷺ پر ایمان لے آئیں یہ ان کے نزدیک کفر ہے اور کفر موت ہے۔ الاصابع کے واحد میں پانچ نعتیں ہیں : اصبع ہمزہ کے کسرہ اور با کے فتحہ کے ساتھ۔ أصبع، ہمزہ کے فتحہ اور باء کے کسرہ کے ساتھ۔ ہمزہ اور با کے فتحہ کے ساتھ دونوں کے ضمہ کے ساتھ، دونوں کے کسرہ کے ساتھ بھی بولا جاتا ہے۔ یہ مؤنث استعمال ہوتا ہے اسی طرح اذن (کان) مؤنث استعمال ہوتا ہے، اس میں تخفیف، تثقیل اور تصغیر بنائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے : اذینۃ۔ اگر تو اذن کے ساتھ کسی کا نام رکھے تو اس کی تصغیر بنائے گا تو کہے گا : اذین، پھر یہ مؤنث استعمال نہ ہوگا کیونکہ مذکر کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے اس سے تانیث زائل ہوگئی۔ رہا عربوں کا قول : اذینۃ اسم علم تو اس کے ساتھ مصغر نام رکھا گیا ہے، اذن کی جمع آذان آتی ہے۔ تو کہتا ہے : اذنتہ جب تو اسے کان پر مارے، رجل اذن اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ہر ایک کا کلام سنے اس میں واحد اور جمع برابر ہے۔ اذان بڑے کانوں والا۔ نعجۃ اذناء، کبش آذن (کانوں والی بھیڑ اور دنبہ) واذنت النعل وغیرھا تا ذیناً جب تو جوتے وغیرہ کے کان بنائے، واذنت الصبی جب تو بچے کا کان ملے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من الصواعق یعنی بجلیوں کی وجہ سے۔ الصواعق، جمع ہے صاعقہ کی۔ حضرات ابن عباس اور مجاہد وغیرہما نے کہا : جب الرعد فرشتہ زیادہ غضبناک ہوتا ہے تو اس کے منہ سے آگ نکلتی ہے یہی صواعق ہے۔ اسی طرح خلیل نے کہا۔ فرمایا : یہ رعد کی آواز سے شدید ہوتی ہے، اس کے ساتھ کبھی آگ کا ٹکڑا ہوتا ہے جس پر وہ گرتا ہے اسے جلا دیتا ہے۔ ابو زید نے کہا : الصاعقہ آگ ہے جو سخت کڑک میں آسمان سے گرتی ہے، خلیل نے ایک قوم سے الساعقۃ (سین کے ساتھ) حکایت کیا ہے۔ ابوبکر نقاش نے کہا، کہا جاتا ہے : صاعقۃ، صعقۃ و صاقعۃ تمام کا معنی ایک ہے۔ حسن نے من الصواقع (قاف کی تقدیم کے ساتھ) پڑھا ہے۔ اسی سے ابو النجم کا شعر ہے : یحکون بالمصقولہ القواطع تشقق البرق عن الصواقع نحاس نے کہا : یہ بنی تمیم اور بعض بنی ربیعہ کی لغت ہے۔ کہا جاتا ہے : صعقتھم السماء، جب آسمان لوگوں پر بجلی گرا دے۔ الصاعقۃ، عذاب کی ایک چیخ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاخذتھم صعقۃ العذاب الھون (فصلت : 17) (تو پکڑ لیا انہیں اس عذاب کی کڑک نے جو رسوا کن ہے ) ۔ کہا جاتا ہے : صعق الرجل صعقۃ وتصعاقاً یعنی اس پر چھا گئی، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وخر موسیٰ صعقاً (اعراف :143) اصعقہ غیرہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس نے اسے ہلاک کردیا۔ ابن مقبل نے کہا : تری النعرات الزرق لبانہ أحاد ومثنی اصعق تھا صواھلہ اس کے سینے کے نیچے نیلی آنکھوں والی مکھیاں ایک ایک، دو دو دیکھتا ہے اس کے ہنہنانے نے ان کو قتل کردیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فصعق من فی السموت ومن فی الارض (الزمر :68) (یعنی فوت ہوگیا جو آسمانوں میں تھا اور جو زمین میں تھا) ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منافقین کے احوال کو تشبیہ دی ہے ان چیزوں کے ساتھ جو بارش میں تاریکیاں، کڑک، چمک اور بجلیوں میں سے ہوتی ہیں۔ ظلمت ان کے کفریہ اعتقادات کی مثال ہے۔ کڑک اور چمک اس کی مثال ہے جس کے ساتھ انہیں ڈرایا جاتا ہے۔ بعض نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بارش سے مثال دی کیونکہ اس میں ان پر بہت سی مشکلات تھیں۔ العمی سے مراد تاریکیاں ہیں اور جو اس میں وعید اور زجر ہے وہ کڑک ہے اور اس میں جو نور اور دلائل باہرہ ہیں جو کبھی ان پر ظاہر ہوتے ہیں وہ بجلی ہے۔ الصواعق یہ مثال ہے جو قرآن میں جلدی میں جنگ کی طرف نکلنے کی دعوت دی ہے اور تاخیر میں وعید دی گئی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الصواعق شرع کی تکالیف ہیں جن کو وہ ناپسند کرتے تھے مثلاً جہاد، زکوٰۃ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حذر الموت، حذر اور حذار دونوں کا ایک معنی ہے اور دونوں طرح پڑھا بھی گیا ہے۔ یہ سیبویہ نے کہا : یہ منصوب ہے کیونکہ یہ مفعول لہ ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ مصدر ہے۔ سیبویہ نے ایک شعر کہا ہے : واغفر عوراء الکریم اذخارہ واعرض عن شتم اللئیم تکرماً میں کریم شخص کی جہالت کو اس کے تعلق کو ذخیرہ کے لئے معاف کردیتا ہوں اور لئیم آدمی کی گالی سے تکرماً اعراض کرتا ہوں۔ فراء نے کہا : یہ تمییز کی وجہ سے منصوب ہے۔ الموت، حیاۃ کی ضد ہے، مات یموت ویمات استعمال ہوتا ہے۔ راجز نے کہا : بنیتی سیدۃ البنات عیشی ولا یؤمن ان تماتی اے میری بیٹی ! بیٹیوں کی سردار تھی تو زندہ رہے تیری موت سے امن نہیں۔ فھو میت ومیت، قوم موتی واموات ومیتون ومیتون والموات۔ الموت اور الموات ایسی چیز کو کہتے ہیں جس میں روح نہ ہو۔ الموات اس زمین کو کہتے ہیں جس کا کوئی انسان مالک نہ ہو اور نہ اس سے کوئی نفع اٹھاتا ہو۔ الموتان، یہ حیوان کا مخالف ہے۔ کہا جاتا ہے : اشترا لموتان ولا تشتر الحیوان یعنی زمینیں اور گھر خرید، غلام اور جانور مت خرید موتان اس موت کو کہتے ہیں جو جانوروں میں ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے : رقع فی المال مؤتان، اماتہ اللہ ومؤتہ۔ مبالغہ کے لئے تشدید ذکر کی گئی۔ شاعر نے کہا فعروۃ مات موتا مستریحاً فھا نذا اموت کل یوم عروہ تو آرام کی موت مرگیا میں ہوں کہ ہر روز مرتا ہوں اماتت الناقۃ، جب اونٹنی کا بچہ مرجائے، فھی ممیت وممیۃ۔ ابو عبیدہ نے کہا : اسی طرح اماتت امرأۃ ہے جس عورت کا بچہ مرجائے۔ اس کی جمع مماویت ہے۔ ابن سکیت نے کہا : امات فلان جب کسی کا ایک یا بہت سے بیٹے فوت ہوجائیں۔ المتماوت، ریاکار عبادت کرنے والے کی صفت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ موت مائت، جیسے تیرا قول ہے لیل لائل۔ اس لفظ سے صفت کا صیغہ بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ تاکید لگائی جاتی ہے المستمیت للأمر۔ ڈھیلا کام کرنے والا۔ رؤبہ نے کہا : وزبد البحر لہ کتیت واللیل فوق الماء مستمیت اور سمندر کی جھاگ اس کے لئے آواز ہے اور رات پانی کے اوپر سستی سے گزرنے والی ہے۔ المستمیت، اس شخص کو کہا جاتا ہے جو جنگ میں موت کی پرواہ نہیں کرتا۔ حدیث پاک میں ہے : اری القوم مستمیتین (1) وہ لوگ جو موت پر جنگ کرتے ہیں۔ المؤ تۃ، جنون اور مرگی کی ایک جنس ہے جو انسان کو لاحق ہوتی ہے جب اسے افاقہ ہوتا ہے تو پوری عقل اس کی طرف لوٹ آتی ہے جیسے سونے والے اور نشہ والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ مؤتہ (میم کے ضمہ اور واو کے ہمزہ کے ساتھ) اس زمین کو بھی کہتے ہیں جہاں حضرت جعفر بن ابی طالب شہید ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واللہ محیط بالکفرین یہ مبتدا خبر ہیں۔ یعنی وہ اس سے فوت نہیں ہوں گے۔ کہا جاتا ہے : احاط السلطان بفلان جب بادشاہ کسی کو سختی سے پکڑ لے اور ہر جہت سے اس کا محاصرہ کرلے۔ شاعر نے کہا : احطنا بھم حتی اذا ما تیقنوا بما قد رأوا مالوا جمیعا الی السلم ہم نے ان کا گھیراؤ کیا حتیٰ کہ جب انہوں نے اس کا یقین کرلیا جو انہوں نے دیکھا تو وہ تمام صلح کی طرف مائل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واحیط بثمرہ (الکہف :42) (اور اس کا (باغ) برباد ہوگیا) ۔ اصل میں محیط تھا یاء کی حرکت حا کی طرف نقل کی گئی اور یا کو ساکن کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا احاطہ کرنے والا ہے یعنی وہ اس کے قبضہ اور اس کے غلبہ کے تحت ہے جیسا کہ فرمایا : والارض جمیعا قبضتہ یوم القیمۃ (الزمر : 67) (ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن ) ۔ بعض علماء نے فرمایا : محیط بالکفرین کا معنی ہے انہیں جاننے والا ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے : وان اللہ قد احاط بکل شیء علما۔ (الطلاق) (اور بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ کر رکھا ہے) ۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ انہیں ہلاک کرنے والا اور انہیں جمع کرنے والا ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : الا ان یحاط بکم (یوسف :66) (مگر یہ کہ تمہیں بےبس کردیا جائے ) ۔ یعنی تم تمام ہلاک کئے جاؤ۔ کافروں کا خصوصی ذکر فرمایا کیونکہ آیت میں پہلے ان کا ذکر ہے۔
Top