Al-Qurtubi - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے
اس آیت میں ” ابتغآء مفعول لاجلہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ جب منافقین کی کارکردگی کا ذکر کیا تو بعد میں مومینن کی کارکردگی کا ذکر فرمایا۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ‘ کیونکہ جب وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کرکے آئے تو قریش کے کچھ لوگوں نے ان کا پیچھا اور تعاقب کیا۔ تو وہ اپنی سواری سے نیچے اتر پڑے اور ترکش میں موجود تمام تیر نکال لئے، اور اپنی قوس (تیرکمان) پکڑ لی اور فرمایا : تم جانتے ہو میں تم سے زیادہ تیر چلانے میں ماہر ہوں، اللہ تعالیٰ کی قسم ! تم مجھ تک نہیں پہنچ سکو گے یہاں کہ میں اپنے ترکش کے سارے تیر پھینک دوں۔ بعد ازاں میں اپنی تلوار سے لڑوں گا جب تک اس کی کوئی شے میرے ہاتھ میں باقی رہی پھر اس کے بعد تم جو چاہو کرو۔ تو انہوں نے کہا : ہم تجھے نہیں چھوڑ سکتے کہ تم غنا اور خوشحالی کی حالت میں ہم سے چلے جاؤ حالانکہ تم ہمارے پاس محتاج بن کر افلاس کی حالت میں آئے تھے۔ لیکن اگر تم مکہ میں موجود اپنے مال پر ہماری راہنمائی کرو تو ہم تمہارا راستہ چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے اسی (مال کی) شرط پر آپ سے معاہدہ کیا، تو آپ نے اسے پورا کردیا۔ پس جب رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ “۔ الآیہ اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : اے ابو یحییٰ ! نفع بخش سودا کیا ہے اور ان پر یہ (مذکورہ) آیت تلاوت فرمائی۔ اسے رزین نے روایت کیا ہے اور حضرت سعید بن مسیب ؓ نے اسے بیان کیا ہے (1) (تفسیر طبری، جلد 3، صفحہ 591) اور مفسرین نے کہا ہے : مشرکین نے حضرت صہیب ؓ کو پکڑ لیا اور انہوں نے آپ کو بہت ستایا اور اذیت دی، تو حضرت صہیب ؓ نے انہیں فرمایا : بلاشبہ میں بوڑھا آدمی ہوں، تمہیں کوئی نقصان اور ضرر نہ پہنچے گا، میں تمہارے ساتھ رہوں یا تمہارے سوا کسی اور کے ساتھ، کیا تمہارے لئے (یہ بہتر نہیں) کہ تم میرا مال لے لو اور مجھے اور میرے دین کو چھوڑ دو ؟ تو انہوں نے اس طرح کرلیا اور آپ نے ان پر سواری اور نفقہ کی شرط لگالی تھی (یعنی میں سواری اور اپنے روز مرہ اخراجات کے لئے مناسب اپنے مال سے لے لوں گا) پس وہ مدینہ طیبہ کی طرف نکل پڑے۔ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ان سے ملے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے انہیں فرمایا : اے ابو یحییٰ تیری بیع نفع بخش ہوئی، تو حضرت صہیب ؓ نے انہیں کہا : ” آپ کی بیع میں تو کبھی خسارہ نہیں ہوتا، سو یہ کیسی کلام ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں اس (آیت) نازل فرمائی ہے، پھر آپ نے ان پر یہ آیت پڑھی۔ حضرت حسن ؓ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟ یہ ایک مسلمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جو ایک کافر سے ملا اور اسے کہا : تو کہہ ” لا الہ الا اللہ “ پس جب تو نے اسے کہہ لیا، تو تو نے اپنے مال اور اپنی جان کو بچا لیا، لیکن اس نے یہ کلمہ کہنے سے انکار کردیا، تو مسلمان نے اسے کہا : قسم بخدا ! میں ضرور بضرور اپنی جان اللہ تعالیٰ کے لئے بیچ دوں گا۔ چناچہ وہ آگے بڑھا اور اس کے ساتھ قتال کرنے لگا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ایسے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے نیکی کا حکم دیا اور منکر سے روکا۔ اسی کے مطابق حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، اور حضرت ابن عباس ؓ ، نے اس کی تاویل کی ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ دو آدمی باہم ایک دوسرے سے لڑے۔ یعنی مغیر (تبدیلی لانے والے) نے مفسد ( فساد برپا کرنے والے) کو کہا : تو اللہ تعالیٰ سے ڈر۔ مفسد نے انکار کردیا اور اسے حمیت نے آلیا تو مغیر نے اپنی جان اللہ تعالیٰ سے بیچ ڈالی اور اس کے ساتھ لڑنے لگا، پس دونوں نے ایک دوسرے کو قتل کردیا۔ اور ابو خلیل (رح) نے کہا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کسی انسان کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا تو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے پڑھا : (آیت) ” انا للہ وانا الیہ رجعون “۔ وہ آدمی اٹھا اور نیکی کا حکم دینے لگا اور برائی سے منع کرنے لگا اور خود شہید ہوگیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ دو آدمیوں نے قاری کی اس آیت کی قرات کے وقت ایک دوسرے کو قتل کردیا، پس آپ نے ان سے اس کے بارے پوچھا تو انہوں نے اس کی یہی تفسیر بیان کی، تو حضرت عمر ؓ نے انہیں فرمایا : اے ابن عباس ! تیرا مال اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت اس کے بارے میں نازل ہوئی جو جنگ میں گھس جاتا ہے، ہشام بن عامر قسطنطینہ میں لشکر میں داخل ہوئے اور خوب قتال کیا، یہاں تک کہ شہید کردیے گئے تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ “۔ اور حضرت ابو ایوب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (1) (تفسیر طبری، جلد 3، صفحہ 593) اور یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت غزوہ رجیع کے شہداء کے بارے میں نازل ہوئی اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : وہ مہاجرین وانصار ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حضرت علی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جبکہ حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں اس رات (ہجرت کی رات) اپنے بستر پر آرام کرنے کے لئے فرمایا جبکہ آپ ﷺ غار (ثور) کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ اس کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة برات میں آئے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہر جہاد کرنے والے کو شامل ہے یا اپنی ذات کے بارے شہادت کی تمنا کرنے والے کو یا برائی کو تبدیل کرنے والے کو۔ اور اس کا حکم پہلے آچکا ہے جو لشکر پر حملہ آور ہو اور منکر کو تبدیل کرنے والے کا، اس کی شرائط اور اس کے احکام کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ سورة آل عمران میں آئے گا۔ اور ” یشری “ کا معنی یبیع (بیچ ڈالنا) ہے۔ اسی معنی میں یہ ارشاد بھی ہے : (آیت) ” وشروہ بثمن بخس “۔ (یوسف : 20) یعنی انہوں نے آپ کو کھوٹے ثمن کے عوض بیچ ڈالا۔ اور اس کا اصل معنی الا ستبدال (بدلہ میں لینا) ہے۔ اور اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسم واموالھم بان لھم الجنۃ “۔ (توبہ : 111) ترجمہ : یقینا اللہ نے خرید لی ہے ایمانداروں سے ان کی جان اور ان کے مال اس عوض میں کہ ان کے لئے جنت ہے۔ ) اور اسی معنی میں شاعر کا قول بھی ہے : وان کان ریب الدھر امغاک فی الالی شروا ھذہ الدنیا بجناتہ الخلد : اور ایک دوسرے شاعر کا قول : وشریت بردا لیتنی من بعد برد کنت ھامہ : یہاں برد غلام کا نام ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : یعطی بھا ثمنا فیمنعھا ویقول صاحبھا الافاشر : یہاں بیع النفس سے مراد اسے اللہ تعالیٰ کے اوامر (کی اطاعت) کے لئے خرچ کرنا ہے، اور ابتغاء مفعول من اجلہ ہے۔ کسائی نے مرضات تاء پر وقف کیا ہے، اور باقیوں نے ہاء کے ساتھ وقف کیا ہے۔ ابو علی نے کہا ہے : کسائی نے تا کے ساتھ یا تو ان کی لغت پر وقف کیا ہے جو کہتے ہیں طلعت اور علقت۔ اور اسی سے شاعر کا قول بھی ہے : بل جو زیتاء کظھر الحجفت : یا پھر اس لئے کہ جب ہی مضاف الیہ کلمہ کے ضمن میں ہے تو پھر تا کو چابت رکھنا ضروری ہے جیسا کہ وہ حالت وصل میں ثابت رہتی ہے، تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مضاف الیہ مراد ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 282) ۔ اور مرضاۃ سے مراد رضا ہے۔ کہا جاتا ہے : رضی یرضی رضاومرضاۃ۔ ایک قوم نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ کہا جائے : شری، بمعنی اشتری ہے اور اس صورت میں آیت کو حضرت صہیب ؓ کے واقعہ کی طرف پھیرنے کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ انہوں نے اپنی جان کو اپنے مال کے عوض خریدا تھا، نہ کہ اسے بیچا تھا، مگر یہ کہا جاسکتا ہے : بلاشبہ حضرت صہیب ؓ کا ان کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہوجانا یہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے بیچنا ہے۔ پس لفظ باع (بیچنے) کے معنی پر ہی صحیح اور درست ہوگا۔
Top