Al-Qurtubi - Al-Baqara : 222
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ١ؕ قُلْ هُوَ اَذًى١ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِ١ۙ وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَ١ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے (بارہ) الْمَحِيْضِ : حالتِ حیض قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ اَذًى : گندگی فَاعْتَزِلُوا : پس تم الگ رہو النِّسَآءَ : عورتیں فِي : میں الْمَحِيْضِ : حالت حیض وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ : اور نہ قریب جؤ ان کے حَتّٰى : یہانتک کہ يَطْهُرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاِذَا : پس جب تَطَهَّرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاْتُوْھُنَّ : تو آؤ ان کے پاس مِنْ حَيْثُ : جہاں سے اَمَرَكُمُ : حکم دیا تمہیں اللّٰهُ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے التَّوَّابِيْنَ : توبہ کرنے والے وَيُحِبُّ : اور دوست رکھتا ہے الْمُتَطَهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو وہ تو نجاست ہے سو ایام حیض میں عورتوں سے کنا رہ کش رہو اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ہاں جب پاک ہوجائیں تو جس طریق سے خدا نے تمہیں ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
اس میں چودہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” طبری نے سدی سے ذکر کیا ہے کہ سائل حضرت ثابت بن وحداح ہیں۔ اور یہ قول بھی ہے کہ حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر ؓ ہیں اور یہی اکثر مفسرین کا قول ہے اور سوال کے سبب کے بارے میں حضرت قتادہ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ مدینہ منورہ اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے عرب لوگ حیض والی عورتوں کے ساتھ کھانے پینے اور ان کے ساتھ رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرنے میں بنی اسرائیل کے طریقے پر چلتے تھے، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور حضرت مجاہد نے کہا ہے : وہ حالت حیض میں عورتوں سے دور رہتے تھے اور وہ زمانہ حیض کی مدت ان کی دبروں میں وطی کرتے تھے، پس یہ آیت نازل ہوئی۔ اور صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی تھی تو وہ گھروں میں نہ اس کے ساتھ مل کر کھاتے تھے اور نہ ان کے ساتھ مجامعت کرتے تھے، پس حضور نبی کریم ﷺ کے اصحاب نے آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” ویسئلونک عن المحیض، قل ھو اذی فاعتزلوا النسآء فی المحیض “۔ الی آخر الآیہ۔ اور رسول اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” اصنعوا کل شی الا النکاح “۔ (تم ان کے ساتھ وطی کے سوا ہر معاملہ کرو) یہ خبر یہودیوں کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا : یہ آدمی ہمارے امور میں سے کسی شے کو چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا مگر اس نے ہر معاملے میں ہماری مخالفت کی ہے۔ پس حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عبادہ بن بشر ؓ دونوں آئے اور انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بلاشبہ یہودی اس اس طرح کہہ رہے ہیں کیا ہم ان (عورتوں) سے جماع نہ کیا کریں ؟ تو حضور نبی کریم ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا، یہاں تک کہ ہمیں یہ گماں ہوا کہ آپ ﷺ ان دونوں پر غصے اور ناراض ہوں گے، پاس وہ دونوں نکل گئے اور پھر ان دونوں کے سامنے رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا ہدیہ آیا، تو آپ ﷺ نے وہ ان کے پیچھے بھیج دیا اور ان دونوں نے خوب سیر ہو کر پیا اور انہیں پہچان ہوگئی کہ آپ ﷺ ان پر ناراض نہیں، ہمارے علماء نے کہا ہے : یہودی اور مجوسی حیض والی عورتوں سے دور رہتے تھے اور عیسائی حیض والی عورتوں سے مجامعت کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان کا قصد کرتے ہوئے یہ حکم ارشاد فرمایا : مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” عن المحیض، المحیض “ سے مراد حیض ہے اور یہ مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے : حاضت المراۃ حیضا ومحاضا ومحیضا فھی حائض اور یہ حائضہ بھی ہے۔ فراء نے ایک شعر میں کہا ہے : کحائضۃ یزنی بھا غیر طاھر “۔ (جیسا کہ حیض والی عورت اس سے ناپاک حالت میں زنا کیا جاتا ہے) اور (کہا جاتا ہے) نساء حیض وحوائض “۔ اور ” الحیضۃ “ کا معنی ہے : ایک بار۔ اور ” الحیضۃ کسرہ کے ساتھ اسم ہے اور جمع الحیض ہے اور الحیضۃ کا معنی وہ کپڑے کا ٹکڑا بھی ہے جس کے ساتھ عورت اپنی فرج کو (حیض آنے کے وقت) باندھتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : لیتنی کنت حیضۃ ملقاۃ (1) (مصنف عبدالرزاق، 20616) (اے کاش، میں وہ کپڑے کا ٹکڑا ہوتی جسے پھینک دیا جاتا ہے) اسی طرح المحیضۃ ہے اور اس کی جمع المحائض ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ المحیض زمان ومکان سے عبارت ہے اور نفس حیض کو بھی محیض کہا جاتا ہے، یہ زمان ومکان میں اصل ہے اور حیض کے معنی میں مجاز ہے۔ علامہ طبری نے کہا ہے : المخیض حیض کا اسم (نام) ہے اور اسی کی مثل رؤبہ کا عیش کے بارے قول ہے۔ الیک اشکو شدۃ المعیش ومر اعوام تنفن ریثو میں زندگی کی تلخی اور شدت کی تیرے پاس شکایت کر رہا ہوں اور سال ہاسال گزر گئے، انہوں نے میرے بال وپر اکھیڑ دیے۔ اور کلمہ کی اصل سیلان (بہہ پڑنا) اور انفجار (پھوٹ پڑنا) سے ہے۔ کہا جاتا ہے : حاض السیل وفاض سیلاب پھوٹ پڑا اور بہہ گیا اور حاضت الشجرۃ یعنی درخت کی رطوبت ظاہر ہوگئی بہہ گئی۔ اور اسی طرح الحیض بمعنی الحوض ہے، کیونکہ پانی اس کی طرف بہتا ہے اور عرب یاء کی جگہ واؤ اور واؤ کی جگہ یاء داخل کرتے رہتے ہیں۔ کیونہ دونوں ایک ہی چیز سے ہیں۔ ابن عرفہ نے کہا ہے : المحیض اور الحیض کا معنی اس کے محل کی طرف خون کا جمع ہونا ہے اور اسی سبب سے حوض کو بھی یہ نام دیا گیا ہے کیونکہ اس میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے : حاضت المراۃ و تحیضت، و درست وعرکت، وطمثت، تحیض حیضا ومحاضا ومحیضا، جبکہ معلوم اوقات میں عورت کا خون بہہ پڑے۔ اور جب وہ غیر معلوم ایام میں جاری ہو اور حیض کی رگ کے سوا کہیں اور سے آئے تو پھر تو کہے گا : استحیضت فھی مستحاضۃ “ کہ عورت مستحاضہ ہوگئی۔ (یہ) ابن عربی نے کہا ہے۔ اور اس کی آٹھ اسماء ہیں۔ (1) حائض۔ (2) عارک۔ (3) فارک۔ (4) طامس۔ (5) دارس۔ (6) کا بر۔ (7) ضاحک۔ (8) طامث۔ حضرت مجاہد نے ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” فضحکت “۔ کا معنی بیان کیا ہے : حاضت، پس وہ حائضہ ہوگئی اور قول باری تعالیٰ (آیت) ” فلما راینہ اکبرنہ “۔ یعنی حضن (پس جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو وہ حائضہ ہوگئیں۔ ) اس کی تفصیل اپنے محل میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (3) اس پر علماء کا اجماع ہے کہ عورت کے لئے اپنی فرج سے ظاہر بہنے والا خون دیکھنے کی حالت میں تین احکام ہیں۔ پس ان میں سے حیض معروف ہے اور خون خیض سیاہ گاڑھا ہو اس پر سرخی غالب ہو اور یہ کہ عورت اس کی وجہ سے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا ترک کر دے گی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور کبھی یہ خون متصل (مسلسل) آتا ہے اور کبھی منقطع ہوتا ہے۔ (یعنی ایک دو دن کے وقفے سے آتا ہے) پس اگر یہ متصل جاری رہے تو اس کے لئے حکم ثابت ہوگا اور اگر منقطع ہو اور عورت ایک دن خون دیکھے اور ایک دن طہر یا وہ دو دن خون دیکھے اور دو دن یا ایک دن طہر تو بلاشبہ وہ خون کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی اور اس کے انقطاع کے وقت غسل کرے گی اور نماز پڑھ لے گی، پھر وہ خون کے ایام کو اکٹھا کرلے گی اور درمیان میں آنے والے ایام طہر کو لغو چھوڑ دے گی اور وہ انہیں عدت اور استبرا کی صورت میں طہر شمار نہیں کرے گی، حیض عورتوں کی فطرت میں ہے اور ان کی معروف طبعی عادت ہے۔ امام بخاری (رح) (1) (بخاری شریف : باب : ترک الحائض الصوم، حدیث نمبر : 293، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے دن عید گاہ کی طرف تشریف لائے اور آپ عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : اے عورتوں کے گروہ ! تم صدقہ کرو کیونکہ اہل نار میں سے اکثر تم مجھے دکھائی گئی ہو۔ تو انہوں نے عرض کی : کیوں یا رسول اللہ ! ﷺ ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور خاوندوں کی نافرمانی کرتی ہو۔ میں نے تم سے بڑھ کر ناقصات عقل ودین کسی کو نہیں دیکھا جو ایک محتاط آدمی کی عقل وفہم کو ختم کر دے۔ تو انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ عقل ودین کے اعتبار سے ہم میں کون سی کمی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا عورت کی شہادت آدمی کی شہادت کے نصف کے برابر نہیں ہے ؟ انہوں نے عرض کی : ہاں، کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا : یہ ان کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے اور کہا : جب وہ حائضہ ہوجائے تو وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے، کیا اسی طرح نہیں ہے ؟ انہوں نے عرض کی : ہاں، یارسول اللہ ! ﷺ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ان کے دین کی کمی کی وجہ سے ہے۔ “۔ اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضا کرے گی اور نماز کی قضا نہیں کرے گی۔ حضرت معاذہ کی حدیث ہے انہوں نے کہا : میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا اور کہا : حیض والی عورت کو کیا ہے کہ وہ روزے کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی ؟ تو انہوں نے فرمایا : کیا تو حروریہ () (حروریہ خوارج کا ایک گروہ ہے اور یہ کوفہ کے قریب ایک گاؤں حروراء کی طرف منسوب ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں حضرت علی ؓ نے قتل کیا تھا، ان کے نزدیک دین میں شدت اور سختی ہے جیسا کہ معروف ہے۔ ) ہے ؟ میں نے کہا : میں حروریہ تو نہیں۔ البتہ میں پوچھ رہی ہوں، تو پھر انہوں نے فرمایا : چونکہ وہ ہمیں لاحق ہوتا رہتا ہے اس لئے ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا گیا ہے اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا اسے مسلم نے روایت کیا ہے (1) (بخاری شریف : باب : لا تقض الحائض الصلوۃ، حدیث نمبر : 310، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور جب عورت کا خون ختم ہوجائے تو اس کے لئے اس سے پاکیزگی اور طہارت غسل ہے اس کا بیان آگے آ رہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) علماء نے حیض کی مقدار میں اختلاف کیا ہے : فقہائے مدینہ نے کہا ہے : بلاشبہ حیض پندرہ دونوں سے زیادہ نہیں ہوتا اور یہ جائز ہے کہ وہ پندرہ دن اور اس سے کچھ کم ہو اور جو پندرہ دنوں سے زیادہ ہوگا وہ حیض نہ ہوگا بلکہ وہ استحاضہ ہے۔ یہ مذہب امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب کا ہے۔ اور امام مالک سے یہ بھی مروی ہے کہ حیض کے قلیل ہونے اور کثیر ہونے کا کوئی وقت نہیں مگر وہی جو عورتوں میں پایا جاتا ہے۔ (یعنی ان کی عادت ہوتی ہے) گویا آپ نے اپنا پہلا قول چھوڑ دیا ہے اور عورتوں کی عادت کی طرف رجوع کرلیا ہے۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا ہے : کم سے کم طہر پندرہ دن ہے، بغداد کے رہنے والے اکثر اصحاب مالک (رح) نے یہی اختیار کیا ہے اور یہی امام شافعی، امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علہیم ان دونوں کے اصحاب اور امام ثوری رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے۔ اور اس باب میں صحیح قول یہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیض والی عورتوں کی عدت تین حیض مقرر کی ہے اور جنہیں بڑھاپے یا صغر سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو ان کی عدت تین ماہ مقرر کی ہے، گویا کہ ہر حیض کے دن زیادہ ہوں گے تو طہر کے دن کم ہوں گے۔ پس جب حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہو تو واجب ہے کہ اس کے مقابلے میں کم سے کم طہر کی مدت پندرہ دن ہو۔ تاکہ ایک مہینے میں حیض اور طہر دونوں مکمل ہوجائیں اور قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ عورتوں کی خلقت اور ان کی فطرت میں اغلبا یہی متعارف ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے فرمایا ہے : کم سے کم حیض کی مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی اکثر مدت پندرہ دن ہے اور ان سے امام مالک (رح) کے قول کی مثل بھی مروی ہے کہ اسے عورتوں کے عرف اور عادت کی طرف لوٹا دیا گیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے کہ حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے۔ ابن عبد البر نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک جو خون تین دنوں سے کم ہوگا وہ استحاضہ ہوگا، یہ نماز کے مانع نہیں ہوتا مگر جب کہ یہ پہلی بار ظاہر ہو، کیونکہ اس کی انتہائی مدت معلوم نہیں ہوتی، پھر عورت پر ان اوقات کی نماز قضا کرنا لازم ہے۔ اسی طرح وہ خون جو دس دنوں سے زیادہ ہو (وہ بھی) اہل کوفہ کے نزدیک استحاضہ ہے۔ اور اہل حجاز کے نزدیک جو پندرہ دنوں سے زائد ہوگا وہ دم استحاضہ ہوگا اور جو ایک دن اور ایک رات سے کم وہ گا امام شافعی (رح) کے نزدیک وہ استحاضہ ہوگا اور یہی قول امام اوزاعی اور طبری کا ہے اور جنہوں نے کہا ہے کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے ان میں سے حضرت عطا بن ابی رباح، حضرت ابو ثور اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علہیم ہیں۔ امام اوزاعی نے کہا ہے : ہمارے پاس ایک عورت صبح کے وقت حائضہ ہوتی ہے اور شام کے وقت پاک ہوجاتی ہے۔ حیض کی اکثر اور اقل مدت، طہر کی اقل مدت، احتیاط اور اس کی حجت کے بارے میں ہم نے اس باب میں وہی کچھ ذکر کیا ہے جسے علماء نے اپنایا ہے۔ پس ” المقتبس فی شرح مؤطا مالک بن انس “ میں ہے کہ اگر کسی عورت کو پہلی بار حیض آئے تو امام شافعی (رح) کے قول کے مطابق جو خون وہ پہلی بار دیکھے گی وہ پندرہ دن تک بیٹھی رہے گی پھر وہ غسل کرے گی اور چودہ دن کی نماز لوٹائے گی۔ اور امام مالک نے کہا ہے : وہ نماز قضا نہیں کرے گی اور اس کے خاوند کو اس سے روکا جائے گا۔ علی بن زیاد نے ان سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کی مقدار بیٹھی رہے گی اور یہی قول حضرت عطا اور ثوری وغیرہما کا ہے۔ امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا ہے : وہ ایک دن اور ایک رات بیٹھے گی، پھر وہ غسل کرے گی اور نماز پڑھے گی اور اس کا خاوند اس کے پاس نہ آئے گا۔ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : وہ دس دن نماز چھوڑے رکھے گی، پھر غسل کرے گی اور بیس دن تک نماز پڑھتی رہے گی، پھر بیس دنوں کے بعد دس دن کے لئے نماز چھوڑ دے گی، پس اس کی یہی حالت جاری رہے گی یہاں تک کہ اس سے خون ختم ہوجائے، رہی وہ عورت جس کے دن معلوم ہوں تو وہ ایام معلومہ کے مطابق تین دنوں تک احتیاط کرے گی اور امام مالک (رح) سے روایت ہے : جب تک وہ پندرہ دنوں سے تجاوز نہ کرے۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : جب اس کے دن گزر جائیں تو بغیر کسی احتیاط کے وہ غسل کرے گی۔ خون میں سے دوسرا دم نفاس ہے جو ولادت کے وقت ظاہر ہوتا ہے : علماء کے نزدیک اس کے لئے بھی معلوم حد ہے اور اس میں انہوں نے اختلاف کیا ہے۔ پس کہا گیا ہے کہ وہ دو مہینے ہیں، یہی امام مالک (رح) کا قول ہے اور بعض نے کہا ہے : وہ چالیس دن ہیں۔ یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے۔ ان کے علاوہ بھی قول کیے گئے ہیں۔ اور اس سے طہارت اس کے ختم ہونے کے وقت حاصل ہوتی ہے اور اس کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے۔ قاضی ابو محمد عبدالوہاب (رح) نے کہا ہے : حیض اور نفاس کا خون گیارہ چیزوں سے روکتا ہے اور وہ نماز کا واجب ہونا، اسے پڑھنا، صحیح ہونا، روزہ رکھنا نہ کہ اس کا واجب ہونا، (یعنی روزے کا وجوب برقرار رہتا ہے لیکن اسے عملا رکھنا مؤخر ہوجاتا ہے) اور فرق کا فائدہ یہ ہے کہ روزے کی قضا لازم ہے اور نماز کی قضا لازم نہیں۔ فرج اور اس کے سوا میں جماع کرنا، عدت، طلاق، طواف، قرآن کریم کو مس کرنا، مسجد میں داخل ہونا، اس میں اعتکاف کرنا، اور قرآن کی قرات میں دو روایتیں ہیں۔ اور تیسری قسم کا خون وہ ہے جو نہ عورتوں کی عادت ہے اور نہ ان کی طبع اور خلقت میں داخل ہے۔ بلاشبہ یہ ایک رگ ہے جو کٹ جاتی ہے اور اس سے سرخ رنگ کا خون بہتا ہے اور یہ خون منقطع نہیں ہوتا مگر تبھی جبکہ وہ تندرست اور مندمل ہوجائے اور اس کا حکم یہ ہے کہ عورت اس کی موجودگی میں بھی پاک ہوتی ہے اور یہ اس کے لئے نماز، روزے سے مانع نہیں ہوتا، اس پر علماء کا اجماع ہے اور آثار مرفوعہ کا اتفاق ہے بشرطیکہ یہ معلوم ہو کہ یہ رگ کا خون ہے، خون حیض نہیں ہے۔ امام مالک (رح) (1) (بخاری شریف : باب : الاستحاضۃ، حدیث نمبر : 295، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نے ہشام بن عروہ عن ابیہ کی سند سے حضرت عائشہ صدیقہ رحمۃ اللہ علہیم سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : فاطمہ بنت ابی حبیش نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں پاک نہیں ہوتی ! کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ وہ رگ (کاخون) ہے، حیض نہیں ہے، جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب اس کی مقدار (دن) گزر جائیں تو تو اپنے آپ سے خون دھو ڈال اور نماز پڑھ لے۔ “ یہ حدیث اپنے صحیح ہونے اور اپنے الفاظ قلیل ہونے کے ساتھ ساتھ حائضہ اور مستحاضہ کے احکام تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ اس باب میں جو روایات ہیں یہ حدیث ان سے زیادہ صحیح ہے اور یہ حدیث اس کا رد کرتی ہے جو عقبہ بن عامر اور مکحول سے مروی ہے کہ حیض والی عورت ہر نماز کے وقت غسل کرے گی اور وضو کرے گی اور بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لئے قبلہ شریف کی طرف متوجہ ہوگی۔ اور اس میں ہے کہ حائضہ عورت نماز نہیں پڑھے گی اور اس پر تمام علماء کا اجماع ہے سوائے خوارج کے ایک گروہ کے کہ وہ کہتے ہیں : حیض والی عورت پر نماز ہے۔ اور اس حدیث میں اس پر بھی دلیل موجود ہے کہ مستحاضہ عورت پر سوائے اس غسل کے جو وہ انقطاع حیض کے وقت کرتی ہے اور کوئی غسل لازم نہیں، اگر اس کے علاوہ بھی غسل اس پر لازم ہوتا تو آپ ﷺ اس کے بارے اسے حکم ارشاد فرما دیتے اور اس میں ان کے قول کا بھی رد ہے جن کا خیال ہے کہ اس پر ہر نماز کے لئے غسل لازم ہے اور ان کے قول کا بھی جن کا خیال یہ ہے کہ وہ دن کی دو نمازوں کو ایک غسل کے ساتھ جمع کرلے اور رات کی دو نمازوں کے لئے ایک غسل کرلے اور وہ صبح کی نماز کے لئے علیحدہ غسل کرے اور ان کے قول کا جنہوں نے کہا : وہ ایک طہر سے دوسرے طہر تک غسل کرے گی اور حضرت سعید بن مسیب ؓ کے اس قول کا بھی کہ وہ ایک طہر سے دوسرے طہر تک غسل کرے گی۔ اور حضرت سعید بن مسیب ؓ کے اس قول کا بھی کہ وہ ایک طہر سے دوسرے طہر تک غسل کرے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے کسی شے کا حکم اسے ارشاد نہیں فرمایا۔ اور اس میں اس کے قول کا بھی رد ہے جس نے انتظار و احتیاط کی بات کی ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے (فاطمہ کو) یہ حکم دیا کہ جب تجھے یقین ہوجائے کہ حیض ختم ہوچکا ہے تو تو غسل کرلے اور نماز پڑھ لے، آپ نے اسے یہ حکم نہیں دیا کہ وہ حیض آنے یا نہ آنے کے انتظار میں تین دن تک نماز چھوڑے رکھے اور احتیاط نماز پڑھنے میں ہوتی ہے نہ کہ اسے چھوڑنے میں۔ مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل ھو اذی “۔ یعنی یہ وہ شے ہے جس کے سبب عورت اور اس کے سوا مرد کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہے یعنی خون حیض کی بدبو کے سبب۔ اور الاذی قذر اور نجاست سے کنایہ ہے۔ اور اس کا اطلاق قول مکروہ پر بھی ہوتا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” لا تبطلوا صدقتکم بالمن والاذی “۔ (البقرہ : 264) ترجمہ : مت ضائع کرو اپنے صدقوں کو احسان جتلا کر اور دکھ پہنچا کر۔ یعنی اس مکروہ اور ناپسندیدہ قول کے ساتھ جو تم اسے سناتے ہو اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ (آیت) ” ودع اذھم “۔ (الاحزاب : 48) ترجمہ : اور پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی۔ یعنی آپ منافقین کی اذیت رسائی کی پرواہ نہ کریں آپ انہیں جزا نہ دیں مگر یہ کہ ان میں امیر بنا دیں۔ اور حدیث طیبہ میں ہے : وامیطوا عنہ الاذی “۔ (1) (بخاری شریف : باب : اماطۃ الاذی عن الصبی فی العقیقۃ، حدیث نمبر : 5049، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اس سے اذیت کو دور کرو، اس میں الاذی سے مراد وہ بال ہیں جو پیدائش کے وقت بچے کے سر پر ہوتے ہیں اور ساتویں دن اس سے مونڈ دیے جاتے ہیں اور یہی عقیقہ ہے اور حدیث ایمان میں ہے ” وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق “۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو ۔ یعنی کانٹے، پتھر اور ان کی طرح کی دیگر چیزیں جن سے گزرنے والا کسی تکلیف میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اور رب کریم کا ارشاد : (آیت) ” ولا جناح علیکم ان کان بکم اذی من مطر “۔ (النسائ : 102) اس کا ذکر آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (6) دم استحاضہ بہنے کے سبب جنہوں نے مستحاضہ عورت سے وطی کرنے سے منع کیا ہے انہوں نے استدلال کیا اور کہا : ہر خون تکلیف دہ (نجس) ہے، اسے کپڑے اور بدن سے دھونا واجب ہوتا ہے، پس دم حیض اور استحاضہ کے درمیان مباشرت کی حالت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر ناپاکی اور نجاست ہے۔ اور رہی نماز تو اس کی رخصت کے بارے حدیث طیبہ موجود ہے جیسا کہ سلس البول کی بیماری کی حالت میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، یہ قول ابراہیم نخعی، سلیمان بن یسار، حکم بن عیینہ، عامر شعبی، ابن سیرین اور زہری کا ہے اور حسن کی جانب سے اس میں اختلاف کیا گیا ہے۔ اور یہی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول ہے کہ مستحاضہ کا خاوند اس کے ساتھ صحبت نہیں کرے گا اور اسی طرح ابن علیہ اور مغیرہ بن عبدالرحمن نے کہا ہے اور یہ اصحاب مالک (رح) میں سے اعلی ترین افراد میں سے ہیں اور ابو مصعب نے بھی یہی کہا ہے اور اسی کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے۔ اور جمہور علماء نے کہا ہے : مستحاضہ عورت روزہ رکھ سکتی ہے، نماز پڑھ سکتی ہے، طواف کعبہ کرسکتی ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے اور اس کا خاوند بھی اس کے ساتھ مباشرت کرسکتا ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : اہل فقہ وعلم نے اسی کا حکم دیا ہے، اگرچہ اس کا خون بہت زیادہ بھی ہو اور آپ سے اسے ابن وہب نے روایت کیا ہے۔ اور امام احمد فرماتے ہیں : میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ خاوند اس سے وطی نہ کرے، البتہ اگر عرصہ طویل ہوجائے تو پھر وطی کرسکتا ہے۔ اور مستحاضہ کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے : کوئی حرج نہیں ہے کہ اس کا خاوند اس کے ساتھ جماع کرے اگرچہ اس کا خون اس کی ایڑیوں پر بہہ رہا ہو۔ اور امام مالک نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بلاشبہ وہ رگ کا خون ہے وہ حیض نہیں ہے۔ “ پس جب وہ حیض نہیں ہے تو پھر کون سے شے ہے جو خاوند کو اس کے پاس جانے سے روک سکتی ہے حالانکہ وہ نماز بھی پڑھ رہی ہے۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے : جب اللہ تعالیٰ نے مستحاضہ کے خون کے بارے میں یہ حکم فرمایا دیا ہے کہ وہ نماز کے مانع نہیں ہے اور وہ عورت اس حالت میں حائضہ کی عبادت کے کرسکتی ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس کے لئے حیض کے احکام میں سے کسی شے کا حکم نہ لگایا جائے مگر وہی جس پر اجماع ہے (یعنی) تمام خونوں کی طرح اسے بھی دھونا لازم ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاعتزلوا النسآء فی المحیض “۔ یعنی تم زمانہ حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو، یہ تب ہے جبکہ محیض کو مصدر بنایا جائے یہ معنی یہ ہے کہ تم عورتوں سے علیحدہ رہو محل حیض میں جبکہ محیض کو اسم بنایا جائے اور اس نہی کا مقصود مجامعت ترک کرنا ہے۔ حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کے بارے میں اور جو کچھ اس سے مباح سمجھا جاتا ہے اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، پس حضرت ابن عباس ؓ اور عبیدہ السلمانی سے مروی ہے کہ یہ واجب ہے کہ آدمی اپنی بیوی کے بستر سے علیحدہ رہے جبکہ وہ حالت حیض میں ہو۔ یہ قول شاذ ہے اور علماء کے قول سے خارج ہے۔ اگرچہ عموم آیت اس کا تقاضا کرتی ہے لیکن سنت ثابتہ اس کے خلاف ہے اور جب حضرت ابن عباس ؓ کی خالہ حضرت ام میمونہ رحمۃ اللہ علہیم اس پر آگاہ ہوئیں تو آپ نے فرمایا : کیا تم رسول اللہ ﷺ کی سنت سے اعراض کر رہے ہو۔ اور امام مالک، شافعی، اوزاعی، ابوحنیفہ، ابو یوسف اور علماء کی ایک بہت بڑی جماعت رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : مرد کے لئے عورت کے اس حصے سے استمتاع جائز ہے جو ازار کے اوپر ہے، کیونکہ جب حضور نبی مکرم ﷺ سے ایک آدمی نے پوچھا تو آپ نے اسے ارشاد فرمایا : (سائل نے کہا) کیا حالت حیض میں میری میرے لئے حلال ہوتی ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا : چاہیے کہ وہ اپنی ازار (چادر) مضبوطی کے ساتھ باندھ لے تو پھر اس کے لئے اوپر سے وہ تیرے لئے لئے مباح ہے۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رحمۃ اللہ علہیم حالت حیض میں تھیں تو آپ ﷺ نے انہیں ارشاد فرمایا : اپنی چادر کو مضبوط باندھ لے پھر اپنے بستر کی طرف لوٹ آ۔ (1) (بخاری شریف : باب : من سمی النفاس حیضا والیحض نفاس، حدیث نمبر : 289، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (8) اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جو حالت حیض میں عورت کے ساتھ مجامعت کرتا ہے کہ اس پر کیا ہوگا ؟ حضرت امام مالک (رح)، شافعی اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علہیم نے فرمایا ہے : وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور مزید اس پر کوئی شے لازم نہیں، یہی قول ربیعہ اور یحییٰ بن سعید کا ہے اور اسی طرح داؤد نے بھی کہا ہے اور امام محمد بن حسن (رح) سے مروی ہے کہ وہ نصف دینار صدقہ کرے گا۔ (1) (بخاری شریف : باب : فی کفارۃ من۔۔۔۔ حائضا، حدیث نمبر : 1853، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور امام احمد (رح) نے کہا ہے : عبد الحمید کی حدیث کتنی اچھی ہے کہ وہ مقسم کے واسطہ ہے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے کہ وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے گا۔ “ اسے ابو داؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : اسی طرح صحیح روایت ہے۔ فرمایا : نصف دینار۔ علامہ طبری نے اسے مستحب قرار دیا ہے پس اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس پر کوئی شے نہ ہوگی اور بغداد میں امام شافعی کا یہی قول ہے۔ اور محدثین میں سے ایک جماعت نے کہا ہے : اگر اس نے خون کی حالت میں وطی کی تو اس پر دینار ہوگا اور اگر اس نے خون کے انقطاع کی حالت میں وطی کی تو اس کے لئے نصف دینار ہوگا۔ اور امام اوزاعی نے کہا ہے : جس نے اپنی بیوی کے ساتھ حالت حیض میں وطی کی وہ ایک دینار کے دو خمس صدقہ کرے۔ ان تمام کی اسناد سنن ابی داؤد اور دارقطنی وغیرہ میں ہیں۔ اور کتاب ترمذی (2) (جامع ترمذی : باب : ماجاء فی الکفارۃ فی ذالک، حدیث نمبر : 127، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں حضرت ابن عباس ؓ سے حضور نبی کریم ﷺ کا ایہ ارشاد منقول ہے : ” جب خون سرخ ہو تو ایک دینار ہوگا اور خون کا رنگ زرد ہو تو نصف دینار ہوگا۔ “۔ ابو عمر نے کہا ہے : ان کی دلیل جنہوں نے استغفار اور توبہ کے سوا ایسے آدمی پر کوئی کفارہ واجب نہیں کیا اس حدیث کا مضطرب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس کی مثل حدیث حجت نہیں بن سکتی، کیونکہ فی الاصل ہر کوئی ذمہ داری سے بری ہے اور یہ واجب نہیں کہ اس میں کسی مسکین اور کسی دوسرے کے لئے کوئی شے ثابت ہو مگر کسی دلیل کے ساتھ جس میں نہ کوئی رد ہو اور نہ اس پر طعن ہو اور یہ اس مسئلہ میں معدوم ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تقربوھن حتی یطھرن “۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : میں نے علامہ الشاشی سے مجلس النظر میں سنا ہے وہ فرماتے ہیں : جب کہا جائے ” لا تقرب “ یعنی راء کے فتحہ کے ساتھ تو اس کا معنی ہے تو کام میں مشغول نہ ہو اور اگر راء کے ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے تو اس کے قریب نہ ہو۔ نافع، ابو عمرو، ابن کثیر، ابن عامر اور حضرت عاصم رحمۃ اللہ علہیم نے اس روایت میں جو حفص نے ان سے نقل کی ہے ” بطھرن “ طا کے سکون اور ہا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور حمزہ، کسائی اور حضرت عاصم رحمۃ اللہ علہیم نے ابوبکر اور مفضل کی روایت میں ” یطھرن “ یعنی طا اور ہا دونوں کو شد اور فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور حضرت ابی اور حضرت عبداللہ ؓ کے مصحف میں ” یتطھرن “ ہے۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ کے مصحف میں ” ولا تقربوا النساء فی محیضھن واعتزلوھن حتی یتطھرن “ ہے۔ اور علامہ طبری نے طا کی تشدید والی قراءت ترجیح دی ہے۔ اور کہا ہے : یہ بمعنی ” یغتسلن ہے، کیونکہ اس پر تمام کا اجماع ہے کہ آدمی پر حرام ہے کہ وہ اپنی زوجہ کا خون ختم ہونے کے بعد اس کے پاک ہونے سے پہلے اس کے قریب جائے۔ انہوں نے کہا : بلاشبہ طہر میں اختلاف ہے کہ وہ کیا ہے، تو ایک گروہ نے کہا ہے کہ طہر سے مراد پانی کے ساتھ غسل کرنا ہے، اور ایک قوم نے کہا ہے : کہ اس سے مراد نماز کے وضو کی طرح وضو کرنا ہے اور ایک جماعت کا خیال ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ کو دھونا ہے۔ اور اسے اپنے خاوند کے لئے حلال کر دے گا اگرچہ اس نے غسل نہ بھی کیا۔ اور ابو علی فارسی نے طا کی تخفیف والی قرات کو ترجیح دی ہے، کیونکہ یہ ثلاثی ہے اور طمث کی ضد ہے اور یہ بھی ثلاثی ہے۔ مسئلہ نمبر : (10) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاذا تطھرن “۔ یعنی جب وہ پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرلیں، یہی موقف امام مالک اور جمہور علماء کا ہے اور بلاشبہ وہ طہارت جس کے سبب حائضہ عورت سے جماع حلال ہوجاتا ہے جب اس کا خون ختم ہوجائے وہ اس کا پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنا ہے جیسا کہ جنبی کی طہارت (پانی کے ساتھ حاصل ہوتی ہے) اور تیمم یا کوئی اور اس کی جانب سے جائز نہ ہوگا۔ یہی امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) طبری (رح)، محمد بن مسلہ، اہل مدینہ اور ان کے علاوہ دوسروں نے بھی کہا ہے۔ اور یحییٰ بن بکیر اور محمد بن کعب قرظی نے کہا ہے : جب حیض والی عورت پاک ہوجائے۔ (یعنی اس کا خون ختم ہوجائے) اور اس نے ایسی جگہ تیمم کرلیا جہاں پانی نہ ہو تو وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہوگئی اگرچہ اس نے غسل نہ بھی کیا ہو۔ حضرت مجاہد، عکرمہ اور طاؤس رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : خون کا منقطع ہونا ہی اسے زوج کے لئے حلال کردیتا ہے لیکن اسے وضو کرلینا چاہئے۔ امام اعظم ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : اگر اس کا خون دس دن گزرنے کے بعد ختم ہوا تو آدمی کے لئے جائز ہے کہ وہ غسل سے پہلے اس سے وطی کرلے اور اگر خون کا انقطاع دس دنوں سے پہلے پہلے ہوگیا تو پھر جائز نہیں ہے یہاں تک کہ وہ غسل کرلے یا اس پر نماز کا وقت داخل ہوجائے۔ یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی کوئی وجہ اور علت نہیں، تحقیق انہوں نے حائضہ عورت کے لئے اس کا خون منقطع ہونے کے بعد اس طرح فیصلہ کیا ہے جو عدت میں محبوس ہو۔ اور انہوں نے اس کے خاوند کو کہا : عورت کی طرف رجوع کرنا جائز ہے جب تک وہ تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے، پس ان کے اس قول کے قیاس کی بنا پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے وطی کی جائے یہاں تک کہ وہ غسل کرلے یہ اہل مدینہ کے ساتھ موافقت ہے۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس میں حکم کو دو شرطوں پر معلق کیا ہے : ان میں سے ایک خون کا منقطع ہونا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” حتی یطھرن “ اور دوسرا پانی کے ساتھ غسل کرنا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ : (آیت) ” فاذا تطھرن “ یعنی جب وہ پانی کے ساتھ غسل کرلیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مثل ہے۔ (آیت) ” وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح “۔ الآیہ (النسائ : 6) ترجمہ ؛ اور آزماتے رہو یتیموں کو یہاں تک کہ وہ پہنچ جائیں نکاح (کی عمرکو) ۔ اس میں بھی حکم دو شرطوں پر معلق ہے اور حکم مال دینے کا جواز ہے۔ دو شرطوں میں سے ایک مکلف کا نکاح کی عمر کو پہنچنا ہے اور دوسرا دانائی کا محسوس کرنا ہے، اسی طرح مطلقہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ (البقرہ : 230) ترجمہ : تو وہ حلال نہ ہوگی اس پر اس کے بعد یہاں تک کہ نکاح کرے کسی اور خاوند کے ساتھ۔ پھر عسیلہ کی شرط (مراد جماع ہے) کے بارے حدیث پاک موجود ہے۔ پس حلالہ بھی مجموعی طور پر دو امروں پر موقوف ہوا اور وہ نکاح کا انعقاد اور وطی کا پایا جانا ہے۔ (1) (بخاری شریف : باب : من اجاز طلاق الثلاث لقول اللہ تعالیٰ الطلاق مرتان مامساک بمعروف او تسریح، حدیث نمبر : 4856، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے : بیشک آیت کا معنی ہے : شرط میں غایت وہی ہے جو اس سے پہلی غایت میں مذکور ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ’ حتی یطھرن “۔ یعنی مخفف بعینہ ” یطھرن “۔ مشدد کے معنی میں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آیت میں دو لغتوں کو جمع کردیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” فیہ رجال یحبون ان یتطھروا، واللہ یحب المطھرین “۔ (التوبہ) ترجمہ : اس میں ایسے لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں صاف ستھرا رہنے کو اور اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے پاک صاف لوگوں سے) کمیت نے کہا ہے : وما کا نت الانصار فیھا اذلۃ ولا غیبا فیھا اذا الناس غیب “۔ اور یہ بھی کہ دو قراتیں دو آیتوں کی طرح ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ان دونوں کے مطابق عمل کیا جائے۔ اور ہم ان دونوں میں سے ہر ایک کو علیحدہ معنی پر محمول کرتے ہیں پس ہم مخفف کو اس معنی پر محمول کرتے ہیں جبکہ اس کا خون دس دنوں سے کم میں ختم ہوجائے، تو ہم اس کے ساتھ وطی کی اجازت نہیں دیتے یہاں تک کہ وہ غسل کرلے، کیونکہ آدمی خون کے دوبارہ لوٹ آنے سے محفوظ اور امن میں نہیں ہوتا اور ہم دوسری قراءت کو اس معنی پر محمول کرتے ہیں جبکہ اس کا خون اکثر مدت پر جا کر ختم ہو تو اس صورت میں اس کے ساتھ وطی جائز ہوتی ہے اگرچہ وہ غسل نہ بھی کرے۔ حضرت ابن عربی نے کہا ہے : ان کے دلائل میں سے یہ قوی ترین ہے۔ پس پہلے (استدلال) کا جواب یہ ہے کہ وہ فصحاء کے کلام میں سے نہیں ہے اور نہ ہی بلغاء کی زبان ہے، کیونکہ وہ تعداد میں تکرار کا تقاضا کرتا ہے اور جب لفظ کو ایک الگ فائدہ پر محمول کرنا ممکن ہو تو اسے لوگوں کے کلام میں تکرار پر محمول نہیں کیا جاتا، تو پھر علیم حکیم رب کریم کے کلام میں کیسے ممکن ہو سکتا ہے اور دوسرے (استدلال) کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک علیحدہ علیحدہ معنی پر محمول ہے، تو پھر ان پر لازم ہے کہ جب خون منقطع ہوجائے تو وہ اس کے لئے غسل سے پہلے رجعت کی صورت میں حیض کا حکم نہ لگائیں اور وہ اس طرح نہیں کہتے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے اور یہ عورت جب حائضہ ہے تو حیض والی عورت کے ساتھ وطی کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہوتا اور یہ بھی جو انہوں نے کہا ہے وہ اکثر مدت پر انقطاع دم اباحت وطی کا تقاضا کرتا ہے اور جو ہم نے کہا ہے وہ ممنوع ہونے کا تقاضا کرتا ہے اور جب ایسی دو دلیلوں کے درمیان تعارض آجائے جن میں سے ایک نہی کا تقاضا کرتی ہو اور دوسری اباحت کا تو ان دونوں کے باعث اور سبب کو غلبہ دیا جائے گا (پس) نہی کے سبب کو غلبہ دیا جائے گا، جیسا کہ حضرت علی اور حضرت عثمان ؓ ملک یمین کی حیثیت سے دو بہنوں کو جمع کرنے کے بارے میں کہا ہے۔ ایک آیت نے دونوں کو حلال قرار دیا ہے۔ اور دوسری نے دونوں کو حرام قرار دیا ہے اور تحریم اولی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (11) ہمارے علماء نے کتابیہ عورت کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا اسے غسل کرنے پر مجبور کیا جائے گا یہ نہیں، تو حضرت امام مالک (رح) نے ابن قاسم کی روایت میں کیا ہے : ہاں تاکہ خاوند کے لئے اس کے ساتھ وطی حلال ہوجائے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولا تقربوھن حتی یطھرن، فاذا تطھرن “۔ آپ کہتے ہیں : جب وہ پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرلیں اور یہ صرف مسلمان عورت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اور اشہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ اسے حیض کے سبب غسل پر مجبور نہ کیا جائے گا کیونکہ وہ اس کا اعتقاد ہی نہیں رکھتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ولا یحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاخر “۔ (البقرۃ : 228) ترجمہ ؛ اور جائز نہیں ان کے لئے کہ چھپائیں جو پیدا کیا ہے اللہ نے ان کے رحموں میں اگر وہ ایمان رکھتی ہوں اللہ پر اور روز آخرت پر۔ اور وہ حیض اور حمل ہے اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ خطاب صرف مومنہ عورتوں کو کیا ہے اور فرمایا ہے : (آیت) ” لا اکراہ فی الدین “۔ (البقرہ : 252) ترجمہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اور اسی طرح محمود بن عبد الحکم بھی کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (12) حائضہ عورت کے غسل کا طریقہ وہی ہے جو اس کے غسل جنابت کا طریقہ ہے، اس پر اس میں اپنے بالوں کو کھولنا لازم نہیں ہے، اس لئے کہ مسلم نے حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت بیان کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے سر کی مینڈھیاں باندھے ہوئے ہوں کیا میں غسل جنابت کے لئے انہیں کھول دوں گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ تیرے لئے اپنے سر پر تین بار پانی بہانا کافی ہوگا پھر تو اپنے سارے بدن پر پانی بہائے گی تو تو پاک ہوجائے گی۔ “ اور ایک روایت میں ہے : کیا میں (1) (سنن ابی داؤد باب : فی المراءۃ ھل تنقض شعرھا عند الغسل، حدیث نمبر : 219، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) انہیں حیض اور جنابت (کے غسل) کے لئے کھولوں گی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں “ ابو داؤد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے ” اور تو ہر چلو ڈالتے وقت اپنے سر کو خوب ملے گی۔ “ مسئلہ نمبر : (13) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ یعنی اور تم ان سے جماع کرو۔ یہ امر اباحت کے لئے ہے اور اتیان وطی سے کنایہ ہے اور یہ امر اسے مزید مضبوط اور قوی کرتا ہے جو کچھ ہم نے کہا ہے کہ تطھر سے مراد پانی کے ساتھ غسل کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صیغہ امر یقینا اکمل وجہ پر ہی واقع ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور من بمعنی فی ہے، یعنی تم اس محل میں جماع کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے اور قبل (فرج) ہے اور اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ارونی ماذا خلقوا من الارض “۔ (فاطر : 40) ترجمہ : یعنی فی الارض (مجھے تھی تو دکھاؤ زمین کا وہ گوشہ جو انہوں نے بنایا ہے۔ اور یہ ارشاد بھی ہے : (آیت) ” اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ “۔ (الجمعہ : 9) یعنی فی الجمعۃ ترجمہ : جب (تمہیں) بلایا جائے نماز کی طرف جمعہ کے دن۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی ہے یعنی اس وجہ سے جس میں تمہیں اجازت دی گئی ہے، یعنی جب تم روزے، احرام اور اعتکاف کی حالت میں نہ ہو، اصم نے یہی کہا ہے۔ اور ابن عباس اور ابو رزین نے کہا ہے : (معنی ہے) طہر کی جانب سے نہ کہ حیض کی جانب سے اور ضحاک نے بھی یہی کہا ہے۔ اور محمد بن حنیفہ نے کہا ہے : معنی ہے ” من قبل الحلال لا من قبل الزنی “ یعنی حلال طریقے سے نہ کہ زنا کے طریقے سے۔ مسئلہ نمبر : (14) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین “۔ اس میں اختلاف ہے۔ پس کہا گیا ہے کہ مراد ہے گناہوں اور شرک سے توبہ کرنے والے اور ” المتطھرون “ یعنی جنابت اور حدث کے لاحق ہونے کے وقت پانی سے طہارت اور پاکیزگی حاصل کرنے والے۔ حضرت عطا وغیرہ نے یہی کہا ہے اور حضرت مجاہد نے کہا : ” التوابین “ سے مراد گناہوں سے توبہ کرنے والے ہیں اور آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے : عورتوں کے ساتھ ان کی دبروں میں جماع کرنے سے توبہ کرنے والے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : گویا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف دیکھا ہے جو لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں بطور حکایت ہے : (آیت) ” اخرجوھم من قریتکم، انھم اناس یتطھرون “۔ (الاعراف) باہر نکال دو انہیں اپنی بستی سے یہ لوگ تو بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ اور یہ بھی قول ہے : ” المتطھرون “ وہ ہیں جنہوں نے گناہ نہیں کیے اور اگر کہا جائے کہ جس نے گناہ کیے ہیں اس کا ذکر اس پر مقدم کیسے ہو سکتا ہے جس نے گناہ نہیں کیے، تو جواب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر پہلے کیا تاکہ توبہ کرنے والا رحمت سے مایوس اور ناامید نہ ہوجائے اور متطھر اپنی ذات کے بارے میں عجب اور خود پسندی میں مبتلا نہ ہوجائے، جیسا کہ دوسری آیت میں ذکر کیا ہے۔ (آیت) ” فمنھم ظالم لنفسہ، ومنھم مقتصد، ومنھم سابق بالخیرت “۔ (فاطر : 32) اس کا بیان آگے آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top