Al-Qurtubi - Al-Baqara : 226
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ١ۚ فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو يُؤْلُوْنَ : قسم کھاتے ہیں مِنْ : سے نِّسَآئِهِمْ : عورتیں اپنی تَرَبُّصُ : انتظار اَرْبَعَةِ : چار اَشْهُرٍ : مہینے فَاِنْ : پھر اگر فَآءُوْ : رجوع کرلیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے سے قسم کھا لیں ان کو چار مہینے تک انتظار کرنا چاہئے اگر (اس عرصے میں قسم سے) رجوع کرلیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر : 226 تا 227۔ اس میں چوبیس مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” للذین یؤلون “۔ یولون کا معنی ہے وہ قسم اٹھاتے ہیں (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 302 دارالکتب العلمیہ) اور مصدر ایلاء، الیۃ، الوۃ اور الوۃ ہیں۔ حضرت ابی اور حضرت ابن عباس ؓ نے (آیت) ” للذین یقسمون “۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 302 دارالکتب العلمیہ) قرات کی ہے اور یہ بات جانی پہچانی ہے کہ یقسمون، یؤلون کی تفسیر ہے۔ اور للذین الوا بھی پڑھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے۔ : الی یولی ایلاء اور تاتی تالیا اور ائتلی ائتلاء یعنی اس نے قسم کھائی۔ اور اسی میں سے ہے : (آیت) ’ ولا یاتل اولو الفضل منکم “۔ (نور : 22) ترجمہ : اور تم میں سے صاحب فضل قسم نہ کھائیں) اور شاعر نے کہا ہے : فالیت لا انفک احد وقصیدۃ تکون وایاھا بھا مثلا بعدی : اور دوسرے نے کہا : قلیل الالایا حافظ لیمینہ وان سبقت منہ الالیۃ برت : (4) زادالمیسر، جلد 1 صفحہ 215، دارالکتب العلمیہ۔ کم قسمیں کھانے والا اپنی قسم کی پاسداری کرتا ہے اور اگر اس سے قسم صادر ہوجائے تو وہ پوری ہوجاتی ہے۔ اور ابن درید نے کہا ہے : الیۃ بالیعملات یرتمی بھا النجاء بین اجواز الفلا ‘: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ دور جاہلیت کا ایلاء ایک سال، دو سال اور اس سے زیادہ عرصہ کا تھا۔ وہ اس سے رات کے وقت عورت کو اذیت پہنچانے کا قصد کرتے تھے، پس ان کے لئے چار ماہ رکھے گئے اور جس نے اس سے کم عرصہ کے لئے ایلاء کیا تو وہ حکما ایلاء نہ ہوگا۔ (5) (احکام القرآن ابن عربی جلد، 1 صفحہ 177، داراحیاء التراث العربیۃ) میں (مفسر) کہتا ہوں : حضور نبی مکرم ﷺ نے ایلاء کیا اور طلاق دی اور آپ ﷺ کے ایلاء کا سبب آپ سے ازواج مطہرات کا ایسے نفقہ کا سوال تھا جو آپ ﷺ کے پاس نہ تھا، اسی طرح صحیح مسلم میں ہے اور کہا گیا ہے، کیونکہ حضرت زینب ؓ نے آپ ﷺ کا ہدیہ آپ پر واپس لوٹا دیا تھا، پس اس سے آپ ﷺ غصے ہوگئے اور ان سے ایلاء کرلیا (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب الایلاء جلد 1، صفحہ 148، وزارت تعلیم) اسے ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) ایلاء ہر اس کے لئے ثابت ہوتا ہے جس کے لئے طلاق ثابت ہے، پس آزاد، غلام اور سکران (نشے والا) ہر ایک کو ایلاء لازم ہوتا ہے اور اسی طرح سفیہ (احمق) اور جس پر ایلاء کیا جائے بشرطیکہ وہ بالغ اور غیر مجنون ہو اور اسی طرح خصی ہے جبکہ وہ مقطوع الذکر نہ ہو اور بوڑھا آدمی جبکہ اس میں رمق اور نشاط باقی ہوں۔ مقطوع الذکر آدمی جب ایلاء کرے تو اس بارے میں امام شافعی (رح) کا قول مختلف ہے۔ ایک قول زیادہ صحیح اور کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ رجوع وہ ہے جو قسم کو ساقط کردیتا ہے اور رجوع بالقول اسے ساقط نہیں کرتا تو جب حنث سے مانع قسم باقی ہے تو پھر ایلاء کا حکم بھی باقی ہوگا اور گونگے آدمی کا ایلاء ایسی تحریر یا اشارہ کے ساتھ ہوتا ہے جو سمجھا جاسکتا ہو اور وہ اس کو لازم ہو۔ اسی طرح عجمیوں کا حکم ہے جب وہ اپنی عورتوں سے ایلاء کرلیں۔ مسئلہ نمبر : (3) علماء کا اس بارے اختلاف ہے جس کے ساتھ قسم میں سے ایلاء واقع ہوتا ہے۔ پس ایک قوم نے کہا ہے : ایلاء واقع نہیں ہوتا مگر اللہ وحدہ لاشریک کی قسم کھانے کے ساتھ۔ (2) (احکام القرآن ابن عربی جلد، 1 صفحہ 177، داراحیاء التراث العربیۃ) کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا : من کان حالفا فلیحلف باللہ اولیصمت۔ (3) (بخاری شریف : کتاب الایمان، باب : لا تحلفوا بابائکم، جلد 2 صفحہ 983، وزارت تعلیم) (ایضا، کتاب الشہادات حدیث نمبر 2482، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی جو کوئی قسم اٹھانے والا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائے یا پھر وہ خاموش رہے۔ ) امام شافعی نے بھی اپنے جدید قول میں یہی کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : ” ہر وہ قسم جو جماع سے روکے تو وہی ایلاء ہے۔ (4) (احکام القرآن ابن عربی جلد، 1 صفحہ 356، داراحیاء التراث العربیۃ) اور اسی کے مطابق شعبی، نخعی مالک، اہل حجاز، سفیان ثوری، اہل عراق، امام شافعی (رح) نے اپنے دوسرے قول میں، ابو ثور، ابو عبید، ابن منذر اور قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا ہے۔ ابن عبد البر نے کہا ہے : ہر وہ قسم جس کے سبب حالف اپنی بیوی کے ساتھ جماع کی قدرت نہ رکھتا ہو کہ وہ حانث ہوجائے گا تو وہ اس کے سبب ایلاء کرنے والا ہوگا۔ بشرطیکہ اس کی قسم چار مہینوں سے زیادہ کی ہو، پس ہر وہ جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات اور اس کی کفالت، اس کا عہد اور اس کا ذمہ ہے کہا تو اس پر ایلاء لازم ہوجائے گا، اور اگر اس نے کہا : اقسم یا اعزم اور ساتھ باللہ کا ذکر نہ کیا تو کہا گیا ہے : اس پر ایلاء واقع نہ ہوگا، مگر یہ کہ وہ باللہ کا ارادہ کرے اور اس کی نیت کرے، اور جس نے کہا ہے کہ یہ قسم ہے تو اس پر ایلاء واقع ہوجائے گا، اس کا تفصیلی بیان ” سورة المائدۃ “ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اگر کسی نے روزوں کے ساتھ قسم کھائی کہ وہ اپنے بیوی سے وطی نہ کرے گا اور کہا : اگر میں تجھ سے وطی کروں تو مجھ پر ایک ماہ یا ایک سال کے روزے تو وہ ایلاء کرنیو الا ہوجائے گا۔ اور اسی طرح ہر وہ جو حج، طلاق، عتق، نماز یا صدقہ میں سے اپنے ذمہ لازم کرتا ہے (تو وہ مولی ہوجائے گا) اور ان تمام میں بنیاد اور اصل قول باری تعالیٰ کی عمومیت ہے : (آیت) ” للذین یؤلون “ اور کوئی فرق نہیں ہے جب اس نے صدقہ یا معین غلام کی آزادی یا غیر معین غلام کی آزادی کے ساتھ ایلاء کیا تو ثابت ہوجائے گا۔ مسئلہ نمبر : (4) اگر کسی نے قسم کھائی قسم بخدا ! وہ وطی نہ کرے گا اور استثناء کردی اور کہا : انشاء اللہ تعالیٰ ، تو بلاشبہ وہ ایلاء کرنے والا ہوجائے گا اور اگر اس نے اس سے وطی کی تو اس پر کفارہ نہیں ہوگا، یہ امام مالک سے ابن قاسم کی روایت میں ہے اور ابن ماجشون نے المبسوط میں کہا ہے : وہ مولی نہیں ہوگا، یہی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ استثناء (ان شاء اللہ کہنا) قسم کو کھول دیتا ہے، اور حالف کو اس طرح کردیتا ہے گویا کہ اس نے قسم کھائی ہی نہیں اور یہی فقہائے امصار کا مذہب ہے، کیونکہ انشاء اللہ کہہ کر اس نے وضاحت کردی ہے کہ وہ فعل کا قصد کرنے والا نہیں (1) (احکام القرآن ابن عربی جلد، 1 صفحہ 178، داراحیاء التراث العربیۃ) اور اس کی وجہ سے ابن القاسم نے روایت کیا ہے اس کی بناء اس پر ہے کہ استثناقسم کو نہیں کھولتا، البتہ وہ کفارہ کو ساقط کرنے میں موثر ہوتا ہے، اس کا بیان سورة المائدہ میں آئے گا، پس جب اس کی قسم باقی ہے، منعقد ہوچکی ہے تو پھر ایلاء کا حکم اسے لازم ہوگا، اگرچہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (5) اگر کسی نے نبی (علیہ السلام) ، ملائکہ یا کعبہ معظمہ کے ساتھ قسم کھائی کہ وہ اس سے وطی نہ کرے گا یا اس نے کہا : وہ یہودی یا نصرانی یا زانی اگر وہ اس سے وطی کرے، تو اس صورت میں وہ ایلاء کرنے والا نہ ہوگا (2) المدونۃ الکبری، کتاب الایلاء واللعان باب فمن قال علی نذر، جلد 6، صفحہ 86، الساعدۃ بجوار محافظۃ مصر) امام مالک (رح) وغیرہ نے اسی طرح کہا ہے، الباجی نے کہا ہے : میرے نزدیک اس کا معنی ہے کہ وہ اسے قسم کے طریقہ کے بغیر لایا ہے اور اگر وہ اسے اس ارادہ پر لایا کہ ان میں سے یا کوئی اور جو الفاظ اس نے اسے کہے ہیں وہ اس کے ساتھ ایلاء کرنے والا ہے۔ تو المبسوط میں ہے کہ ابن القاسم سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو کہتا ہے : لا مرحبا اور اس سے وہ ایلاء کا ارادہ کرتا ہے وہ مولی ہوجائے گا، تو انہوں نے ذکر کیا کہ امام مالک (رح) نے فرمایا : ہر وہ کلام جس سے اس نے طلاق کی نیت کی تو وہ طلاق ہوجاتی ہے۔ اور یہ (ایلائ) اور طلاق دونوں برابر ہیں۔ مسئلہ نمبر : (6) قرآن کریم میں مذکور ایلاء کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : کوئی ایلاء کرنے والا نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ یہ قسم کھائے کہ وہ ہمیشہ عورت کو مس نہیں کرے گا۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : جب کسی نے قسم کھائی کہ وہ ایک دن یا کچھ کم یا کچھ زیادہ اپنی بیوی کے قریب نہیں آئے گا پھر اس نے چار مہینے تک وطی نہ کی تو وہ عورت ایلاء کے سبب اس سے جدا ہوجائے گی۔ یہ حضرت ابن مسعود ؓ نخی، ابن ابی لیلی، حکم، حماد بن ابی سلیمان اور قتادہ رحمۃ اللہ علہیم سے مروی ہے اور یہی اسحاق نے بھی کہا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : کثیر اہل علم نے اس قول کا انکار کیا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) اور جمہور نے کہا ہے : ایلاء یہ ہے کہ آدمی قسم کھائے کہ وہ چار مہینے سے زیادہ (عرصہ) وطی نہ کرے گا۔ پس اگر اس نے چار ماہ اور ان سے کم کی قسم کھائی تو وہ مولی نہ ہوگا اور ان کے نزدیک وہ صرف قسم ہے۔ اگر اس نے اس مدت کے دوران وطی کی تو اس پر کوئی شے نہ ہوگی جیسا کہ تمام قسموں میں ہوتا ہے یا امام مالک (رح) امام شافعی (رح)، امام احمد اور ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے۔ اور ثوری اور علماء کوفہ نے کہا ہے کہ ایلاء یہ ہے کہ آدمی چار مہینے اور کچھ زائد کی قسم کھائے اور یہی حضرت عطاء (رح) کا قول ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) اہل کوفہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ایلاء میں چار مہینے مہلت مقرر کی ہے جیسا کہ اس نے عدت وفات کے لئے چار ماہ دس دن اور عدت میں تین حیض مقرر کیے ہیں اور اس کے بعد کوئی مہلت اور انتظار نہیں۔ انہوں نے کہا : مدت کے بعد ایلاء کا ساقط ہونا واجب ہوجاتا ہے اور وہ ساقط نہیں ہوتا مگر فئی (رجوع) کے ساتھ اور اس سے مراد مدت کے اندر جماع کرنا ہے (ورنہ) چار مہینے گزرنے کے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی رحمۃ اللہ علہیم نے استدلال کیا ہے اور دونوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ایلاء کرنے والے کے لئے چار ماہ مدت مقرر کی ہے۔ پس یہی اس کی کامل مدت ہے، اس دوران اس کی بیوی کو اس پر کوئی اعتراض (کا حق) نہیں۔ جیسا کہ دین مؤجل کا مالک مدت مکمل ہونے کے بعد ہی اس کے بارے مطالبے کا استحقاق رکھتا ہے۔ اور حضرت اسحاق کے قول کی وجہ مدت کم ہونے کے بارے میں (یعنی چار ماہ سے کم) کہ اس کے ساتھ بھی قسم کھانے والا مولی ہوجاتا ہے بشرطیکہ وہ وطی نہ کرے۔ اس کا قیاس چار مہینے سے زیادہ کی قسم کھانے والے پر ہے کیونکہ وہ مولی ہوجاتا ہے، کیونکہ قسم سے مقصود ضرر اور اذیت پہنچانا ہے اور یہ معنی قلیل مدت میں بھی موجود ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اس بارے اختلاف ہے کہ جس نے چار مہینے سے زیادہ مدت اپنی بیوی سے وطی نہ کرنے کی قسم کھائی اور چار ماہ گزر گئے اور عورت نے اس سے مطالبہ نہ کیا اور اسے نہ سلطان وقت کے پاس پیش کیا تاکہ وہ اسے مطلع کرے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) تو امام مالک، آپ کے اصحاب اور اکثر اہل مدینہ کے نزدیک اس پر کوئی شے لازم نہ ہوگی۔ اور ہمارے علماء میں سے بعض کہتے ہیں کہ چار ماہ گزرنے کے ساتھ ایک طلاق رجعیہ اس پر لازم ہوجائے گی اور ان سے بعض اور کچھ دوسرے علماء کہتے ہیں : چار مہینے گزرنے کے ساتھ اسے ایک طلاق بائنہ لازم ہوگی اور صحیح قول وہ ہے جو امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب نے اختیار کیا ہے اور وہ یہ کہ مولی کو طلاق لازم نہیں ہوتی، یہاں تک کہ حاکم وقت اسے اس کی بیوی کے مطالبہ کے بارے میں آگاہ کرے تاکہ وہ رجوع کرلے تو وہ اپنی بیوی کی طرف وطی کے ساتھ رجوع کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے یا وہ طلاق دے دے اور (حاکم) اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ رجوع کرلے یا طلاق دے دے۔ اور فئی (رجوع) سے مراد اجماع کرنا ہے جس صورت میں اس کے ساتھ مجامعت ممکن ہو۔ سلیمان بن یسار نے کہا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں نو (یا انیس) آدمی تھے جو ایلاء میں توقف کرتے تھے۔ امام مالک نے کہا : یہ حکم ہمارے نزدیک ہے اور اسی طرح لیث، شافعی، احمد، ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اور اسے ابن منذر نے پسند کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) اور ایلاء کرنے والے کی مدت قسم کھانے کے دن سے شروع ہوگی نہ کہ اس دن سے جس دن اس کی زوجہ اس سے جھگڑے اور اسے حاکم کے پاس پیش کرے اور اگر عورت نے اس کے ساتھ جھگڑا کیا اور وہ اس کے مباشرت نہ کرنے کے ساتھ راضی نہ ہوئی تو حاکم قسم کے دن سے اس کے لئے چار مہینے کی مدت مقرر کر دے، پس اگر اس نے مباشرت کی تو اس نے زوجہ کے حق کی طرف رجوع کرلیا اور وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے، اور اگر اس نے رجوع نہ کیا تو وہ اس پر طلاق رجعیہ ڈال دے۔ امام مالک نے فرمایا : اگر اس نے رجوع کرلیا تو اس کا رجوع کرنا صحیح نہ ہوگا یہاں تک کہ وہ عدت میں مقاربت اختیار کرے۔ ابہری نے کہا ہے : اس میں طلاق کا واقع ہونا دفع ضرر کے لئے ہے تو جب اس نے مقاربت نہ کی تو ضرر باقی رہاتو اس صورت میں رجعت کا کوئی معنی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے لئے کوئی عذر ہو جو اسے مقاربت سے روکتا ہو تو پھر اس کا رجوع صحیح ہوگا، کیونکہ ضرر زائل ہوجائے گا اور وطی سے اس کا باز رہنا ضرر پہنچانے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ تو عذر کی وجہ سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) حالت غضب کے سوا ایلاء کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، سو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : حالت غضب کے سوا ایلاء نہیں ہوتا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 302 دارالکتب العلمیہ) اور اس کے بارے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے حدیث مشہور میں یہی مروی ہے اور اسی طرح لیث، شعبی، حسن اور عطا رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے، یہ سب کہتے ہیں : ایلاء نہیں ہوتا مگر اس وجہ سے کہ وہ باہم ایک دوسرے پر غصے ہوں، آپس میں جھگڑ رہے ہوں، تنگ ہوں اور تکلیف دینا مقصود ہو کہ وہ اسے ضرر پہنچانے اور اذیت دینے کے لئے اس کے ساتھ مجامعت نہیں کرے گا، چاہے اس کے ضمن میں بچے کی اصلاح مقصود ہو یا نہ ہو اور اگر یہ غضب کی وجہ سے نہ ہو تو پھر ایلاء نہیں ہوگا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 302 دارالکتب العلمیہ) اور ابن سیرین نے کہا ہے : چاہے قسم حالت غضب میں ہو یا بغیر غضب کے ہو وہ ایلاء ہے، یہی حضرت ابن مسعود ؓ ثوری، مالک، اور اہل عراق، امام شافعی، اور آپ کے اصحاب اور امام احمد رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے مگر امام مالک (رح) نے کہا ہے : جب اس نے بچے کی اصلاح کا ارادہ نہ کیا ہو (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 302 دارالکتب العلمیہ) ۔ ابن منذر نے کہا ہے : یہی اصح ہے کیونکہ انہوں نے جب اس پر اجماع کیا ہے کہ ظہار، طلاق اور تمام قسمیں حکم میں برابر ہیں، چاہے حالت غضب میں ہوں یا حالت رضا میں تو پھر ایلاء بھی انہیں کی طرح ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں اور اس پر قرآن کریم کا عام حکم دلالت کرتا ہے اور حالت غضب کی تخصیص دلیل کی محتاج ہے اور ایسی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی جو اسے لازم قرار دے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (10) ہمارے علماء نے کہا ہے : وہ آدمی جو بغیر ایسی قسم کے اپنی بیوی کی مقاربت سے رکا رہا جو اس نے بیوی کو ستانے کے لئے قسم کھائی ہو۔ تو اسے اس کے ساتھ مباشرت کا حکم دیا جائے اور اگر وہ انکار کر دے اور اسے ضرر پہنچانے کے لئے امتناع وطی پر قائم رہے تو بغیر مدت مقرر کیے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کردی جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے لئے مدت ایلاء مقرر کی جائے گی اور یہ قول بھی ہے کہ آدمی کا اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرنے کی صورت میں اس پر ایلاء داخل نہ ہوگا، اگرچہ وہ کئی سال تک اس سے مقاربت نہ کرنے پر قائم رہے، لیکن اسے نصیحت کی جائے گی اور اسے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا جائے گا کہ وہ اسے ضرر اور تکلیف پہنچانے کے لئے نہ روکے رکھے۔ مسئلہ نمبر : (11) اور اس کے بارے میں بھی اختلاف ہے جس نے یہ قسم کھائی کہ وہ اپنی بیوی سے مجامعت نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ اپنے بچے کو دودھ نہ چھڑا لے، تاکہ حاملہ اپنے بچے کو دودھ نہ پلائے اور وہ اسے ضرر پہنچانے کا ارادہ نہ کرے یہاں تک کہ مدت رضاع گزر گئی تو امام مالک (رح) کے نزدیک بچے کی اصلاح کا ارادہ ہونے کی بنا پر اس کی بیوی کو مطالبے کا حق حاصل نہیں۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اسے ایلاء نہ قرار دیا۔ (1) (مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب الایلاء جلد 1، صفحہ 515، وزارت تعلیم) امام شافعی (رح) نے بھی اپنے دو قولوں میں سے ایک میں یہی کہا ہے اور دوسرے قول یہ ہے کہ وہ مولی ہوجائے گا اور بچے کو دودھ پلانے کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اور یہی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے بھی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (12) امام مالک امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، اوزاعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علہیم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ آدمی ایلاء کرنے والا نہ ہوگا جس نے یہ قسم کھائی کہ وہ اپنی زوجہ سے اس کمرے میں یا اس گھر میں دخول نہ کرے گا کیونکہ وہ مقاربت کے لئے اس کے سوا اور جگہ بھی پا سکتا ہے۔ ابن ابی لیلی اور اسحاق نے کہا ہے : اگر اس نے اسے چار ماہ تک چھوڑے رکھا تو وہ ایلاء کے ساتھ جدا ہوجائے گی، کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ اس سے چار ماہ تک رکا رہا ہے اور اگر اس نے یہ قسم کھائی کہ وہ اس سے اس مصر یا اس شہر میں وطی نہ کرے گا تو امام مالک (رح) کے نزدیک وہ مولی ہوجائے گا۔ اور ایسا بلاشبہ سفر میں ہوتا ہے کہ وہ مشقت اور کلفت برداشت کرتا ہے نہ کہ اپنے باغ یا اپنے قریبی کھیتوں میں۔ مسئلہ نمبر : (13) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من نسآئھم “ اس میں آزاد عورتیں، ذمیہ عورتیں اور لونڈیاں سبھی داخل ہیں جب وہ شادی کرلیں اور غلام کا ایلاء بھی اپنی بیوی سے ثابت ہوجاتا ہے۔ امام شافعی (رح) احمد اور ابو ثوررحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ غلام کا ایلاء بھی آزاد آدمی کے ایلاء کی مثل ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) ان کی دلیل اس قول باری تعالیٰ کا ظاہر ہے۔ (آیت) ” للذین یؤلون من نسآئھم “ کیونکہ یہ تمام ازواج کے لئے ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : اور یہی میں بھی کہتا ہوں۔ امام مالک (رح) زہری (رح)، عطا بن ابی رباح (رح)، اور اسحاق ِ (رح)، نے کہا ہے : اس (غلام) کی مدت دو مہینے ہے۔ اور حسن اور نخعی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : اگر غلام کی بیوی کسی کی لونڈی ہو تو اس کے ایلاء کی مدت دو مہینے ہے اور اگر وہ آزاد ہو تو اس کے ایلاء کی مدت چار مہینے ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے بھی کہا ہے، اور حضرت شعبی (رح) نے کہا ہے : لونڈی کے ایلاء کی مدت آزاد عورت کے ایلاء کا نصف ہے۔ مسئلہ نمبر : (14) امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب، اوزاعی اور نخعی وغیرہم نے کہا ہے کہ ایلاء کے لازم ہونے میں مدخول بہا اور غیر مدخول بہا دونوں برابر ہیں۔ اور زہری، عطا اور ثوری رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ ایلاء نہیں ہوتا مگر دخول کے بعد۔ اور امام مالک نے کہا ہے : صغیرہ عورت میں ایلاء نہیں ہوتا جب تک وہ بالغ نہ ہو اور اگر اس نے اس سے ایلاء کیا اور وہ بالغ ہوگئی تو اس کے بالغ ہونے کے دن سے ایلاء لازم ہوجائے گا۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (15) اور رہا ذمی تو اس کا ایلاء صحیح نہیں ہوتا، جس طرح کہ اس کی جانب سے ظہار اور طلاق درست نہیں ہوتے اور وہ اس لئے کہ ہمارے نزدیک اہل شرک کا نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے لئے نعمت اور احسان کے مشابہ ہے اور اس لئے بھی کہ وہ شریعت کے مکلف نہیں کہ ان پر قسموں کے کفارات لازم ہوں اور اگر وہ ہمارے پاس ایلاء کا مقدمہ پیش بھی کریں تو ہمارے حاکم کو نہیں چاہئے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے اور وہ اپنے حکام کی طرف جائیں گے اور اگر ان کے درمیان ایک دوسرے پر ظلم ہونے لگے تو پھر یہ حکم اسلام کے مطابق فیصلہ کرے، جیسا کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کے لئے بغیر قسم کے اس سے وطی چھوڑ دے۔ مسئلہ نمبر : (16) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” تربص اربعۃ اشھر “۔ التربص کا معنی ہے : مہلت دینا اور تاخیر کرنا، یہ تصبر (مصنوعی صبر) کا الٹ (مقلوب) ہے۔ شاعر نے کہا ہے : تربص بھا ریب المنون لعلھا تطلق یوما او یموت حلیلھا : تو اس کے ساتھ حوادثات زمانہ کا انتظار کر شاید کسی دن اسے طلاق ہوجائے گی یا اس کا خاوند فوت ہوجائے گا۔ اور رہا چار مہینے وقت مقرر کرنے کا فائدہ تو حضرت ابن عباس ؓ نے اس بارے میں اہل جاہلیت سے جو ذکر کیا ہے وہ پہلے گزر چکا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس (ایلائ) سے منع فرما دیا اور دوری اور علیحدگی کے ساتھ عورت کو ادب سکھانے کے لئے خاوند کے لئے چار مہینے مدت مقرر کردی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” واھجروھن فی المضاجع “۔ (النسائ : 34) ترجمہ : اور تم انہیں بستروں میں چھوڑ دو ۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے بھی اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ انہیں ادب سکھانے کے لئے ایک ماہ تک ایلاء کیا اور کہا گیا کہ چار مہینے وہ ہیں جن سے زیادہ کوئی خاوند صبر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کسی رات مدینہ طیبہ میں گشت کر رہے تھے تو آپ نے ایک عورت کی آواز سنی، وہ یہ اشعار کہہ رہی تھی : الاطال ھذا اللیل واسود جانبہ وارقنی ان لاحبیب الاعبہ۔ فو اللہ لو لا اللہ لا شیء غیرہ لزعزع من ھذا السریر جوانبہ۔ مخافۃ ربی والحیاء یکفنی واکرام بعلی ان تنال مراکبہ۔ جب صبح ہوئی تو حضرت عمر ؓ نے اس عورت کو طلب کیا اور اس سے پوچھا : تیرا خاوند کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : آپ نے اسے عراق بھیجا ہوا ہے پھر آپ نے عورتوں کو بلایا اور ان سے پوچھا : ایک عورت کتنی دیر تک اپنے خاوند کے بغیر صبر کرسکتی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : دو مہینے اور تیسرے مانہ اس کا صبر کم ہوجاتا ہے اور چوتھے ماہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے، پس حضرت عمر ؓ نے ایک آدمی کے جہاد کے مدت چار مہینے مقرر کردی، جب چار ماہ گزر جاتے تو آپ جہاد کرنے والے لشکر کو واپس بلا لیتے اور ان کی جگہ دوسرا لشکر بھیج دیتے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے یہ بات بھی مدت ایلاء کے چار مہینوں کے ساتھ اختصاص کو قوی کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (17) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان فآء و “۔ اس کا معنی ہے : پھر اگر انہوں نے رجوع کرلیا اور اس سے یہ بھی ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) (آیت) ” حتی تفی الی امر اللہ “ اور اس معنی میں زوال کے بعد والے سایہ کو فیء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مشرق کی جانب سے مغرب کی جانب لوٹ آتا ہے، کہا جاتا ہے۔ ” فاء فیء فیئۃ وفیوءا۔ وانہ لسریع الفیئۃ یعنی وہ رجوع میں تیز رفتار ہے۔ شاعر نے کہا : ففاءت ولم تقض الذی اقبلت لہ ومن حاجۃ الانسان مالیس قاضیا۔ پس وہ لوٹ آئی اور اس نے اسے پورا نہ کیا جس کے لیے آئی اور انسان کی حاجت پوری ہونے والی نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (18) ابن منذر نے کہا ہے : اہل علم میں سے وہ سب کے سب جن سے کچھ محفوظ اور یاد کیا جاتا ہے وہ اس پر ہیں کہ فیء سے مراد اس آدمی کا جماع کرنا ہے جس کا کوئی عذر نہ ہو اور اگر اس کا کوئی عذر ہو (مثلا) وہ بیمار ہوجائے، قید ہوجائے یا اس کے مشابہ کوئی اور عذر ہو تو بلاشبہ اس کا رجوع صحیح ہوگا اور یہ اس کی بیوی ہوگی اور جب سفر سے آنے کے سبب یا مرض سے افاقہ پانے کے سبب عذر زائل ہوجائے یا قید سے رہائی پانے کے سبب (عذر ختم ہوجائے) اور وہ وطی سے انکار کر دے تو ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی، بشرطیکہ مدت ایلاء گزر چکی ہو۔ امام مالک نے المدونہ میں اور المبسوط میں یہی کہا ہے۔ اور عبدالملک نے کہا ہے : وہ عورت مولی سے اس دن سے جدا ہوگی جس دن مدت ختم ہوئی، پس اگر رجوع کے ساتھ اس کا عذر سچا ہوا جبکہ عورت نے اسے قدرت دی تو گزرے ہوئے ایام میں بھی اس کے سچا ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور اگر عورت پر قدرت حاصل ہونے کے وقت (وطی سے) انکار کے ساتھ جس رجوع کا دعوی کیا تھا اس کی تکذیب کردی، تو اس کے معاملہ کو جھوٹ اور جھگڑے پر محمول کیا جائے گا اور اس وقت میں جو کچھ احکام واجب ہوتے ہیں وہ بیان کردیئے گئے ہیں۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : جب عذر کی حالت میں گواہوں نے اس کے رجوع کے بارے شہادت دی ہے تو وہ اس کے لئے کافی ہوگی۔ حسن، عکرمہ اور نخعی نے یہی کہا ہے اور امام اوزاعی نے بھی یہی کہا ہے۔ اور نخعی نے بھی کہا ہے : صرف قول اور شہادت کے ساتھ رجوع صحیح ہوتا ہے اور ایلاء کا حکم ساقط ہوجاتا ہے، تیرا کیا خیال ہے اگر اسے وطی کے مواقع میسر نہ ہوں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اگر اس نے مباشرت نہ کی تو اس قول کو باب ضرر کی طرف لوٹایا جائے گا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 303 دارالکتب العلمیہ) اور امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا ہے : اگر وہ جماع پر قادر نہ ہو تو وہ یہ کہے : میں نے اس (بیوی) کی طرف رجوع کرلیا۔ ال کیا الطبری نے کہا ہے : امام ابوحنیفہ (رح) ایسے آدمی کے بارے میں فرماتے ہیں جس نے ایلاء کیا درآنحالیکہ وہ مریض تھا اور اس کے اور اس کی بیوی کے مابین چار ماہ کی مسافت تھی یا یہ رتقاء تھی یا صغیرہ تھی یا آدمی مقطوع الذکر تھا تو جب اس نے اس کی طرف زبان سے رجوع کیا اور مدت گزر گئی اور عذر ابھی تک موجود تھا تو وہ رجوع صحیح ہے۔ امام شافعی (رح) اپنے دو قولوں میں سے ایک میں ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : جماع کے بغیر رجوع نہیں ہو سکتا، چاہے حالت عذر ہو یا غیر عذر اور اسی طرح حضرت سعید بن جبیر ؓ نے بھی کہا ہے : فرمایا : اور اسی طرح حکم ہے اگر وہ سفر میں ہو یا قید میں۔ مسئلہ نمبر : (19) امام مالک (رح)، امام شافعی (رح)، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور جمہور علماء رحمۃ اللہ علہیم نے مولی پر کفارہ واجب کیا ہے جب وہ اپنی بیوی کی طرف جماع کے ساتھ رجوع کرلے۔ اور حسن (رح) نے کہا ہے : اس پر کفارہ نہیں ہے۔ (2) جامع البیان، جلد 2، صفحہ 511، داراحیاء التراث العربیۃ “۔ اسی طرح نخعی (رح) نے کہا ہے۔ حضرت نخعی (رح) نے بیان کیا ہے وہ کہا کرتے تھے : جب مولی رجوع کرلے تو اس پر کفارہ نہیں ہوگا اور اسحاق (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” فان فآء و “ میں بعض اہل تاویل نے کہا ہے : یعنی اس قسم کے لئے جس میں وہ حانث ہوئے (اگر انہوں نے رجوع کرلیا) قسم میں بعض تابعین کا ان کے بارے میں یہی مذہب ہے جنہوں نے نیکی، تقوی یا کسی بھی بھلائی اور خیر کے خلاف یہ قسم کھائی کہ وہ اسے نہیں کرے گا، پھر وہ اسے کرے اس پر کوئی کفارہ نہ ہوگا اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فان فآء و فان اللہ غفور رحیم “۔ اس میں کفارہ کا ذکر نہیں کیا اور یہ بھی کہ یہ اس معنی پر مترتب ہوتا ہے کہ یمین لغو وہ ہے جو کسی معصیت پر قسم کھائی جائے اور زوجہ کے ساتھ وطی ترک کرنا معصیت ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : کبھی اس قول کے لئے سنت سے استدلال کیا جاتا ہے، حضرت عمرو بن شعیب نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی کام پر قسم کھائی پھر اس کے غیر کو اس سے بہتر اور اچھا پایا تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ترک کر دے کیونکہ اسے ترک کرنا ہی اس (قسم) کا کفارہ ہے (3) (سنن ابن ماجہ، کتاب الکفارات، باب من قال کفار تھا ترکھا، جلد 1، صفحہ 154، وزارت تعلیم) اسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ اس کا مزید بیان آیۃ ایمان میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور جمہور کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے : ” من حلف علی یمین فرای غیرھا خیرا فلیات الذی ھو خیر والیکفر عن یمینہ “۔ (4) (سنن ابن ماجہ، کتاب الکفارات، باب من حلف علی یمین، جلد 1، صفحہ 153، وزارت تعلیم) (کہ جس نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اس کے غیر کو اس سے بہتر اور اچھا پایا تو اسے چاہیے کہ وہ کرے جو بہتر اور اچھا ہو اور اپنی قسم کی طرف سے کفارہ ادا کر دے) مسئلہ نمبر : (20) جب اس نے قسم کی طرف سے کفارہ ادا کردیا تو اس سے ایلاء ساقط ہوگیا، ہمارے علماء نے یہی کہا ہے۔ اس میں ایک مذہب کے مطابق حنث پر کفارہ کو مقدم کرنے پر دلیل ہے، ایلاء کے مسئلہ میں یہی اجماع ہے اور ایمان کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہ (رح) کے خلاف دلیل ہے کیونکہ آپ حنث پر کفارہ کو مقدم کرنے کے جواز کے قائل نہیں (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 182، دارالفکر) ابن عربی نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (21) میں (مفسر) کہتا ہوں : اس آیت سے امام محمد بن حسن (رح) نے حانث ہونے سے پہلے کفارہ جائز نہ ہونے پر استدلال کیا ہے اور کہا ہے : جب اللہ تعالیٰ نے مولی کے لئے دو فیصلوں میں سے ایک کے بارے حکم دیا ہے یعنی رجوع یا طلاق کا ارادہ، پس اگر حانث ہونے پر کفارہ کی تقدیم جائز ہو تو یقینا رجوع یا طلاق کے ارادہ کے بغیر ہی ایلاء باطل ہوگیا، کیونکہ اگر وہ حانث ہوا تو حنث کے سبب کوئی شے اس پر لازم نہ ہوگی اور جب حانث پر قسم توڑنے کے سبب کوئی سے لازم نہیں تو وہ مولی نہ ہوا۔ اور کفارہ کو مقدم کرنے کے جواز میں ایلاء کے حکم کو اس کے بغیر ساقط کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور یہ کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (22) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم “۔ (227) اس میں العزیمۃ کا معنی ہے : کسی شے پر عقد کو مکمل کرنا، کہا جاتا ہے : عزم علیہ یعزم عزما وعزمۃ وعزما وعزمانا، واعتزم اعتزاما، وعزمت علمیک لتفعلن ‘ یعنی میں نے تجھ پر قسم کھائی کہ تو ضرور ایسا کرے گا۔ شمر نے کہا ہے : العزمۃ والعزم، اس سے مراد تیرا کسی کام پر اپنے آپ کو پختہ اور مضبوط کرنا ہے کہ تو اسے کرے گا، اور الطلاق من طلقت المراۃ تطلق (یہ نصر ینصر کے وزن پر ہے) طلاقا، (میں نے عورت کو طلاق دی وہ طلاق والی ہوگئی) فھی طالق وطالقۃ۔ (یعنی صفت کا صیغہ مذکر اور مونث دونوں طرح آتا ہے) اعشی نے کہا ہے : ایا جارتا بینی فانک طالقۃ : اے میری زوجہ ! تو مجھ سے علیحدہ ہوجا کیونکہ تو طلاق والی ہے۔ اور طلقت میں (لام کو مضموم پڑھنا بھی) جائز ہے مثلا عظم یعظم اور اخفش نے اس کا انکار کیا ہے اور طلاق سے مراد ہے نکاح کی گرہ کو کھولنا اور اس کی اصل الائطلاق (جانا) ہے اور المطلقات سے مراد المخلیات ہے (یعنی وہ عورتیں جنہیں آزاد چھوڑ دیا گیا) اور الطلاق کا معنی ہے : تخلیۃ (فارغ چھوڑ دینا) کہا جاتا ہے : نعجۃ طالق وناقۃ طالق : یعنی وہ بھیڑ یا اونٹنی جسے کھیت میں مہمل چھوڑ دیا جائے، اس پر کوئی رکاوٹ (قید) نہ ہو اور نہ ہی کوئی چرواہا ہو۔ اور بعیر طلق (طاء اور لام کے ضمہ کے ساتھ) یعنی وہ اونٹ جو بندھے ہوئے نہ ہوں، اور اس کی جمع اطلاق ہے۔ اور حبس فلان فی السجن طلقا ای بغیر قید “ ، یعنی فلاں کو قید خانہ میں بغیر بیڑی اور قید کے بند کیا گیا ہے اور الطالق من الابل : یعنی وہ اونٹنی جسے چرواہا اپنے لئے چھوڑ دیتا ہے وہ اسے پانی پر نہیں دوہتا ہے، کہا جاتا ہے : استطلق الراعی ناقۃ لنفسہ۔ چرواہے نے اونٹنی اپنے لئے آزاد چھوڑ دی اور یہی نام اس عورت کو دے دیا گیا ہے جس کا راستہ چھوڑ دیا جائے جیسا کہ یہی نام اس بھیڑ یا ناقہ کو دیا گیا ہے جس کا معاملہ مہمل ہو۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ طلق الفرس سے ماخوذ ہے، اس کا معنی ہے گھوڑے کا دور چلے جانا، اس کے لئے کوئی مانع اور رکاوٹ نہ ہو۔ پس وہ عورت جسے آزاد چھوڑ دیا جائے اس کو طالق کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اب اس کے لئے کوئی مانع نہیں ہوتا جبکہ اس سے پہلے اس کے لئے رکاوٹ تھی۔ مسئلہ نمبر : (23) اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” وان عزمو الطلاق “ میں اس پر دلیل ہے کہ عورت کو چار ماہ کی مدت گزرنے کے ساتھ ہی طلاق واقع ہوگی، جیسا کہ امام مالک (رح) نے کہا ہے جب تک کہ مدت گزرنے کے بعد طلاق دینے کا عمل واقع نہ ہو۔ اور یہ بھی کہ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” سمیع “ اور سمیع مدت گزرنے کے بعد مسموع کا تقاضا کرتا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) نے بیان کیا ہے : (آیت) ” سمیع “ یعنی وہ اس کے ایلاء (قسم) کو سننے والا، (آیت) ” علیم “ اور اس کے اس عزم واراداہ کو جاننے والا ہے، جس پر چار ماہ کا گزرنا دلالت کرتا ہے۔ اور سہیل بن ابی صالح نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بارہ آدمیوں سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا ہے جو اپنی بیوی سے ایلاء کرتا ہے تو تمام کہتے ہیں : اس پر کوئی شے نہ ہوگی یہاں تک کہ چار ماہ گزر جائیں اور وہ (اسی حالت پر) ٹھہرا رہے، پھر اگر وہ رجوع کرلے (تو فبہا) ورنہ وہ طلاق دے دے (1) (النکت والعیون، جلد 1، صفحہ 289، مؤسسۃ الکتب الثقالۃ) قاضی ابن عربی (رح) نے کہا ہے : تحقیق الامر یہ ہے کہ ہمارے نزدیک آیت کی تقدیر یہ ہے : ” للذین یؤلون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر فان فاء وا بعد انقضائھا فان اللہ غفور رحیم وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم “۔ اور ان کے نزدیک تقدیم آیت اس طرح ہے : (آیت) ” للذین یؤلون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر فان فاء وا فیھا۔ فان اللہ غفور رحیم۔ وان عزموا الطلاق “۔ بترک الفیئۃ فیھا، یرید مدۃ التربص فیھا، ان اللہ سمیع علیم۔ یعنی اگر وہ اس مدت (چارماہ) میں رجوع کرلیں تو بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے اور اگر وہ اس مدت میں رجوع ترک کرکے طلاق کا پختہ ارادہ کرلیں تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سمیع علیم ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : یہ احتمال متساوی (برابر) ہیں، اسی مساوات کی وجہ سے صحابہ کرام نے اس میں توقف کیا ہے۔ (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 181، دارالفکر) میں (مفسر) کہتا ہوں : جب احتمال متساوی ہے تو پھر مہینوں اور حیضوں کے ساتھ عدت گزارنے والی عورت پر قیاس کرتے ہوئے علمائے کوفہ کا قول زیادہ قوی ہے، کیونکہ یہ سب وہ مدت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے پس اس کے گزرنے کے ساتھ عصمت (حفاظت) منقطع ہوجاتی ہے اور بغیر کسی اختلاف کے اسے جدا اور الگ کردیا جاتا ہے اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے خاوند کو اس پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا اور ایلاء بھی اسی طرح ہے یہاں تک کہ اگر وہ رجوع بھول گیا اور مدت گزر گئی تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (24) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان عزموا الطلاق “۔ اس پر دلیل ہے کہ لونڈی ملک یمین کے ساتھ ہوتی ہے اس میں ایلاء نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس پر طلاق واقع نہیں ہو سکتی۔ واللہ اعلم۔
Top