Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 234
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا١ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يُتَوَفَّوْنَ
: وفات پاجائیں
مِنْكُمْ
: تم سے
وَيَذَرُوْنَ
: اور چھوڑ جائیں
اَزْوَاجًا
: بیویاں
يَّتَرَبَّصْنَ
: وہ انتظار میں رکھیں
بِاَنْفُسِهِنَّ
: اپنے آپ کو
اَرْبَعَةَ
: چار
اَشْهُرٍ
: مہینے
وَّعَشْرًا
: اور دس دن
فَاِذَا
: پھر جب
بَلَغْنَ
: وہ پہنچ جائیں
اَجَلَهُنَّ
: اپنی مدت (عدت)
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
فِيْمَا
: میں۔ جو
فَعَلْنَ
: وہ کریں
فِيْٓ
: میں
اَنْفُسِهِنَّ
: اپنی جانیں (اپنے حق)
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِمَا تَعْمَلُوْنَ
: جو تم کرتے ہو اس سے
خَبِيْرٌ
: باخبر
اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور خدا تمہارے سارے کاموں سے واقف ہے
آیت نمبر
234
۔ اس میں پچیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والذین یتوفون منکم “۔ جب اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ متصل مسئلہ رضاعت کا ذکر فرمایا، پھر ساتھ ہی عدت وفات کا ذکر بھی کردیا، تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ عدت وفات عدت طلاق کی مثل ہے۔ (آیت) ” والذین “۔ یعنی وہ آدمی جو تم سے فوت ہوجاتے ہیں، (آیت) ” ویذرون ازواجا “۔ اور وہ بیویاں چھوڑ جاتے ہیں یا اور ان کی بیویاں ہوں، تو وہ بیویاں انتظار کریں گی، زجاج نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے اور نحاس نے اسے اختیار کیا ہے، کلام میں مبتدا کا حذف بہت زیادہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” قل افانبئکم بشر من ذلکم، النار “۔ (الحج :
72
) یہ اصل میں ھو النار ہے اور ابو علی فارسی نے کہا ہے : تقدیر کلام یہ ہے (آیت) ” والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بعدھم “۔ وہ آدمی جو تم میں فوت ہوجاتے ہیں، اور اپنی بیویاں چھوڑ جاتے ہیں تو وہ ان کے بعد انتظار کریں گے (
2
) (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
313
دارالکتب العلمیہ) اور یہ تیرے اس قول کی طرح ہے : ” السمن منوان بدرھم “ یہ اصل میں سنوان منہ بدرھم ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ تقدیر کلام یہ ہے (آیت) ” وازواج الذین یتوفون منکم یتربصن “۔ ترجمہ : اور وہ ازواج جو تم سے فوت ہوجاتے ہیں تو انکی بیویاں انتظار کریں گے۔ پس عبارت میں انتہائی ایجاز اور اختصار ہے۔ اور مہدوی نے سیبویہ سے بیان کیا ہے کہ معنی ہے : وفیما یتلی علیکم الذین یتوفون “۔ اور کوفہ کے بعض علمائے نحو نے کہا ہے : ” الذین “ کی خبر چھوڑ دی گئی ہے اور مقصود ان کی ازواج کے بارے خبر دینا ہے کہ وہ انتظار کریں گی، اور اس لفظ کا معنی ہے مشروع ہونے کی خبر دینا دو وجہوں میں سے ایک میں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) یہ آیت اس عورت کی عدت کے بارے میں ہے جس کا خاوند فوت ہوجائے، اس میں ظاہرا عموم ہے لیکن اس کا معنی خاص ہے، مہدوی نے بعض علماء سے بیان کیا ہے کہ یہ آیت حاملہ عورتوں کو بھی شامل تھی پھر اسے اس قول کے ساتھ منسوخ کردیا گیا ہے۔ (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ (طلاق :
4
) ترجمہ : اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنے حمل وضع کرلیں۔ اور اکثر علماء نے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ یہ آیت اس ارشاد باری تعالیٰ کے لئے ناسخ ہے : (آیت) ” والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا، وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول غیر اخراج “۔ کیونکہ لوگ اسلام کا کچھ عرصہ اس پر قائم رہے جب کوئی آدمی فوت ہوتا اور اپنے پیچھے حاملہ بیوی چھوڑتا تو وہ اپنی بیوی کے لئے ایک سال کے نفقہ کی وصیت کرتا اور سکنی (رہائش گاہ) کی وصیت کرتا جب تک وہ نہ نکلے اور شادی نہ کرلے، پھر اسے چار مہینے اور دس دن اور میراث کے ساتھ اسے منسوخ کردیا۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : اس میں نسخ نہیں ہے بلکہ یہ سال کی مدت میں کمی کرنا ہے جیسا کہ صلوۃ مسافر کہ جب یہ چار سے کم ہو کر دو رکعتیں ہوئی تو یہ نسخ نہیں ہے اور یہ واضح طور پر غلط ہے جب اس کا حکم یہ تھا کہ وہ ایک سال تک عدت گزارے گی جب وہ نہ نکلے اور اگر وہ نکل گئی تو اسے روکا نہ جائے پھر اس حکم کو زائل کردیا گیا ہے اور اس پر چار مہینے دس دن عدت لازم ہوگئی ہے اور یہی وہ نسخ ہے اور صلوۃ مسافر میں اس میں سے کوئی شے نہیں ہے، اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا ہے کہ نماز دو دو رکعتیں فرض کی گئی، پھر مقیم کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اور صلوۃ مسافر کو اپنے حال پر برقرار رکھا گیا۔ (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ جلد
1
صفحہ
51
، وازارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری کتاب الصلوۃ حدیث نمبر
337
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
3
) ایسی حاملہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت وضع حمل ہے۔ یہ جمہور علماء کے نزدیک ہے اور حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اس کی عدت دو مدتوں میں سے آخری مدت (طویل مدت) کو مکمل کرنا ہے اور ہمارے علماء میں سے سحنون نے اسے اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کرلیا ہے اور اس کی دلیل جو حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے وہ ان دونوں قولوں کو جمع کرنے کا ارادہ ہے : یعنی (آیت) ” والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھروعشرا “۔ (
3
) (جامع البیان للطبری، جلد
2
، صفحہ
613
، داراحیاء التراث العربیۃ) اور اس قول کے درمیان : (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ اور وہ اس طرح کہ جب وہ دو مدتوں کی انتہاء تک بیٹھی رہی تو اس نے دونوں آیتوں کے مقتضا کے مطابق عمل کیا۔ اور اگر وہ وضع حمل کے ساتھ عدت گزارے تو اس نے عدت وفات والی آیت کے ساتھ عمل ترک کردیا، اور دونوں کو جمع کرنا ترجیح سے زیادہ اولی اور بہتر ہے۔ اس پر تمام اہل اصول کا اتفاق ہے، یہ انتہائی اچھی نظر وفکر ہے اگر اس پر حدیث سبیعہ اسلمیہ “۔ (
1
) (صحیح بخاری، باب واولات الاحمال الخ، حدیث نمبر
2907
ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ صحیح بخاری، باب واذین یتوفون الخ، حدیث نمبر
4168
ضیاء القرآن پبلی کیشنز) سے اعتراض نہ کیا جائے کہ اسے اپنے خاوند کی وفات کے بعد چند ہی راتیں گزرنے کے ساتھ نفاس آنے لگا اور اس نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے اسے شادی کرنے کی اجازت دے دی، انہوں نے اسے الصحیح میں نقل کیا ہے اور حدیث نے واضح کردیا ہے کہ رب کریم کا ارشاد : (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ مطلقات اور ان عورتوں کے بارے میں جن کے خاوند فوت ہوجائیں اپنے عموم پر محمول ہے اور عدت وفات دونوں صنفوں میں سے غیر حاملہ کے ساتھ مختص ہے اور اسے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے قول سے تقویت حاصل ہوتی ہے اور جو چاہے میں اس سے مباہلہ کرتا ہوں کہ سورة النساء القصری کی آیت عدت وفات کی آیت کے بعد نازل ہوئی : ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس کا ظاہر کلام بیشک اس کا ناسخ ہے لیکن وہ اس سے مراد نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ بلاشبہ یہ آیت اس کے لئے مخصصہ ہے اور اس نے اس سے اس کے بعض مشتملات کو نکال دیا ہے اور اسی طرح حدیث سبیعہ عدت وفات سے متاخر ہے، کیونکہ سبیعہ کا قصہ حجۃ الوداع کے بعد کا ہے۔ اور اس کا خاوند سعد بن خولہ تھا اور وہ بنی عامر بن لؤی میں سے تھا اور وہ عزوہ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ کرام میں سے تھا، جس وقت وہ مکہ مکرمہ میں فوت ہوا اس وقت یہ حاملہ تھی، اور یہ وہی ہیں جن کے لئے رسول اللہ ﷺ نے مرثیہ کہا کہ وہ مکہ مکرمہ میں فوت ہوئے ہیں اور ان کے وصال سے نصف مہینہ گزرنے کے بعد اس نے بچے کو جنم دیا، اور بخاری نے کہا ہے : چالیس راتیں گزرنے کے بعد (
2
) (صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن جلد
2
صفحہ
729
، وزارت تعلیم) اور مسلم نے حضرت عمر بن عبداللہ بن ارقم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی حدیث سے بیان کیا ہے کہ سبیعہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا، اس نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھے فتوی دیا کہ میں اس وقت سے حلال ہوچکی ہوں جب سے میں نے حمل کو وضع کرلیا ہے اور آپ ﷺ نے مجھے شادی کی اجازت مرحمت فرما دی اگر میرے لئے ضرورت ہو (
3
) ابن شہاب نے بیان کیا ہے : میں کوئی حرج نہیں دیکھتا کہ وہ اس وقت شادی کرلے جب بچے کی ولادت ہوجائے اگرچہ اس کا خون جاری ہو، مگر یہ کہ اس کا خاوند اس کے قریب نہ جائے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، اسی نظریہ پر جمہور علماء اور ائمہ فقہاء ہیں۔ اور حسن، شبعی، نخعی، اور حماد نے کہا ہے : نفاس والی عورت جب تک دم نفاس میں ہے نکاح نہیں کرے گی، اور انہوں نے دو شرطیں لگائیں ہیں، ایک وضع حمل اور دوسری نفاس سے پاک ہونا، اور حدیث ان کے خلاف حجت ہے اور ان کے لئے اس قول میں کوئی حجت نہیں ہے۔ ” فلما تعلت من نفاسھا تجملت للخطاب “۔ (
1
) (سنن نسائی، کتاب الطلاق، جلد
2
، صفحہ
115
، وزارت تعلیم، سنن ابی داؤد، باب عدۃ الحامل، حدیث نمبر
1962
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (جب وہ اپنے نفاس سے پاک ہوجائے تو وہ دعوت نکاح دینے والوں کے لئے بناؤ سنگار کرے) جیسا کہ صحیح مسلم اور ابی داؤد میں ہے۔ کیونکہ تعلت کا اگرچہ اصلی معنی دم نفاس سے پاک ہونا ہے، جیسا کہ خلیل نے بیان کیا ہے، پھر بھی یہ احتمال رکھتا ہے کہ یہاں اس سے مراد اس کے نفاس کے دردوں اور تکلیف کا کم ہونا ہو اور اگر وہ معنی تسلیم کرلیا جائے جو خلیل نے بیان کیا ہے تو پھر اس میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔ بلکہ دلیل سبیعہ کے لئے حضور ﷺ کے ارشاد میں ہے ” کہ تو حلال ہوگئی جب سے تو نے وضع حمل کرلیا (
2
) (صحیح بخاری کتاب المغازی : جلد
2
، صفحہ
569
، وزارت تعلیم) پس آپ ﷺ نے وضع کے وقت حلت کو واقع کیا اور اسی پر اسے معلق کیا اور یہ نہیں فرمایا جب تیرا خون منقطع ہو اور نہ یہ فرمایا کہ جب تو پاک ہوئی، لہذا وہ صحیح ہے جو جمہور نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) علماء کے درمیان اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہر مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے چاہے خاوند رجعت کا مالک ہو یا نہ ہو (یعنی طلاق رجعی ہو یا بائن) وہ عورت آزاد ہو یا لونڈی، مدبرہ ہو یا مکاتبہ، البتہ حاملہ متوفی عنہا زوجہا کی مدت عدت میں اختلاف ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اور تمام نے آپس میں اختلاف کیے بغیر اس پر اجماع کیا ہے کہ اگر آدمی فوت ہوجائے اور وہ حاملہ عورت پیچھے چھوڑے اور چار مہینے اور دس دن گزر جائیں تو وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ بچے کو جنم دے لے پس اس سے معلوم ہوا کہ مقصود ولادت ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یتربصن “۔ التربص کا معنی نکاح میں تاخیر کرنا اور صبر کرنا ہے اور مسکن نکاح سے نہ نکلنا ہے وہ اس طرح کہ وہ رات کے وقت اس سے جدا اور علیحدہ نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ نے متوفی عنہا زوجہا کے لئے اپنی کتاب میں سکنی کا ذکر نہیں کیا ہے جیسا کہ مطلقہ کے لئے اپنے اس قول کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے (آیت) اسکنوھن “۔ اور کتاب اللہ میں لفظ عدت میں کوئی ایسی شے نہیں ہے جو احداد (سوگ کا اظہار کرنا) پر دلالت کرتی ہو۔ بلکہ فقط فرمایا (آیت) ” یتربصن “۔ حدیث طیبہ نے ان تمام چیزوں کو بیان فرمایا ہے اور حضور نبی مکرم ﷺ سے احادیث بالکل ظاہر ہیں کہ عدت وفات میں انتظار بلاشبہ احداد کے ساتھ ہے اور احداد سے مراد زیب وزینت سے، خوبصورت رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے اور خوشبو وغیرہ لگانے سے رکنا اور باز رہنا ہے۔ (
3
) (جامع البیان للطبری، جلد
2
، صفحہ
615
، داراحیاء التراث العربیۃ) اور یہ جمہور علماء کا قول ہے۔ حسن بن ابی الحسن نے کہا ہے : احداد کوئی شے نہیں ہے صرف زوج سے انتظار کرنا ہے اور عورت کے لئے مباح ہے کہ بناؤ سنگھار کرسکتی ہے اور خوشبو لگا سکتی ہے، لیکن یہ ضعیف ہے، کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے اور یہ ثابت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فریعہ بنت مالک بن سنان کو فرمایا اور اس کا خاوند فوت ہوچکا تھا : ” امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلہ “۔ (
4
) (موطا امام مالک، کتاب الطلاق جلد
1
، صفحہ
531
، وزارت تعلیم) (تو اپنے گھر میں ہی رکیرہ یہاں تک کہ کتاب اللہ کے مطابق عدت اپنے اختتام کو پہنچ جائے) اس نے بیان کیا ہے سو میں نے چار مہینے اور دس دن عدت گزاری ہے، یہ حدیث ثابت ہے، اسے امام مالک (رح) نے سعید بن اسحاق بن کعب بن عجرہ سے بیان کیا ہے اور اسے ان سے امام مالک (رح)، ثوری، وہیب بن خالد، حماد بن زید، عیسیٰ بن یونس رحمۃ اللہ علہیم اور ایک کثیر تعداد نے، ابن عیننہ القطان اور شعبہ رحمۃ اللہ علہیم نے روایت کیا ہے۔ اور تحقیق امام مالک نے اسے ابن شہاب سے روایت کیا ہے اور یہ تیرے لئے کافی ہے۔ الباجی نے کہا ہے : ان سے ان کے سوا کسی اور نے روایت نہیں کیا اور حضرت عثمان بن عفان ؓ نے بھی اسے اخذ کیا ہے، ابو عمرو نے کہا ہے : انہوں نے اس کے ساتھ متوفی عنہا زوجہا کے لئے اپنے گھر میں عدت گزارنے کا فیصلہ کیا ہے اور علمائے حجاز و عراق کے نزدیک یہ حدیث مشہور ومعروف ہے کہ متوفی عنہا زوجہا پر لازم ہے کہ وہ اپنے گھر میں عدت گزارے اور اس سے نہ نکلے۔ اور یہی قول حجاز، شام، عراق اور
3
مصر وغیرہ امصار کے فقہاء کی جماعت کا ہے۔ اور داؤد نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے تو اس پر لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہی عدت گزارے بلکہ وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے، کیونکہ قرآن کریم میں سکنی کا ذکر مطلقات کے بارے ہے اور ان کی دلیل میں سے یہ بھی ہے کہ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا ہے : بلاشبہ یہ حدیث ایک ایسی عورت روایت کر رہی ہے جس کا علمی مرتبہ معروف نہیں۔ اور سکنی کو واجب کرنا ایک حکم کو واجب کرنا ہے اور احکام ثابت نہیں ہوتے مگر کتاب اللہ کی نص کے ساتھ یا رسول اللہ ﷺ کی سنت کے ساتھ یا اجماع کے ساتھ۔ ابو عمر نے کہا ہے : جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو یہ تو بحمد اللہ ثابت ہے اور رہا اجماع تو سنت کے ہوتے ہوئے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو حجت اس کا قول ہوتا ہے جس قول کی تائید اور موافقت سنت کرے۔ وباللہ التوفیق۔ اور حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت جابر، اور حضرت عائشہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بھی داؤد کے قول کی مثل مروی ہے اور اسی طرح حضرت جابر بن زید، عطا اور حسن بصری رحمۃ اللہ علہیم نے بھی کہا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” تربصن بانفسھن اربعۃ اشھروعشرا “۔ اور یہ نہیں فرمایا : یعتدون فی بیوتھن (وہ اپنے گھروں میں عدت گزاریں) لہذا عورت جہاں چاہے عدت گزار لے (
1
) (جامع البیان للطبری، جلد
2
، صفحہ،
615
داراحیاء التراث العربیۃ) اور امام ابوحنیفہ (رح) سے بھی مروی ہے۔ اور عبدالرزاق نے بیان کیا ہے کہ معمر نے زہری سے اور انہوں نے حضرت عروہ سے ہمیں حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ اپنی بہن ام کلثوم ؓ کے ساتھ عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ کی طرف نکلیں اس وقت اس کا خاوند طلحہ بن عبید اللہ شہید ہوچکا تھا اور آپ فتوی دیتی تھیں کہ متوفی عنہا زوجہا اپنی عدت کے دوران نکل سکتی ہے (
2
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب الطلاق، جلد
7
، صفحہ
20
، دارالکتب العلمیۃ) فرمایا : ہمیں ثوری نے عبید اللہ بن عمر سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے قاسم بن محمد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگوں نے اس بارے میں ان کا انکار کیا ہے۔ (
1
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب الطلاق، جلد
7
، صفحہ
20
، دارالکتب العلمیۃ) مزید فرمایا : معمر نے زہری سے ہمیں بیان کیا ہے کہ وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت کے بارے میں رخصت دینے والوں نے عائشہ ؓ کے قول کو لیا ہے اور اہل ورع وعزم لوگوں نے ابن عمر ؓ کے قول کو لیا ہے۔ (
2
) (مصنف عبدالرزاق، کتاب الطلاق، جلد
7
، صفحہ
25
، دارالکتب العلمیۃ) اور مؤطا میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ایسی عورتوں کو مقام بیداء سے لوٹا دیتے تھے جن کے خاوند فوت ہوچکے ہوتے اور آپ انہیں حج سے منع کرتے تھے۔ (
3
) (مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق جلد
1
صفحہ
531
، وزارت تعلیم) اور یہ حضرت عمر ؓ کی جانب سے اجتہاد ہے، کیونکہ آپ اس گھر میں عورت کے لئے عدت گزارنے کے قائل تھے جس میں اس کا خاوند فوت ہوا، آپ عورت کے لئے اسے لازم قرار دیتے تھے اور یہی قرآن وسنت کا تقاضا ہے، پس عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ حج اور عمرہ کے لئے نکلے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : اسے واپس لوٹا دیا جائے گا جب تک کہ اس نے احرام نہ باندھا ہو۔ مسئلہ نمبر : (
6
) جب خاوند رہائش گاہ کا ذاتی طور پر مالک ہو تو عورت کے لئے اس میں عدت گزارنا لازم ہے، یہی اکثر فقہاء کا موقف ہے۔ (مثلا) امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علہیم وغیرہ، اور یہ حدیث فریعہ کی وجہ سے ہے۔ کیا گھر کو فروخت کرنا جائز ہے جب کہ وہ مرنے والے کی ملکیت وہ اور ورثاء نے اس کا ارادہ کیا ہو ؟ تو ہمارے جمہور اصحاب کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں عورت کے عدت گزارنے کی شرط رکھی جائے گی۔ ابن قاسم نے کہا ہے : کیونکہ عورت عزماء کی نسبت سکنی کی زیادہ حقدار ہے اور محمد بن حکم نے کہا ہے : یہ بیع فاسد ہے کیونکہ اس میں یہ شک ہو سکتا ہے کہ اس کی عدت طویل ہوجائے۔ اور ابن قاسم کے قول کی وجہ یہ ہے کہ اس میں غالب سلامتی ہے اور شک نادر ہے۔ لہذا یہ عقود کو فاسد کرنے میں موثر نہیں ہوسکتا اور اگر اس میں اس شرط کے ساتھ بیع واقع ہوجائے پھر عورت کو شک پڑجائے تو امام مالک (رح) نے کتاب محمد میں کہا ہے کہ وہ اس مقام کا زیادہ حق رکھتی ہے یہاں تک کہ شک ختم ہوجائے اور ہمارے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ مشتری کے لئے بیع فسخ کرنے یا اسے مکمل کرنے کا اختیار ہو اور اکسی شے کے ساتھ اس کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ عدت معتادہ داخل ہوا ہے۔ اور اگر بیع زوال شک کی شرط کے ساتھ واقع ہوئی تو وہ فاسد ہے۔ سحنون نے کہا ہے مشتری کے لئے کوئی حجت نہیں ہے اگرچہ شک پانچ سال تک پھیل جائے کیونکہ وہ عدت پر داخل ہے اور عدت کبھی پانچ سال ہوتی ہے اور اسی طرح اسے ابو زید نے ابن قاسم سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اگر خاوند کا سکنی تو ہو لیکن ذاتی ملکیت نہ ہو تو عورت کے لئے عدت کی مدت میں سکنی ہوگا۔ بخلاف امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علہیم کے۔ اور اس کی علت فریعہ کے لئے حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے حالانکہ آپ جانتے تھے کہ اس کا خاوند رہائش گاہ کی ذاتی ملکیت نہیں رکھتا : امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلہ “۔ (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، جلد
1
صفحہ
144
، وزارت تعلیم) (تو اپنے گھر میں ہی ٹھہر یہاں تک کہ لکھی ہوئی مدت اپنے اختتام کو پہنچ جائے۔ ) یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ گھر اس عورت کا تھا، پس اس لئے آپ ﷺ نے اسے فرمایا : امکثی فی بیتک (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، جلد
1
صفحہ
144
، وزارت تعلیم) کیونکہ معمر نے زہری سے روایت کیا ہے کہ اس نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگار میں عرض کی کہ اس کا خاوند قتل کردیا گیا ہے اور اس نے اسے ایسے گھر میں چھوڑا ہے جو اس کا نہیں اور اس نے آپ ﷺ سے اجازت طلب کی اور آگے حدیث ذکر کی۔ اور ہمارے لئے معنی کی نوعیت یہ ہے کہ اس نے ایسا گھر چھوڑا جس کے باسی اس کے اس طرح مالک ہوتے ہیں کہ اس میں اس پر کوئی تاوان اور برائی نہیں ہوتی، تو لازم ہے کہ اس کی بیوی اسی میں عدت گزارے، اس کی اصل یہی ہے جبکہ وہ ذاتی طور پر اس کا مالک ہو۔ مسئلہ نمبر : (
8
) اور یہ تب ہوتا ہے جب اس نے کرایہ ادا کر رکھا ہو، اور رہی وہ صورت جب اس نے کرایہ نہ ادا کیا ہو تو المدونہ میں ہے کہ میت کے مال میں عورت کے لئے کوئی سکنی نہیں اگرچہ وہ خوشحال ہو۔ کیونکہ عورت کا حق اس کے ساتھ متعلق ہوتا ہے جس رہائش گاہ کا وہ مکمل طور پر مالک ہوتا ہے اور جس کا کرایہ اور عوض اس نے ادا نہ کیا ہو وہ اس کا کامل طور پر مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ اس عوض کا مالک ہے جو اس کے قبضے میں ہے اور اس میں بیوی کا کوئی حق نہیں مگر میراث کے سبب نہ کہ سکنی کی حیثیت سے، کیونکہ وہ مال ہے سکنی نہیں ہے اور امام محمد نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ میت کے لئے اس کے مال میں کرایہ لازم ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) حضور ﷺ کا فریعہ کے لئے ارشاد گرامی : امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلہ “۔ (
3
) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
144
، وزارت تعلیم) یہ احتمال رکھتا ہے کہ آپ ﷺ نے اسے اس لئے حکم دیا تھا کہ اس کے خاوند نے گھر کا کرایہ ادا کیا ہوا تھا یا یہ کہ اس میں اس کی وفات تک سکونت اختیار کی گئی تھی یا یہ کہ گھر والوں نے اس کے لئے اس میں عدت کو مباح قرار دیا تھا کرائے کے عوض یا بغیر کرائے کے یا ان میں سے جو اللہ تعالیٰ نے چاہا جس سے آپ نے یہ جان لیا کہ اس گھر میں رہنا اس کے لئے لازم ہے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اس عورت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جس کے پاس اس کے خاوند کی موت کی خبر آتی ہے اس حال میں کہ وہ اپنے خاوند کے گھر کے سوا کسی اور گھر میں ہو، تو امام مالک بن انس (رح) نے اسے اس کے گھر اور قرار گاہ کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ہے اور یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ سے مروی ہے اور حضرت سعید بن مسیب اور نخعی نے کہا ہے کہ وہ وہیں عدت گزارے گی جہاں اس کے پاس خبر پہنچی۔ وہ وہاں سے نہیں جائے گی یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔ ابن منذر نے کہا ہے : امام مالک (رح) کا قول صحیح ہے، مگر یہ کہ خاوند نے اسے اس مکان کی طرف منتقل کیا ہو تو پھر عدت اسی مکان میں لازم ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اس عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی حاجات اور ضروریات کے لئے صبح کے وقت لوگوں کے عام پھیل جانے کے وقت سے لے کر شام کے بعد ان کے اپنے گھروں میں پرسکون ہونے کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے اور وہ اپنے اس گھر کے سوا رات کہیں نہیں گزار سکتی۔ اور بخاری اور مسلم میں ام عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہیں کرے گی سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار مہینے اور دس دن ہے۔ وہ نہ تو رنگا ہوا کپڑا پہنے گی سوائے یمنی کپڑے کے (یعنی عصب کا کپڑا) نہ وہ سرمہ لگا سکتی ہے اور نہ خوشبو لگا سکتی ہے مگر جب وہ پاک ہو تو قسط یا اظفار (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
488
، وزارت تعلیم، صحیح بخاری باب تلبس الحادہ الخ حدیث نمبر
4924
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (خوشبو کی دو قسمیں ہیں) میں سے تھوڑی سی لگا سکتی ہے۔ اور ام حبیبہ کی حدیث میں ہے : ” وہ عورت جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کے ساتھ ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دنوں سے زیادہ سوگ کا اظہار کرے مگر اپنے خاوند پر چار مہینے اور دس دن (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، جلد
2
، صفحہ
804
، وزارت تعلیم، صحیح بخاری باب تلبس الکحل للحادۃ، الخ حدیث نمبر
4921
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (سوگ کرے گی) الحدیث۔ الاحداد کا معنی ہے : عورت جب تک عدت میں ہے اس کا ہر قسم کا زیب وزینت کو ترک کردینا مثلا بھڑکیلا لباس، خوشبو، زیورات، سرمہ، اور مہندی لگانا وغیرہ، کیونکہ زینت ازواج کی طرف دعوت دیتی ہے، پس سد ذرائع کے طور پر اس سے منع کردیا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کی حرمات کو تار تار ہونے سے بچانے کے لئے اور عورت زیتون اور تلوں کا تیل کسی خوشبو میں ملا کر اپنے سر کو نہ لگائے، کہا جاتا ہے : ا مراۃ حاد ومحد سوگ منانے والی عورت، اصمعی نے کہا ہے : ہم حدث نہیں پہنچانتے۔ اور لایحل کا فاعل وہ مصدر ہے جسے تحد مع ان سے بنانا ممکن ہے یہی مراد ہے تو گویا کہ اس نے کہا : الاحداد۔ مسئلہ نمبر : (
12
) حضور نبی مکرم ﷺ کا عورت کو ایمان سے متصف کرنا دو قولوں میں سے ایک کے صحیح ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک ایسی کتابیہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے اس پر احداد نہیں ہے۔ یہ قول ابن کنانہ اور ابن نافع کا ہے۔ اور اسے اشہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے اور اسی طرح امام ابوحنیفہ (رح) اور ابن منذر نے کہا ہے اور ان سے ابن القاسم نے روایت کیا ہے کہ اس پر بھی مسلمان عورت کی طرح احداد (سوگ کا اظہار کرنا) ہے۔ یہی لیث، شافعی، ابو ثور اور ہمارے عام اصحاب نے کہا ہے، کیونکہ یہ عدت کے احکام میں سے ایک حکم ہے اور یہ مسلمان کے تحت کتابیہ عورت پر اسی طرح لازم ہے جس طرح رہائش کی جگہ اور عدت لازم ہے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) حضور نبی مکرم ؓ کے ارشاد میں : فوق ثلث الاعلی زوج “ (
3
) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
488
، وزارت تعلیم) اس پر دلیل ہے کہ مسلمان عورتوں پر تین دنوں سے زیادہ اپنے ازواج کے سوا کسی پر احداد کرنا حرام ہے اور ان پر تین دن سوگ کا اظہار کرنا مباح ہے۔ مرنے کے بعد آنے والی رات سے لے کر تیسری رات کے اختتام تک اسے شمار کیا جائے گا۔ اگر کسی عورت کا دیور فوت ہوا اس حال میں کہ ابھی دن یا رات کا کچھ حصہ باقی تھا تو اسے وہ لغو قرار دے گی اور آنے والی رات سے حساب لگائے گی۔ مسئلہ نمبر : (
14
) یہ حدیث اپنے حکم کے عام ہونے کے سبب ان تمام زوجات کو شامل ہے جن سے ان کے ازواج فوت ہوجائیں اور اس میں لونڈیاں، آزاد عورتیں، بڑی اور چھوٹی سب داخل ہیں، اور یہی جمہور علماء کا مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا موقف یہ ہے کہ لونڈی اور صغیرہ پر احداد نہیں ہے آپ سے اسے قاضی ابو الولید الباجی نے بیان کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : لونڈی جو کسی کی بیوی ہو وہ جملہ ازواج میں اور عموم اخبار میں داخل ہے اور یہ قول امام مالک (رح)، شافعی (رح) ابو ثور اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم کا ہے اور مجھے اس بارے کسی کا اختلاف یاد نہیں ہے اور نہ میں انہیں جانتا ہوں کہ وہ ام ولد پر احداد ہونے کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں جب اس کا آقا فوت ہوجائے، کیونکہ وہ زوجہ نہیں ہوتی اور احادیث ازواج کے بارے میں وارد ہیں۔ الباجی نے کہا ہے : صغیرہ جب ان عورتوں میں سے ہو جو امر ونہی کی عقل رکھتی ہیں اور اس کے لئے جو حد بیان کی جائے اس کا وہ التزام کرتی ہو تو اسے احداد کا حکم دیا جائے گا اور اگر وہ اپنی صغرسنی کے سبب کسی شے کو نہ جانتی ہو تو ابن مزین نے عیسیٰ سے روایت کیا ہے کہ اس کے گھر والے اسے ان تمام چیزوں سے روکیں گے جن سے کبیرہ اجتناب کرتی ہے اور یہ (احداد) اس کے لئے لازم ہے اور صغیرہ پر احداد کے واجب ہونے کی دلیل وہ روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ سے ایک عورت نے اپنی اس بیٹی کے بارے پوچھا جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور اس کی آنکھیں دکھنے لگیں کہ کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے ؟ تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” نہیں “ آپ نے یہ دو بار یا تین بار پوچھا تو آپ ہر بار یہی کہتے رہے ہے ” نہیں “۔ (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، جلد
1
، صفحہ
314
، وزارت تعلیم، صحیح بخاری تحد المتوفی الخ، حدیث نمبر
4920
ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور آپ ﷺ نے اس کی عمر کے بارے میں نہ پوچھا۔ اگر صغر اور کبر کے سبب حکم مختلف ہوجاتا تو آپ ﷺ اس کی عمر کے بارے ضرور سوال کرتے تاکہ آپ اس کا حکم بیان فرمائیں اور اس قسم کے مسئلہ میں بیان میں تاخیر جائز نہیں ہوتی اور یہ دلیل بھی ہے کہ ہر وہ جس پر عدت وفات لازم ہے اس پر کبیرہ کی طرح احداد کرنا بھی لازم ہے۔ مسئلہ نمبر : (
15
) ابن منذر نے کہا ہے : میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں جانتا کہ خضاب بھی اس زینت میں داخل ہے جس سے منع کیا گیا ہے اور انہوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ سوگ والی عورت کے لئے رنگے ہوئے کپڑے اور زرد رنگ کے کپڑے پہننا جائز نہیں ہے مگر ایسا کپڑا جسے سیاہ رنگ سے رنگا جائے کیونکہ حضرت عروہ بن زبیر ؓ امام مالک اور امام شافعی رحمۃ اللہ علہیم نے اس کی رخصت دی ہے۔ اور زہری نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور زہری (رح) نے کہا ہے : اسے چاہئے کہ وہ عصب کا کپڑا نہ پہنے، اور یہ حدیث کے خلاف ہے۔ اور المدونہ میں امام مالک (رح) نے کہا ہے : وہ یمن کے عصب کا باریک کپڑا نہیں پہن سکتی اور آپ نے موٹے کپڑے کی گنجائش رکھی ہے، ابن قاسم نے کہا ہے : کیونکہ باریک کپڑا رنگے ہوئے کپڑے کے قائم مقام ہے (
2
) (المدونۃ الکبری، کتاب العدۃ و طلاق السنۃ جلد
5
، صفحہ،
113
، السعادۃ بجوارمحافظۃ مصر) اور وہ ریشم، کتان اور روئی کا باریک اور موٹا کپڑا پہن سکتی ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : ہر اس نے رخصت دی ہے جس نے آپ سے سفید لباس کے بارے کچھ محفوظ کیا ہے۔ قاضی عیاض (رح) نے کہا ہے : امام شافعی (رح) کا موقف یہ ہے کہ ہر وہ رنگ جو باعث زینت ہو سوگ منانے والی عورت اسے مس نہ کرے گی، چاہے وہ باریک ہو یا موٹا ہو۔ اسی طرح قاضی عبدالوہاب (رح) نے کہا ہے : رنگوں میں سے ہر وہ جس کے ساتھ عورتیں اپنے خاوندوں کے لئے زیب وزینت اور حسن کا اظہار کرتی ہیں سوگ منانے والی عورت کو چاہئے کہ وہ اس سے باز رہے۔ اور ہمارے بعض متاخرین مشائخ نے ایسا عمدہ لباس پہننے سے بھی منع کیا ہے جس سے زیب وزینت کی جاسکتی ہے اور اسی طرح اعلی قسم کا سیاہ لباس (پہننے سے بھی منع کیا ہے) ابن المواز نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ وہ زیور نہیں پہن سکتی اگرچہ وہ لوہے کا بنا ہوا ہو، فی الجملہ ہر وہ شے جسے ایک عورت اس طور پر پہنتی ہے کہ اسے حسن و خوبصورتی کے اظہار کے لئے بطور زیور استعمال کیا جاتا ہو سوگ منانے والی عورت اسے نہیں پہن سکتی۔ اور ہمارے اصحاب نین جواہرات، یواقیت اور زمرد پر کوئی نص بیان نہیں کی حالانکہ وہ بھی زیور کے معنی میں داخل ہیں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
16
) وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے اس پر احداد کے واجب ہونے پر سوائے حسن کے تمام لوگوں نے اجماع کیا ہے حسن نے کہا ہے : احداد واجب نہیں۔ اور انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے عبداللہ بن شداد بن الہاد نے اسماء بنت عمیس سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا : ” تین دن تک سوگ کا لباس پہن لے پھر جو چاہے وہ کر (
1
) (مسند ابن جعد، جلد
1
، صفحہ
398
، مؤسسہ نادربیروت) ابن منذر نے کہا ہے : تمام اہل علم میں سے حضرت حسن بصری (رح) احداد کے قائل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا ہے : وہ عورت جسے تین طلاقیں ہوجائیں اور وہ جس کا خاوند فوت ہوجائے وہ دونوں سرمہ لگا سکتی ہیں، خضاب لگا سکتی ہیں اور جو چاہیں وہ کرسکتی ہیں۔ حالانکہ حضور نبی مکرم ﷺ کی احادیث سے احداد ثابت ہے اور اور جس کے پاس بھی یہ احادیث پہنچی ہیں اس نے اسے تسلیم کیا ہے، شاید حسن بصری تک یہ احادیث نہیں پہنچیں یا پہنچی تو ہیں لیکن آپ نے اسماء بنت عمیس کی حدیث کیی سبب انکی تاویل کرلی ہے کہ اس نے حضرت جعفر ؓ کی شہادت پر سوگ کا اظہار کرنے کی حضور نبی کریم ﷺ سے اجازت طلب کی اور یہ ان کی بیوی تھی، تو آپ ﷺ نے اسے تین دن کی اجازت عطا فرمائی اور پھر تین دن گزرنے کے بعد اس کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ طہارت کا اہتمام کرے اور سرمہ لگا لے۔ ابن منذر نے کہا ہے : اہل علم نے کئی وجوہ سے اس کا رد کیا ہے اور امام احمد بن حنبل (رح) کہتے ہیں : یہ حدیث شاذ ہے، اس کے مطابق عمل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اسحاق نے بھی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
17
) امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ طلاق والی عورت پر احداد نہیں ہے، چاہے طلاق رجعی ہو یا بائن، ایک ہو یا اس سے زیادہ، یہی قول ربیعہ اور عطا کا ہے۔ اور علماء کوفہ، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب، ثوری، حسن بن حی، ابو ثور اور ابو عبید رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں ہوجائیں اس پر احداد ہے اور یہی حضرت سعید بن مسیب، سلیمان بن یسار، ابن سیرین اور حکم بن عیینہ کا قول ہے۔ حکم نے کہا ہے کہ احداد متوفی عنہا زوجہا کی نسبت اس پر زیادہ مؤکد اور شدید ہے اور معنی کے اعتبار سے دونوں عدت میں ہیں جس کے ساتھ نسب کی حفاظت کی جاتی ہے۔ امام شافعی، احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : احتیاط اسی میں ہے کہ مطلقہ عورت کو زینت سے بچنا چاہئے ابن منذر نے کہا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ہے : وہ عورت جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دنوں سے زیادہ کسی میت پر سوگ کا اظہار کرے مگر خاوند پر چار مہینے اور دس دن (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، جلد
2
، صفحہ
804
، وزارت تعلیم) (سوگ منائے) یہ اس پر دلیل ہے کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں ہوجائیں اور اطلاق دینے والا زندہ ہو اس پر احداد نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
18
) علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو ایسی طلاق دی جس میں وہ رجوع کا مالک ہو پھر وہ عدت گزرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو عورت پر عدت وفات ہوگی اور وہ اس کی وارث بھی ہوگی، اور وہ عورت جسے حالت مرض میں تین طلاقین دی جائیں اس کی عدت میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ نے کہا ہے کہ وہ عدت طلاق گزارے گی (
2
) (المدونۃ الکبری، کتاب الطلاق، جلد
6
، صفحہ
35
، السعادۃ بجوارمحافظۃ مصر) یہ قول امام مالک، امام شافعی، یعقوب، ابو عبید اور ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم کا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : یہی ہم کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیض والی عورتوں کی عدت حیض قرار دی ہے اور اس پر اجماع ہے کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں دی جائیں اگر وہ فوت ہوجائے تو طلاق دینے والا اس کا وارث نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ اس کی بیوی نہیں رہی اور جب وہ اس کی بیوی نہیں تو پھر وہ اس کا خاوند بھی نہیں ہوگا۔ اور ثوری نے کہا ہے : دو عدتوں میں سے جو زیادہ ہوگی اس کے مطابق عدت گزارے گی اور نعمان ومحمد نے کہا ہے : اس پر چار مہینے اور دس دن عدت ہوگی اور اس میں تین حیض مکمل کرے گی، مسئلہ نمبر : (
19
) علماء کا ایسی عورت کے بارے اختلاف ہے جسے اپنے خاوند کے فوت ہونے یا اس کی طرف سے طلاق کی خبر پہنچی، پس ایک گروہ نے کہا ہے : طلاق اور وفات کی صورت میں عدت اس دن سے ہوگی جس دن وہ مرتا ہے یا طلاق دیتا ہے۔ یہ قول حضرت ابن عمر، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے اور یہی حضرت مسروق، عطا اور تابعین کی ایک جماعت نے کہا ہے اور یہی امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، ابو عبید، ثوری، ابو ثور، اصحاب الرائے اور ابن منذر کا موقف ہے۔ اور اس میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس پر عدت اس دن سے ہوگی جس دن اس کے پاس خبر پہنچی۔ یہ قول حضرت علی ؓ سے مروی ہے اور اسی طرح حضرت حسن بصری، قتادہ، عطا خراسانی، اور جلاس بن عمرو رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ اور حضرت سعید بن مسیب اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : اگر بینہ قائم ہوجائے تو اس کی عدت یوم وفات یا یوم طلاق سے ہوگی اور اگر بینہ قائم نہ ہو تو اس دن سے جس دن اس کے پاس خبر پہنچے گی، پہلا قول صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عدت کو وفات یاطلاق کے ساتھ معلق کیا ہے اور اس لئے بھی کہ اگر وہ اس کی موت کے بارے جان لے اور اجداد چھوڑ دے تو عدت گزر جاتی ہے اور جب اس نے علم نہ ہونے کے سبب احداد چھوڑ دیا تو یہ اور زیادہ آسان ہے کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ صغیرہ کی عدت گزر جاتی ہے اور اس پر احداد نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اگر وہ حاملہ ہو اور وہ خاوند کی طلاق یا اس کی وفات کا علم نہ رکھتی ہو پھر وہ اپنا حمل وضع کرلے تو بلاشبہ اس کی عدت گزر گئی اور مسئلہ اور مختلف فیہا مسئلہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور ان کی دلیل جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اس کی عدت اس دن سے ہوگی جس دن اس کے پاس خبر پہنچے گی یہ کہ زیب وزینت ترک کرنے کے سبب عدت عبادت ہے اور وہ قصد اور نیت کے بغیر صحیح نہیں ہوتی اور قصد نہیں ہو سکتا مگر علم کے بعد۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
20
) آزاد، لونڈی، صغیرہ، کبیرہ، وہ عورت جو حیض کی عمر کو نہ پہنچے، وہ جو حائضہ ہو اور حیض سے ناامید ہوجائے اور کتابیہ عورت اس کے ساتھ دخول ہوا یا نہیں جبکہ وہ غیر حاملہ ہو ان تمام پر عدت وفات لازم ہوتی ہے اور سوائے لونڈی کے ان تمام کی عدت چار مہینے اور دس دن ہے، کیونکہ اس ارشاد میں آیت عام ہے۔ (آیت) ” یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھروعشرا “۔ اور وہ لونڈی جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت دو مہینے اور پانچ راتیں ہیں۔ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : اس کی عدت بالاجماع آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے مگر وہ جو اصم سے بیان کیا جاتا ہے کیونہ اس نے آزاد اور لونڈی کو اس میں برابر قرار دیا ہے، حالانکہ اجماع اس سے پہلے ہے لیکن اپنے بہرے پن کے سبب (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :،
210
دارالفکر) اس نے سنا نہیں۔ الباجی نے کہا ہے : اس بارے میں ہم کوئی اختلاف نہیں جانتے سوائے اس کے جو ابن سیرین سے مروی ہے اور وہ ان سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کہا ہے : لونڈی کی عدت آزاد عورت کی عدت کی مثل ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اصم کا قول من حیث النظر صحیح ہے کیونکہ وہ آیات جو مہینوں اور حیضوں کے ساتھ وفات اور طلاق کی عدت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ لونڈی اور آزاد کے حق میں عام ہیں، پس اس نقطہ نظر سے آزاد اور لونڈی کی عدت برابر ہے۔ کیونکہ عمومات میں آزاد اور لونڈی کے مابین کوئی فرق نہیں ہے اور جس طرح نکاح میں لونڈی اور آزاد برابر ہیں اسی طرح وہ عدت میں بھی اس کے ساتھ برابر ہوگی۔ واللہ اعلم۔ ابن عربی نے کہا ہے : امام مالک سے روایت ہے کہ کتابیہ عورت تین حیضوں کے ساتھ عدت گزارے گی تب اس سے برات رحم ہوگی اور یہ آپ سے انتہائی فاسد قول منقول ہے، کیونکہ اس قول نے اسے (کتابیہ کو) آیت وفات کے عموم سے خارج کردیا ہے حالانکہ وہ اس میں شامل ہے اور اس نے اسے آیت طلاق کے عموم میں داخل کردیا ہے حالانکہ یہ اس میں سے نہیں ہے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :
211
، دارالفکر) میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی پر اس کی بنا ہے جو مدونہ میں ہے اس پر عدت نہیں اگر وہ غیر مدخول بہا ہو کیونکہ اس کی برات رجم معلوم ہے اور یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ خاوند کے فوت ہونے کے بعد کسی مسلمان یا غیر مسلم سے شادی کرسکتی ہے کیونکہ جب اس پر عدت وفات نہیں ہے اور نہ ہی دخول کے سبب استبراء رحم لازم ہے تو پھر وہ ازواج کے لئے حلال ہے۔ مسئلہ نمبر : (
21
) اور علماء نے ام ولد کی عدت کے بارے اختلاف کیا ہے جب اس کا آقا فوت ہوجائے۔ پس ایک گروہ نے کہا ہے : اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے، یہی تابعین کی ایک جماعت نے کہا ہے، ان میں سے حضرت سعید بن مسیب، حضرت زہری، حضرت حسن بصری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور کئی اور بھی ہیں اور یہی امام اوزاعی اور اسحاق رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ اور ابو داؤد اور دارقطنی نے قبیصہ بن ذؤیب سے اور انہوں نے حضرت عمرو بن العاص ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم پر ہمارے نبی مکرم ﷺ کی سنت کو مشتبہ نہ بناؤ کہ متوفی عنہا زوجہا کی عدت چار مہینے دس دن ہے ینعی ام ولد کے حق میں۔ یہ لفظ ابو داؤد کے ہیں اور دارقطنی نے کہا ہے : یہ موقوف ہے۔ اور یہی درست ہے اور یہ مرسل ہے کیونکہ قبیصہ نے عمرو سے سماع نہیں کیا (
2
) (سنن دارقطنی، باب المہر، جلد
2
، صفحہ
310
، دارالمحاسن قاہرہ، ایضا سنن ابی داؤد باب فی عدۃ ام الولد، حدیث نمبر
1964
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابن منذر نے کہا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد اور ابو عبید نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور حضرت علی اور حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ اس کی عدت تین حیض ہے اور یہی قول حضرت عطاء ابراہیم نخعی، سفیان ثوری اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم کا ہے۔ انہوں نے کہا ہے : کیونکہ عدت آزادی کی حالت میں واجب ہو رہی ہے لہذا یہ واجب ہے کہ عدت کامل ہو اور اس کی اصل آزاد عورت کی عدت ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور ابو ثور نے کہا ہے : اس کی عدت ایک حیض ہے (
3
) (المدونۃ الکبری، کتاب العدۃ و طلاق السنۃ، جلد
5
، صفحہ،
120
السعادۃ بجوارمحافظۃ مصر) اور یہی حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے۔ اور طاؤس سے روایت ہے کہ اس کی عدت اس آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے جس کا خاوند فوت ہوجائے اور اسی طرح حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے قول کے بارے میں یہی کہتا ہوں کہ وہ سب سے قلیل مدت ہے جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا ہے اور اس میں کوئی سنت نہیں ہے جس کی اتباع کی جائے اور نہ ہی کوئی اجماع ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔ آزادی کی حالت میں اس کی عدت میں ان کے اختلاف کا ذکر حالت وفات میں اختلاف کی طرف برابر برابر ہے۔ مگر امام اوزاعی نے کہا ہے کہ آزادی کی حالت میں اس کی عدت تین حیض ہوگی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ان اقوال میں سے اصح قول امام مالک (رح) کا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قرؤئ “۔ پس حیضوں کے انتظار میں یہ شرط ہے کہ وہ طلاق کے سبب ہو، پس اس کے ساتھ کسی غیر سبب سے ہونے کی نفی ہوگئی، اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھروعشرا “۔ پس اس کے وجوب کو اس کے ساتھ معلق کیا ہیین کہ انتظار کرنے والی بیوی ہو۔ پس یہ اس پر دلیل ہے کہ لونڈی اس کے خلاف ہے اور یہ بھی دلیل ہے کہ بیشک یہ ملک یمین کے سب موطوہ لونڈی ہے پس اس کا استبراء رحم ایک حیض سے ہے، لونڈی میں اصل یہی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
22
) جب یہ ثابت ہوگیا تو کیا ام ولد کی عدت محض استبرا ہے یا عدت ہے ؟ پس اس کے بارے ابو محمد نے اپنی معونت میں ذکر کیا ہے کہ ایک حیض استبراء ہے اور عدت نہیں ہے۔ اور المدونہ میں ہے کہ ام ولد پر عدت ہے اور اس کی عدت ایک حیض ہے جس طرح کہ آزاد عورت کی عدت تین حیض ہیں، اور اختلاف کا فائدہ یہ ہے کہ جب ہم نے کہا : یہ عدت ہے تو امام مالک نے فرمایا : میں یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کسی سے وعدہ کرے جو اس سے نکاح کرلے گا مگر یہ کہ ایک حیض گزر جائے (
1
) (المدونۃ الکبری، کتاب العدۃ و طلاق السنۃ، جلد
5
، صفحہ
121
، السعادۃ بجوارمحافظۃ مصر) ابن القاسم نے کہا ہے : مجھ تک آپ سے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے کہا کہ وہ اپنے گھر میں ہی رات گزارے گی اور آپ نے اس کی مدت استبراء کے لئے عدت کا حکم ثابت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
23
) اہل علم نے اس پر اجماع کیا ہے کہ وہ عورت جسے تین طلاقیں ہوں یا ایسی مطلقہ جس پر خاوند کو رجوع کا حق ہو درآنحالیکہ وہ حاملہ ہو اس کا خرچہ خاوندہ پر واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملھن “۔ (الطلاق :
6
) ترجمہ : اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرتے رہیں، یہاں تک کہ وہ بچہ جنیں) اور حاملہ متوفی عنہازوجہا کے نفقہ کے واجب ہونے کے بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے، پس ایک گروہ نے کہا ہے : اس کے لئے کوئی نفقہ نہیں ہے۔ اسی طرح حضرات جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن مسیب، حضرت عطاء حضرت حسن، حضرت عکرمہ، عبدالملک بن یعلی، یحییٰ انصاری، ربیعہ، مالک، احمد اور اسحاق رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، و رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اور ابو عبید نے اصحاب الرائے سے اسے بیان کیا ہے، اس میں دوسرا قول یہ ہیں کہ اس کے لئے کل مال سے نفقہ ہوگا اور یہ قول حضرت علی اور حضرت عبد اللہ ؓ سے مروی ہے اور اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ شریح، ابن سیرین، شعبی، ابوالعالیہ، نخعی، جلاس بن عمرو، حماد بن ابی سلیمان، ایوب سختیانی، سفیان ثوری، اور ابو عبید رحمۃ اللہ علہیم نے بیان کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : میں پہلے قول کے مطابق کہتا ہوں، کیونکہ انہوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ ہر اس آدمی کا نفقہ جس نفقہ پر اسے زندگی میں مجبور کیا جاسکتا ہے مثلا اس کے بچے، بیوی اور اس کے والدین وہ نفقہ اس سے ساقط ہوجاتا ہے تو اسی طرح اس کی ازواج میں سے حاملہ نفقہ بھی اس سے ساقط ہوجائے گا۔ اور قاضی ابو محمد نے کہا ہے : کیونکہ حمل کا نفقہ دین ثابت نہیں ہے کہ وہ اس کی موت کے مال سے متعلق ہوجائے، اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ تنگدستی کے سبب اس سے ساقط ہوجاتا ہے تو موت کے سبب اس کا ساقط ہونا زیادہ اولی اور زیادہ مناسب ہے۔ مسئلہ نمبر : (
24
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اربعۃ اشھروعشرا “۔ علماء نے ان چار ماہ اور دس دن میں اختلاف کیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے متوفی عنہا زوجہا کی عدت کے لئے وقت مقرر فرمایا ہے کہ کیا ان میں سے وہ ایک بار حیض آنے کی محتاج ہوتی ہے یا نہیں ؟ تو بعض نے کہا ہے : جب وہ عورت موطوہ ہو تو اس کی برات رحم نہ ہوگی مگر اس حیض کے ساتھ جو اسے چار مہینے اور دس دن کے دوران آے گا ورنہ وہ مشکوک ہوجائے گی اور بعض دوسروں نے کہا ہے : اس پر چار ماہ اور دس دن سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر یہ کہ وہ اپنے آپ کو واضح شک میں دیکھے، کیونکہ اس مدت میں حیض نہیں آتا یا ان میں سے ہو جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا یا اسے پہچان لیا جائے کہ اس کا حیض اسے نہیں آئے گا مگر اس مدت سے زیادہ اور اکثر مدت میں۔ مسئلہ نمبر : (
25
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وعشرا “۔ وکیع نے ابو جعفر الرازمی سے، انہوں نے ربیع بن انس سے اور انہوں نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ چار مہینوں کے ساتھ دس دن کو کیوں ملایا گیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : کیونکہ اتنی مدت میں روح پھونکی جاتی ہے۔ عنقریب سورة الحج میں اس کا بیان آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اصمعی نے کہا ہے : بیشک ہر حاملہ کا بچہ اس کے حمل کی نصف مدت میں حرکت کرنے لگتا ہے۔ پس یہ بھی حرکت کرنے لگے گا (یعنی فھی مرکضتین ذکر کیا ہے) اور کسی اور نے کہا ہے : ارکضت فی مرکضۃ (اس نے حرکت دی پس یہ حرکت کرنے والی ہے) جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : ومرکضۃ صریحی ابوھا تھان لھا الغلامۃ والغلام : اس میں مرکضۃ اسی معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور خطابی نے کہا ہے : قولہ : وعشرا “۔ اس سے مراد راتوں سمیت دن ہیں۔ واللہ اعلم۔ اور مبرد نے کہا ہے : العشر مؤنث لایا گیا ہے کیونکہ اس سے مراد مدت ہے۔ اس کا معنی ہے وعشر مدد ہر مدت ایک دن اور ایک رات کی ہے، پس رات اپنے دن کے ساتھ مل کر زمانے کی ایک مدت معلوم ہے اور کہا گیا ہے : عشرۃ نہیں فرمایا راتوں کے حکم کو غلبہ دیتے ہوئے کیونکہ رات دن سے پہلے ہوتی ہے اور ایام ان کے ضمن میں ہوتے ہیں۔ (آیت) ” وعشرا “ لفظ کے اعتبار سے زیادہ خفیف ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
314
دارالکتب العلمیہ) پس راتوں کو دونوں پر غلبہ دیا جاتا ہے جب یہ تاریخ میں جمع ہوجائیں، کیونکہ مہینوں کی ابتداء رات سے چاند طلوع ہونے کے وقت ہوتی ہے تو جب مہینے کی ابتداء اور پہلا حصہ رات ہے تو پھر رات کو ہی غلبہ دیا جائے گا آپ کہتے ہیں : صبنا خبسا میں الشھر ہم نے مہینے سے پانچ روزے رکھے، پس راتیں غالب ہوتی ہیں اگرچہ روزہ دن کے وقت ہوتا ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور علمائے کوفہ نے کہا ہے کہ اس سے مراد دن اور راتیں ہیں۔ ابن منذر نے کہا ہے : پس اگر کسی عقد کرنے والے نے اس سے اس قول کی بناء پر نکاح کیا درآنحالیکہ چار مہینے اور دس راتیں گزر چکی تھیں تو وہ نکاح باطل ہوگا یہاں تک کہ دسواں دن بھی گزر جائے۔ اور بعض فقہاء نے کہا ہے کہ جب اس کی مدت چار مہینے اور دس راتیں گزر گئی تو وہ ازواج کے لئے حلال ہوگئی اور وہ اس لئے کہ انہوں نے عدت کو مبہم دیکھا تو تانیث کو غلبہ دے دیا اور اسے راتوں پر محمول کردیا، اور یہ موقف فقہاء میں سے امام اوزاعی اور متکلمین میں سے ابوبکر الاصم نے اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اربعۃ اشھر وعشر لیال پڑھا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاذا بلغن اجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف، واللہ بما تعملون خبیر “۔ (
234
) اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ نے اجل (مدت) کی نسبت ان (عورتوں) کی طرف کی ہے کیونکہ وہ انہیں کے معاملے کی حد بیان کی گئی ہے اور اس سے مراد ہے عدت کا گزرنا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلاجناح علیکم “۔ یہ خطاب تمام لوگوں کو ہے اور یہ اس حکم کے ساتھ متعلق ہے جو حکام اور اولیاء کیلئے ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
314
دارالکتب العلمیہ) فیمافعلن “۔ اس سے مراد شادی کرنا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے ہوتا ہے (یعنی) بناؤ سنگھار کرنا اور احداد کو ترک کرنا وغیرہ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
314
دارالکتب العلمیہ) (آیت) ” بالمعروف “۔ یعنی ایسے طریقے سے جس کی شریعت میں اجازت دی گئی ہے یعنی ازواج کو دیکھنے کا اختیار اور عقد ہونے سے پہلے مہر مقرر کرنا وغیرہ کیونکہ یہ اولیاء کا حق ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اس آیت میں اس پر دلیل ہے کہ اولیاء کو اختیار ہے کہ وہ انہیں عدت کے دوران شادی کے لئے بناؤ سنگھار کرنے اور آراستہ ہونے اور حسن و خوبصورتی کا اظہار کرنے سے منع کریں، اس میں اسحاق کے اس قول کا رد بھی ہے کہ مطلقہ عورت جب تیسرے حیض میں داخل ہوجائے تو وہ بائنہ ہوجاتی ہے اور پہلے خاوند کے لئے رجعت کا حق منقطع ہوجاتا ہے مگر یہ کہ اس کے لئے شادی کرنا حلال نہیں ہوتا یہاں کہ وہ غسل کرلے اور شریک سے روایت ہے کہ اس کے خاوند کے لئے رجعت کا حق رہتا ہے جب تک وہ غسل نہ کرے اگرچہ بیس سال بعد تک ہو، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا : (آیت) ” فاذا بلغن اجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن “۔ اور یہاں بلوغ الاجل سے مراد تیسرے حیض کے خون میں اس کے داخل ہونے کے ساتھ عدت کا گزرنا ہے اور اس میں غسل کا ذکر نہیں تو جب اس کی عدت گزر گئی وہ ازواج کے لئے حلال ہوگئی اور بناؤ سنگھار میں سے جو بھی وہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے جو حدیث مروی ہے اگر وہ صحیح ہے تو وہ استحباب پر محمول ہوگئی۔ واللہ اعلم۔ (اشارہ اس حدیت کی طرف ہے : عن ابن عباس من ان المراۃ اذا طعنت فی الحیضۃ الثالثۃ بانت وانقطت رجعۃ الزوج، وھذا قول اسحاق المتقدم وھو ضعیف) حاشیہ قرطبی۔
Top