Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 236
لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً١ۖۚ وَّ مَتِّعُوْهُنَّ١ۚ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ١ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ
لَاجُنَاحَ
: نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اِنْ
: اگر
طَلَّقْتُمُ
: تم طلاق دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
مَالَمْ
: جو نہ
تَمَسُّوْھُنَّ
: تم نے انہیں ہاتھ لگایا
اَوْ
: یا
تَفْرِضُوْا
: مقرر کیا
لَھُنَّ
: ان کے لیے
فَرِيْضَةً
: مہر
وَّمَتِّعُوْھُنَّ
: اور انہیں خرچ دو
عَلَي
: پر
الْمُوْسِعِ
: خوش حال
قَدَرُهٗ
: اس کی حیثیت
وَعَلَي
: اور پر
الْمُقْتِرِ
: تنگدست
قَدَرُهٗ
: اس کی حیثیت
مَتَاعًۢا
: خرچ
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
حَقًّا
: لازم
عَلَي
: پر
الْمُحْسِنِيْنَ
: نیکو کار
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگ دسست اپنی حیثیت کے مطابق، نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے
آیت نمبر :
236
۔ اس میں گیارہ مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا جناح علیکم ان طلقتم النسآء “ یہ بھی مطلقات کے احکام میں سے ہیں۔ جماع اور بیوی کے پاس جانے سے قبل طلاق دینے والے سے حرج کے اٹھا دینے کے بارے یہ خبر کی ابتدا ہے، چاہے مہر مقرر کیا گیا ہو یا نہ مقرر کیا جائے، جب رسول اللہ ﷺ نے ذوق اور قضائے شہوت کی غرض سے شادی کرنے سے منع فرما دیا اور پاکدامنی کی طلب اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی التجا اور صحبت دوام کے ارادہ سے شادی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا تو مومنین کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس کسی نے عورت کے پاس جانے سے قبل طلاق دی تو وہ اس مکروہ عمل کے جز میں واقع ہونے والا ہے، تو اس بارے میں حرج کو اٹھانے اور ختم کرنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی، بشرطیکہ اصل نکاح حسین مقصد پر ہو۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : (آیت) ” لاجناح علیکم “ اس کا معنی ہے کہ اس میں تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم حیض کے وقت میں طلاق بھیجو، بخلاف مدخول بہا عورت کے، کیونکہ غیر مدخول بہا پر عدت نہیں ہوتی۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
318
دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (
2
) مطلقات چار ہیں : (
1
) مطلقہ مدخول بہا جس کے لئے مہر مقرر کیا جائے تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم اس سے پہلی آیت میں ذکر کیا ہے کہ اس سے مہر میں سے کوئی شے واپس نہیں لی جائے گی اور یہ کہ اس کی عدت تین حیض ہے۔ (
2
) مطلقہ غیر مدخول بہا جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا جائے، پس یہ آیت اسی کے بارے میں ہے اور اس کے لئے کوئی مہر نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے متعہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور سورة الاحزاب میں بیان فرمایا ہے کہ غیر مدخول بہا کو جب طلاق دی جائے تو اس پر کوئی عدت نہیں، عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔ (
3
) مطلقہ غیر مدخول بہا جس کے لئے مہر مقرر کیا جائے۔ اس کا ذکر آیت کے بعد کیا ہے جبکہ فرمایا : (آیت) ” وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ (البقرۃ :
237
) ترجمہ : اور اگر تم طلاق دو انہیں اس سے پہلے کہ تم انہیں ہاتھ لگاؤ اور مقرر کرچکے تھے ان کے لئے مہر) (
4
) مطلقہ مدخول بہا جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے : (آیت) ” فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ “۔ (النسائ :
24
) ترجمہ : پس جو تم نے لطف اٹھایا ہے ان سے تو دو ان کو ان کے مہر جو مقرر ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت میں ایسی مطلقہ کا ذکر کیا ہے جسے چھوئے جانے سے قبل اور مہر مقرر کیے جانے سے قبل طلاق دے دی جائے اور اس مطلقہ کا جسے چھوئے جانے سے پہلے اور مہر مقرر کیے جانے سے قبل طلاق دی جائے۔ پس پہلی کے لئے متعہ مقرر کیا ہے اور دوسری کے لئے نصف مہر، کیونکہ عورت کو گرہ کا کھلنا اور اس حلت میں عیب اور نقص پڑنا لاحق ہوا ہے جو مرد کو عقد کے سبب حاصل ہوئی تھی اور مس مہر واجب کے بالمقابل ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) جب اللہ تعالیٰ نے مطلقہ کی حالت کو یہاں دو قسموں میں تقسیم کردیا ایک ایسی مطلقہ جس کا مہر مقرر کیا گیا ہو اور دوسری ایسی مطلقہ جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا جائے تو یہ اس پر دلیل ہے کہ نکاح کی تفویض جائز ہے اور اس سے مراد ہر وہ نکاح ہے جو مہر کا ذکر کیے بغیر کیا جائے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس کے بعد مہر مقرر کردیا جاتا ہے، پس اگر وہ مقرر کردیا جائے تو وہ عقد کے ساتھ مل جاتا ہے اور یہ جائز ہے اور اگر وہ نہ مقرر کیا جائے اور طلاق ہوجائے تو پھر بالاجماع مہر واجب نہیں ہوتا۔ (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :
218
، دارالفکر) قاضی ابوبکر بن عربی نے یہی کہا ہے۔ اور مہدوی نے حماد بن ابی سلیمان سے نقل کیا ہے کہ جب آدمی عورت کو طلاق دے اور اس سے دخول نہ کیا ہو اور انہ ہی اس کے لئے مقررہ مہر ہو تو اسے نصف مہر مثل پر مجبور کیا جائے اور اگر عقد نکاح کے بعد اور طلاق واقع ہونے سے پہلے مہر مقرر کردیا گیا تو امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : طلاق کے سبب وہ نصف نہ ہوگا کیونکہ وہ عقد کے ساتھ واجب نہیں ہوا اور یہ اس ارشاد باری کے ظاہر کے خلاف ہے : (آیت) ” وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ “۔ (البقرۃ :
237
) اور یہ خلاف قیاس بھی ہے کیونکہ عقد کے بعد مقرر کردہ مہر عقد کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے پس یہ ضروری ہے کہ یہ طلاق کے ساتھ نصف ہوجائے۔ اس کی اصل یہ ہے کہ مقرر کردہ مہر عقد کے ساتھ ملا دیا جائے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اگر مہر مقرر کرنے سے پہلے موت واقع ہوجائے تو ترمذی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے ذکر کیا ہے کہ ان سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایسی عورت سے شادی کی جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا اور اس کے ساتھ دخول نہ کیا یہاں تک کہ مرگیا تو حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : اس کے لئے اس جیسی عورتوں کا مثل ہوگا نہ اس میں کمی ہوگی اور نہ زیادتی اور اس پر عدت ہوگی اور اس کے لئے میراث بھی ہوگی، تو حضرت معقل بن سنان اشجعی کھڑے ہوئے اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہم میں سے ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں اسی طرح فیصلہ فرمایا جیسے تم نے کیا ہے۔ تو اس سے سے حضرت ابن مسعود ؓ بہت خوش ہوئے ترمذی (رح) نے کہا ہے : حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے اور آپ سے کئی اسناد سے مروی ہے اور حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے بعض اہل علم اور ان کے سوا دوسروں کا اسی پر عمل ہے اور ثوری، احمد اور اسحاق (رح) بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ اور حضور نبی رحمت ﷺ کے اصحاب میں سے بعض اہل علم جن میں حضرت علی ابن ابی طالب، حضرت زید بن ثابت حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شامل ہیں نے کہا ہے کہ جب آدمی کسی عورت شادی کرے اور اس کے ساتھ دخول نہ کرے اور نہ اس کے لئے مہر مقرر کرے یہاں تک کہ مرجائے تو انہوں نے کہا : اس کے لئے میراث ہوگی اور اس کے لئے مہر نہیں ہوگا اور اس پر عدت ہوگی، یہی امام شافعی کا قول ہے اور کہا ہے : اگر بروع بنت واشق کی حدیث ثابت ہے تو پھر یقینا وہ حجت ہے جو حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے اور امام شافعی (رح) کے بارے میں روایت بھی ہے کہ انہوں نے اس کے بعد مصر میں اپنے اس قول سے رجوع کرلیا اور بروع بنت واشق کی حدیث کے مطابق بیان کیا۔ (
1
) (جامع ترمذی، کتاب النکاح، جلد
1
، صفحہ
136
، وزارت تعلیم) میں (مفسر) کہتا ہوں : بروع کی حدیث ثابت کرنے میں اختلاف ہے، پس قاضی ابو محمد عبدا الوہاب نے ابن ابی زید کے رسالہ کی شرح میں کہا ہے کہ بروع بنت واشق کی حدیث کو حفاظ حدیث اور ائمہ اہل علم نے رد کردیا ہے اور واقدی نے کہا ہے : یہ حدیث مدینہ منورہ میں پیش ہوئی تو علماء میں سے کسی نے اسے قبول نہیں کیا اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ ہم نے آپ سے اور ابن منذر سے ذکر کیا ہے، ابن منذر نے کہا ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے قول کی مثل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور اسی کے مطابق ہم کہتے ہیں اور بیان کیا کہ یہی ابو ثور اور اصحاب الرائیرحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے۔ اور زہری، اوزاعی، مالک، شافعی رحمۃ اللہ علہیم سے حضرت علی، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول کی مثل ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس مسئلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے اور وہ یہ کہ اس کے لئے میراث نہیں ہوگی یہاں تک کہ مہر ہو (یعنی مہر کے بغیر میراث نہیں ہو سکتی) مسروق نے یہی کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو موقف امام مالک (رح) نے اختیار کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ مہر مقرر ہونے سے پہلے نکاح میں تفریق ہے پاس اس میں مہر واجب نہیں اور اس کی اصل طلاق ہے لیکن جب حدیث صحیح ہے تو اس کے مقابلے میں قیاس فاسد ہے اور ابو محمد عبدالحمید نے ایسا مذہب بیان کیا ہے جو حدیث سے موافقت رکھتا ہے۔ الحمد للہ۔ اور ابو عمر (رح) نے کہا ہے : حدیث بروع کو عبدالرزاق نے ثوری عن منصور عن ابراہیم عن علقمہ عن ابن مسعود ؓ کی سند سے بیان کیا ہے اور اس میں ہے : پس معقل ابن سنان کھڑے ہوئے اور اس میں ابن مہدی نے ثوری عن فراس عن الشعبی عن مسروق عن عبداللہ کی سند سے بیان کیا اور کہا : معقل بن یسار اور میرے نزدیک صحیح اس کا قول ہے جس نے معقل بن سنان کہا ہے نہ کہ معقل بن یسار (
2
) (ابن ماجہ، باب الرجل یتذد ولا یفرض لھا فیموت، حدیث نمبر
1880
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کیونکہ معقل بن یسار قبیلہ مزینہ کا آدمی ہے اور یہ حدیث ایسی عورت کے بارے ہے جس کا تعلق قبیلہ اشجع سے ہے نہ کہ مزینہ سے۔ اور اسی طرح اسے داؤد نے شعبی عن علقمہ سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے پس اشجع کے لوگوں نے کہا اور معقل بن سنان یوم حرہ میں شہید میں ہوئے اور یوم حرہ کے بارے میں شاعر کہتا ہے۔ الا تلکم الانصار تبکی سرا تھا واشجع تبکی معقل بن سنان : خبردار ! وہ انصار اپنے شیروں کو رو رہے ہیں اور بنی اشجع معقل بن سنان کر رو رہے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
5
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” مالم تمسوھن “ اس میں ما بمعنی الذی ہے۔ یعنی اگر تم نے ان عورتوں کو طلاق دی جنہیں تم نے مس نہیں کیا اور (آیت) ” تمسوھن “۔ کو ثلاثی سے تاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور یہ نافع، ابن کثیر، ابو عمر، عاصم اور ابن عامر کی قرات ہے اور حمزہ اور کسائی نے تماسوھن باب مفاعلہ سے پڑھا ہے کیونکہ وطی دونوں کے ساتھ مکمل ہوتی ہے اور کبھی باب مفاعلہ میں فاعل بمعنی فعل بھی آتا ہے، جیسے طارقت النعل (میں نے نعل کھٹکھٹائے) اور عاقبت اللص (میں نے چور کو سزا دی) اور پہلی قرات اس باب میں مفاعلہ کے معنی کا تقاضا کرتی ہے اس معنی کے اعتبار سے جو مس سے سمجھا گیا ہے اور ابو علی نے اسے ترجیح دی ہے کیونکہ اس معنی کے افعال اس وزن پر ثلاثی آئے ہیں، جیسا کہ نکح، سفد، قرع، دفط اور ضرب الفحل (ان تمام میں جفتی کرنے اور وطی کرنے کا معنی مشترک ہے) اور دونوں قراتیں حسن ہیں۔ اور (آیت) ” اوتفرضوا “ میں او کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ بمعنی واؤ ہے، یعنی مالم تمسوھن ولم تفرضولھن “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وکم من قریۃ اھلکنھا فجآء ھا باسنا بیاتا اوھم قآئلون “۔ (الاعراف) ترجمہ : اور کتنی بستیاں تھیں برباد کردیا ہم نے انہیں، پس آیا ان پر عذاب رات کے وقت یا جب وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔ اور اسی طرح یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وارسلنہ الی مائۃ الف او یزیدون “۔ یہ ویزیدون کے معنی میں ہے۔ (الصافات) (اور ہم نے بھیجا تھا انہیں ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف) اور ارشاد گرامی ہے (آیت) ” ولا تطع منھم اثما اوکفورا “۔ بمعنی وکفورا ہے (الدھر) (اور نہ کہنا مانئے ان میں سے کسی بدکار یا احسان فراموش کا) اور یہ قول : (آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر او جآء احد منکم من الغائط “۔ (النسائ :
43
) یہ بمعنی وجاء احد من الغائط وانتم مرضی او مسافرون ہے۔ (اور اگر ہو تم بیمار یا سفر میں یا آئے کوئی تم میں سے قضائے حاجت سے) اور یہ ارشاد : (آیت) ” الا ما حملت ظھورھما اوالحوایا اوما اختلط بعظم “۔ (الانعام :
146
) اور اسی کے مثل دیگر ارشادات۔ (مگر جو اٹھا رکھی ہو ان کی پشتوں یا آنتوں نے یا جو ملی ہوئی ہو ہڈی کے ساتھ) اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پر اس کے مہر مفروض کا عطف کیا ہے اور فرمایا ہے : (آیت) ” وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ “۔ پس اگر پہلا ارشاد مس سے قبل مفروض لھا کی طلاق کے بیان کے لئے ہوتا تو اس کا وہ دوبارہ ذکر نہ فرماتا۔ مسئلہ نمبر : (
6
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومتعوھن “۔ اس کا معنی ہے تم انہیں کوئی ایسی شی دو جوان کے لئے متعہ بن سکتی ہو۔ حضرت ابن عمر، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت حسن بن ابی حسن، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابوقلابہ، حضرت زہری، حضرت قتادہ، حضرت ضحاک بن مزحم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اسے وجوب پر محمول کیا ہے۔ اور ابو عبید، امام مالک بن انس اور ان کے اصحاب اور قاضی شریح رحمۃ اللہ علہیم وغیرہم نین اسے ندب پر محمول کیا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
319
دارالکتب العلمیہ) پہلے قول والوں نے مقتضائے امر سے استدلال کیا ہے (یعنی الامر للوجوب) اور دوسرا قول کرنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : حقا علی المحسنین اور علی المتقین “ اور اگر یہ واجب ہوتا تو پھر اس کا اطلاق تمام مخلوق پر ہوتا اور پہلا قول اولی اور بہتر ہے، کیونکہ امر کے عمومات میں ہے متعوھن کے قول میں امتاع ہے اور امتاع کی اضافت انکی طرف لام تملیک کے ساتھ ہے۔ اس ارشاد میں وللملقات متاع اس میں وجوب ندب سے زیادہ سے ظاہر ہے اور قولہ : علی المتقین یہ اس کے ایجاب کی تاکید ہے کیونکہ ہر ایک پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے میں اور اس کی نافرمانی اور معصیت کرنے میں اس سے ڈرے، تحقیق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” ھدی للمتقین “ یہ ہدایت ہے متقی لوگوں کے لئے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” ومتعوھن “۔ کی ضمیر متصل میں اختلاف ہے کہ عورتوں میں سے ان سے کون مراد ہیں ؟ تو حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت جابر بن زید، حضرت حسن رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد، حضرت عطاء حضرت اسحاق اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے ایسی مطلقہ عورت کے لئے متعہ واجب ہے جس کے پاس جانے اور اس کا مہر مقرر کیے جانے سے پہلے اسے طلاق ہوجائے اور اس کے سو ادوسری عورتوں کے حق میں مستحب ہے۔ اور امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے : ہر مطلقہ عورت کے حق میں متعہ مستحب ہے اگرچہ اس سے دخول کیا گیا ہو، مگر اس کے حق میں کہ جس کے ساتھ دخول نہ کیا گیا اور اس کے لئے مہر مقرر کیا گیا تو اس کے لئے وہی کافی ہے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا ہے اور اس کے لئے کوئی متعہ نہ ہوگا۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
319
دارالکتب العلمیہ) اور ابو ثور نے کہا ہے اس کے لئے بھی اور ہر مطلقہ عورت کے لئے متعہ ہے اور اہل علم نے اس پر اجماع کیا ہے وہ عورت جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا گیا اور اس کے ساتھ دخول بھی نہ کیا گیا تو اس کے لئے متعہ کے سوا کوئی شے نہیں ہے۔ زہری نے کہا ہے : اس کے لئے متعہ کا فیصلہ قاضی کرے گا اور جمہور لوگوں نے کہا ہے : قاضی اس کے لئے اس کے بارے فیصلہ نہیں کرے گا۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
319
دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ اجماع بلاشبہ صرف آزاد عورت کے حق میں ہے، پس رہی لونڈی جب اسے مس کیے جانے اور مہر مقرر ہونے سے قبل طلاق دے دی جائے تو جمہور کا موقف یہ ہے کہ اس کے لئے متعہ ہوگا امام اوزاعی اور ثوری نے کا ہے : اس کے لئے کوئی متعہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے آقا کے لئے ہوگا اور وہ اپنی مملوکہ کو طلاق کے سبب پہنچنے والی تکلیف کے مقابلے میں کسی مال کا مستحق نہیں ہے۔ رہا امام مالکرحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کا ربط تو ابن شعبان نے کہا ہے : متعہ طلاق کے غم کے بدلے ہوتا ہے، اسی لئے وطی سے پہلے یا بعد خلع لینے والی عورت، مبارات کرنے والی اور لعان کرنے والی کے لئے کوئی متعہ نہیں ہوتا، کیونکہ یہ وہ ہے جس نے خود طلاق کو اختیار کیا ہے۔ اور ترمذی، عطا اور نخعی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : خلع لینے والی عورت کے لئے متعہ ہے اور اصحاب الرائے نے کہا ہے : لعان کرنے والی عورت کے لئے متعہ ہے، ابن قاسم نے کہا ہے : فسخ کئے گئے نکاح میں کوئی متعہ نہیں ہے۔ ابن المواز نے کہا ہے : ایسا نکاح جس کا عقد صحیح ہونے کے بعد اس میں فسخ داخل ہوجائے تو اس میں متعہ نہیں ہے۔ مثلا زوجین میں سے ایک دوسرے کا مالک ہوجائے۔ (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
319
دارالکتب العلمیہ) ابن قاسم نے کہا ہے : اس کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وللمطلقت متاع بالمعروف “ پس یہ حکم طلاق کے ساتھ مختص ہے فسخ اس میں شامل نہیں، اور ابن وہب نے مالکرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ وہ عورت جسے اختیار دیا گیا، اس کے لئے متعہ ہے بخلاف اس لونڈی کے جو کسی غلام کے نکاح میں آزاد ہوجائے تو اسے اپنے نفس کے بارے اختیار ہوگا پس اس صورت میں اس کے لئے متعہ نہیں ہوگا رہی وہ آزاد عورت جسے اختیار دیا گیا یا جو مالک ہوجائے یا مرد اس پر کسی لونڈی سے شادی کرے تو وہ ان تمام صورتوں میں اپنے نفس کی مختار ہوتی ہے اور اس کے لئے متعہ بھی ہوتا ہے کیونکہ زوج فرقت کا سبب بنتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) امام مالک (رح) نے فرمایا : ہمارے نزدیک مقدار کے قلیل اور کثیر ہونے کے اعتبار سے متعہ کی کوئی معروف حد نہیں ہے (
1
) (مؤطا امام مالک جلد
1
صفحہ
522
، وزارت تعلیم) البتہ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے، حضرت ابن عمر ؓ نے کہا ہے : کم سے کم وہ مقدار جو متعہ میں دینی جائز ہے وہ تیس درہم یا ان کے مشابہ کوئی شے ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : سب سے اعلی اور ارفع متہ خادم ہے پھر لباس ہے اور پھر نفقہ ہے، حضرت عطا نے کہا ہے : اوسط متعہ قمیص، دوپٹہ اور چادر ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : یہی اس کی کم سے کم مقدار ہے۔ ابن محیریز نے کہا ہے : صاحب دیوان پر تین دینار ہوں گے اور غلام پر متعہ ہوگا۔ اور حسن نے کہا ہے : ہر کوئی اپنی قدر کے مطابق متعہ ادا کرے گا کوئی خادم کے ساتھ، کوئی کپڑوں کے ساتھ کوئی ایک کپڑے کے ساتھ اور کوئی نفقہ کے ساتھ، اسی طرح امام مالک (رح) بن انس بھی کہتے ہیں اور یہی قرآن کریم کا متقتضا ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نہ اس کی مقدار مقرر کی ہے اور نہ اس کی حد بیان فرمائی ہے، بیشک اس نے ارشاد فرمایا ہے ؛ (آیت) ” علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ “۔ (مقدور والے پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق ہے) حضرت حسن بن علی ؓ نے بیس ہزار اور ایک زقاق (مشکیزہ) شہد بطور متعہ دیا، اور شریح نے پانچ سو درہم بطور متعہ دیئے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلاشبہ عورت کی حالت کا بھی اعتبار کیا جائے گا، بعض شوافع نے یہی کہا ہے، انہوں نے کہا ہے : اگر ہم صرف مرد کی حالت کا اعتبار کریں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اگر وہ دو عورتوں سے شادی کرے ان میں سے ایک شریف اور اعلی ہو اور دوسری ادنی اور گھٹیا ہو پھر وہ مس کرنے سے پہلے ہی دونوں کو طلاق دے دے اور دونوں کے لئے واجب ہو رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے خلاف ہے : (آیت) ” متاعا بالمعروف “۔ (متعہ دو مناسب طریقہ کے ساتھ) اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ انتہائی دولتمند اور خوشحال آدمی جب کسی کمینی اور گھٹیا عورت سے شادی کرے کہ وہ اس کی مثل ہوجائے، کیونکہ اس نے جب اسے دخول اور مہر مقرر ہونے سے پہلے طلاق دے دی تو مرد کی حالت اور عورت کے مہر مثل کے اعتبار سے اس پر متعہ لازم ہوگا، پس اس طرح متعہ اس کے مہر مثل کا کئی گنا ہوجائے گا، نتیجتا وہ دخول سے قبل اس کے اس مہر کے کئی گنا کا مستحق ہوجائے گا جس مہر مثل کا وہ دخول کے بعد مستحق ہوگی جس میں استعمال کی انتہاء ہے اور وہ وطی ہے۔ اصحاب الرائے وغیرہم نے کہا ہے : وہ عورت جسے دخول اور مہر مقرر جانے سے پہلے طلاق دی جاتی ہے اس کا متعہ نصف مہر مثل ہے اس کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ مہر مثل عقد کے سبب لازم ہوا ہے اور متعہ مہر مثل کا ہی بعض ہے پس یہ اس کے لئے اسی طرح واجب ہوگا جیسے مہر مسمی کا نصف واجب ہوتا ہے جبکہ طلاق قبل از دخول ہو اور اس کی تردید رب العالمین کا یہ ارشاد کرتا ہے : (آیت) ” علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ “۔ اور یہ تحدید چھوڑنے پر دلیل ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
319
دارالکتب العلمیہ) اور اللہ تعالیٰ ہی حقائق الامور کے بارے جاننے والا ہے۔ اور ثعلبی نے حدیث ذکر کی ہے۔ بیان کیا ہے کہ یہ آیت ” لاجناح علیکم ان طلقتم النسآء “۔ الآیہ انصار کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس نے بنی حنیفہ کی ایک عورت سے شادی کی اور اس کے لئے مہر مقرر نہ کیا پھر اسے چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دی تب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تو اسے متعہ دے اگرچہ وہ تیری ٹوپی ہی ہو “ متعھا ولو بقلنوتک “۔ (
1
) (معالم التنزیل، جلد
1
، صفحہ
324
، دارالفکر) اور دارقطنی نے سوید بن غفلہ سے روایت کیا ہے کہ عائشہ خثعمیہ حضرت امام حسن بن علی بن ابی طالب ؓ کے نکاح میں تھی جب حضرت علی ؓ شہید ہوئے اور امام حسن ؓ کی خلاف کی بیعت کرلی گئی تو اس نے کہا : اے امیر المومنین ! تجھے خلافت مبارک ہو، تو آپ نے فرمایا : حضرت علی ؓ شہید کردیے گئے ہیں اور تو خوشی کا اظہار کر رہی ہے ! اذھبی فانت طالق ثلاثا “۔ تو جا تجھے تین طلاقیں ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس نے اپنا کمبل لپیٹ لیا اور بیٹھ گئی یہاں تک کہ اس کی عدت گزر گئی، پس آپ نے اس کی طرف بطور متعہ دس ہزار اور اس کے مہر میں سے جو ابھی باقی تھا وہ سب بھیج دیا، تو اس نے کہا : متاع قلیل من حبیب مفارق : جدا ہونے والے محبوب کی نسبت متعہ انتہائی قلیل ہے۔ پس جب آپ کے پاس اس کا یہ قول پہنچا تو آپ رونے لگے اور فرمایا : اگر میں نے اپنے جد امجد سے نہ سنا ہوتا یا میرے باپ نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے میرے جد امد سے سنا۔ آپ فرماتے ہیں : وہ آدمی جس نے اپنی بیوی کو تین مبہم یا اقراء کے وقت تین طلاقیں دیں تو وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور زوج سے شادی کرلے، تو میں اس کی طرف رجوع کرلیتا۔ (
2
) (سنن دارقطنی، کتاب الطلاق :، جلد
4
، صفحہ :
30
، دارالمحاسن قاہرہ) ایک روایت میں ہے کہ قاصد نے انہیں اس کی خبر دی اور وہ ررونے لگے اور فرمایا : اگر میں نے اسے طلاق کے ساتھ مکمل جدا نہ کردیا ہوتا تو میں اس کے طرف رجوع کرلیتا، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ہر طہر کے وقت ایک طلاق یا ہر مہینے کے شروع میں ایک طلاق یا اسے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے شادی کرلے (ایما رجل طلق امراتہ ثلاثا عند کل طھر تطلیقۃ او عند راس کل شھر تطلیقۃ اوطلقھا ثلاثا جمیعا لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ) (
3
) (سنن دارقطنی، کتاب الطلاق :، جلد
4
، صفحہ :
30
، دارالمحاسن قاہرہ) مسئلہ نمبر : (
9
) وہ آدمی جو متعہ سے جاہل اور ناواقف ہو یہاں تک کہ کئی سال گزر گئے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے دے اگرچہ وہ شادی بھی کرلے، اور اگر وہ عورت فوت ہوجائے تو اس کے ورثا کو دے۔ اسے ابن مواز نے ابن قاسم سے روایت کیا ہے۔ اور اصبغ نے کہا ہے : اگر عورت فوت ہوجائے تو پھر اس پر کوئی شے لازم نہیں ہے کیونکہ متعہ طلاق کی وجہ سے پہنچنے والے غم کے سبب عورت کو تسلی دینے کے لئے ہے اور وہ مقصود فوت ہوچکا ہے اور پہلے قول کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک حق ہے جو مرد کے ذمہ ثابت ہوچکا ہے۔ لہذا وہ دیگر حقوق کی طرح عورت سے اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجائے گا اور یہ ان کے مذہب میں متعہ کے واجب ہونے کا احساس ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر : (
10
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ “۔ یہ متعہ کے وجوب پر ددلیل ہے، جمہور نے اسے ” الموسع “ یعنی واؤ کے سکون اور سین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
319
دارالکتب العلمیہ) اور اس سے مراد وہ ہے جس کی حالت میں وسعت اور خوشحالی ہو، کہا جاتا ہے : فلاں ینفق علی قدرہ یعنی فلاں اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتا ہے اور ابو حیوہ نے اسے واؤ کے فتحہ اور سین کی شد اور فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ (یعنی الموسع) ابن عامر، حمزہ، کسائی اور عاصم نے حفص کی روایت میں دونوں مقامات پر دال کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ (یعنی قدرہ) اور ابن کثیر، نافع، ابو عمرو، اور عاصم نے ابوبکر کی روایت میں قدرہ یعنی دونوں جگہوں پر دال کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو الحسن الاخفش وغیرہ نے کہا ہے : یہ دونوں ہم معنی ہیں، دونوں لغتیں فصیح ہیں۔ اور اسی طرح ابو زید نے بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں : خذ قدر کذا و قدر کذا۔ دونوں کا معنی ایک (یعنی اتنی مقدار لے لو) اور کتاب اللہ میں پڑھتے ہیں : (آیت) ” فسالت اودیۃ بقدرھا (الرعد :
17
) ترجمہ : پس بہنے لگیں وادیاں اپنے اپنے اندازے کے مطابق) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وما قدروا اللہ حق قدرہ “۔ (الانعام :
91
) ترجمہ : اور نہ قدر پہچانی انہوں نے اللہ کی جیسے حق تھا اس کی قدر پہچاننے کا) اگر دال کو حرکت دی جائے تو بھی جائز ہے اور ” المقتر “ کا معنی ہے قلیل المال (یعنی ایسا آدمی جس کے پاس مال کم ہو، وہ تنگدست ہو) متاعا یہ مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
319
دارالکتب العلمیہ) یعنی متعوھن متاعا۔ تم انہیں خرچہ دو ” بالمعروف “ یعنی جس طرح شریعت میں بیان کیا گیا ہے میانہ روی وغیرہ۔ مسئلہ نمبر : (
11
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” حقا علی المحسنین “۔ یعنی یہ نیکوکاروں کا فرض ہے۔ کہا جاتا ہے : حققت علیہ القضاء احققت ‘ یعنی میں نے فیصلہ اس پر لازم کردیا۔ اس میں اس پر دلیل ہے کہ متعہ واجب ہے کیونکہ اس کے بارے حکم دیا گیا ہے اور قول باری تعالیٰ ” حقا “ وجوب کی تاکید کے لئے ہے۔ اور (آیت) ” علی المحسنین “۔ اور (آیت) ” علی المتقین “۔ کا معنی ہے علی المؤمنین “ یعنی مومنین پر لازم ہے۔ اسی لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے : لست بمحسن ولامتق (کہ میں محسن اور متقی نہیں) اور لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تمام محسنین اور متقین ہوں، پس وہ اللہ تعالیٰ کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ محسن ہوتے ہیں اور وہ اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہیں تاکہ وہ جن ہم میں داخل نہ ہوں، پس تمام مخلوق پر واجب ہے کہ وہ محسنین اور متقین ہوں اور حقا یہ متاعا کی صفت ہے یا پھر مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور اسے امر کی تاکید لئے لایا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top