Al-Qurtubi - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
(مسلمانو ! ) سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی نماز عصر) پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو
آیت نمبر : 238۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” حفظوا “ یہ خطاب تمام امت کو ہے اور یہ آیت نمازوں کو ان کے اوقات میں ان کی تمام شرائط کے ساتھ قائم کرنے اور اس پر ہمیشگی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ اور محافظۃ کا معنی کسی سے پر مداومت اور مواظبت اختیار کرنا ہے اور الوسطی الاوسط کی تانیث ہے اور کسی شے کا وسط اس کا بہترین، عمدہ اور متناسب ہونا ہے، اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (آیت) ” وکذالک جعلنا کم امۃ وسطا “۔ اس کی تفصیلی بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اور ایک اعرابی نے حضور نبی کریم ﷺ کی مدح کرتے ہوئے کہا : یا اوسط الناس طرا فی مفاخرھم واکرم الناس اما برۃ وابا : اور وسط فلان القوم یسطھم ‘ یعنی فلاں ان کے وسط میں ہوگیا۔ اور (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “۔ کا علیحدہ اور منفرد ذکر کیا گیا ہے حالانکہ الصلوت کے عموم میں بھی وہ داخل ہے تو اس کی عظمت اور مرتبہ کے اظہار کے لئے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” واذ اخذنا من النبین میثاقھم ومنک ومن نوح “۔ (الاحزاب : 7) ترجمہ : (اور اے حبیب) یاد کرو جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے۔ (اس میں منک اور من نوح کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے حالانکہ النبیین کے عموم میں یہ داخل ہیں، تو یہ اظہار شرف و مرتبہ کے لئے ہے) اور اسی طرح یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فیھما فاکھۃ ونخل ورمان “۔ (الرحمن) ترجمہ ؛ ان میں میوے ہوں گے اور کھجوریں اور انار ہوں گے۔ (فاکھۃ کے عموم میں داخل ہونے کے باوجود نخل اور رمان کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے) ابو جعفر الواسطی نے (آیت) ” والصلوۃ الوسطی “ کو اغراء کی بنا پر نصب کے ساتھ پڑھا ہے یعنی الزموا الصلاۃ الوسطی (تم صلوۃ وسطی کو لازم پکڑو) اور اسی طرح حلوانی نے بھی پڑھا ہے۔ اور قالون نے نافع سے الوصطی صاد کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ طاء اس کی مجاورت میں ہے کیونکہ یہ دونوں ایک ہی محل میں سے ہیں، اور یہ دونوں لغتیں ہیں جیسا کہ صراط وغیرہ۔ مسئلہ نمبر : (2) لوگوں نے (آیت) ” والصلوۃ الوسطی “ کی تعیین میں اختلاف کیا ہے اس پر دس اقوال ہیں۔ (1) اس سے مراد ظہر ہے، کیونکہ یہ نماز دو قولوں میں سے صحیح قول کی بنا پر دن کے وسط میں ہے کہ دن کا آغاز طلوع فجر سے ہوتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور ہم نے ظہر سے ابتدا کی ہے کیونکہ یہی وہ پہلی نماز ہے جو اسلام میں ادا کی گئی، اور جنہوں نے کہا ہے کہ یہی (آیت) ” والصلوۃ الوسطی “ ہے ان میں سے حضرت زید بن ثابت، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبداللہ بن عمر اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔ اور ان روایات میں سے اس پر دلالت کرتی ہیں کہ یہی صلوۃ وسطی ہے ایک وہ ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے بیان فرمائی، جس وقت ان دونوں نے املا کرائی، (آیت) ” حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی وصلاۃ العصر اسے واؤ کے ساتھ بیان کیا (1) (مؤطا امام مالک کتاب صلوۃ الجماعۃ، جلد 1 صفحہ 121، وزارت تعلیم) اور روایت ہے کہ یہ مسلمان پر بہت زیادہ شاق گزرتی ہے کیونکہ یہ تیز گرمی کے وقت میں آتی ہے درآنحالیکہ انہیں اپنے اموال میں کاموں نے خوب تھکا رکھا ہوتا ہے۔ اور ابو دؤاد نے حضرت زید ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز سخت گرمی میں ادا فرماتے تھے اور کوئی ایسی نماز نہ تھی جو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر اس سے زیادہ شاق اور مشقت آمیز ہوتی، تب یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” حفظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی “۔ اور یہ بھی فرمایا : اس سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد بھی دو نمازیں ہیں (2) (سنن ابی دؤاد، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 59، وزارت تعلیم) اور امام مالک نے مؤطا میں اور ابو داؤد وطیالسی نے اپنی مسند میں حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : صلوۃ وسطی صلوۃ ظہر ہے (3) (مؤطا امام مالک کتاب صلوۃ الجماعۃ، جلد 1 صفحہ 122، وزارت تعلیم) طیالسی نے یہ زیادہ کہا ہے : اور رسول اللہ اسے سخت گرمی کے وقت میں ادا فرماتے تھے۔ (2) (آیت) ” والصلوۃ الوسطی “ سے مراد نماز عصر ہے، کیونکہ اس سے پہلے دن کی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد رات کی دو نمازیں ہیں، نحاس نے کہا ہے : اس استدلال میں سے عمدہ اور اعلی یہ ہے کہ یہ نماز ہے جس کے لئے وسطی کہا گیا ہے کیونکہ یہ دو نمازوں کے در میان ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو سب سے اول فرض کی گئی اور دوسری وہ نماز ہے جو دوسرے نمبر پر فرض کی گئی۔ اور جنہوں نے کہا ہے کہ یہی نماز صلوۃ وسطی ہے ان میں سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں (4) (صحیح بخاری باب : الدعاء علی المشرکین، حدیث نمبر : 5917، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہی امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم کا مختار ہے۔ امام شافعی (رح) اور اکثر اہل الاثر نے یہی کہا ہے اور عبدالملک بن حبیب نے بھی یہی موقف اپنایا ہے اور ابن عربی نے بھی قبس میں اور ابن عطیہ نے اپنی تفسیر میں اسے ہی اختیار کیا ہے اور کہا ہے : اسی قول پر جمہور لوگ ہیں اور یہی میں بھی کہتا ہوں۔ اور انہوں نے اس باب میں وارد ہونے والی احادیث سے استدلال کیا ہے انہیں مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے اور میں ان میں سے حدیث ابن مسعود ؓ کو بیان کروں گا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” الصلاۃ الوسطی صلاۃ العصر صلاۃ وسطی “ نماز عصر ہے۔ اسے ترمذی (رح) نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (1) اور ہم اس سے زیادہ احادیث القبس فی شرح مؤطا مالک بن انس “ میں لائے ہیں۔ (3) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ سے مراد نماز مغرب ہے، قبیصہ بن ابی ذؤیب نے ایک جماعت میں یہی کہا ہے، ان کی حجت یہ ہے کہ یہ رکعتوں کی تعداد میں متوسط ہے نہ رکعتوں کی تعداد بہت کم ہے اور نہ ہی بہت زیادہ ہے اور نہ ہی سفر میں اس کی قصر کی جاتی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ اپنے وقت سے مؤخر کیا ہے اور نہ ہی اسے جلدی ادا فرمایا ہے اور اس کے بعد دو نمازیں جہری ہیں اور اس سے پہلے دو نمازیں سری ہیں۔ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ترین نماز مغرب ہے، اس نے اسے نہ کسی مسافر سے ساقط کیا اور نہ کسی مقیم سے، اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ رات کی نماز کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ دن کی نمازوں کو ختم کردیا۔ پس جس نے مغرب کی نماز پڑھی اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا اور جس نے اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیس سال کے گناہوں کی مغفرت فرما دے گا، یا فرمایا چالیس سال کے “۔ (4) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ سے مراد عشاء کی نماز ہے کیونکہ یہ ایسی دو نمازوں کے درمیان ہے جن کی قصر نہیں کی جاتی اور یہ نیند کے وقت میں آتی ہے اور اس میں تاخیر کرنا مستحب ہوتا ہے اور یہ شاق اور گراں ہوتی ہے، لہذا اس کی محافظت کی تاکید فرمائی۔ (5) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ سے مراد صبح کی نماز ہے، کیونکہ اس سے پہلے رات کی دو نمازیں ہیں جن میں قرات بالجہر کی جاتی ہے اور اس کے بعد دن کی دو نمازیں ہیں جن میں سرا قرات کی جاتی ہے اور اس لئے بھی کہ اس کا وقت داخل ہوجاتا ہے اور لوگ سو رہے ہوتے ہیں اور اس کے لئے سردی کے موسم میں سردی کی شدت کی وجہ سے اٹھنا اور گرمی کے موسم میں رات کے چھوٹا ہونے کے باعث اٹھنا شاق اور مشکل ہوتا ہے۔ اور جنہوں نے کہا کہ یہی صلوۃ وسطی ہے ان میں سے حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عبداللہ بن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔ اسے مؤطا نے بلاغا ذکر کیا ہے۔ (یعنی امام مالک (رح) نے الموطا میں فرمایا کہ ان دونوں سے یہ خبر ان کے پاس پہنچی ہے) اور ترمذی نے اسے حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ سے تعلیقا ذکر کیا ہے۔ (معلق ایسی روایت ہے جو غیر مسند ہو) اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے اور یہی امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب کا قول ہے اور اسی کی طرف امام شافعی کا میلان ہے اس میں جو آپ سے القشیری نے ذکر کیا ہے، اور حضرت علی ؓ سے صحیح روایت یہ ہے کہ صلوۃ وسطی نماز عصر ہے اور آپ سے یہ صحیح اور معروف سند سے مروی ہے۔ (1) (صحیح بخاری، باب الدعا علی المشرکین، حدیث نمبر 5917، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور جنہوں نے کہا ہے کہ صلوۃ وسطی صبح کی نماز ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : (آیت) ” وقوموا للہ قنتین “۔ یعنی فیھا (اور کھڑے رہا کرو اللہ کے لئے اس میں عاجزی کرتے ہوئے) (لیکن استدلال کرنے والوں نے ترجمہ کیا قنوت پڑھتے ہوئے) اور صبح کی نماز کے سوا کوئی فرض نماز نہیں ہے جس میں قنوت ہو، ابو رجاء نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ہمیں بصرہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور اس میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھائی اور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور جب فارغ ہوئے تو فرمایا : یہ وہ صلوۃ وسطی ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس میں قنوت پڑھتے ہوئے کھڑے رہیں۔ اور حضرت انس ؓ نے کہا ہے : حضور نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز میں رکوع کے بعد قنوت پڑھی (2) (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد 1، صفحہ 237، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب القنوت الخ، حدیث نمبر 946، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) قنوت کا حکم آگے آئے گا اور اس بارے میں علماء کی جو آراء ہیں سورة آل عمران میں اس ارشاد کے تحت : (آیت) ” لیس لک من الامر شیء “۔ (آل عمران : 128) (6) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ سے مراد جمعہ کی نماز ہے کیونکہ اس کے لئے جمع ہونے اور اس میں خطبہ ہونے کے سبب اسے خاص کیا گیا ہے اور اسے عید بنایا گیا ہے۔ ابن حبیب اور مکی نے یہ ذکر کیا ہے اور مسلم نے حضرت عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اس قوم کے لئے جو جمعہ کی نماز سے پیچھے رہ جاتے ہیں ” لقدھممت ان امر رجلا لیصلی بالناس ثم احرق علی رجال یتخلفون من الجمعۃ بیوتھم “ (3) (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد 1، صفحہ 232، وزارت تعلیم) میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں کسی آدمی کو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے حکم دوں پھر ان لوگوں کو ان کے گھروں میں جلادوں جو جمعہ کی نماز سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ (7) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ سے مراد صبح اور عصر کی دونوں نمازیں ہیں، شیخ ابوبکر البہرمی نے یہی کہا ہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے استدلال کیا ہے ” یتعاقبون فیکم ملائکۃ باللیل وملائکۃ بالنھار الحدیث : (4) (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ، جلد، 1، صفحہ 79، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، فضل صلوۃ العصر، حدیث نمبر 522، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (تم میں رات اور دن کے فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے ہوتے ہیں) اسے حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے۔ اور حضرت جریر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک آپ ﷺ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا : اماانکم سترون ربکم کما ترون ھذا القمر لا تضامون فی رؤیتہ فان استطعتم الا تغلبوا علی صلاۃ قبل طلوع الشمس وصلاۃ قبل غروبھا، یعنی العصر والفجر “۔ (بیشک عنقریب تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کی رؤیت میں کوئی مشقت نہ ہوگی، پس اگر تم استطاعت رکھو تو خبردار، اس نماز کے بارے میں تم مغلوب نہ ہو جو سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ہے اور وہ نماز جو غروب آفتاب سے پہلے ہے) ان سے مراد عصر اور فجر کی نمازیں ہیں، پھر حضرت جریر ؓ نے یہ آیت پڑھی۔ (آیت) ” وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا “۔ (طہ : 130) (1) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 288، وزارت تعلیم) ترجمہ : اور پاکی بیان کیجئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ طلوع آفتاب سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ اور حضرت عمارہ بن رؤیبہ نے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” ہر گز کوئی آگ میں داخل نہ ہوگا جس نے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھی (2) (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 288، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب فضل صلوۃ العصر، حدیث نمبر 521، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ان سے مراد بھی فجر اور عصر کی نمازیں ہیں۔ اور انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من صلی البردین دخل الجنۃ “ (3) (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 288، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب فضل صلوۃ الفجر، حدیث نمبر 540، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) جس نے دو ٹھنڈی نمازیں پڑھیں وہ جنت میں داخل ہوگا، یہ تمام صحیح مسلم وغیرہ میں ثابت ہیں، ان دونوں نمازوں کو بردین کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں نمازیں ٹھنڈک کے وقت میں پڑھی جاتی ہیں۔ (8) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ سے مراد عشاء اور صبح کی نمازیں ہیں، حضرت ابو الدرداء ؓ نے اپنے اس مرض کے دوران فرمایا جس میں ان کا وصال ہوا : تم سنو اور تم اپنے پیچھے آنے والوں کو بھی پہنچاؤ ان دو نمازوں پر مواظبت اختیار کرو، یعنی جماعت کے ساتھ ادا کرو، عشاء اور صبح کی نمازیں اور اگر تم جان لو جو ان دونوں میں (اجر) ہے تو تم ان دونوں کو ادا کرنے کے لئے آؤ اگرچہ تمہیں اپنی کہنیوں اور گھنٹوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑے، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ نے یہی کہا ہے۔ ائمہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ’ اگر وہ جان لیں جو (اجر) عشاء اور صبح کی نمازوں میں ہے تو وہ ان دونوں کے لئے آئیں اگرچہ گھسٹ کر آنا پڑے اور فرمایا بیشک یہ دونوں نمازیں منافقیں پر بہت سخت اور بھاری ہیں۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 322 دارالکتب العلمیہ، صحیح بخاری باب : فضل العشاء الخ حدیث نمبر : 617 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے والے کے لئے پوری رات قیام کرنے اور عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے والے کے لئے نصف رات قیام کرنے کا (اجر) رکھا گیا ہے، اسے امام مالک (رح) نے موقوف علی عثمان ذکر کیا ہے اور مسلم نے اسے مرفوع ذکر کیا ہے اور ابو داؤد اور ترمذی نے آپ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : من شھد العشاء فی جماعۃ کان لہ قیام نصف لیلۃ ومن صلی العشاء والفجر فی جماعۃ کان لہ کقیام لیلۃ “۔ (5) (جامع ترمذی، کتاب الصلوۃ جلد 1 صفحہ 30، وزارت تعلیم، سنن ابی داؤد باب فضل صلوۃ الجماعۃ، حدیث نمبر 468، ضیاء القرآن پہلی کیشنز، سنن ترمذی، باب ماجاء فی فضل العشاء والفجر فی الجماعۃ، حدیث نمبر 205، ضیاء القرآن پہلی کیشنز) جو آدمی عشاء کی جماعت میں حاضر ہوا اس کے لئے نصف رات کا قیام کرنے کا اجر ہے اور جس نے عشاء اور فجر کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کیں تو اس کے لئے پوری رات قیام کرنے کی طرح اجر ہے، اور یہ اس کے خلاف ہے جسے امام مالک (رح) اور مسلم (رح) نے روایت کیا ہے۔ (9) یہ پانچوں کی پانچویں نمازیں ہیں یہ حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (آیت) ” حفظوا علی اصلوت “۔ سے فرض اور کل کو شامل ہے پھر فرض کا خصوصا ذکر کیا۔ (10) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ سے مراد غیر معین نماز ہیں، حضرت نافع ؓ نے حضرت ابن عمر ؓ سے یہی روایت کیا ہے اور ربیع بن خیثم نے بھی یہی کہا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے نمازوں میں صلوۃ وسطی کو اسی طرح مخفی اور پوشیدہ رکھا ہے جیسے کہ رمضان المبارک میں لیلۃ القدر کو مخفی رکھا ہے اور جس طرح کہ جمعہ کے دن (مقبول) ساعت کو اور رات کی ان ساعتوں کو مخفی رکھا جن میں دعا مقبول ہوتی ہے، تاکہ وہ رات کے وقت اندھیروں میں عالم الخفیات کی مناجات کے لئے قیام کریں۔ اور جس سے اس کی صحت پر استدلال ہوتا ہے کہ یہ مبہم ہے غیر معین ہے وہ وہ روایت ہے جسے مسلم نے اپنی صحیح میں باب کے آخر میں حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” حافظوا علی الصلوات “۔ وصلوۃ العصر، تم نمازوں پر اور نماز عصر پر مواظبت اختیار کرو، پس ہم نے اسے پڑھا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کردیا اور یہ نازل ہوئی۔ (آیت) ” حفظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی “۔ تو کسی آدمی نے کہا : کیا یہ صلوۃ عصر ہی ہے ؟ براء نے کہا ہے : میں نے تجھے خبر دی ہے کیسے یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے کیسے منسوخ فرمایا ؟ (1) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 227، وزارت تعلیم) واللہ اعلم، پس اس سے لازم ہوا کہ اسے معین کرنے کے بعد اس کی تعیین کو منسوخ کردیا گیا اور اسے مبہم رکھا گیا پس تعیین اٹھ گئی، واللہ اعلم۔ اور یہ مسلم کی پسند ہے، کیونکہ اسے باب کے آخر میں لایا گیا ہے اور علماء متاخرین میں سے کئی ایک نے اسی طرح کہا ہے اور یہی صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ ، دلائل کے مابین تعارض ہونے اور ترجیح نہ ہونے کی وجہ سے (علماء متاخرین نے یہ کہا ہے) پس تمام نمازوں پر محافظت اور ان کے اوقات میں ان کی ادائیگی کے سوا کوئی شے باقی نہیں رہی۔ واللہ۔ مسئلہ نمبر : (3) (آیت) ” الصلوۃ الوسطی “ میں یہ اختلاف ان کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جنہوں نے وصلواۃ العصر ثابت کیا ہے جو کہ ابو یونس مولی عائشہ ؓ کی حدیث میں مذکور ہے جب کہ آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ آپ کے لئے مصحف قرانی لکھے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے بلاشبہ یہ الفاظ حضور نبی کریم ﷺ کی جانب سے تفسیر کی مانند ہیں اور اس پر عمرو بن رافع ؓ کی حدیث دلالت کرتی ہے، انہوں نے بیان کیا : مجھے ام المومنین حضرت حفصہ ؓ نے حکم ارشاد فرمایا کہ میں ان کے لئے مصحف لکھوں، الحدیث اور اس میں ہے : پس آپ نے مجھے اسی طرح املاء کرائی (آیت) ” حفظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی۔۔۔۔۔ وھی۔۔ وقوموا للہ قنتین “۔ (2) (مؤطا امام مالک کتاب الصلوۃ الجماعۃ، جلد 1 صفحہ 121، 122، وزارت تعلیم) اور فرمایا : اسی طرح میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنا۔ پس آپ کا قول وھی العصر اس پر دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کلام اللہ میں سے ” الصلوۃ الوسطی “ کی اپنے قول وھی العصر کے ساتھ تفسیر بیان کی ہے۔ اور نافع نے حضرت حفصہ ؓ سے صلاۃ العصر کے الفاظ روایت کیے ہیں (1) (مؤطا امام مالک کتاب الصلوۃ الجماعۃ، جلد 1 صفحہ، 122، وزارت تعلیم) جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے صلاۃ العصر کے الفاظ بھی یعنی بغیر واؤ کے روایت کیے گئے ہیں (2) (احکام القرآن للجصاص، جلد 1 صفحہ، 442 دارالکتب العربیۃ) اور ابوبکر الانباری نے کہا ہے : اس زائد لفظ میں یہ اختلاف اس کے بطلان پر اور جو کچھ تمام مسلمانوں کے مصحف الامام میں ہے اس کے صحیح ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اور اس پر ایک دوسری دلیل بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جنہوں نے کہا : والصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر “ انہوں نے ہی صلاۃ وسطی غیر عصر کو قرار دیا ہے۔ اور اس میں رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا رد ہے جسے حضرت عبداللہ ؓ نے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : عزوہ احزاب کے دن مشرکین نے رسول اللہ کو عصر کی نماز سے مشغول رکھا یہاں تک کہ سورج کا رنگ زرد ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شغلونا عن الصلاۃ والوسطی ملا اللہ اجوافھم وقبورھم نارا “۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد 1، صفحہ 227، وزارت) الحدیث : انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطی سے مشغول رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” والصلوۃ الوسطی “۔ میں اس پر دلیل موجود ہے کہ وتر واجب (فرض) نہیں ہیں کیونکہ مسلمانوں کا فرض نمازوں کی تعداد پر اتفاق ہے کہ وہ سات سے کم ہیں اور تین سے زیادہ ہیں اور تین سے ساتھ کے درمیان سوائے پانچ کے اور کوئی طاق عدد نہیں ہے، اور جفت اعداد کا کوئی وسط نہیں تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ فرض نمازیں پانچ ہیں اور حدیث معراج میں یہی پانچ ہی وہ پچاس ہیں کیونکہ میرے نزدیک قول تبدیل نہیں ہوتا۔ ھی خمس وھن خمسون لا یبدل القول لدی “۔ مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وقوموا للہ قنتین “۔ اس کا معنی ہے تم اپنی نمازوں میں عجز و انکساری کرتے ہوئے کھڑے رہو، اور لوگوں کا (آیت) ” قنتین “ کے معنی میں اختلاف ہے۔ حضرت شعبی نے کہا ہے : اس کا معنی ہے طائعین اطاعت کرنے والے اور حضرت جابر بن زید، عطا اور سعید بن جبیر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے یہی کہا ہے۔ اور ضحاک نے کہا ہے : قرآن کریم میں ہر مقام پر قنوت کا لفظ طاعت کے معنی میں ہے۔ اور ابو سعید نے حضور نبی مکرم ﷺ سے یہی بیان کیا ہے اور بیشک ہر دین والے آج وہ نافرمانی کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ لہذا اس امت کو کہا گیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت وپیروی کرتے ہوئے کھڑے رہو “۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 323 دارالکتب العلمیہ) اور مجاہد نے کہا ہے : (آیت) ” قنتین “ کا معنی ہے خاشعین ‘ خشوع کرنے والے، قنوت کا معنی ہے رکوع کو طویل کرنا، خشوع کرنا، آنکھوں کو جھکانا اور عجز و انکساری کرنا، اور ربیع نے کہا ہے : القنوت کا معنی ہے قیام کو طویل کرنا (5) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 324 دارالکتب العلمیہ) حضرت ابن عمر ؓ نے یہی کہا ہے اور (آیت) ” امن ھو قانت انآء الیل ساجدا وقآئما “۔ پڑھا ہے۔ (الزمر : 9) ترجمہ ؛ بھلا جو شخص عبادت میں بسر کرتا ہے رات کی گھڑیاں کبھی سجدہ کرتے ہوئے اور کبھی کھڑے ہوئے) اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے : افضل الصلاۃ طول القنوت “۔ (1) (جامع ترمذی، کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 51، وزارت تعلیم) افضل نماز طویل قیام والی ہے، مسلم وغیرہ نے اسے بیان کیا ہے، اور شاعر نے کہا ہے : قانتا للہ یدعو ربہ وعلی عمد من الناس اعتزل : اس میں بھی قانتا طویل قیام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے : قانتین داعین، دعا مانگنے والے، پکارنے والے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 324 دارالکتب العلمیہ) اور حدیث میں ہے : رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ تک قنوت پڑھی اور آپ رعل وذکوان کے خلاف دعا مانگتے رہے (3) صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 237، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ، حدیث نمبر 948، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ایک قوم نے کہا ہے : اس کا معنی ہے دعا، اس نے دعا مانگی، اور ایک قوم نے کہا : اس کا معنی ہے طول قیامہ، اس نے اپنا قیام طویل کیا، اور سدی نے کہا ہے : قانتین کا معنی ہے ساکتین، خاموش رہنے والے، اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت نماز میں کلام کرنے سے روکنے کے لئے نازل ہوئی۔ اور ابتدائے اسلام میں یہ مباح تھی اور یہی صحیح ہے اس روایت کی وجہ سے جسے مسلم وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے بیان کیا : ہم رسول اللہ ﷺ پر سلام پیش کرتے ہیں تھے، درآنحالیکہ آپ ﷺ نماز میں ہوتے اور آپ ہم پر جواب لوٹاتے تھے اور جب ہم نجاشی کے پاس سے لوٹ کر آئے ہم نے آپ پر سلام پیش کیا تو آپ نے ہمیں جواب نہ لوٹایا، تو ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ پر نماز میں سلام عرض کرتے تھے اور آپ ہم پر جواب لوٹاتے تھے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان فی الصلوۃ شغلا (4) صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 204، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب ما ینھی عنہ من الکلام، حدیث نمبر 1124، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) بیشک نماز میں مشغولیت ہے۔ حضرت زید بن ارقم ؓ نے روایت کیا اور کہا : ہم نماز میں کلام کرتے تھے ایک آدمی اپنے ساتھی سے گفتگو کرلیتا تھا درآنحالیکہ وہ اس کے پہلو میں حالت میں نماز میں ہوتا، یہاں تک کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” قوموا للہ قنتین “۔ پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور گفتگو سے ہمیں روک دیا گیا (5) صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 204، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب ما ینھی عنہ من الکلام، حدیث نمبر 1125، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور کہا گیا ہے ،: لغوی اعتبار سے قنوت کا اصل معنی کسی شے پر دوام اختیار کرنا ہے اور اس حیثیت سے کہ لغت میں قنوت کا اصل معنی دوام علی الشی ہے، یہ جائز ہے کہ طاعت وپیروی پر دوام اختیار کرنے والے کو قانت کا نام دیا جائے اور اسی طرح جس نے قیام، قرات اور دعا نماز میں طویل کردیے یا خشوع اور سکوت کو طویل کیا، یہ سب کے سب قنوت کرنے والے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (6) سب کے سب مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ نماز میں جان بوجھ کر کلام کرنا جبکہ نمازی جانتا ہو کہ وہ نماز میں ہے اور وہ کلام اس کی نماز کی اصلاح کے بارے میں نہ ہو تو وہ نماز کو فاسد کردیتی ہے، سوائے اس روایت کے جو اوزاعی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : جس نے نفس کے احیاء کے لئے کلام کی یا اسی جیسے بڑے امور کے بارے میں تو اس کے ساتھ اس کی نماز فاسد نہ ہوگی، یہ قول نظر وفکر کے اعتبار سے ضعیف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” قوموا للہ قنتین “۔ اور حضرت زید بن ارقم ؓ نے کہا ہے کہ ہم نماز میں کلام کرتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” قوموا للہ قنتین “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 204، وزارت تعلیم) الحدیث اور حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ نیا حکم بیان کیا ہے کہ تم نماز میں کلام نہ کرو “۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 133، وزارت تعلیم) اور ایسا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے جس کے لئے نماز کو توڑنا وہ پسند کرتا ہو اور اس وجہ سے وہ استیناف سے منع کرتا ہو، پس جس کسی نے ایسے کام کے لئے اپنی نماز کو توڑ دیا جسے وہ احیاء نفس یا مال یا ایسا کام جو انہی کے طریقہ پر ہو کے لئے فضیلت دیکھتا ہو تو وہ اپنی نماز نئے سرے سے پڑھے اور بنا۔ کرے اس مسئلہ میں یہی صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (7) نماز کے دوران بھول کر کلام کرنے کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے، پس امام مالک، اور امام شافعی (رح) اور ان کے اصحاب ان تمام نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نماز میں سہوا گفتگو کرنا اسے فاسد نہیں کرتا، لیکن امام مالک نے یہ بھی کہا ہے : نماز میں عمدا گفتگو کرنا بھی نماز کو فاسد نہیں کرتا بشرطیکہ وہ اس کی کیفیت اور اس کی اصلاح کے بارے ہو۔ یہی ربیعہ اور ابن القاسم کا قول ہے۔ اور سحنون نے ابن القاسم سے اور انہوں نے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر کسی قوم کو امام نے دو رکعتیں نماز پڑھائی اور بھول کر سلام پھیردیا اور انہوں نے اس کے لئے تسبیح (سبحان اللہ کہا) کہی اور وہ اسے نہ سمجھا، تو ان لوگوں میں سے جو اس کے پیچھے نماز میں تھے ایک آدمی نے کہا : بلاشبہ تم نے نماز مکمل نہیں کی ہو اپنی نماز مکمل کرو، پس وہ قوم کی طرف متوجہ ہوا اور کہا : کیا یہ حق ہے جو کچھ یہ کہہ رہا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں تو فرمایا : امام انہیں وہ نماز پڑھا دے گا جو ان کی نماز میں سے باقی ہے اور وہ اس کے ساتھ اپنی بقیہ نماز پڑھیں گے ان میں سے وہ بھی جس نے کلام کیا اور وہ بھی جس نے کلام نہیں کیا اور ان پر کوئی شے نہ ہوگی اور وہ اس میں وہی کچھ کرنے والے ہوں گے جو کچھ حضور نبی کریم ﷺ نے ذولیدین کے دن کیا، یہ المدونہ میں ابن القاسم کا قول ہے اور ان کی روایت امام مالک سے ہے اور یہ امام مالک کے تمام اصحاب ذوالیدین کے مسئلہ میں امام مالک کے قول کے خلاف ہیں سوائے اکیلے ابن قاسم کے، کیونکہ اس بارے میں امام مالک (رح) کا قول بیان کرتے ہیں اور ان کے سوا دوسرے اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں : بلاشبہ یہ ابتدائے اسلام میں ہوا، اور آپ لوگ اپنی نماز کے بارے میں پہنچانتے ہیں، پس جس کسی نے اس دوران گفتگو کی تو وہ اس کا اعادہ کرے۔ اور یہی قول عراقیین کا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب، اور ثوری رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ نماز میں گفتگو کرنا کسی بھی حال میں اسے فاسد کردیتا ہے چاہے وہ سہوا ہو یا عمدا ہو، نماز کے بارے میں ہو یا کسی غیر کے بارے میں، اور یہی ابراہیم نخعی، عطا، حسن، حماد بن ابی سلیمان اور قتادہ رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے اصحاب کا خیال ہے کہ ذوالیدین کے قصہ کے بارے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت زید بن ارقم ؓ کی حدیث سے منسوخ ہے، انہوں نے کہا ہے : اگرچہ حضرت ابوہریرہ ؓ متاخر الاسلام ہیں لیکن انہوں نے ذوالیدین کی حدیث کو مرسل ذکر کیا ہے جیسا کہ انہوں نے اس حدیث کو مرسل ذکر کیا ہے : من ادر کہ الفجر جنبا فلا صوم لہ (1) (صحیح مسلم، کتاب الصیام، جلد، 1، صفحہ 353، وزارت تعلیم) جسے جنبی حالت میں فجر نے پا لیا تو اس کے لئے روزہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے : حضرت ابوہریرہ ؓ کثرت سے مرسل حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ اور علی بن زیادہ نے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں ابو قرہ نے بتایا کہ میں نے امام مالک (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : جب آدمی نماز میں کلام کرے تو مستحب یہ ہے کہ وہ اس کا اعادہ کرے اور بنا نہ کرے، مزید کہا : اور ہمیں امام مالک (رح) نے فرمایا : بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے گفتگو فرمائی اور اس دن آپ کے اصحاب نے بھی آپ کے ساتھ گفتگو کی، کیونکہ ان کا گمان تھا کہ نماز کم ہوگئی ہے اور آج کسی کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اور سحنون نے ابن القاسم سے ایک آدمی کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس نے اکیلے نماز پڑھی اور اپنی طرف سے وہ چار رکعتوں سے فارغ ہوگیا، تو اس کے پہلو میں موجود ایک آدمی نے اسے کہا : بلاشبہ تو نے تو صرف تین رکعتیں پڑھی ہیں تو وہ دوسرے کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا : کیا یہ درست ہے جو کچھ یہ کہہ رہا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، فرمایا : اس کی نماز فاسد ہوگئی، اور اس کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس سے کلام کرتا اور نہ یہ چاہئے تھا کہ اس (دوسرے) کی طرف متوجہ ہوتا۔ ابوعمر نے کہا ہے : وہ اس مسئلہ میں جماعت کے ساتھ امام اور منفرد کے درمیان فرق کرتے ہیں، پس وہ امام اور اس کے مقتدیوں کے لئے نماز کی حالت کے بارے کلام کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور منفرد کو اس کی اجازت نہیں دیتے، اور ان کے سوا دوسرے اس مسئلہ میں ابن القاسم کے جواب کو منفرد اور امام اور اس کے ساتھیوں پر محمول کرتے ہیں آپ کے اس قول میں اختلاف کی بنا پر جو ذوالیدین کی حدیث کے استعمال میں ہے، جیسا کہ اس میں امام مالک (رح) کا قول مختلف ہے۔ اور امام شافعی (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے : جس نے عمدا کلام کیا اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس نے نماز مکمل نہیں کی اور یہ کہ وہ نماز میں ہے تو اس نے اپنی نماز کو فاسد کردیا اور اگر اس نے سہوا گفتگو کی یا اس نے گفتگو اور وہ یہ گمان کرتا ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنی طرف سے اسے مکمل کرلیا ہے تو وہ بنا کرسکتا ہے۔ اس مسئلہ میں امام احمد نے اختلاف کیا ہے اور ان سے الاثرم نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : آدمی نے اپنی نماز کے دروان اس کی اصلاح کے لئے جو گفتگو کی تو اس سے اس کی نماز فاسد نہیں ہوئی، اور اگر اس کے سوا کوئی اور گفتگو کی تو اس کی نماز فاسد ہوگئی، یہی امام مالک (رح) کا مشہور قول ہے اور الحزمی نے ان سے ذکر کیا ہے کہ ان کا مذہب اس کے بارے میں جس نے عمدا کلام کیا یا بھول کر، یہ ہے کہ اس کی نماز باطل ہوگئی، سوائے صرف امام کے کیونکہ جب اس نے اپنی نماز کی اصلاح کے لئے گفتگو کی تو اس کی نماز باطل نہیں ہوئی، اور امام مالک (رح) کے اصحاب میں سے سحنون نے یہ استثنا بیان کی ہے کہ جس نے چار رکعت نماز میں دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا اور وہاں کلام ہوئی تو نماز باطل نہ ہوگی اور اگر اس کے سوا کسی اور محل میں کلام واقع ہو تو نماز باطل ہوجائے گی، اور صحیح وہ ہے جو امام مالک (رح) کا مشہور قول ہے اور حدیث سے استدلال ہے اور احکام کے متعدی ہونے اور شریعت کے عموم کے بارے میں اسے اصل کلی پر محمول کرتے اور خصوصیت کے وہم کو دور کرتے ہوئے جبکہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اگر کوئی کہنے والا کہے : تحقیق کلام میں بھی نماز میں واقع ہوئی اور سہو بھی، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : تسبیح کہنا مردوں کے لئے ہے اور تالی بجانا عورتوں کیلئے ہے “ (1) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 180، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب التعفیق للنساء حدیث 1128، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تو انہوں نے تسبیح کیوں کر نہ کہی ؟ تو کہا جائے گا : شاید اس وقت میں انہیں اس کا حکم نہیں تھا، اور اگر تھا جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے اور انہوں نے تسبیح نہ کہی، کیونکہ انہیں یہ وہم ہوا کہ نماز کم ہوگئی ہے۔ اس کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔ فرمایا : لوگوں میں سے ایک تیز رفتار آدمی نکل گیا تو لوگوں نے کہا : کیا نماز کم ہوگئی ہے ؟ پس اس وجہ سے کلام کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ واللہ اعلم۔ اور بعض مخالفین نے کہا ہے : حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول صلی بنا رسول اللہ ﷺ یہ احتمال رکھتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو نماز پڑھائی اور وہ (ابوہریرہ) ان میں سے نہ ہوں، جیسا کہ نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا : ” بیشک ہم اور تم بنی عبد مناف پکارے جاتے تھے اور تم آج بنو عبداللہ ہو اور ہم بھی بنو عبداللہ “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 180، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب تشبیک الاصبع، حدیث 460، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس سے مراد یہ لیا ہے کہ آپ نے یہ اپنی قوم کو فرمایا اور یہ بعید ہے، کیونکہ یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کہیں صلی بنا آپ نے ہمیں نماز پڑھائی حالانکہ اس وقت وہ کافر تھے، اہل صلوۃ میں سے نہ تھے اور یہ کذب ہوگا اور نزال کی حدیث وہ بھی من جملہ قوم میں سے تھے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جو سنا۔ اور رہا وہ دعوی جو حنیفہ نے نسخ اور ارسال کے بارے کیا ہے تو ہمارے علماء وغیرہم نے ان کے قول کا جواب دیا ہے اور اسے باطل قرار دیا ہے، خاص کر حافظ ابو عمر ابن عبد البر نے اپنی کتاب ” التمہید “ میں یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فتح خیبر کے سال اسلام لائے اور اسی سال مدینہ طیبہ میں آئے۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ کی صحبت میں چار سال تک رہے اور ذوالیدین کے قصے کو دیکھا اور اس میں حاضر تھے۔ اور یہ بدر سے پہلے کا نہیں ہے جیسا کہ انہوں نے گمان کیا ہے اور ذوالیدین بدر میں شہید ہوئے، فرمایا : حضرت ابوہریرہ ؓ کا ذوالیدین کے دن حاضر ہونا ثقہ حفاظ کی روایت کے مطابق محفوظ ہے اور جنہوں نے اسے جانا، اسے یاد کیا اور اس کا ذکر کیا ان کے خلاف حجت لانے سے جو باز رہے اس میں ان کی کوئی کوتاہی نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) القنوت : اس کا معنی قیام ہے اور یہ اس کی ان اقسام میں سے ایک ہے جو ابوبکر بن انباری نے ذکر کی ہیں، اور امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ فرض نماز میں قیام کرنا ہر تندرست اور اس پر قدرت رکھنے والے آدمی پر واجب ہے چاہے وہ منفرد ہو یا امام ہو۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا :” بلاشبہ امام بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتدا کی جائے، پس جب کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو “ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 89، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب نما جعل الامام لیؤتم، حدیث نمبر 647۔ 648، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الحدیث۔ اسے ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان ہے (آیت) ” وقوموا للہ قنتین “۔ اور انہوں نے صحت مند مقتدی کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو ایسے مریض امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے جو کھڑے ہونے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اہل علم کے ایک گروہ نے اس کی اجازت دی ہے بلکہ جمہور اہل علم نے، کیونکہ امام کے بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” اور جب وہ (امام) بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم تمام بھی بیٹھ کر نماز پڑھو “ (2) صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ جلد، 1 صفحہ 177، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب نما جعل الامام لیؤتم، حدیث نمبر 648۔ 646، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہی اس مسئلہ میں صحیح ہے ابھی ہم بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور علماء کے ایک گروہ نے مریض امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ہر کوئی اپنی طاقت کے مطابق اپنا فرض ادا کر رہا ہے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے جبکہ آپ ﷺ نے اپنے اس مرض میں بیٹھ کر نماز پڑھائی جس میں آپ کا وصال ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے، اور آپ ﷺ نے ابوبکر صدیق ؓ اور دوسرے لوگوں کی طرف بیٹھنے کا اشارہ نہیں کیا اور اپنی نماز انہیں کے ساتھ بیٹھ کر مکمل کی اور وہ کھڑے تھے۔ اور یہ معلوم ہے کہ یہ واقعہ آپ کے اپنے گھوڑے سے گرنے کے بعد کا ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا دوسرا فعل پہلے فعل کے لئے ناسخ ہے۔ ابو عمر (رح) نے کہا ہے : جنہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے ان میں سے امام شافعی (رح) اور داؤد بن علی ہیں اور یہی ولید بن مسلم کی امام مالک (رح) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ امام کے پہلو میں ان میں سے کوئی کھڑا ہوجائے جو لوگوں کو امام کی نماز کے بارے بتلاتا رہے (یعنی امام کی حرکات و سکنات سے آگاہ رکھے) امام مالک (رح) سے یہ روایت غریب ہے۔ اور اس کے بارے میں اہل مدینہ کی ایک جماعت اور دوسروں نے کہا ہے اور یہی صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ ، کیونکہ یہ آخری نماز ہے جو رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی۔ اور امام مالک (رح) سے مشہور روایت یہ ہے کہ کوئی بیٹھنے والا کھڑے ہونے والوں کی امامت نہیں کرائے گا، پس اگر بیٹھ کر اس نے انکی امامت کرائی تو امام اور مقتدی تمام کی نماز باطل ہوگی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ” میرے بعد بیٹھ کر کوئی بھی امامت نہ کرائے گا (3) (سنن دارقطنی، کتاب :، جلد 4، صفحہ : 398، دارالمحاسن قاہرہ) فرمایا : اگر امام بیمار ہو تو امام کی نماز مکمل ہوگی اور اس کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز فاسد ہوگی، مزید کہا : جس نے بغیر علت کے بیٹھ کر نماز پڑھی تو وہ نماز کا اعادہ کرے، یہ امام مالک (رح) سے ابو مصعب نے اپنی مختصر میں روایت بیان کی ہے، پس جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی تو وہ نماز کا اعادہ کرے، یہ امام مالک (رح) سے ابو مصعب نے اپنی مختصر میں روایت بیان کی ہے، پس جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی اس پر وقت میں اور وقت کے بعد اعادہ واجب ہوگا، اور امام مالک سے اس بارے میں روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ صرف وقت میں اعادہ کریں گے، اور اس بارے میں امام محمد بن حسن (رح) کا قول امام مالک (رح) کے مشہور قول کی مثل ہی ہے، انہوں نے اپنے قول کے لئے اور اپنے مذہب کے لئے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے ابو مصعب نے بیان کیا ہے، اسے دارقطنی نے جابر سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لایومن احد بعدی جالسا “۔ دارقطنی نے کہا ہے : اسے جابر جعفی کے سوا کسی نے حضرت شعبی سے روایت نہیں کیا ہے اور وہ متروک الحدیث ہے، یہ روایت مرسل ہے، اس کے ساتھ حجت قائم نہیں ہو سکتی، ابو عمر نے کہا ہے : جابر جعفی کسی بھی شے سے حجت نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ اسے مسند روایت کرتا ہو تو پھر اس سے کیسے استدلال ہو سکتا ہے جسے وہ مرسل روایت کرتا ہے ؟ امام محمد بن حسن (رح) نے کہا ہے : جب مریض امام بیٹھ کر ایسی قوم کو نماز پڑھائے جن میں کچھ صحت مند اور کچھ مریض ہوں تو امام کی نماز اور اس کے پیچھے پڑھنے والوں میں سے ان کی نماز جو کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتے صحیح اور جائز ہے اور ان کی نماز جن کے لئے قیام کا حکم ہے باطل ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابویوسف (رح) نے کہا ہے : امام اور تمام مقتدیوں کی نماز جائز ہے اور انہوں نے کہا : اگر امام نے اشارے کے ساتھ ایسے لوگوں کو نماز پڑھائی جو رکوع و سجود کرسکتے ہیں تو تمام کے قول کے مطابق مقتدیوں کی نماز جائز نہیں اور امام کی نماز جائز ہے اور امام زفر کہتے ہیں : ان کی نماز بھی جائز ہوگی کیونکہ انہوں نے اپنے فرض ادا کیے ہیں اور ان کے امام نے اپنا فرض ادا کیا ہے، اسی طرح امام شافعی نے بھی کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کچھ ابو عمر اور ان کے علاوہ ان سے پہلے اور بعد کے علماء نے کہا ہے کہ یہ آخری نماز ہے جو رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی، حالانکہ میں نے ان کے سوا کو اس کے خلاف بھی دیکھا ہے جنہوں نے اس باب میں طرق احادیث کو جمع کیا ہے اور ان پر گفتگو کی ہے اور بارے میں فقہاء کا اختلاف بھی ذکر کیا ہے، جو کچھ انہوں نے ذکر کیا ہے ہم اسے اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے تاکہ تیرے لئے راہ صواب واضح ہوجائے اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور اس کے قول کی صحت واضح ہوجائے جس نے یہ کہا کہ تندرست مقتدی کا مریض امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ پس ابو حاتم محمد بن حبان البستی نے المسند الصحیح میں اس کا ذکر کیا ہے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کی ایک جماعت میں تھے تو آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے نہیں ہو کہ میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ؟ صحابہ نے عرض کی : کیوں نہیں بلکہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جس نے میری اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ اطاعت میں میری طاعت ہے ؟ “ انہوں نے عرض کی : کیوں نہیں بلکہ ہم تو شہادت دیتے ہیں کہ جس کسی نے آپ کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، پھر فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ کی اطاعت یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور میری اطاعت یہ ہے کہ تم اپنے امراء کی اطاعت کرو، پس اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھائیں تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ (1) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 470، موسسۃ الرسالہ بیروت) اس کی سند میں عقبہ بن ابی الصہباء راوی ہے اور وہ ثقہ ہے یحییٰ بن معین نے یہی کہا ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : اس حدیث میں یہ واضح بیان ہے کہ مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنا جبکہ ان کا امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھائے اللہ تعالیٰ کی اس اطاعت میں سے ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم ارشاد فرمایا ہے۔ یہ میرے نزدیک اس اجماع کی ایک قسم ہے جس کی اجازت پر انہوں نے اجماع کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے چار ہیں، جنہوں نے اس کے ساتھ فتوی دیا ہے۔ (یعنی) حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت اسید بن حضیر اور حضرت قیس بن فہد رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ان صحابہ کرام میں سے کسی بھی ان چار کے خلاف مروی نہیں جو وحی اور قرآن کریم کے نزول کے وقت تھے اور جنہیں تحریف وتبدیل سے محفوظ رکھا گیا، نہ اسناد متصل کے ساتھ اور نہ منقطع کے ساتھ، تو گویا صحابہ کرام نے اس پر اجماع کیا کہ امام جب بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھیں، اسی طرح جابر بن زید، اوزاعی، مالک بن انس، احمد بن حنبل، اسحاق ابن ابراھیم، ابو ایوب سلیمان بن داؤد الہاشمی، ابو خیثمہ، ابن ابی شیبہ، محمد بن اسماعیل اور اصحاب حدیث میں سے جو انکے متبعین ہیں مثلا محمد بن نصر اور محمد بن اسحاق بن خزیمہ رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اور اس حدیث کو حضور نبی رحمت ﷺ سے حضرت انس بن مالک، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب اور حضرت ابو امامہ باہلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے روایت کیا ہے۔ اس امت میں سب سے اولی جس نے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے مقتدی کی نماز کو باطل قرار دیا جبکہ امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھائے وہ مغیرہ بن مقسم صاحب النخعی ہیں اور ان سے حماد بن ابی سلیمان نے اسے لیا ہے اور پھر حماد سے امام ابوحنیفہ (رح) نے اسے اخذ کیا ہے اور پھر آپ کے بعد آنے والے آپ کے اصحاب نے آپ کی اتباع کی ہے اور اس بارے میں وہ اعلی روایت جس سے انہوں نے استدلال کیا ہے اسے جابر جعفی نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” لایؤمن احد بعدی جالسا، اس روایت کی اسناد اگر صحیح بھی ہو تو بھی یہ مرسل ہے اور مرسل خبر اور وہ جسے کوئی روایت نہ کرے ہمارے نزدیک حکم دونوں برابر ہیں، پھر امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں جن سے میں نے ملاقات کی ان میں حضرت عطا سے افضل میں نے کوئی نہیں دیکھا اور جن سے میں ملا ان میں جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا میں نے کوئی نہیں دیکھا اور میں کبھی اس کے پاس رائے سے کوئی شے نہیں لایا مگر وہ اس بارے میرے پاس حدیث لایا اور گمان ہوا کہ اس کے پاس اتنے اتنے ہزار رسول اللہ ﷺ سے حدیثیں ہیں جن کے بارے گفتگو نہیں، پس یہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) ہیں جو جابر جعفی پر جرح کر رہے ہیں اور اس کی تکذیب کر رہے ہیں اور یہ اس قول کی ضد ہے جس کی بنا پر آپ کے اصحاب نے آپ کا مذہب اختیار کیا ہے (2) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 417 تا 474، موسسۃ الرسالہ بیروت) ابو حاتم نے کہا ہے : رہی حضور نبی کریم ﷺ کی وہ نماز جو آپ نے حالت مرض میں ادا فرمائی تو اس کے بارے مجمل اور مختصر اخبار مروی ہیں اور انمیں سے بعض مفصل اور واضح بھی ہیں، تو ان میں سے بعض میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ تشریف لائے اور حضرت صدیق ؓ کے پہلو میں آکر بیٹھ گئے، پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضور نبی کریم ﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی اقتدا کر رہے تھے (1) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 489، موسسۃ الرسالہ بیروت) اور بعض میں ہے : آپ ﷺ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی بائیں جانب تشریف فرما ہوگئے، یہ روایت مفصل ہے، اس میں ہے : فکان النبی ﷺ یصلی بالناس قاعداو ابوبکر قائما پس حضور نبی رحمت ﷺ بیٹھ کر لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے اور ابوبکر کھڑے ہو کر، ابو حاتم نے کہا ہے : جہاں تک اس خبر کے اجمال کا تعلق ہے تو بلاشبہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اس مقام پر اس نماز کو بیان کیا ہے اور آخر القصہ یہ ہے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے نزدیک کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اس نماز میں بھی انہیں بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا جیسا کہ آپ نے انہیں اپنے گھوڑے سے گرنے کے وقت اس کا حکم دیا تھا۔ (2) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 490۔ 491، موسسۃ الرسالہ بیروت) محمد بن الحسن بن قتیبہ نے ہمیں خبر دی ہے، انہوں نے کہا : ہمیں یزید بن موہب نے خبر دی ہے، انہوں نے کہا : مجھے لیث بن سعد نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو ہم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ لوگوں تک آپ کی تکبیر کی آواز پہنچا رہے تھے۔ راوی فرماتے ہیں : آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں کھڑا دیکھا تو آپ ﷺ نے ہماری طرف اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے اور ہم نے بیٹھ کر آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھی اور جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا : ” قریب ہے کہ تم اہل فارس اور روم کے عمل جیسا عمل کرو وہ اپنے بادشاہوں کے پاس کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں پس تم اس طرح نہ کرو تم اپنے ائمہ کی اقتدا کرو اگر امام کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو “۔ ابو حاتم نے کہا ہے : پس اس مفصل خبر میں واضح بیان ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بائیں جانب بیٹھے اور ابوبکر صدیق ؓ مقتدی ہوگئے اور وہ آپ ﷺ کی نماز کی اقتدا کرنے لگے اور آپ تکبیر کہتے اور وہ لوگوں تک کبیر کی آواز پہنچاتے تاکہ وہ آپ ﷺ کی نماز کی اقتدا کریں اور اس وقت آپ ﷺ نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا جب آپ نے انہیں کھڑے ہوئے دیکھا اور جب آپ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے انہیں بیٹھنے کا حکم بھی فرمایا جب ان کا امام بیٹھ کر نماز پڑھائے، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ آپ ﷺ کی اس نماز میں حاضر تھے جس وقت آپ اپنے گھوڑے سے گرے اور آپ کی دائیں جانب کچھ زخمی ہوئی، آپ ﷺ ماہ ذی الحجہ 5 ھ کے آخر میں گرے تھے اور وہ اس نماز میں بھی حاضر تھے جو آپ ﷺ نے اپنے مرض کی حالت میں اس تاریخ کے علاوہ ادا فرمائی اور آپ نے ہر خبر کو اس کے الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ وہ اس نماز میں ذکر کر رہے ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے تکبیر کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کی تاکہ لوگ آپ کی اقتدا کریں اور وہ نماز جو رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے سے گرنے کے وقت اپنے گھر میں پڑھائی تھی اس میں حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے آپ کو ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ وہ تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کریں تاکہ وہ لوگوں کو آپ کی تکبیر سنوا سکیں، تو بلاشبہ ابوبکر صدیق ؓ نے اس عظیم مسجد میں تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلندی کی جس میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی حالت مرض میں نماز پڑھائی، پس جب صحیح ہے جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے تو پھر یہ جائز نہیں کہ ہم ان اخبار میں سے بعض کو بعض کے لئے ناسخ قرار دیں (1) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 491، 493 موسسۃ الرسالہ بیروت) اور اس کی طرف حضور نبی مکرم ﷺ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر تشریف لے گئے تھے اور آپ ﷺ اس میں امام تھے اور آپ نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور انہیں بھی بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اور رہی وہ نماز جو آپ ﷺ نے اپنی عمر مبارک کے آخری نماز پڑھی تو اس کے لئے آپ ﷺ حضرت بریرہ اور حضرت ثوبہ (یا ثوبیہ) ؓ کے درمیان سہارا لے کر تشریف لے گئے اور اس میں آپ مقتدی تھے اور آپ ﷺ نے ایک ہی کپڑا پہن کر اس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پیچھے نماز ادا فرمائی (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 496، موسسۃ الرسالہ بیروت) اسے حضرت انس بن مالک ؓ نے روایت کیا ہے، فرمایا : وہ آخری نماز ہے جو رسول اللہ ﷺ نے قوم کے ساتھ ایک کپڑا پہن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پیچھے بیٹھ کر ادا فرمائی (3) (ایضا، جامع ترمذی، باب ما جاء اذا صلی الامام قاعدا، حدیث نمبر 331، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، صیح بخاری، باب من قام الی جنب الامام لعبلۃ حدیث نمبر 642، صحیح بخاری، باب الرجل یا تم باللام، حدیث نمبر 672، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ایضا صحیح بخایر، باب جعل الامام لیؤتم بہ، حدیث نمبر 648، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس آپ ﷺ نے مسجد میں دو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا فرمائیں نہ کہ ایک نماز۔ اور عبید اللہ ابن عبداللہ عن عائشہ ؓ کی خبر میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ دو مردوں کے درمیان سہارا لے کر تشریف لے گئے، ان دو میں سے ایک حضرت عباس اور دوسرے حضرت علی ؓ ہیں اور مسروق نے حضرت عائشہ ؓ سے جو خبر بیان کی ہے اس میں ہے : پھر حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے آپ میں کچھ آرام اور سکون پایا تو آپ حضرت بریرہ اور حضرت ثوبہ ؓ کے درمیان سہارا لے کر تشریف لے گئے، بیشک میں آپ ﷺ کے نعلین کی طرف دیکھتی رہی وہ لنگریزوں میں لکیر ڈال رہے تھے اور میں آپ کے قدموں کے تلووں کی طرف دیکھتی رہی۔ الحدیث۔ پس یہ تیری اس پر راہنمائی کرتی ہے کہ وہ دو نمازیں تھیں نہ کہ ایک نماز (4) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 488، موسسۃ الرسالہ بیروت) ابو حاتم نے کہا ہے : ہمیں محمد بن اسحاق بن خزیمہ نے خبر دی ہے، انہوں نے کہا : ہمیں محمد بن بشار نے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا : ہمیں بدل بن محبر نے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ عن عبید اللہ بن عبداللہ کی سند سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور رسول اللہ ﷺ صف میں آپ کے پیچھے تھے (5) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 483، موسسۃ الرسالہ بیروت) ابو حاتم نے کہا ہے : شعبہ بن حجاج نے زائدہ بن قدامہ سے اس خبر کے متن میں موسیٰ بن ابی عائشہ سے اختلاف کیا ہے پس شعبہ نے حجور نبی کریم ﷺ کو مقتدی بنایا ہے اس حیثیت سے کہ آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور دوسرے لوگوں نے کھڑے ہو کر، اور زائدہ نے آپ ﷺ کو امام قرار دیا ہے اور اس حیثیت سے کہ آپ ﷺ سے کہ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور قوم نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، اور یہ دونوں انتہائی ثقہ اور حافظ ہیں تو یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ایسی دو روایتیں جن کے ظاہر میں ایک فعل میں تضاد ہے ان میں سے ایک کو مطلق متقدم امر کے لئے ناسخ بنا دیا جائے پس جس نے دو حدیثوں میں سے ایک کو حضور نبی کریم ﷺ نے امر متقدم کے لئے ناسخ بنایا اور دوسرے کو بغیر دلیل کے چھوڑ دیا تو اس کی صحت پر ثبوت لانا اس کے ذمہ ہے اس نے اپنے خصم کے لئے جائز قرار دیا کہ وہ دو خبروں سے اسے لے لے جسے اس نے چھوڑا ہے اور اسے چھوڑ دے جسے اس نے لیا ہے۔ اور سنن میں سے اس نوع کی نظیر حضرت ابن عباس ؓ کی خبر ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ کے ساتھ نکاح کیا اور آپ حالت احرام میں تھے (1) (صحیح بخاری، باب التزویج المحرم، حدیث نمبر 1706، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت ابو رافع ؓ کی حدیث ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ان سے نکاح کیا اور وہ دونوں حلال تھے (یعنی حالت احرام میں نہ تھے) (2) (سنن ترمذی، باب ماجاء فی کراھیۃ تزویج المحرم، حدیث نمبر 770، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس یہ دونوں حدیثیں ایک فعل میں بظاہر متضاد ہیں بغیر اس کے کہ ہمارے نزدیک ان دونوں کے درمیان تضاد ہو، اصحاب حدیث کی ایک جماعت نے ان دونوں حدیثوں کو متعارض قرار دیا ہے جو حضرت میمونہ ؓ کے نکاح کے بارے مروی ہیں اور انہوں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کی خبر کو لے لیا ہے جو انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ لاینکح المحرم ولا ینکح “ (محرم نہ اپنا نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی کا نکاح کرسکتا ہے) تو انہوں نے اسے لے لیا، جبکہ یہ ان دو روایتوں میں سے ایک کے ساتھ موافقت رکھتی ہے جو حضرت میمونہ ؓ کے نکاح کے بارے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کی خبر کو چھوڑ دیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ان کے ساتھ حالت احرام میں نکاح کیا، پس جس نے یہ کہا اس کے لئے یہ کہنا لازم ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کی حالت مرض میں نماز کے بارے دو حدیثیں متضاد ہیں، اس طریقہ پر جو اس سے پہلے ہم نے ذکر کردیا ہے، پس ضروری ہے کہ وہ ایک ایسی خبر لائے جس میں مقتدیوں کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم موجود ہو جبکہ ان کا امام بیٹھ کر نماز پڑھائے اور وہ اسے پکڑ لیں جبکہ وہ ان دو رایتوں میں سے ایک کے موافق ہو جو حضور نبی مکرم ﷺ کی حالت مرض میں نماز کے بارے روایت کی گئیں ہیں اور وہ چھوڑ دے اس خبر کو جو ان میں سے منفرد ہو، جیسا کہ حضرت میمونہ ؓ کے نکاح کے معاملہ میں کیا گیا۔ (3) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 483، 485، موسسۃ الرسالہ بیروت) ابو حاتم نے کہا ہے : بعض عراقیین نے گمان کیا ہے جو کو فیوں کا مذہب اختیار کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ قول ” واذا صلی قاعدا فصلوا قعودا “ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ بیٹھ کر تشہد پڑھے تو تم تمام بھی بیٹھ کر تشہد پڑھو، تو یہ خبر کو اس کے عموم سے پھیر دینا ہے جس کے بارے میں خبردار ہے بغیر کسی ایسی دلیل کین جو اس معنی کو ثابت کرسکے (1) (الاحسان تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ جلد 5، صفحہ 487، موسسۃ الرسالہ بیروت)
Top