Al-Qurtubi - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ بھی کردیا کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
آیت نمبر : 243۔ اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ (آیت) ” الم تر “۔ رؤیت قلب مراد ہے، اس کا معنی ہے (آیت) ” الم تعلم “ کیا آپ نہیں جانتے اور سیبویہ کے نزدیک اس کا معنی ہے : کیا آپ آگاہ نہیں ان لوگوں کے معاملہ کے بارے، (یعنی الم تتبہ) اور یہ رؤیت (یعنی الم تر) دو مفعولوں کا محتاج نہیں ہے۔ ابو عبدالرحمن السلمی نے ” الم ترراء کی جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور القائے حرکت کے بغیر ہی ہمزہ کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ اس کی اصل ہے : الم ترء۔ ان لوگوں کا قصہ یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی ایک قوم ہے، ان میں وبا پھیل گئی، یہ ایک گاؤں میں تھے جسے داوردان کہا جاتا ہے (یہ گاؤں واسط کے مشرقی نواح میں واقع ہے اور ان کے درمیان ایک فرسخ کا فاصلہ ہے ” معجم یاقوت “ ) پس وہ ان سے بھاگتے ہوئے نکلے اور ایک وادی میں جا اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر موت مسلط کردی (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 327 دارالکتب العلمیہ) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : وہ چار ہزار تھے، طاعون سے بھاگتے ہوئے نکلے اور انہوں نے کہا : ہم ایسی زمین پر آئے ہیں جہاں موت نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان تمام کو مار دیا، پھر ان کے پاس سے ایک نبی (علیہ السلام) کا گزر ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ آٹھ دن تک مرے رہے اور بعض نے کہا : سات دن تک۔ واللہ اعلم۔ حضرت حسن (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں بطور سزا مدت مقررہ سے پہلے مار دیا، پھر انہوں نے باقی ماندہ عمروہ کے لئے اٹھا دیا، اور بعض نے کہا ہے : ان کے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات میں سے ایک نبی (علیہ السلام) کے معجزہ کے اظہار کے لئے ان کے ساتھ ایسا کیا، کہا گیا ہے کہ ان کا اسم گرامی حضرت شمعون (علیہ السلام) ہے، اور نقاش نے بیان کیا ہے کہ وہ بخار سے بھاگے تھے۔ (2) ۔ اور بعض کا خیال ہے کہ وہ جہاد سے فرار ہوئے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی حضرت حزقیل (علیہ السلام) کی زبان سے جہاد کے بارے حکم ارشاد فرمایا، تو وہ جہاد میں قتال ہونے کے سبب موت سے خوفزدہ ہوگئے، پس وہ اس سے بھاگتے ہوئے اپنے گھروں سے نکل گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی تاکہ وہ انہیں متنبہ کردے کہ کوئی شے انہیں موت سے نجات نہیں دلا سکتی پھر انہیں زندہ کیا اور انہیں اپنے اس ارشاد سے جہاد کے بارے حکم دیا : (آیت) ” وقاتلوا فی سبیل اللہ “ (اور تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرو) حضرت ضحاک نے یہی کہا ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ تمام کے تمام قصص ضعیف الاسانید ہیں، البتہ آیت سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد ﷺ کو تنبیہ اور توقیف کی عبارت میں انسانوں کو ایک قوم کے بارے خبردی ہے کہ وہ موت سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور پھر انہیں زندہ کردیا، تاکہ وہ اور انکے بعد آنے والے تمام یہ جان لیں کہ موت دینا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لہذا کسی ڈرنے والے کے خوف کا اور کسی دھوکہ کھانے والے کے دھوکہ کا کوئی معنی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اپنے اس امر کا مقدمہ بنایا ہے جو اس نے حضور نبی رحمت ﷺ کی امت کے مومنوں کو جہاد کے بارے حکم فرمایا۔ یہ علامہ طبری کا قول ہے اور یہی آیت کے ظاہر الفاظ ہیں۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وھم الوف “۔ جمہور نے کہا ہے : یہ الف کی جمع ہے، بعض نے کہا ہے : وہ چھ لاکھ تھے، بعض نے کہا ہے : وہ اسی ہزار تھے، حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے : وہ چالیس ہزار تھے، ابو مالک نے کہا ہے : وہ تیس ہزار تھے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 328 دارالکتب العلمیہ) سدی کا قول ہے : وہ سینتیس ہزار تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ستر ہزار تھے، حضرت عطا بن ابی رباح ؓ نے یہی کہا ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے بھی چالیس ہزار اور آٹھ ہزار کی روایت ہے، آپ سے اسے ابن جریج نے روایت کیا ہے، آپ سے ہی آٹھ ہزار کی روایت بھی ہے اور آپ سے چار ہزار کی روایت بھی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تین ہزار تھے، اور صحیح یہ ہے کہ وہ دس ہزار سے زائد تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وھم الوف “ اور یہ جمع کثرت ہے اور دس اور اس سے کم کے بارے میں الوف نہیں بولا جاتا۔ ابن زید نے الوف کے لفظ کے بارے میں کہا ہے کہ اس کا معنی ہے وھم موتلفون “ یعنی انہیں اپنی قوم کے افتراق نے نہیں نکالا اور نہ ان کے درمیان کوئی فتنہ برپا ہوا، بلکہ وہ تو ایک دوسرے سے محبت اور لفت رکھتے تھے اور الفت اس فرقت کے خلاف ہے۔ پس وہ موت سے فرار اختیار کرتے ہوئے اور اپنے خیال کے مطابق زندگی کی خواہش رکھتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی جگہ موت دے دی جو انکے گمان کے مطابق ان کے لئے جائے نجات تھی، پس اس معنی کی بنا پر الوف الف کی جمع ہے، جیسا کہ جالس کی جمع جلوس ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دینے کے لئے ایک خاص مدت تک موت دی اور پھر انہیں زندہ کردیا اور سزا کے لئے موت دینے کے بعد زندگی ہے اور اپنی مدت مقررہ پر موت آنے کے بعد زندگی نہیں ہے (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 228، دارالفکر) حضرت مجاہد ؓ نے کہا ہے : جب وہ زندہ کیے گئے اور اپنی قوم کی طرف لوٹے تو وہ پہچانے جاسکتے تھے (کہ وہ مردہ تھے) اور موت کی علامات ان کے چہروں پر تھیں اور ان میں سے کوئی جو کپڑا بھی پہنتا تھا تو وہ میلا سا کفن بن جاتا یہاں تک کہ وہ اپنی اس مدت مقررہ پر فوت ہوئے جو انکے لئے لکھے گئی تھی۔ ابن جریج نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آج تک بنی اسرائیل کی اس نسل میں وہ بو باقی ہے اور روایت ہے کہ وہ عراق کے (شہر) واسط کے پاس تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بدبو دار ہوجانے کے بعد زندہ کیے گئے پس وہ بو آج تک انکی نسل میں موجود ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ (آیت) ” حذر الموت “۔ ای لحذرالموت یعنی موت کے ڈر کی وجہ سے، اور یہ بھی مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ” موتوا امر تکوین ہے اور کہا جانا بھی بعید نہیں ہے۔ انہیں ندا دی گئی اور انہیں کہا گیا : تم مر جاؤ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ دو فرشتوں نین انکے پاس چیخ لگائی تم مر جاؤ پس وہ مر گئے پس معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دو فرشتوں کے واسطہ سے کہا : ” موتوا “ کہ تم مر جاؤ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 328 دارالکتب العلمیہ) ۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (3) ان اقوال میں سے زیادہ صحیح (اور زیادہ بین) اور زیادہ مشہور قول یہ ہے کہ وہ وبا سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نکلے، اسے سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا ہے : وہ طاعون سے فرار اختیار کرتے ہوئے نکلے تو وہ مر گئے، پھر انبیاء (علیہم السلام) میں سے ایک نبی (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وہ انہیں زندہ فرما دے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرما دیا (2) (جامع البیان للطبری، جلد 2، صفحہ، 700 داراحیاء التراث العربیۃ) اور عمروبن دینار نے اس آیت کے بارے کہا ہے : ان کی بستی میں طاعون پھیل گیا تو کچھ لوگ وہاں سے نکل گئے اور کچھ لوگ باقی رہ گئے اور نکلنے والوں کی تعداد باقی رہنے والوں کی نسبت زیادہ تھی، فرمایا : پس جو نکل گئے وہ محفوظ رہے اور جو وہیں مقیم رہے وہ مر گئے اور جب دوسری بار ایسا ہوا تو سوائے قلیل لوگوں کے وہ تمام کے تمام نکل گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے جانوروں کو بھی موت دے دی، پھر انہوں زندہ کردیا اور وہ اپنے شہروں کی طرف لوٹ گئے اور ان کی اولاد بھی پیدا ہوئی، اور حسن نے کہا ہے : وہ طاعون سے ڈرتے ہوئے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے جانوروں کو ایک ہی ساعت میں مار دیا اور وہ چالیس ہزار تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس پر اس آیت میں کئی احکام مرتب ہوتے ہیں، ائمہ نے روایت کیا ہے اور عامر بن سعد بن ابی وق اس ؓ کی حدیث سے الفاظ بخاری کے ہیں کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو سنا وہ حضرت سعد کو حدیث بیان کر رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وبا کا ذکر کیا اور فرمایا : ”(یہ) رجز یا عذاب ہے جس کے ساتھ بعض امتوں کو عذاب دیا گیا پھر اس سے کچھ بچ جانے والے باقی رہے اور وہ ایک بار ختم ہوجاتا ہے اور دوسری بار پھر آتا ہے پس جو کوئی اس کے بارے کسی زمین میں سنے تو اسے چاہئے کہ وہ وہاں بالکل نہ آئے اور جو اس علاقے میں ہو کہ وہاں وباپھیل جائے تو وہ اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلے (3) (صحیح بخاری، کتاب الحیل، جلد 2، صفحہ 1032، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب ما یذکر فی الطاعون، حدیث نمبر 5288 : ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابو عیسیٰ ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : ہمیں قتیبہ نے بیان کیا ہے کہ ہمیں حماد بن زید نے عمرو ابن دینار عن عامر بن سعد عن اسامہ بن زید ؓ کی سند سے خبر دی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے طاعون کا ذکر کیا اور فرمایا : ” یہ باقی رہنے والا رجز یا عذاب ہے جو بنی اسرائیل کی ایک جماعت پر بھیجا گیا، پس جب کسی زمین میں واقع ہو اور تم وہاں سے نہ نکلو اور جب کسی زمین میں واقع ہو اور تم وہاں نہ ہو تو تم وہاں نہ جاؤ (4) (جامع ترمذی، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 126، وزارت تعلیم، ایضا سنن ترمذی، باب ماجاء فی کراھیۃ الفرار من اطاعون، حدیث نمبر 985، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور اس حدیث کے مقتضا کے مطابق حضرت عمر ؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عمل کیا جب وہ مقام سرغ سے اس وقت واپس لوٹے جب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے انہیں حدیث کے بارے خبر دی، اسی بناء پر یہ مؤطا وغیرہ میں مشہور ہے۔ اور ایک قوم نے وباء اور بیماری والی زمین سے فرار کو مکروہ قرار دیا ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : ” وباء سے بھاگنا میدان جہاد سے بھاگنے کی طرح ہے (1) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 139، قدیمی کتب خانہ) اور حضرت عمر ؓ کا حضرت ابو عبیدہ ؓ کے ساتھ شام کی طرف نکلنے کا واقعہ معروف ہے اور اس میں ہے کہ آپ واپس لوٹ آئے، اور علامہ طبری نے کہا ہے کہ حضرت سعد ؓ کی حدیث میں اس پر دلیل موجود ہے کہ آدمی پر تکلیف اور اذیت ناک چیزوں کے آنے سے پہلے ان سے بچنا اور احتیاط کرنا لازم ہے اور خوف زدہ کرنے والی اشیاء کے ہجوم اور حملہ سے پہلے ان سے اجنتاب کرنا ایک طرف ہوجانا لازم ہے اور ان کے آنے کے بعد اس پر صبر کرنا اور جزع فزع نہ کرنا لازم ہے اور یہ اس لئے ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اسے منع فرمایا ہے جو وباء والی زمین میں نہ ہو کہ وہ وباء پھیل جانے کے بعد اس میں داخل ہو اور جو وہاں ہو اسے وباء پھیل جانے کے بعد اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے نکلنے سے منع فرمایا ہے، پس ضروری ہے کہ اسی طرح امور کی تکالیف ومصائب سے ہر بچنے والے کے لئے حکم ہو، اس میں اس کے لئے طاعون سے بچنے کی راہ بھی ہے اور یہ معنی حضور ﷺ کے اس ارشاد کی مثل ہے : ” تم دشمن سے ملاقات کی (جنگ کرنے کی) تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت کی التجاء کرو اور جب تمہارا ان سے آمنا سامنا ہوجائے تو پھر صبر کرو (2) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ، 424 وزارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2744، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں (مفسر) کہتا ہوں : اس باب میں یہی صحیح ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مقتضا ہے اور اسی آپ ﷺ کے نیکوکار اور عظیم المرتبت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا عمل ہے اور حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کو اس پر بطور حجت فرمایا جبکہ انہوں نے آپ سے کہا کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اے ابوعبیدہ ! کاش ! تیرے سوا کوئی اور یہ کہتا، ہاں ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی طرف ہی بھاگ رہے ہیں، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے اور اس کے خلاف جو مقدر فرما دیا ہے اس سے بچنے کے لئے انسان کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ڈرانے والی اور ہلاک کرنے والی اشیاء سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور وسعت و طاقت کے مطابق مکروہات سے بچنے کا ارشاد فرمایا ہے، پھر آپ نے ان میں فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تیرا اونٹ ہو اور تو وادی میں اترے جس کے دو کنارے ہوں ان میں سے ایک سرسبز و شاداب ہو اور دوسرا قحط زدہ ہو، کیا یہ نہیں ہے کہ اگر تو نے سر سبز و شاداب حصہ میں چرایا تو وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ہے اور اگر تو نے قحط زدہ حصہ میں چرایا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ہے پھر حضرت عمر ؓ اپنی اس جگہ سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹ گئے، ال کیا الطبری نے کہا ہے : ہم کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ کفار یا ڈاکو جب ایک کمزور شہر کا قصد کریں اور اس کے باسیوں میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہ ہو تو ان کے لئے جائز ہے کہ وہ ان کے سامنے سے دور ہٹ جائیں، اگر موت کی مقررہ مدت میں کوئی زیادتی اور کمی نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وبا سے فرار اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وبا کی جگہ میں جو ہو رہا ہے، شاید اس سے کچھ حصہ لے لیا جائے تاکہ اس مرض عام کی سبب میں اس جگہ والے شریک ہوجائیں اور وہاں سے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہ رہے، بلکہ وہ اسے سفر کی ان مشقتوں کی طرف منسوب کرے گا جو اسے وبا کی مبادیات میں سے پہنچیں، پس ورد کئی گنا بڑھ جائے گا اور ضرر زیادہ ہوجائے گا اور وہ ہر راستے میں ہلاک ہوجائیں گے اور وہ ہر کشادہ اور تنگ جگہ میں گر جائیں گے، اسی لئے کہا جاتا ہے جو کوئی وبا سے نہیں بھاگا وہ محفوظ رہا، اسے ابن المدائنی نے بیان کیا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نصیحت کافی ہے کہ فرمایا : (آیت) ” الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت، فقال لھم اللہ موتوا “۔ شاید اگر وہ فرار ہو اور بچ جائے تو وہ کہنے لگے : بلاشبہ میں نے اپنے نکلنے کے سبب وبا سے نجات پالی ہے تو اس طرح اس کا اعتقاد خراب اور فاسد ہوجائے گا۔ بالجملہ اس سے فرار ممنوع ہے اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کردی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس میں شہروں کو خالی کرنا لازم آتا ہے اور کمزور لوگ اس سے بھی بری نہیں ہوتے کیونکہ ان پر شہروں سے نکلنا مشکل ہوتا ہے اور ان کے لئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا اور وہ ان سہولتوں سے شہروں کے خالی ہونے کے سبب اذیت اٹھاتے ہیں جو شہروں کا حصہ ہوتی ہیں اور کمزور لوگوں کے لئے معاون اور مددگار ہوتی ہیں۔ اور جب کسی زمین میں وبا ہو تو وہاں احتیاط، خوف اور ضرر کے مقامات سے پرہیز کرنے کے ارادہ سے کوئی نہ آئے اور ایسے وہموں کو دور کرنے کے لئے جو انسان کے دل میں تشویش پیدا کردیتے ہیں اور وہاں داخل ہونے میں ہلاکت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں جائز نہیں ہوتا، کیونکہ مکروہ سے اپنے آپ کو بچانا واجب ہے اور اس پر سو اعتقاد کا خوف کیا جاسکتا ہے کہ وہ یہ کہنے لگے : اگر میں اس جگہ میں داخل نہ ہوتا تو مجھے یہ تکلیف نہ آتی، پس طاعون زدہ علاقے میں داخل ہونے سے منع کرنے یا وہاں سے نکلنے سے منع کرنے میں یہی فائدہ ہے۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے : طاعون مقیم پر اور بھاگنے والے پر ایک آزمائش ہے، کیونکہ بھاگنے والا کہتا ہے : میں نے اپنے فرار کے سبب نجات پالی ہے اور مقیم کہتا ہے : میں یہاں مقیم رہا سو میں مرگیا، اسی قسم کی طرف امام مالک نے اس وقت اشارہ کیا جس وقت ان سے کوڑھ زدہ کی طرف دیکھنے کی کراہت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : میں نے اس میں کوئی کراہت نہیں سنی ہے اور جو روایات اس سے نہی کے بارے وارد ہوئی ہیں وہ صرف اس خوف سے ہیں کہ وہ اسے گھبراہٹ اور اضطراب میں مبتلا کر دے گا یا اسے وہ شے (وہم) خوفزدہ کرتی رہے گی جو اس کے دل میں واقع ہوجائے گی، حضور نبی کریم ﷺ نے وبا کے بارے میں فرمایا ہے : ” جب تم کسی زمین میں اس کے بارے سنو تم اس کی طرف نہ آؤ اور جب وبا پھیل جائے اور تم وہاں ہو تو پھر اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلو۔ “ اور اس شہر کے بارے میں بھی پوچھا گیا جس میں موتیں اور بیماریاں واقع ہو رہی ہوں کیا اس سے نکلنا بھی مکروہ ہے ؟ تو فرمایا : میں کوئی حرج نہیں دیکھتا وہ نکلے یا وہیں مقیم رہے۔ مسئلہ نمبر : (4) حضور علی الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی : ” جب کسی زمین میں وبا واقع ہوجائے اور تم وہاں ہو تو اس سے فرار اختیا کرتے ہوئے نہ نکلو (1) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، جلد 1، صفحہ، 494 وزارت تعلیم) اس میں اس پر دلیل ہے کہ فرار کے ارادہ کے بغیر طاعون والے شہر سے نکلنا جائز ہے، بشرطیکہ اعقاد یہ ہو کہ جو کچھ اسے پہنچنا ہے وہ اس سے خطا نہیں ہو سکتا اور اسی طرح حکم وہاں داخل ہونے کا بھی ہے جبکہ اسے یہ یقین ہو کہ اس داخل ہونا اس کی طرف ایسی تقدیر کو نہیں کھینچ سکتا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر نہیں بنائی، پس آدمی کے لئے وہاں داخل ہونا اور وہاں سے نکلنا اس حد کی بنا پر مباح ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (5) طاعون پر صبر کی فضیلت اور اس کے بیان کے بارے میں یہ ہے کہ الطاعون بروزن فاعول الطعن “ سے ماخوذ ہے مگر یہ کہ جب اسے اصل معنی سے پھیر دیا گیا تو اسے وبا کے سبب موت پر دلالت کرنے کے لئے وضع کردیا گیا، جوہری نے یہی کہا ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث سے روایت کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’ رحمۃ اللہ علہیم میری امت کی فنا طعن اور طاعون سے ہے۔ (2) (مسند احمد بن حنبل، جلد 6، صفحہ 255، دارصادر بیروت) حضرت عائشہ ؓ نے عرض کی : طعن کی تو ہم نے پہچان لیا ہے پس طاعون کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ پھوڑ (گلٹی) ہے اونٹ کے پھوڑے (طاعون) کی طرح جو کہ پیٹ سے نیچے والی جگہوں اور بغلوں کے نیچے نکلتا ہے (3) (مسند احمد بن حنبل، جلد 6، صفحہ 255، دارصادر بیروت) علماء نے کہا ہے : اس وبا کو اللہ تعالیٰ بطور عذاب اور سزا کے اپنے بندوں میں سے گنہگاروں اور کافروں میں سین جن پر چاہتا ہے بھیج دیتا ہے اور کبھی اسے صالحین کے لئے شہادت اور رحمت بنا کر بھیج دیتا ہے جیسا کہ حضرت معاذ ؓ نے طاعون عمواس میں کہا : بیشک یہ تمہارے لئے شہادت اور رحمت ہے اور تمہارے نبی کریم ﷺ کی دعا ہے : اے اللہ ! معاذ اور اس کے گھر والوں کو اپنی رحمت سے ان کا حصہ عطا فرما، اور ان کی ہتھیلی میں نیزہ مارا گیا۔ حضرت ابو قلابہ ؓ نے کہا ہے : تحقیق میں نے شہادت اور رحمت کو تو پہچان لیا اور میں اسے نہ پہچان سکا کہ یہ تمہارے نبی کی دعا ہے ؟ چناچہ میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا : حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ آپ کی امت کی فناطعن اور طاعون سے ہو، جس وقت آپ نے یہ دعا مانگی کہ آپ کی امت کا آپس میں لڑائی جھگڑا نہ ہو تو اس سے آپ کو روک دیا گیا پھر آپ ﷺ نے وہ دعا مانگی۔ اور حضرت جابر ؓ وغیرہ کی حدیث سے روایت کیا جاتا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” طاعون سے بھاگنے والا میدان جہاد کے لشکر سے بھاگنے والے کی طرح ہے اور اس میں صبر کرنے والا میدان جہاد میں صبر کرنے والے کی طرح ہے (4) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 139، قدیمی کتب خانہ) اور بخاری میں حضرت یحی بن یعمر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اسے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے پوچھا تو حضرت نبی کریم ﷺ نے انہیں بتایا، کہ یہ ایک عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جن پر چاہتا ہے بھیج دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے مومینن کے لئے رحمت بنایا ہے، پس کوئی بندہ نہیں ہے جو طاعون میں مبتلا ہوجاتا ہے اور صبر کرتے ہوئے اسی شہر میں ٹھہرا رہتا ہے اور ویہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اسے ہر گز کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے مگر اس کے لئے شہید کے اجر کی مثل اجر ہے (1) (صحیح بخاری، کتاب الطب، جلد 2، صفحہ، 853 وزارت تعلیم) اور حضور ﷺ کے اس قول کی یہی تفسیر ہے کہ ” طاعون شہادت ہے اور مطعون شہید ہے (2) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الطب، جلد 2، صفحہ، 853 وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب مایذکر فی الطاعون، حدیث نمبر 92، 5291، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی اس پر صبر کرنے والا کہ اس کے اجر کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے اور یہ جاننے والا کہ اسے ہر گز کوئی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے لکھ دی ہے، اسی لئے حضرت معاذ ؓ نے تمنا کی کہ اس میں فوت ہوجائیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو مرگیا وہ شہید ہے اور جو کوئی طاعون سے خوفزدہ ہوگیا اور اسے مکروہ جانا اور اس سے بھاگ گیا تو وہ اس حدیث کے معنی میں داخل نہیں ہے واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (6) ابو عمر نے کہا ہے : مجھ تک کوئی خبر نہیں پہنچی کہ اہل علم میں سے کوئی طاعون سے بھاگا ہو سوائے اس کے جو ابن مدائنی نے ذکر کی ہے کہ علی بن زید بن جدعان طاعون کی وجہ سے السیالہ (یہ مدینہ منورہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے اہل مدینہ کا مکہ کی طرف آتے ہوئے یہ پہلا مرحلہ ہے اور یہ قول بھی ہے کہ یہ ملل اور روحاء کے درمیان واقع ہے) (شرح القاموس) کی طرح چلے گئے اور وہ ہر جمعہ کی نماز میں شریک ہونے کے لئے لوٹ آتے تھے اور جب وہ جمعہ میں شریک ہوتے تو لوگ ان کے بارے پکارتے تھے : فرمن الطاعون یہ طاعون سے بھاگ گئے ہیں، اور وہ السیالہ میں ہی فوت ہوئے، ابن مدائنی نے مزید کہا : عمرو بن عبید اور رباط بن محمد رباطیہ کی طرف بھاگ گئے اور ابراہیم بن علی الفقیمی نے اس بارے میں کہا ہے : ولما استفز الموت کل مکذب صبرت ولم یصبر رباط ولا عمرو۔ جب موت نے ہر جھٹلانے والے کو ہلاک وبرباد کردیا (تو) میں نے صبر کیا اور رباط اور عمرو نے صبرنہ کیا۔ اور ابو حاتم نے اصمعی سے بیان کیا ہے کہ اس نے کیا : بصرہ کے بعض لوگ طاعون سے بھاگے اور ان میں سے کوئی اپنے گدھے پر سوار ہوا اور سفوان (یہ بصرہ میں باب المربد سے ایک مرحلہ کے فاصلہ پر پانی ہے) معجم یاقوت کی طرف اپنے گھر والوں کے پاس چلا گیا اور اس نے حدی گانے والے کو سنا کو یہ اس کے پیچھے حدی گا رہا ہے : لن یسبق اللہ علی حمار ولا علی ذی منعۃ طیار اویاتی الحتف علی مقدار قد یصبح اللہ امام الساری اور مدائنی نے ذکر کیا ہے : عبدالعزیز بن مروان کی حکومت کے دوران مصر میں طاعون پڑا تو وہ اس سے بھاگتے ہوئے نکل گیا اور الصعید کے دیہاتی علاقوں میں سے ایک دیہات میں جا اترا اسے سکر یہ الصعید کے مشرق کے علاقہ میں واقع ہے، اس کے اور مصر کے درمیان دو دن کا فاصلہ ہے (یاقوت) کہا جاتا ہے تو عبدالعزیز نے اس سے پوچھا : تیرا کیا نام ہے ؟ تو اس نے کہا : طالب بن مدرک، تو اس نے کہا : اوہ میں اپنے آپ کو فسطاط کی طرف لوٹنے والا نہیں دیکھ رہا پھر وہ اسی گاؤں میں مرگیا۔
Top