Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
خَرَجُوْا
: نکلے
مِنْ
: سے
دِيَارِھِمْ
: اپنے گھر (جمع)
وَھُمْ
: اور وہ
اُلُوْفٌ
: ہزاروں
حَذَرَ
: ڈر
الْمَوْتِ
: موت
فَقَالَ
: سو کہا
لَهُمُ
: انہیں
اللّٰهُ
: اللہ
مُوْتُوْا
: تم مرجاؤ
ثُمَّ
: پھر
اَحْيَاھُمْ
: انہیں زندہ کیا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَذُوْ فَضْلٍ
: فضل والا
عَلَي النَّاسِ
: لوگوں پر
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اَكْثَرَ
: اکثر
النَّاسِ
: لوگ
لَا يَشْكُرُوْنَ
: شکر ادا نہیں کرتے
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ بھی کردیا کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
آیت نمبر :
243
۔ اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” الم تر “۔ رؤیت قلب مراد ہے، اس کا معنی ہے (آیت) ” الم تعلم “ کیا آپ نہیں جانتے اور سیبویہ کے نزدیک اس کا معنی ہے : کیا آپ آگاہ نہیں ان لوگوں کے معاملہ کے بارے، (یعنی الم تتبہ) اور یہ رؤیت (یعنی الم تر) دو مفعولوں کا محتاج نہیں ہے۔ ابو عبدالرحمن السلمی نے ” الم ترراء کی جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور القائے حرکت کے بغیر ہی ہمزہ کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ اس کی اصل ہے : الم ترء۔ ان لوگوں کا قصہ یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی ایک قوم ہے، ان میں وبا پھیل گئی، یہ ایک گاؤں میں تھے جسے داوردان کہا جاتا ہے (یہ گاؤں واسط کے مشرقی نواح میں واقع ہے اور ان کے درمیان ایک فرسخ کا فاصلہ ہے ” معجم یاقوت “ ) پس وہ ان سے بھاگتے ہوئے نکلے اور ایک وادی میں جا اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر موت مسلط کردی (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
327
دارالکتب العلمیہ) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : وہ چار ہزار تھے، طاعون سے بھاگتے ہوئے نکلے اور انہوں نے کہا : ہم ایسی زمین پر آئے ہیں جہاں موت نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان تمام کو مار دیا، پھر ان کے پاس سے ایک نبی (علیہ السلام) کا گزر ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ آٹھ دن تک مرے رہے اور بعض نے کہا : سات دن تک۔ واللہ اعلم۔ حضرت حسن (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں بطور سزا مدت مقررہ سے پہلے مار دیا، پھر انہوں نے باقی ماندہ عمروہ کے لئے اٹھا دیا، اور بعض نے کہا ہے : ان کے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات میں سے ایک نبی (علیہ السلام) کے معجزہ کے اظہار کے لئے ان کے ساتھ ایسا کیا، کہا گیا ہے کہ ان کا اسم گرامی حضرت شمعون (علیہ السلام) ہے، اور نقاش نے بیان کیا ہے کہ وہ بخار سے بھاگے تھے۔ (
2
) ۔ اور بعض کا خیال ہے کہ وہ جہاد سے فرار ہوئے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی حضرت حزقیل (علیہ السلام) کی زبان سے جہاد کے بارے حکم ارشاد فرمایا، تو وہ جہاد میں قتال ہونے کے سبب موت سے خوفزدہ ہوگئے، پس وہ اس سے بھاگتے ہوئے اپنے گھروں سے نکل گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی تاکہ وہ انہیں متنبہ کردے کہ کوئی شے انہیں موت سے نجات نہیں دلا سکتی پھر انہیں زندہ کیا اور انہیں اپنے اس ارشاد سے جہاد کے بارے حکم دیا : (آیت) ” وقاتلوا فی سبیل اللہ “ (اور تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرو) حضرت ضحاک نے یہی کہا ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ تمام کے تمام قصص ضعیف الاسانید ہیں، البتہ آیت سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد ﷺ کو تنبیہ اور توقیف کی عبارت میں انسانوں کو ایک قوم کے بارے خبردی ہے کہ وہ موت سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور پھر انہیں زندہ کردیا، تاکہ وہ اور انکے بعد آنے والے تمام یہ جان لیں کہ موت دینا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لہذا کسی ڈرنے والے کے خوف کا اور کسی دھوکہ کھانے والے کے دھوکہ کا کوئی معنی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اپنے اس امر کا مقدمہ بنایا ہے جو اس نے حضور نبی رحمت ﷺ کی امت کے مومنوں کو جہاد کے بارے حکم فرمایا۔ یہ علامہ طبری کا قول ہے اور یہی آیت کے ظاہر الفاظ ہیں۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وھم الوف “۔ جمہور نے کہا ہے : یہ الف کی جمع ہے، بعض نے کہا ہے : وہ چھ لاکھ تھے، بعض نے کہا ہے : وہ اسی ہزار تھے، حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے : وہ چالیس ہزار تھے، ابو مالک نے کہا ہے : وہ تیس ہزار تھے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
328
دارالکتب العلمیہ) سدی کا قول ہے : وہ سینتیس ہزار تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ستر ہزار تھے، حضرت عطا بن ابی رباح ؓ نے یہی کہا ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے بھی چالیس ہزار اور آٹھ ہزار کی روایت ہے، آپ سے اسے ابن جریج نے روایت کیا ہے، آپ سے ہی آٹھ ہزار کی روایت بھی ہے اور آپ سے چار ہزار کی روایت بھی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تین ہزار تھے، اور صحیح یہ ہے کہ وہ دس ہزار سے زائد تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وھم الوف “ اور یہ جمع کثرت ہے اور دس اور اس سے کم کے بارے میں الوف نہیں بولا جاتا۔ ابن زید نے الوف کے لفظ کے بارے میں کہا ہے کہ اس کا معنی ہے وھم موتلفون “ یعنی انہیں اپنی قوم کے افتراق نے نہیں نکالا اور نہ ان کے درمیان کوئی فتنہ برپا ہوا، بلکہ وہ تو ایک دوسرے سے محبت اور لفت رکھتے تھے اور الفت اس فرقت کے خلاف ہے۔ پس وہ موت سے فرار اختیار کرتے ہوئے اور اپنے خیال کے مطابق زندگی کی خواہش رکھتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی جگہ موت دے دی جو انکے گمان کے مطابق ان کے لئے جائے نجات تھی، پس اس معنی کی بنا پر الوف الف کی جمع ہے، جیسا کہ جالس کی جمع جلوس ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دینے کے لئے ایک خاص مدت تک موت دی اور پھر انہیں زندہ کردیا اور سزا کے لئے موت دینے کے بعد زندگی ہے اور اپنی مدت مقررہ پر موت آنے کے بعد زندگی نہیں ہے (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ :
228
، دارالفکر) حضرت مجاہد ؓ نے کہا ہے : جب وہ زندہ کیے گئے اور اپنی قوم کی طرف لوٹے تو وہ پہچانے جاسکتے تھے (کہ وہ مردہ تھے) اور موت کی علامات ان کے چہروں پر تھیں اور ان میں سے کوئی جو کپڑا بھی پہنتا تھا تو وہ میلا سا کفن بن جاتا یہاں تک کہ وہ اپنی اس مدت مقررہ پر فوت ہوئے جو انکے لئے لکھے گئی تھی۔ ابن جریج نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آج تک بنی اسرائیل کی اس نسل میں وہ بو باقی ہے اور روایت ہے کہ وہ عراق کے (شہر) واسط کے پاس تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بدبو دار ہوجانے کے بعد زندہ کیے گئے پس وہ بو آج تک انکی نسل میں موجود ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” حذر الموت “۔ ای لحذرالموت یعنی موت کے ڈر کی وجہ سے، اور یہ بھی مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ” موتوا امر تکوین ہے اور کہا جانا بھی بعید نہیں ہے۔ انہیں ندا دی گئی اور انہیں کہا گیا : تم مر جاؤ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ دو فرشتوں نین انکے پاس چیخ لگائی تم مر جاؤ پس وہ مر گئے پس معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دو فرشتوں کے واسطہ سے کہا : ” موتوا “ کہ تم مر جاؤ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
328
دارالکتب العلمیہ) ۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
3
) ان اقوال میں سے زیادہ صحیح (اور زیادہ بین) اور زیادہ مشہور قول یہ ہے کہ وہ وبا سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نکلے، اسے سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا ہے : وہ طاعون سے فرار اختیار کرتے ہوئے نکلے تو وہ مر گئے، پھر انبیاء (علیہم السلام) میں سے ایک نبی (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وہ انہیں زندہ فرما دے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرما دیا (
2
) (جامع البیان للطبری، جلد
2
، صفحہ،
700
داراحیاء التراث العربیۃ) اور عمروبن دینار نے اس آیت کے بارے کہا ہے : ان کی بستی میں طاعون پھیل گیا تو کچھ لوگ وہاں سے نکل گئے اور کچھ لوگ باقی رہ گئے اور نکلنے والوں کی تعداد باقی رہنے والوں کی نسبت زیادہ تھی، فرمایا : پس جو نکل گئے وہ محفوظ رہے اور جو وہیں مقیم رہے وہ مر گئے اور جب دوسری بار ایسا ہوا تو سوائے قلیل لوگوں کے وہ تمام کے تمام نکل گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے جانوروں کو بھی موت دے دی، پھر انہوں زندہ کردیا اور وہ اپنے شہروں کی طرف لوٹ گئے اور ان کی اولاد بھی پیدا ہوئی، اور حسن نے کہا ہے : وہ طاعون سے ڈرتے ہوئے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے جانوروں کو ایک ہی ساعت میں مار دیا اور وہ چالیس ہزار تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس پر اس آیت میں کئی احکام مرتب ہوتے ہیں، ائمہ نے روایت کیا ہے اور عامر بن سعد بن ابی وق اس ؓ کی حدیث سے الفاظ بخاری کے ہیں کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو سنا وہ حضرت سعد کو حدیث بیان کر رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وبا کا ذکر کیا اور فرمایا : ”(یہ) رجز یا عذاب ہے جس کے ساتھ بعض امتوں کو عذاب دیا گیا پھر اس سے کچھ بچ جانے والے باقی رہے اور وہ ایک بار ختم ہوجاتا ہے اور دوسری بار پھر آتا ہے پس جو کوئی اس کے بارے کسی زمین میں سنے تو اسے چاہئے کہ وہ وہاں بالکل نہ آئے اور جو اس علاقے میں ہو کہ وہاں وباپھیل جائے تو وہ اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلے (
3
) (صحیح بخاری، کتاب الحیل، جلد
2
، صفحہ
1032
، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب ما یذکر فی الطاعون، حدیث نمبر
5288
: ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابو عیسیٰ ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : ہمیں قتیبہ نے بیان کیا ہے کہ ہمیں حماد بن زید نے عمرو ابن دینار عن عامر بن سعد عن اسامہ بن زید ؓ کی سند سے خبر دی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے طاعون کا ذکر کیا اور فرمایا : ” یہ باقی رہنے والا رجز یا عذاب ہے جو بنی اسرائیل کی ایک جماعت پر بھیجا گیا، پس جب کسی زمین میں واقع ہو اور تم وہاں سے نہ نکلو اور جب کسی زمین میں واقع ہو اور تم وہاں نہ ہو تو تم وہاں نہ جاؤ (
4
) (جامع ترمذی، کتاب الجنائز، جلد
1
، صفحہ
126
، وزارت تعلیم، ایضا سنن ترمذی، باب ماجاء فی کراھیۃ الفرار من اطاعون، حدیث نمبر
985
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور اس حدیث کے مقتضا کے مطابق حضرت عمر ؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عمل کیا جب وہ مقام سرغ سے اس وقت واپس لوٹے جب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے انہیں حدیث کے بارے خبر دی، اسی بناء پر یہ مؤطا وغیرہ میں مشہور ہے۔ اور ایک قوم نے وباء اور بیماری والی زمین سے فرار کو مکروہ قرار دیا ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : ” وباء سے بھاگنا میدان جہاد سے بھاگنے کی طرح ہے (
1
) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الجنائز، جلد
1
، صفحہ
139
، قدیمی کتب خانہ) اور حضرت عمر ؓ کا حضرت ابو عبیدہ ؓ کے ساتھ شام کی طرف نکلنے کا واقعہ معروف ہے اور اس میں ہے کہ آپ واپس لوٹ آئے، اور علامہ طبری نے کہا ہے کہ حضرت سعد ؓ کی حدیث میں اس پر دلیل موجود ہے کہ آدمی پر تکلیف اور اذیت ناک چیزوں کے آنے سے پہلے ان سے بچنا اور احتیاط کرنا لازم ہے اور خوف زدہ کرنے والی اشیاء کے ہجوم اور حملہ سے پہلے ان سے اجنتاب کرنا ایک طرف ہوجانا لازم ہے اور ان کے آنے کے بعد اس پر صبر کرنا اور جزع فزع نہ کرنا لازم ہے اور یہ اس لئے ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اسے منع فرمایا ہے جو وباء والی زمین میں نہ ہو کہ وہ وباء پھیل جانے کے بعد اس میں داخل ہو اور جو وہاں ہو اسے وباء پھیل جانے کے بعد اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے نکلنے سے منع فرمایا ہے، پس ضروری ہے کہ اسی طرح امور کی تکالیف ومصائب سے ہر بچنے والے کے لئے حکم ہو، اس میں اس کے لئے طاعون سے بچنے کی راہ بھی ہے اور یہ معنی حضور ﷺ کے اس ارشاد کی مثل ہے : ” تم دشمن سے ملاقات کی (جنگ کرنے کی) تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت کی التجاء کرو اور جب تمہارا ان سے آمنا سامنا ہوجائے تو پھر صبر کرو (
2
) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، جلد
1
، صفحہ،
424
وزارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر
2744
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں (مفسر) کہتا ہوں : اس باب میں یہی صحیح ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مقتضا ہے اور اسی آپ ﷺ کے نیکوکار اور عظیم المرتبت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا عمل ہے اور حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کو اس پر بطور حجت فرمایا جبکہ انہوں نے آپ سے کہا کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اے ابوعبیدہ ! کاش ! تیرے سوا کوئی اور یہ کہتا، ہاں ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی طرف ہی بھاگ رہے ہیں، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے اور اس کے خلاف جو مقدر فرما دیا ہے اس سے بچنے کے لئے انسان کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ڈرانے والی اور ہلاک کرنے والی اشیاء سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور وسعت و طاقت کے مطابق مکروہات سے بچنے کا ارشاد فرمایا ہے، پھر آپ نے ان میں فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تیرا اونٹ ہو اور تو وادی میں اترے جس کے دو کنارے ہوں ان میں سے ایک سرسبز و شاداب ہو اور دوسرا قحط زدہ ہو، کیا یہ نہیں ہے کہ اگر تو نے سر سبز و شاداب حصہ میں چرایا تو وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ہے اور اگر تو نے قحط زدہ حصہ میں چرایا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ہے پھر حضرت عمر ؓ اپنی اس جگہ سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹ گئے، ال کیا الطبری نے کہا ہے : ہم کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ کفار یا ڈاکو جب ایک کمزور شہر کا قصد کریں اور اس کے باسیوں میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہ ہو تو ان کے لئے جائز ہے کہ وہ ان کے سامنے سے دور ہٹ جائیں، اگر موت کی مقررہ مدت میں کوئی زیادتی اور کمی نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وبا سے فرار اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وبا کی جگہ میں جو ہو رہا ہے، شاید اس سے کچھ حصہ لے لیا جائے تاکہ اس مرض عام کی سبب میں اس جگہ والے شریک ہوجائیں اور وہاں سے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہ رہے، بلکہ وہ اسے سفر کی ان مشقتوں کی طرف منسوب کرے گا جو اسے وبا کی مبادیات میں سے پہنچیں، پس ورد کئی گنا بڑھ جائے گا اور ضرر زیادہ ہوجائے گا اور وہ ہر راستے میں ہلاک ہوجائیں گے اور وہ ہر کشادہ اور تنگ جگہ میں گر جائیں گے، اسی لئے کہا جاتا ہے جو کوئی وبا سے نہیں بھاگا وہ محفوظ رہا، اسے ابن المدائنی نے بیان کیا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نصیحت کافی ہے کہ فرمایا : (آیت) ” الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت، فقال لھم اللہ موتوا “۔ شاید اگر وہ فرار ہو اور بچ جائے تو وہ کہنے لگے : بلاشبہ میں نے اپنے نکلنے کے سبب وبا سے نجات پالی ہے تو اس طرح اس کا اعتقاد خراب اور فاسد ہوجائے گا۔ بالجملہ اس سے فرار ممنوع ہے اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کردی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس میں شہروں کو خالی کرنا لازم آتا ہے اور کمزور لوگ اس سے بھی بری نہیں ہوتے کیونکہ ان پر شہروں سے نکلنا مشکل ہوتا ہے اور ان کے لئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا اور وہ ان سہولتوں سے شہروں کے خالی ہونے کے سبب اذیت اٹھاتے ہیں جو شہروں کا حصہ ہوتی ہیں اور کمزور لوگوں کے لئے معاون اور مددگار ہوتی ہیں۔ اور جب کسی زمین میں وبا ہو تو وہاں احتیاط، خوف اور ضرر کے مقامات سے پرہیز کرنے کے ارادہ سے کوئی نہ آئے اور ایسے وہموں کو دور کرنے کے لئے جو انسان کے دل میں تشویش پیدا کردیتے ہیں اور وہاں داخل ہونے میں ہلاکت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں جائز نہیں ہوتا، کیونکہ مکروہ سے اپنے آپ کو بچانا واجب ہے اور اس پر سو اعتقاد کا خوف کیا جاسکتا ہے کہ وہ یہ کہنے لگے : اگر میں اس جگہ میں داخل نہ ہوتا تو مجھے یہ تکلیف نہ آتی، پس طاعون زدہ علاقے میں داخل ہونے سے منع کرنے یا وہاں سے نکلنے سے منع کرنے میں یہی فائدہ ہے۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے : طاعون مقیم پر اور بھاگنے والے پر ایک آزمائش ہے، کیونکہ بھاگنے والا کہتا ہے : میں نے اپنے فرار کے سبب نجات پالی ہے اور مقیم کہتا ہے : میں یہاں مقیم رہا سو میں مرگیا، اسی قسم کی طرف امام مالک نے اس وقت اشارہ کیا جس وقت ان سے کوڑھ زدہ کی طرف دیکھنے کی کراہت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : میں نے اس میں کوئی کراہت نہیں سنی ہے اور جو روایات اس سے نہی کے بارے وارد ہوئی ہیں وہ صرف اس خوف سے ہیں کہ وہ اسے گھبراہٹ اور اضطراب میں مبتلا کر دے گا یا اسے وہ شے (وہم) خوفزدہ کرتی رہے گی جو اس کے دل میں واقع ہوجائے گی، حضور نبی کریم ﷺ نے وبا کے بارے میں فرمایا ہے : ” جب تم کسی زمین میں اس کے بارے سنو تم اس کی طرف نہ آؤ اور جب وبا پھیل جائے اور تم وہاں ہو تو پھر اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلو۔ “ اور اس شہر کے بارے میں بھی پوچھا گیا جس میں موتیں اور بیماریاں واقع ہو رہی ہوں کیا اس سے نکلنا بھی مکروہ ہے ؟ تو فرمایا : میں کوئی حرج نہیں دیکھتا وہ نکلے یا وہیں مقیم رہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) حضور علی الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی : ” جب کسی زمین میں وبا واقع ہوجائے اور تم وہاں ہو تو اس سے فرار اختیا کرتے ہوئے نہ نکلو (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، جلد
1
، صفحہ،
494
وزارت تعلیم) اس میں اس پر دلیل ہے کہ فرار کے ارادہ کے بغیر طاعون والے شہر سے نکلنا جائز ہے، بشرطیکہ اعقاد یہ ہو کہ جو کچھ اسے پہنچنا ہے وہ اس سے خطا نہیں ہو سکتا اور اسی طرح حکم وہاں داخل ہونے کا بھی ہے جبکہ اسے یہ یقین ہو کہ اس داخل ہونا اس کی طرف ایسی تقدیر کو نہیں کھینچ سکتا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر نہیں بنائی، پس آدمی کے لئے وہاں داخل ہونا اور وہاں سے نکلنا اس حد کی بنا پر مباح ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
5
) طاعون پر صبر کی فضیلت اور اس کے بیان کے بارے میں یہ ہے کہ الطاعون بروزن فاعول الطعن “ سے ماخوذ ہے مگر یہ کہ جب اسے اصل معنی سے پھیر دیا گیا تو اسے وبا کے سبب موت پر دلالت کرنے کے لئے وضع کردیا گیا، جوہری نے یہی کہا ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث سے روایت کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’ رحمۃ اللہ علہیم میری امت کی فنا طعن اور طاعون سے ہے۔ (
2
) (مسند احمد بن حنبل، جلد
6
، صفحہ
255
، دارصادر بیروت) حضرت عائشہ ؓ نے عرض کی : طعن کی تو ہم نے پہچان لیا ہے پس طاعون کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ پھوڑ (گلٹی) ہے اونٹ کے پھوڑے (طاعون) کی طرح جو کہ پیٹ سے نیچے والی جگہوں اور بغلوں کے نیچے نکلتا ہے (
3
) (مسند احمد بن حنبل، جلد
6
، صفحہ
255
، دارصادر بیروت) علماء نے کہا ہے : اس وبا کو اللہ تعالیٰ بطور عذاب اور سزا کے اپنے بندوں میں سے گنہگاروں اور کافروں میں سین جن پر چاہتا ہے بھیج دیتا ہے اور کبھی اسے صالحین کے لئے شہادت اور رحمت بنا کر بھیج دیتا ہے جیسا کہ حضرت معاذ ؓ نے طاعون عمواس میں کہا : بیشک یہ تمہارے لئے شہادت اور رحمت ہے اور تمہارے نبی کریم ﷺ کی دعا ہے : اے اللہ ! معاذ اور اس کے گھر والوں کو اپنی رحمت سے ان کا حصہ عطا فرما، اور ان کی ہتھیلی میں نیزہ مارا گیا۔ حضرت ابو قلابہ ؓ نے کہا ہے : تحقیق میں نے شہادت اور رحمت کو تو پہچان لیا اور میں اسے نہ پہچان سکا کہ یہ تمہارے نبی کی دعا ہے ؟ چناچہ میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا : حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ آپ کی امت کی فناطعن اور طاعون سے ہو، جس وقت آپ نے یہ دعا مانگی کہ آپ کی امت کا آپس میں لڑائی جھگڑا نہ ہو تو اس سے آپ کو روک دیا گیا پھر آپ ﷺ نے وہ دعا مانگی۔ اور حضرت جابر ؓ وغیرہ کی حدیث سے روایت کیا جاتا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” طاعون سے بھاگنے والا میدان جہاد کے لشکر سے بھاگنے والے کی طرح ہے اور اس میں صبر کرنے والا میدان جہاد میں صبر کرنے والے کی طرح ہے (
4
) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الجنائز، جلد
1
، صفحہ
139
، قدیمی کتب خانہ) اور بخاری میں حضرت یحی بن یعمر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اسے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے پوچھا تو حضرت نبی کریم ﷺ نے انہیں بتایا، کہ یہ ایک عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جن پر چاہتا ہے بھیج دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے مومینن کے لئے رحمت بنایا ہے، پس کوئی بندہ نہیں ہے جو طاعون میں مبتلا ہوجاتا ہے اور صبر کرتے ہوئے اسی شہر میں ٹھہرا رہتا ہے اور ویہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اسے ہر گز کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے مگر اس کے لئے شہید کے اجر کی مثل اجر ہے (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الطب، جلد
2
، صفحہ،
853
وزارت تعلیم) اور حضور ﷺ کے اس قول کی یہی تفسیر ہے کہ ” طاعون شہادت ہے اور مطعون شہید ہے (
2
) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الطب، جلد
2
، صفحہ،
853
وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب مایذکر فی الطاعون، حدیث نمبر
92
،
5291
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی اس پر صبر کرنے والا کہ اس کے اجر کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے اور یہ جاننے والا کہ اسے ہر گز کوئی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے لکھ دی ہے، اسی لئے حضرت معاذ ؓ نے تمنا کی کہ اس میں فوت ہوجائیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو مرگیا وہ شہید ہے اور جو کوئی طاعون سے خوفزدہ ہوگیا اور اسے مکروہ جانا اور اس سے بھاگ گیا تو وہ اس حدیث کے معنی میں داخل نہیں ہے واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
6
) ابو عمر نے کہا ہے : مجھ تک کوئی خبر نہیں پہنچی کہ اہل علم میں سے کوئی طاعون سے بھاگا ہو سوائے اس کے جو ابن مدائنی نے ذکر کی ہے کہ علی بن زید بن جدعان طاعون کی وجہ سے السیالہ (یہ مدینہ منورہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے اہل مدینہ کا مکہ کی طرف آتے ہوئے یہ پہلا مرحلہ ہے اور یہ قول بھی ہے کہ یہ ملل اور روحاء کے درمیان واقع ہے) (شرح القاموس) کی طرح چلے گئے اور وہ ہر جمعہ کی نماز میں شریک ہونے کے لئے لوٹ آتے تھے اور جب وہ جمعہ میں شریک ہوتے تو لوگ ان کے بارے پکارتے تھے : فرمن الطاعون یہ طاعون سے بھاگ گئے ہیں، اور وہ السیالہ میں ہی فوت ہوئے، ابن مدائنی نے مزید کہا : عمرو بن عبید اور رباط بن محمد رباطیہ کی طرف بھاگ گئے اور ابراہیم بن علی الفقیمی نے اس بارے میں کہا ہے : ولما استفز الموت کل مکذب صبرت ولم یصبر رباط ولا عمرو۔ جب موت نے ہر جھٹلانے والے کو ہلاک وبرباد کردیا (تو) میں نے صبر کیا اور رباط اور عمرو نے صبرنہ کیا۔ اور ابو حاتم نے اصمعی سے بیان کیا ہے کہ اس نے کیا : بصرہ کے بعض لوگ طاعون سے بھاگے اور ان میں سے کوئی اپنے گدھے پر سوار ہوا اور سفوان (یہ بصرہ میں باب المربد سے ایک مرحلہ کے فاصلہ پر پانی ہے) معجم یاقوت کی طرف اپنے گھر والوں کے پاس چلا گیا اور اس نے حدی گانے والے کو سنا کو یہ اس کے پیچھے حدی گا رہا ہے : لن یسبق اللہ علی حمار ولا علی ذی منعۃ طیار اویاتی الحتف علی مقدار قد یصبح اللہ امام الساری اور مدائنی نے ذکر کیا ہے : عبدالعزیز بن مروان کی حکومت کے دوران مصر میں طاعون پڑا تو وہ اس سے بھاگتے ہوئے نکل گیا اور الصعید کے دیہاتی علاقوں میں سے ایک دیہات میں جا اترا اسے سکر یہ الصعید کے مشرق کے علاقہ میں واقع ہے، اس کے اور مصر کے درمیان دو دن کا فاصلہ ہے (یاقوت) کہا جاتا ہے تو عبدالعزیز نے اس سے پوچھا : تیرا کیا نام ہے ؟ تو اس نے کہا : طالب بن مدرک، تو اس نے کہا : اوہ میں اپنے آپ کو فسطاط کی طرف لوٹنے والا نہیں دیکھ رہا پھر وہ اسی گاؤں میں مرگیا۔
Top