Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠ ۧ
ھُوَ
: وہی ہے
الَّذِىْ
: جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
لَكُمْ
: واسطے تمہارے
مَّا
: جو کچھ ہے
فِى الْاَرْضِ
: زمین میں
جَمِيْعًا
: سارے کا سارا / سب کچھ
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰٓى
: وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا
اِلَى
: طرف
السَّمَآءِ
: آسمان کے
فَسَوّٰىھُنَّ
: پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو
سَبْعَ
: سات
سَمٰوٰتٍ
: آسمانوں کو
وَ
: اور
ھُوَ
: وہ
بِكُلِّ
: ساتھ ہر
شَىْءٍ
: چیز کے
عَلِيْمٌ
: خوب علم والا ہے
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنادیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے،
آیت نمبر
29
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً (وہی تو ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب۔ ) مسئلہ نمبر
1
: خلق اس کا معنی عدم سے وجود میں لانا ہے۔ کبھی انسان کے لئے خلق بولا جاتا ہے جب وہ کسی چیز کو ایجاد کرے۔ شاعر کا قول ہے : من کان یخلق ما یقول فحیلتی فیہ قلیلۃ (
1
) جو وہ کر گزرتا ہے جو وہ کہتا ہے تو میرا حیلہ اس کے بارے میں کم ہے۔ یہ معنی گزر چکا ہے۔ ابن کیسان نے کہا : خلق لکم کا معنی ہے من اجلکم تمہارے لئے پیدا کیا۔ بعض نے فرمایا : معنی یہ ہے کہ جو کچھ زمین میں ہے تم پر وہ انعام کیا گیا ہے وہ تمہارے لئے ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ توحید اور اعتبار کی دلیل ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول صحیح ہے جیسا کہ ہم بیان کریں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہوں جن کے وہ محتاج ہیں۔ مسئلہ نمبر
2
: جن علماء کا یہ اصول ہے کہ وہ اشیاء جن سے نفع حاصل کیا جاتا ہے وہ مباح ہیں انہوں نے اسی آیت سے یہ اصول مستنبط کیا ہے اور اسی طرح کی دوسری آیات سے استدلال کیا ہے مثلاً وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعاً منہ (الجاثیہ :
13
) (یعنی نفع بخش چیزیں حلال ہیں) حتیٰ کہ منع پر دلیل آجائے۔ انہوں نے اپنے اس اصول کی تائید میں یہ کہا ہے کہ لذیذ کھانے پیدا کئے گئے ہیں ان کے پیدا کرنے کا امکان بھی موجود تھا، یہ عبث تو پیدا نہیں کئے گئے، ان کی کوئی منفعت ہوگی اور اس کی منفعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا تو صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی ذات ان چیزوں سے مستغنی ہے۔ پس یہ منفعت ہماری طرف ہی لوٹے گی اور ہماری منفعت یا تو لذت کے حاصل کرنے میں ہے یا ان چیزوں سے اجتناب میں ہے تاکہ ہماری اس طرح آزمائش کی جائے یا ہم ان سے عبرت حاصل کریں ان امور سے کوئی بھی حاصل نہیں ہو سکتا مگر چکھنے کے ساتھ۔ پس یہ لازم ہوا کہ یہ مباح ہیں، یہ قول فاسد ہے کیونکہ منفعت کے بغیر تخلیق سے عبث لازم نہیں آتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے منفعت کے لئے پیدا کیا ہے کیونکہ اس پر منفعت اصل واجب نہیں ہے بلکہ یہ منفعت اس کو پیدا کرنے کا موجب ہے۔ ہم منفعت کا حصر ان صورتوں میں تسلیم نہیں کرتے جو انہوں نے بیان کی ہیں اور ان منافع میں سے بعض کا حصول چکھنے پر موقوف نہیں ہے بلکہ ذائقہ دوسرے ذرائع سے بھی حاصل کیا جاتا ہے جیسے کہ طبائعیین کے نزدیک معروف ہے۔ پھر ان کا اصول معارض ہے ہر اس چیز سے جس کے چکھنے سے اس کے ہلاک کرنے والی زہر ہونے کا خوف ہو۔ اصحاب حظر کے شبہات سے معارض ہیں۔ بعض نے توقف فرمایا اور کہا : ہر فعل جس کا حسن اور قبح معلوم نہ ہو مگر یہ کہ وہ فی نفسہ حسن ہو، شرع کے ورود سے پہلے کوئی معین کرنے والا نہیں۔ وقف تو شریعت کے ورود تک موقوف ہوگا۔ یہ تینوں معتزلہ کے اقوال ہیں۔ شیخ ابو الحسن اور اس کے ساتھ اکثر مالی اور صیرفی نے اس مسئلہ میں مطلق وقف کا قول کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ اس حالت میں ان اشیاء کا کوئی حکم نہیں ہوگا شرع کے لئے ہے جب وہ آئے تو جو چاہے حکم دے۔ عقل وجوب اور غیر وجوب کے ساتھ حکم نہیں لگاتی۔ اس کا حصہ ہے امور اس کے مطابق پہنچائے جائیں گے جیسے وہ ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : ابن فورک نے ابن الصائغ سے روایت کر کے بیان کیا ہے، فرمایا : عقل کبھی سمع سے خالی نہیں ہوتی کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر اس میں سمع (سننا) ہوتا ہے، یا اس کے ساتھ اس کا تعلق ہوگا یا اس کے لئے ایسی حالت ہوگی جس کی وجہ سے اسے کہا جائے گا۔ فرمایا : مناسب ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے۔ یہ حظر، اباحت اور توقف میں غوروفکر سے مستغنی کردیتا ہے (
1
) ۔ مسئلہ نمبر
3
: خلق لکم ما فی الارض کے معنی یہ صحیح اعتبار ہے۔ اس سے ماقبل اور مابعد عبرتوں کے دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں (مثلاً ) زندہ کرنا، مارنا، تخلیق کرنا، آسمانوں کی طرف استویٰ اور آسمانوں کا تسویہ یعنی جو ذات تمہارے زندہ کرنے پر اور تمہاری تخلیق پر، آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر قادر ہے اس کی قدرت سے دو بار زندہ کرنا بعید نہیں۔ اگر کہا جائے کہ لکم کا معنی انتفاع ہے یعنی تاکہ تم ان تمام چیزوں سے نفع اٹھاؤ ہم کہیں گے انتفاع سے مراد اعتبار (عبرت حاصل کرنا) ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ بچھوؤں اور سانپوں میں کیا عبرت ہے ؟ ہم کہیں گے انسان موذی چیزوں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لئے آگ میں سزائیں تیار کر رکھی ہیں۔ پس یہ چیزیں ایمان کا سبب اور گناہوں کے ترک کا سبب بنتی ہیں یہ بہت بڑی عبرت ہے۔ ابن عربی نے کہا : ان تمام چیزوں سے اس قدرت کے متعلق جو خبر دی گئی اس میں منع، اباحت اور توقف کا کوئی تقاضا نہیں۔ یہ آیت دلالت اور تنبیہ کے لئے ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کی وحدانیت پر استدلال کیا جائے۔ ارباب معانی نے خلق لکم ما فی الارض جمیعاً کے متعلق فرمایا : یہ سب تمہارے لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ تم اس کی اطاعت پر قوت حاصل کرو نہ کہ تم اس کی معصیت کی وجوہ میں تصرف کرو۔ ابو عثمان نے کہا : تجھے یہ سب کچھ عطا فرمایا اور تیرے لئے مسخر کردیا تاکہ تم اس کے وجود کی وسعت پر استدلال کرو اور تو سکون حاصل کر اس سے جو آخرت میں تیرے لئے بڑی بڑی نعمتیں محفوظ کر رکھی ہیں تو اپنے قلیل عمل پر کثیر نیکی کا مطالبہ نہ کر اس نے تجھے عمل سے پہلے ہی عظیم نعمت دی ہے اور وہ توحید ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: حضرت زید بن اسلم نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے کچھ عطا کرنے کا آپ ﷺ سے سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن تم میرے نام پر مال خرید لو جب مال آئے گا تو ہم ادا کردیں گے۔ حضرت عمر نے عرض کی : حضور ! جو آپ کے پاس ہو وہ دے دیا کریں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کو مکلف نہیں بنایا جس پر آپ قادر نہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر کے قول کو ناپسند فرمایا۔ ایک انصاری نے کہا : یا رسول اللہ ! انفق ولا تخش من ذی العرش اقلالا (آپ خرچ کریں اور آپ صاحب عرش کی طرف سے کمی کا اندیشہ نہ کریں) ۔ انصاری کا یہ جملہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا اور آپ کے چہرے سے خوشی پہچانی گئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اقلال کا خوف اللہ تعالیٰ کے متعلق سوئے ظن سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا : خلق لکم ما فی الارض جمیعاً (جس نے پیدا کیا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے) اور فرمایا : وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعاً منہ (الجاثیہ :
13
) (اور تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنے حکم سے) ۔ یہ تمام چیزیں انسان کے لئے مسخر کردیں تاکہ اس کا عذر ختم ہوجائے اور اس پر حجت قائم ہوجائے تاکہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے جس طرح اس نے اسے بندہ پیدا کیا ہے جب بندہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھتا ہے تو اسے کمی کا اندیشہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس پر مزید مہربانی فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : وماانفقتم من شیء فھو یخلفہ وھو خیر الرزقین۔ (سبا) (اور جو چیز تم خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دے دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے) ۔ اور فرمایا : فان ربی غنی کریم۔ (النمل) (بلاشبہ میرا رب غنی بھی ہے (اور) کریم بھی ) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے گئی۔ اے ابن آدم ! تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے ہمیشہ عطا فرما رہا ہے دن رات کے خرچ نے اس میں کچھ کمی نہیں کی ہے (
1
) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندے صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ایک کہتا ہے : “ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو بہتر بدل عطا فرما اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے : اے اللہ ! کنجوس کا مال تلف فرما (
2
) ۔” اسی طرح سورج کے غروب ہونے کے وقت وہ فرشتے ندا دیتے ہیں۔ یہ صحیح روایت ہے ائمہ حدیث نے روایت کی ہے۔ والحمد للہ۔ جس شخص کا سینہ روشن ہوا اور اس نے اپنے رب کی غنا، اس کے کرم کو جان لیا اس نے خرچ کیا اور کمی کا خوف نہ کیا، اسی طرح جس کی دنیوی خواہشات ختم ہوگئیں اور قوت لا یموت سے اپنی روح کے لئے طاقت حاصل کی اور اپنے نفس کی خواہش کو فنا کردیا تو ایسا شخص خوشحالی اور تنگی میں عطا کرتا ہے اور کمی کا اندیشہ نہیں کرتا، کمی کا خوف تو وہ کرتا ہے جسے اشیاء دنیا میں خواہش ہو جب وہ آج دے گا تو کل اسے ضرورت ہوگی وہ خوف کرتا ہے کہ کل شاید اسے یہ نہ ملے تو اس پر کمی کے خوف کی وجہ سے آج خرچ کرنے میں تنگی محسوس کرتا ہے۔ مسلم نے حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت کیا ہے، فرمایا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عطا کرو اور انڈیل دو اور خرچ کرو اور شمار نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر شمار کرے گا اور خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی عطا روک لے گا (
1
) ۔ نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ایک دفعہ ایک سائل میرے پاس آیا اور میرے پاس رسول اللہ ﷺ موجود تھے۔ میں نے سائل کے لئے کسی چیز کے دینے کا حکم کیا پھر میں نے اسے بلایا اور اس مال کو دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تو نہیں چاہتی کہ تیرے گھر میں کوئی چیز داخل نہ ہو اور نہ کوئی چیز خارج ہو مگر تجھے اس کا علم ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں میں یہی چاہتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے عائشہ ! ٹھہرو، شمار نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر شمار کرے گا (
2
) ۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم استویٰ ، ثم اخبار کی ترتیب کے لئے ہے نہ کہ فی نفسہ امر کی ترتیب کے لئے ہوتا ہے۔ الاستویٰ کا لغوی معنی، کسی شے پر بلند ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاذا استویت انت ومن معک علی الفلک (المومنون :
28
) (اور پھر جب اچھی طرح بیٹھ جائیں آپ اور آپ کے ساتھ کشتی کے عرشہ پر) اور فرمایا : لتستوا علیٰ ظھورہ (زخرف :
13
) (تا کہ تم جم کر بیٹھو ان کی پیٹھوں پر) ۔ شاعر نے کہا : فاوردتھم ماء بقیفاء قفرۃ وقد حلق النجم الیمانی فاستویٰ اس شعر میں استویٰ بھی ارتفع وعلا ہے یعنی بلند ہوا۔ استوت الشمس علی راسی، یعنی سورج میرے سر پر چڑھا، واستوت الطیر علی قمۃ راسی یعنی پرندے میرے سر پر بلند ہوئے۔ یہ آیت مشکلات میں سے ہے یہ آیت اور اس کے مشابہ دوسری آیات کے بارے علماء کے تین نظریات ہیں : بعض علماء نے فرمایا : ہم اس آیت کو پڑھتے ہیں اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم اس کی تفسیر بیان نہیں کرتے اکثر ائمہ کا یہی نظریہ ہے۔ یہ اس طرح جیسا کہ امام مالک سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے الرحمٰن علی العرش استویٰ ۔ (طہٰ ) کے متعلق سوال کیا تو امام مالک نے فرمایا : الاستویٰ مجہول نہیں ہے اور کیفیت سمجھنے کے قابل نہیں ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے، میں تجھے برا آدمی دیکھتا ہوں، اس کو باہر نکال دیا۔ بعض علماء نے فرمایا : ہم اس آیت کو پڑھتے ہیں اور اس طرح اس کی تفسیر کرتے ہیں جس طرح ظاہر لغت احتمال رکھتی ہے یہ مشبہ فرقہ کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ہم اس کی تلاوت کرتے ہیں ہم اس کی تاویل کرتے ہیں اور اس کے ظاہر معنی پر اس کے محمل کو پھیرتے ہیں۔ فراء نے ثم استوٰی الی السماء فسوھن کے متعلق کہا الاستوا کلام عرب میں دو طرح استعمال ہوتا ہے۔ ان یستوی الرجل وینتھی شبابہ وقوتہ۔ او یستوی عن اعوجاج یعنی آدمی بڑا ہوا اور اس کی جوانی اور قوت انتہا کو پہنچی یا ٹیڑھی روش کو چھوڑ کر سیدھا ہوگیا (راہ راست پر آگیا) یہ دو وجہیں ہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ تو کہے : کان فلان مقبلاً علی فلان ثم استوی علی والی یشاتمنی۔ (فلاں شخص فلاں کی طرف متوجہ تھا پھر میری طرف متوجہ ہوا اور مجھے گالی دینے لگا) ۔ یعنی اس کا معنی ہوگا میری طرف متوجہ ہوا۔ اس آیت ثم استویٰ الی السماء میں یہی معنی ہے۔ واللہ اعلم۔ اور فرمایا : حضرت ابن عباس نے فرمایا : ثم استوٰی الی السماء کا مطلب ہے : بلند ہوا۔ یہ تیرے اس قول کی مانند ہے : کان قاعداً فاستویٰ وہ بیٹھا تھا پھر کھڑا ہوگیا۔ کان قائماً فاستویٰ قاعد اً پہلے کھڑا تھا پھر بیٹھ گیا۔ یہ تمام معانی عرب کلام میں جائز ہیں۔ امام بیہقی ابوبکر احمد بن علی بن الحسن نے کہا : استویٰ کا معنی اقبل (متوجہ ہونا) صحیح ہے کیونکہ اقبال کا معنی آسمان کی تخلیق کی طرف قصد کرنا ہے اور قصد ہے مراد ارادہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں جائز ہے اور ثم کا لفظ خلق سے تعلق کے لئے ہے نہ کہ ارادہ کے لئے۔ اور رہی وہ بات جو اس نے حضرت ابن عباس سے حکایت کی ہے وہ انہوں نے کلبی کی تفسیر سے لی ہے اور کلبی ضعیف ہے۔ سفیان بن عینیہ اور ابن کیسان نے ثم استوٰی الی السماء کے متعلق فرمایا : قصد الیھا یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا۔ یہ ایک قول ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ بغیر تکیف اور تحدید کے ہے۔ طبری نے اس قول کو اختیار کیا۔ ابو العالیہ الریاحی سے اس آیت کے متعلق روایت کیا جاتا ہے کہ کہا جاتا ہے : استویٰ بمعنی ارتفع ہے (بلند ہوا) ۔ بیہقی نے کہا : اس سے مراد اس کے امر کا بلند ہونا ہے وہ پانی کے بخارات ہیں جن سے آسمان کی تخلیق واقع ہوئی۔ بعض علماء نے فرمایا : المستوی چڑھنے والا دھواں تھا۔ ابن عطیہ نے کہا : کلام کا وصف اس قول کا انکار کرتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : استویٰ کا معنی استولیٰ (غالب آنا) ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : قد استوی بشرٌ علی العراق من غیر سیف ودم مھراق (
1
) بشر عراق پر غالب آیا بغیر تلوار کے اور بغیر خون بہائے۔ ابن عطیہ نے کہا : الرحمٰن علی العرش استوٰی۔ (طہٰ ) میں یہ معنی مراد ہے (
2
) ، میں کہتا ہوں : قراء کے قول میں پہلے گزر چکا ہے کہ علی اور الی ایک معنی میں ہیں۔ اس کے متعلق مزید معلومات سورة اعراف میں آئیں گے ان شاء اللہ۔ اور اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات میں قاعدہ نقل و حرکت نہ کرنا ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق فرمائی۔ اسی طرح حم السجدہ سورت میں ہے اور سورة النازعات میں فرمایا : ء انتم اشد خلقاً ام السماء بنھا۔ (کیا تمہیں پیدا کرنا مشکل ہے یا آسمان کا اس نے اسے بنایا) ۔ اس میں آسمان کی تخلیق کا وصف بیان فرمایا اور اس کے بعد فرمایا : والارض بعد ذلک دحھا۔ (النازعات) (اور زمین کو بعد ازاں بچھا دیا) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے گویا آسمان کو زمین سے پہلے تخلیق فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الحمد للہ الذی خلق السموت والارض (انعام :
1
) (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمینوں کو) ۔ یہ قتادہ کا قول ہے کہ آسمان پہلے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کو طبری نے قتادہ سے روایت کیا ہے مجاہد وغیرہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس پانی کو خشک کیا جس پر اس کا عرش تھا اور اسے زمین بنا دیا اس میں دھواں اٹھا اور بلند ہوا تو اس سے آسمان بنا دیا۔ پس زمین کی تخلیق آسمان کی تخلیق سے پہلے ہوئی پھر اس کے امر نے آسمانوں کا قصد کیا اور انہیں سات آسمان بنایا پھر اس کے بعد زمین کو پھیلایا۔ جب پہلے پیدا فرمایا تھا تو یہ پھیلی ہوئی نہ تھی۔ میں کہتا ہوں : قتادہ کا قول صحیح وجہ پر نکلے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان کا دھواں پیدا فرمایا پھر زمین کو پیدا فرمایا پھر آسمان کی طرف قصد کیا وہ دھواں تھا اسے سات آسمان بنایا، پھر اس کے بعد زمین کو پھیلا یا، جو چیز دلیل ہے کہ دھویں کو زمین سے پہلے تخلیق کیا گیا وہ وہ روایت ہے جو سدی نے ابی مالک سے اور ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے مرہ الہمدانی سے انہوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے اور بہت سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے اس ارشاد کے بارے روایت کی ہے : ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استوٰی الی السماء فسوھن سبع سموتٍ ۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور پانی سے پہلے اس نے کوئی چیز پیدا نہ کی۔ جب اس نے مخلوق کو پیدا کرنے کا قصد کیا تو پانی سے دھواں نکالا۔ پس وہ دھواں پانی پر بلند ہوا اور اوپر ہوگیا، اس کا نام سماء رکھا پھر پانی کو خشک کیا اور اس سے ایک زمین بنا دی پھر اسے پھاڑا اور دو دنوں میں (یعنی) اتوار اور سوموار میں انہیں سات زمینیں بنایا، پھر زمین کو مچھلی پر رکھا۔ الحوت سے مراد النون (مچھلی) ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں کیا : ن والقلم (ن :
1
) مچھلی پانی میں ایک چٹان پر تھی اور وہ چٹان ایک فرشتے کی پیٹھ پر تھی اور وہ فرشتہ ایک چٹان پر تھا اور وہ چٹان ہوا میں تھی، یہ وہ (چٹان) ہے جس کا ذکر حضرت لقمان نے کیا لیست فی السماء ولا فی الارض۔۔۔۔ پھر مچھلی نے حرکت کی تو زمین لرزنے لگی پھر اس پر پہاڑوں کو رکھا تو وہ قرار پا گئی، پہاڑ زمین پر فخر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والقیٰ فی الارض رواسی ان تمیدبکم (لقمان :
10
) (اور اللہ تعالیٰ نے گاڑ دئیے ہیں زمین میں اونچے اونچے پہاڑ تاکہ زمین لرزتی نہ رہے تمہارے ساتھ ) ۔ یعنی زمین میں پہاڑ پید کئے اور زمین والوں کی خوراک اور درخت اور جو کچھ زمین کے لئے مناسب تھا دو دنوں میں یعنی منگل اور بدھ کو پیدا فرمایا۔ یہ جب فرمایا : قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ انداداً ذلک رب العلمین۔ وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبرک فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایامٍ سواءً للسائلین۔ (فصلت) آپ (ان سے) پوچھئے کیا تم لوگ انکار کرتے ہو اس ذات کا جس نے پیدا فرمایا زمین کو دو دن اور ٹھہراتے ہو اس کے لئے مد مقابل وہ تو رب العالمین ہے (اس کا مد مقابل کون ہو سکتا ہے) اور اس نے (ہی) بنائے ہیں زمین میں کھڑے ہوئے پہاڑ اور جو اس کے اوپر (اٹھے ہوئے) ہیں اور اس نے بڑی برکتیں رکھی ہیں اس میں اور اندازے سے مقرر کردی ہیں اس میں غذائیں (ہر نوع کے لئے) چار دنوں میں (ان کا حصول) یکساں ہے طلبگاروں کے لئے۔ جو یہ پوچھے تو معاملہ اسی طرح ہے ثم استوٰی الی السماء وھی دخان (فصلت :
11
) پھر اس نے توجہ فرمائی آسمان کی طرف وہ اس وقت محض دھواں تھا یہ دھواں پانی کے بخارات سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک آسمان بنایا پھر اسے پھاڑا اور دو دنوں میں یعنی خمیس اور جمعہ کے روز سات آسمان بنائے۔ جمعہ کو جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق جمع ہوئی۔ اوحٰی فی کل سماءٍ امرھا (فصلت :
12
) فرمایا : ہر آسمان میں اس کی مخلوق پیدا فرمائی یعنی فرشتے اور سمندر اولوں کے پہاڑ اور دوسری چیزیں جن کا علم نہیں وہ پیدا فرمایا۔ پھر آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین فرمایا اور ان ستاروں کو زینت بنایا اور شیطانوں سے حفاظت کا باعث بنایا جب اس تخلیق کو مکمل فرمایا جو پسند تھی تو عرش پر استواء فرمایا۔ یہ مراد ہے جب فرمایا : خلق السموت والارض فی ستۃ ایام (حدید :
4
) (پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں ) ۔ فرمایا کا نتا رتقاً ففتقنھما (الانبیاء :
30
) (آپس میں ملے ہوئے تھے پھر ہم نے الگ الگ کردیا انہیں) حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق میں یہ سارا واقعہ ذکر فرمایا جیسا کہ انشاء اللہ اسی سورت میں اس کا بیان آئے گا۔ وکیع نے اعمش سے انہوں نے ابو ظبیان سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا پھر اسے فرمایا : تو لکھ۔ قلم نے پوچھا : یا رب ! کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تقدیر لکھ۔ پس وہ سب کچھ جاری ہوگیا جو اس دن سے قیامت تک ہونا تھا۔ فرمایا : پھر مچھلی کو پیدا فرمایا اس پر زمین کو پھیلایا، پانی کے بخارات اٹھے، اس سے آسمان بنے مچھلی نے حرکت کی تو زمین پھیل گئی۔ اس پر پہاڑ پیدا کئے گئے، پہاڑ قیامت تک زمین پر فخر کرتے رہیں گے (
1
) اس روایت میں زمین کی تخلیق پانی کے بخار کے بلند ہونے سے پہلے ہے جو بخار دھواں تھا، یہ پہلی روایت کے خلاف ہے اور پہلی روایت اس روایت سے اور دوسری روایات سے اولیٰ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والارض بعد ذلک دحھا۔ (النازعات) (اور زمین کو بعد ازاں بچھا دیا) ۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے جو اس نے کیا۔۔۔۔ اس کے متعلق اقاویل مختلف ہیں اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں۔ ابو نعیم نے حضرت کعب الاحبار سے ذکر کیا ہے ابلیس اس مچھلی کے اندر داخل ہو جس کی پیٹھ پر ساری زمین تھی۔ اس نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ اس نے کہا : اے لوثیا ! کیا تو جانتی ہے جو تیری پیٹھ پر قومیں، درخت، جانور، لوگ اور پہاڑ ہیں اگر تو ان کو جھاڑ دے تو تو انہیں اپنی پیٹھ سے نیچے پھینک دے گی۔ حضرت کعب نے کہا : لوثیا (مچھلی) نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک جانور بھیجا جو اس مچھلی کے نتھنے میں داخل ہوگیا، مچھلی نے اس سے نجات کے لئے اللہ کی بارگاہ میں التجا کی تو وہ جانور نکل گیا، حضرت کعب نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! وہ مچھلی سامنے اس کو دیکھ رہی تھی اور وہ اسے دیکھ رہا تھا اگر وہ کوئی ارادہ کرتی تو وہ جانور پھر اس کے ناک میں داخل ہوجاتا۔ مسئلہ نمبر
7
: تمام اشیاء کی تخلیق کی اصل پانی سے ہے کیونکہ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اور ابو حاتم البستی نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا نفس خوش ہوتا ہے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں مجھے ہر چیز کے متعلق بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز پانی سے تخلیق کی گئی ہے۔ میں نے کہا : حضور ﷺ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جب میں اسے کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کھانا کھلاؤ، سلام کو پھیلاؤ، صلہ رحمی کرو، رات کو قیام کرو جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے (
1
) ۔ ابو حاتم نے کہا : حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول مجھے ہر چیز کے بارے خبر دیجئے۔ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو پانی سے پیدا کی گئی تھی، اس کی صحت پر دلیل مصطفیٰ (علیہ السلام) کا جواب ہے۔ آپ نے فرمایا : کل شی خلق من الماء۔ (ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے اگرچہ وہ ابھی مخلوق نہ تھی) ۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، وہ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پہلے جس چیز کو اللہ نے پیدا فرمایا وہ قلم تھا پھر اسے حکم دیا تو اس نے وہ سب کچھ لکھا جو ہونا تھا (
2
) ۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے بھی یہ حدیث مرفوع مروی ہے۔ امام بیہقی نے کہا : یہاں پہلی چیز جو اس نے پیدا کی، سے مراد پانی اور ہوا ہے اور عرش کے بعد پہلی چیز جو پیدا کی وہ قلم تھا۔ یہ مفہوم حضرت عمران بن حصین کی حدیث میں واضح ہے۔ پھر آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا (
3
) ۔ عبد الرزاق بن عمر بن حبیب المکی نے حمید بن قیس الاعرج سے انہوں نے طاؤس سے روایت کیا ہے، فرمایا : ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے پاس آیا اور پوچھا : یہ مخلوق کس سے پیدا کی گئی ؟ حضرت عبد اللہ نے کہا : پانی، نور، ظلمت، ہوا اور مٹی سے۔ اس شخص نے کہا : یہ چیزیں کس سے پیدا کی گئیں۔ حضرت عبد اللہ نے کہا : میں نہیں جانتا۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن زبیر کے پاس آیا۔ ان سے یہی سوال کیا انہوں نے بھی حضرت عبد اللہ بن عمرو کے قول کی مثل جواب دیا۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عباس کے پاس آیا ان سے یہی سوال کیا۔ کہا : یہ مخلوق کس چیز سے پیدا ہوئی ہے ؟ حضرت ابن عباس نے کہا : پانی، نور، ظلمت، ہوا اور تاریکی سے۔ اس شخص نے پوچھا : یہ چیزیں کس سے پیدا ہوئی ہیں، تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ آیت تلاوت کی : وہ سخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعاً منہ (الجاثیہ :
13
) (اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنے حکم سے اس نے مسخر کردیا تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے ) ۔ اس شخص نے کہا یہ جواب تو صرف نبی کریم ﷺ کے گھرانے کا فرد ہی دے سکتا ہے۔ امام بیہقی نے فرمایا تمام چیزوں کا مصدر اس سے ہے یعنی اس کی تخلیق، ایجاد اور اختراع سے ہے، اس نے پہلے پانی کو پیدا فرمایا یا پانی اور اس سے اس چیز کو پیدا کیا جس کو اس نے پیدا کرنا چاہا، نہ تو یہ کسی اصل سے ہیں نہ کسی سابق مثال سے ہیں پھر بعد میں جو اس نے پیدا کیا اس کی اصل بنائی، حقیقی پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس کے علاوہ کوئی خالق نہیں اس کی ذات ہر نقص اور عیب سے پاک ہے۔ (
1
) مسئلہ نمبر
8
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فسوھن سبع سموتٍ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا کہ آسمان سات ہیں اور زمین کے لئے کوئی صریح عدد قرآن میں ایسا نہیں آیا جو تاویل کا احتمال نہ رکھتا ہو سوائے اس ارشاد کے ومن الارض مثلھن (الطلاق :
12
) (اور زمین کو بھی انہی کی مانند) اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ومن الارض مثلھن یعنی زمین میں سے تعداد میں اس کی مثل ہیں کیونکہ کیفیت اور صفت میں تو مشاہدہ اور اخبار سے معلوم ہے کہ یہ مختلف ہیں۔ پس تعداد کے اعتبار سے ہم مثل ہونا متعین ہوگیا۔ بعض علماء نے فرمایا : موٹائی میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس میں ہم مثل ہونا مراد ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : زمینیں بھی سات ہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے بنائی گئی ہیں، یہ داؤدی کا قول ہے : پہلا قول ہی صحیح ہے زمینیں، آسمانوں کی طرح سات ہیں۔ مسلم نے حضرت سعید بن زید ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے ایک بالشت کسی کی زمین ظلماً لے لی اسے سات زمینوں تک اس کا طوق پہنایا جائے گا (
2
) ۔ حضرت عائشہ ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن اس میں الی کی جگہ من ہے یعنی سات زمینوں سے اس کو طوق پہنایا جائے گا اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے کوئی شخص ناحق کسی کی ایک بالشت زمین نہیں لے گا مگر اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے روز) سات زمینوں تک طوق پہنائے گا (
3
) ۔ نسائی نے حضرت ابو سعید خدری سے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : یا رب ! مجھے کوئی ایسی چیز سکھا جس کے ساتھ میں تجھے یاد کروں اور تجھ سے اس کے ذریعے دعا مانگوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسیٰ ! تو کہہ لا الہ الا اللہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : یا رب ! یہ تو تیرا ہر بندہ کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو کہہ : لا الہ الا اللہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا لا الہ الا انت، میں ایسی چیز چاہتا ہوں جس کے ساتھ تو مجھے خاص کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسیٰ اگر ساتوں آسمان اور ان کو آباد کرنے والے میرے سوا اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں ہوں اور لا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں ہو، لا الہ الا اللہ والا پلڑا دوسرے پلڑے سے بھاری ہوجائے گا۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام بیٹھے تھے کہ ان پر ایک بادل آیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بادل ہے یہ زمین سیراب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ایسی قوم کی طرف بھیجتا ہے جو شکر نہیں کرتی اور دعا نہیں مانگتی۔ فرمایا : کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : رفیع آسمان ہے (یہ) محفوظ چھت ہے اور رو کی گئی موج ہے۔ پھر فرمایا : کیا تم جانتے ہو تمہارے اور اس آسمان کے درمیان کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : تمہارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پھر فرمایا : اسی طرح (کی مسافت ہے) حتیٰ کہ سات آسمانوں کو شمار کیا ہر دو آسمان کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان مسافت ہے۔ پھر فرمایا : کیا تم جانتے ہو آسمانوں کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پھر فرمایا : اس کے اوپر عرش ہے آسمانوں اور عرش کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان ہے۔ پھر فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے نیچے کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : اس زمین کے نیچے دوسری زمین ہے۔ ان دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے حتیٰ کہ آپ نے سات زمینیں شمار کیں ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پھر فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے ! اگر تم نچلی زمین کی طرف رسی لٹکاؤ تو وہ اللہ (کے علم) پر گرے گی۔ پھر یہ آیت پڑھی : ھو الاول والاخرۃ والظاھر والباطن وھو بکل شیءٍ علیم۔ (الحدید) (وہی اول، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے) (
1
) ۔ ابو عیسیٰ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کا اس آیت کو تلاوت کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے یہ مراد لیا کہ وہ رسی اللہ تعالیٰ کے علم، اس کی قدرت اور سلطنت پر گرے گی۔ اللہ تعالیٰ کا علم، اس کی قدرت اور اس کی سلطنت ہر جگہ ہے جبکہ وہ عرش پر ہے جیسا کہ اس نے خود اپنی کتاب میں اپنا وصف بیان کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے۔ حضرت حسن (بصری) نے حضرت ابوہریرہ سے (حدیث) نہیں سنی اور ان آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ زمینیں سات ہیں اور جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ کافی ہے۔ ابو الضحیٰ ۔۔۔۔ اس کا نام مسلم ہے۔۔۔۔ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اللہ الذی خلق سبع سموتٍ ومن الارض مثلھن (الطلاق :
12
) سات زمینیں ہیں ہر زمین میں ایک نبی ہے جیسے تمہارے نبی ہیں آدم کی طرح آدم، نوح کی طرح نوح، ابراہیم کی طرح ابراہیم، عیسیٰ کی طرح عیسیٰ ۔ علیہم السلام۔ بیہقی نے کہا : اس کی سند حضرت ابن عباس سے صحیح ہے یہ مرہ کی وجہ سے شاذ ہے۔ میں ابو الضحی کے لئے اس پر کوئی متابع نہیں جانتا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
9
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ھو الذی خلق لکم ما فی الارض یہ مبتدا خبر ہیں۔ ما محل نصب میں ہے جمیعاً سیبویہ کے نزدیک یہ حال ہونے کی بناء پر منصوب ہے۔ ثم استوٰی اہل نجد اس میں امالہ کرتے ہیں تاکہ اس بات پر دلالت کرے کہ یاء والے الفاظ میں سے ہے اور اہل حجاز تفخیم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ سبع یہ ھن ضمیر سے بدل ہونے کی بنا پر منصوب ہے یعنی فسوی سبع سموٰت۔ اور مفعول بھی ہو سکتا ہے اس تقدیر پر یسوی بینھن سع سماوات، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واختار موسیٰ قومہ سبعین رجلاً (الاعراف :
155
) اصل میں من قومہ تھا۔ یہ نحاس کا قول ہے۔ اخفش نے کہا : حال کی بنا پر (سبع) منصوب ہے۔ وھو بکل شیءٍ علیم یہ مبتدا خبر ہیں (ھو) میں اصل ھا کی حرکت ہے اور اسکان تخفیف کی بنا پر ہے۔ السماء۔ واحد مونث استعمال ہوتا ہے جیسے عنان ہے اس کا مذکر شاذ ہے اور کبھی السماء، سماوۃ کی جمع ہوتا ہے یہ اخفش کے قول کے مطابق ہے اور زجاج کے قول میں یہ سماء ۃٌ کی جمع ہے اور جمع الجمع سماوات، سماءات ہے۔ سواھن بھی آیا تو اس لئے کہ السماء جمع ہے یا اس لئے کہ مفرد اسم جنس ہے سواھن کا معنی ہوگا : ان کی سطحوں کو ہموار کرنے کے ساتھ برابر کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے : انہیں برابر کیا۔ مسئلہ نمبر
10
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وھو بکل شیءٍ علیم جو اس نے پیدا کیا اسے جاننے والا ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ پس ثابت ہوا کہ وہ ہر چیز کا عالم بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الا یعلم من خلق (الملک :
14
) ( نادانوں) کیو وہ نہیں جانتا (بندوں کے احوال کو) جس نے (انہیں) پیدا کیا) ۔ اللہ تعالیٰ عالم ہے اور اپنے قدیم ازلی علم کے ساتھ تمام معلومات کو جاننے والا ہے وہ یکتا ہے قائم بذاتہ ہے۔ معتزلہ عالمیت میں ہمارے ساتھ موافقت کرتے ہیں علمیت میں موافقت نہیں کرتے۔ جہمیہ فرقہ کا نظریہ ہے کہ وہ جاننے والا ہے علم سے قائم ہے مگر کسی محل میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ گمراہوں کے قول سے بلندوبالا ہے۔ ان لوگوں کا رددیانات کی کتب میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنا وصف علم کے ساتھ بیان فرمایا : انزلہ بعلمہ والملئکۃ یشھدون (النساء :
166
) (اس نے اسے اتارا ہے اپنے علم سے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں ) ۔ اور فرمایا : فاعلموا انما انزل بعلم اللہ ( ہود :
14
) پھر جان لو کہ یہ قرآن محض علم الٰہی سے اتارا گیا ہے) اور فرمایا : فلنقصن علیھم بعلمٍ (اعراف :
7
) (پھر ہم ضرور بیان کریں گے (ان کے حالات) ان پر اپنے علم سے) اور فرمایا : وما تحمل من انثیٰ ولا تضع الا بعلمہ (فاطر :
11
) (اور نہ ہی حاملہ ہوتی کوئی عورت اور نہ بچہ جنتی ہے) اور فرمایا : وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو (الانعام :
59
) (اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی مگر اس کو اس کا علم ہوتا ہے نہیں جانتا سوائے اس کے ) ۔ ہم اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی تمام صفات کے ثبوت پر اسی سورت میں یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (البقرہ :
185
) کے تحت استدلال کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ کسائی اور قالون نے نافع سے (ھو اور ھی) کو ہا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے جب ان سے پہلے فا، واو، لام یا ثم ہو۔ اسی طرح ابو عمرو نے کہا ہے مگر ثم کے ساتھ اس طرح نہیں پڑھا۔ ابو عون نے حلوانی سے انہوں نے قالون سے یہ زائد نقل کیا ہے انہوں نے ان یمل ھو میں ہا کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے حرکت کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top