Al-Qurtubi - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گرپڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا
آیت نمبر 34 اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واذ قلنا اس سے پہلے اذکر محذوف ہے اور رہا ابو عبید کا قول کہ (اذ) زائدہ ہے یہ جائز نہیں ہے کیونکہ (اذ) ظرف ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے، اور فرمایا : قلنا، قلت نہیں فرمایا، چونکہ جبار عظیم ذات اپنے بارے میں جماعت کے فعل کے ساتھ خبر دیتی ہے، عظمت اور ذکر کی بلندی کے اظہار کے اعتبار سے۔ ملائکۃ یہ جمع ہے ملک کی۔ اس سے پہلے اس کا ذکر گزر چکا ہے، ادم کے متعلق اور اس کے اشتقاق کے متعلق بھی بحث گزر چکی ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ابو جعفر بن قعقاع سے مروی ہے کہ انہوں نے ملائکۃ کی تاء کو اسجدوا کے جیم کے ضمہ کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے۔ اس کی مثال الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اسجدوا۔ سجود کا معنی عرب کلام میں تذلل اور خضوع (عجزوانکساری) ہے۔ شاعر نے کہا : بجمع تضل البلق فی حجراتہ تری الأکم فیھا سجداً للحوافر اس شعر میں سجداً خضوع وخشوع اور جھکنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عین ساجدۃ، ایسی آنکھ جو دیکھنے سے تھکی ہوتی ہو۔ سجدہ کی غایب زمین پر چہرے کو رکھنا ہے۔ ابن فارس نے کہا : سجد اس وقت بولتے ہیں جب کوئی سر جھکا دے۔ جس نے سجدہ کیا اس نے عجز کا اظہار کیا۔ الاسجاد، ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا۔ ابو عمرو نے کہا : اسجد کا معنی ہے : اس نے اپنا سر جھکا دیا۔ شاعر نے کہا : فضول ازم تھا اسجدت سجود النصاری لاحبارھا ان عورتوں نے اپنے جمال کے اضافی کپڑے اپنی کلائیوں پر اس طرح جھکا دئیے جیسے نصاریٰ اپنے راہبوں کے لئے جھکتے ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا : ایک بنی اسد کے اعرابی نے یہ کہا : وقلن لہ اسجد للیلی فاسجد انہوں نے اسے کہا لیلیٰ کے لئے سر جھکا دے تو اس نے سر جھکا دیا۔ یعنی جب اونٹ نے سرجھکا دیا۔ دراھم الاسجادان سکوں کو کہتے ہیں جن کے اوپر تصویریں بنی ہوئی تھی اور لوگ انہیں سجدہ کرتے تھے۔ شاعر کا قول ہے : وافی بھا کدراھم الاسجاد اس نے اسے پایا دراھم الاسجاد کی طرح۔ مسئلہ نمبر 3: وہ علماء جنہوں نے حضرت اور ان کی اولاد کی فضیلت پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے استدلال کیا، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا اسجدوا لادم۔ فرمایا : یہ ارشاد دلیل ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسجدوا لادم کا معنی ہے : آدم کے چہرے کی طرف منہ کرتے ہوئے سجدہ کرو۔ یہ اس طرح ہے جیسے ارشاد فرمایا : اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس (الاسراء : 78) یعنی سورج کے ڈھلنے کے وقت نماز قائم کرو اور اس طرح ارشاد ہے : نفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین۔ (ص) جب میں اس میں اپنی روح پھونک دو تو تم گر پڑنا اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے۔ یعنی اس کی تخلیق مکمل ہونے کے وقت تم اس کی طرف منہ کر کے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔ پہلے ہم نے بیان کیا ہے کہ مسجودلہ، سجدہ کرنے والے سے افضل نہیں ہوتا جیسا کہ قبلہ سجدہ کرنے والوں سے افضل نہیں۔ اگر کہا جائے کہ اگر حضرت آدم (علیہ السلام) فرشتوں سے افضل نہ تھے تو پھر اس کے ان کے سجدہ کرنے کے حکم میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ملائکہ نے جب اپنی تسبیح اور تقدیس کی وجہ سے کچھ بڑائی محسوس کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تاکہ انہیں دکھائے کہ وہ ان کی تسبیح و تقدیس اور ان کی عبادت سے مستغنی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : انہوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) پر عیب لگایا اور انہیں حقیر سمجھا اور ان کی صنعت کے خصائص کو نہ جان سکے تو انہیں بطور تکریم حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے قول اتجعل فیھا من یفسد فیھا (البقرہ : 30) پر سزا دینے کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا جب فرشتوں کو فرمایا : انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرمائے گا تو وہ یہی کہیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا انی خالق بشراً من طین۔ (ص) (بےشک میں پیدا کرنے والا ہوں بشر کو کیچڑ سے اور اسے خلیفہ بنانے والا ہوں) ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین۔ (ص) اور جب میں پھونک دوں اس میں اپنی (طرف سے خاص) روح تو تم گر پڑنا اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ تاکہ یہ تمہارے لئے اس وقت سزا ہوگی اس قول کی جو تم نے اب کہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عباس نے انسان کی فضیلت پر اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی زندگی کی قسم اٹھائی ہے۔ فرمایا : لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون۔ (الحجر) (اے محبوب ! آپ کی زندگی کی قسم ! یہ (اپنی طاقت کے نشہ میں) مست ہیں اور بہکے بہکے پھر رہے ہیں) اور اپنے اس قول سے عذاب سے امن کی نوید سنائی : لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر (الفتح :2) (تا کہ دور فرمادے آپ کے لئے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے اور جو ہجرت کے بعد لگائے گئے) ۔ اور فرشتوں کو فرمایا : ومن یقل منھم انی الہ من دونہ فذلک نجزیہ جھنم (الانبیاء :29) (اور جو ان میں سے یہ کہے کہ میں خدا ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا تو ہم اسے سزا دیں گے جہنم کی) ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی ذات کی قسم نہیں اٹھائی اسی طرح فرشتوں کی حیات کی قسم نہیں اٹھائی۔ لعمری نہیں فرمایا، اور آسمان اور زمین کی قسم اٹھائی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین اور آسمان، عرش اور ساتوں جنتوں سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے التین اور زیتون کی قسم اٹھائی ہے۔ اور رہا یہ ارشاد : من یقل منھم الخ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی مکرم ﷺ سے یہ فرمانا ہے : لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین (الزمر :65) ۔ (اور اگر (بفرض محال) آپ نے بھی شرک کیا تو ضائع ہوجائیں گے آپ کے اعمال اور آپ بھی خاسرین میں سے ہوجائیں گے ) ۔ پس اس میں کوئی فضیلت کی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 4: ملائکہ کے حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کی کیفیت میں اختلاف ہے جبکہ اس پر اتفاق ہے کہ یہ سجدہ عبادت نہ تھا۔ جمہور علماء نے فرمایا : فرشتوں کو اپنی پیشانیاں زمین پر رکھنے کا حکم تھا جیسا کہ نماز میں سجدہ ہوتا ہے، کیونکہ عرف وشرع میں سجدہ سے یہی ظاہر ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے یہ سجدہ آدم (علیہ السلام) کی تکریم اور ان کی فضیلت کے اظہار کے لئے تھا اور اللہ تعالیٰ کی طاعت کے لئے تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) ان کے لئے ایسے تھے جیسے ہمارے لئے قبلہ ہے۔ لادم کا مطلب ہے الی آدم جیسے کہا جاتا ہے : صلی للقبلۃ یعنی قبلہ کی طرف نماز پڑھی۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ سجدہ وہ نہیں تھا جو آج معروف ہے یعنی زمین پر پیشانی رکھنا بلکہ لغت کی اصل کے اعتبار سے تھا یعنی تذلل وانقیاد یعنی حضرت آدم کے لئے انہوں نے عجز کا اظہار کیا اور اس کی فضیلت کا اقرار کیا۔ فسجدوا یعنی جو انہیں حکم دیا گیا تھا اس کی انہوں نے پیروی کی۔ اس میں بھی اختلاف ہے کیا وہ سجدہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے خاص تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں یا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے زمانہ تک جائز تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ورفع ابویہ علی العرش وخروا لہ سجداً (یوسف :100) ( آپ نے اوپر اٹھایا اپنے والدین کو تخت پر اور وہ گر پڑے آپ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے ) ۔ یہ آخری وقت تھا جب مخلوق کے لئے سجدہ مباح کیا گیا تھا اور اکثر کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو درخت اور اونٹ نے سجدہ کیا، تو صحابہ کرام نے عرض کیا : حضور ! ہم درخت اور بد کے ہوئے اونٹ کی نسبت آپ کو سجدہ کرنے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ رب العالمین کے علاوہ کسی کے لئے سجدہ کرنا روا نہیں۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اور البتسی نے اپنی صحیح میں ابو واقد سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب حضرت معاذ بن جبل شام سے آئے تو رسول اللہ ﷺ کو سجدہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ حضرت معاذ نے کہا : یا رسول اللہ ! میں شام سے آیا ہوں میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے بزرگوں اور راہبوں کو سجدہ کرتے ہیں، میں نے آپ کے ساتھ ایسا کرنا چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا مت کرو۔ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کرسکتی حتیٰ کہ اپنے خاوند کا حق ادا کرے حتیٰ کہ اگر عورت کا خاوند اس سے خواہش پوری کرنے کا سوال کرے اور وہ کجاوے پر ہو تو اسے منع نہ کرے (1) ۔ حدیث میں القتب کا لفظ آیا ہے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا : عربوں کے نزدیک ولادت کے لئے کرسی کا وجود باعث عزت تھا۔ وہ اپنی عورتوں کو ولادت کے وقت کجاوے پر سوار کرتے تھے۔ بعض طرق میں ہے انسان کو سجدہ سے منع فرمایا اور مصافحہ کا حکم دیا۔ میں کہتا ہوں : یہ سجدہ جس سے منع کیا گیا ہے جاہل صوفیوں نے سماع اور مشائخ کے پاس جانے کے وقت اور ان سے دعا طلب کرنے کے وقت وہ سجدہ کرتے ہیں، ان میں سے کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ جب اس کے گمان کے مطابق اسے حال آجاتا ہے تو وہ سجدہ کرتا ہے۔ یہ اس کی جہالت ہے خواہ وہ قبلہ کی طرف ہو یا غیر قبلہ کی طرف ہو یہ ان کی جہالت ہے ان کی یہ ساری سعی و کوشش ضائع ہے اور ان کا عمل نامراد ہے۔ مسئلہ نمبر 5: الا ابلیس۔ مستثنیٰ متصل کی بنا پر اسے نصب دی گئی ہے کیونکہ جمہور کے قول کے مطابق یہ فرشتوں میں سے تھا۔ یہ حضرات ابن عباس، ابن مسعود، ابن جریج، ابن مسیب اور قتادہ وغیرہم کا قول ہے۔ شیخ ابو الحسن کا اختیار بھی یہی ہے۔ طبری نے اس کو ترجیح دی ہے۔ یہی آیت کا ظاہر ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : ابلیس کا نام عزازیل تھا یہ معزز فرشتوں میں سے تھے اس کے چار پر تھے پھر بعد میں یہ مایوس کردیا گیا۔ سماک بن حرب نے حضرت عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : ابلیس، ملائکہ میں سے تھا جب اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر غضب فرمایا اور اس پر لعنت کی تو وہ شیطان بن گیا۔ الماوری نے حکایت کیا ہے کہ حضرت قتادہ سے مروی ہے، ملائکہ میں سے افضل صنف سے ابلیس تھا جن کو الجنۃ کہا جاتا ہے۔ حضرت سعید جبیر نے کہا : جن ملائکہ میں سے ایک قبیلہ ہے جو آگ سے پیدا کئے گئے ہیں، ابلیس ان سے تھا اور باقی تمام ملائکہ نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ ابن زید، حسن اور قتادہ نے بھی یہ کہا ہے کہ ابلیس ابو الجن ہے جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) ابو البشر ہیں وہ فرشتہ نہیں تھا۔ حضرت ابن عباس سے بھی اسی طرح مروی ہے، فرمایا : اس کا نام الحارث تھا۔ شہر بن حوشب اور بعض اصولیوں نے کہا : ابلیس ان جنوں میں سے تھا جو زمین میں رہتے تھے ملائکہ نے ان کو قتل کیا تھا، ابلیس چھوٹا تھا تو اسے فرشتوں نے قید کرلیا تھا۔ پھر یہ ملائکہ کے ساتھ عبادت کرتا رہا اور اسے خطاب کیا گیا (1) ۔ طبری نے یہ حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے، اس مفہوم پر یہ مستثنیٰ منقطع ہوگا۔ اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما لھم بہ من علم الا اتباع الظن (النساء : 157) (نہیں ان کے پاس اس امر کا کوئی صحیح علم بجز اس کے کہ وہ پیروی کرتے ہیں گمان کی) اور ارشاد ہے : الا ما ذکیتم (المائدہ :3) سوائے اس کے جسے تم ذبح کرلو۔ شاعر نے کہا : لیس علیک عطش ولا جوع الا الرقاد والرقاد ممنوع تم پر نہ پیاس ہے نہ بھوک مگر نیند اور نیند بھی ممنوع ہے۔ بعض یہ قول کرنے والے اس سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کا وصف بیان فرمایا : لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون۔ (التحریم) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الا ابلیس کان من الجن (الکہف :50) اور جن ملائکہ کا غیر ہیں تو پہلے مقاملہ والوں نے یہ جواب دیا کہ ملائکہ سے ابلیس کو خارج کرنا ممتنع نہیں ہے جبکہ پہلے ہی اس کی شقاوت اللہ کے علم میں تھی۔ یہ اس کی طرف سے عدل ہے، جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا۔ اس کی تخلیق میں نہ آگ شامل تھی اور نہ وہ شہوت سے مرکب تھا جب اس پر غضب ہوا۔ یہ بعید نہیں کہ وہ ملائکہ سے ہو اور جن علماء نے کہا وہ زمین کے جنوں میں سے تھا پس وہ قیدی بنایا گیا اس کے مقابلہ میں روایت کیا گیا ہے کہ ابلیس وہ ہے جس نے زمین میں ملائکہ کے لشکر کے ساتھ جنوں سے جنگ کی۔ یہ مہدی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ ثعلبی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ابلیس ملائکہ کے قبائل میں سے ایک قبیلہ سے تھا جنہیں جن کہا جاتا تھا ان کو نار السموم سے پیدا کیا گیا تھا اور ملائکہ نور سے پیدا کئے گئے ہیں۔ سریانی زبان میں اس کا نام عزازیل ہے۔ عربی میں حارث ہے یہ جنت کے دربانوں میں سے تھا اور آسمان دنیا کے ملائکہ کا رئیس تھا۔ اسے آسمان دنیا اور زمین کی سلطانی بخشی گئی تھی۔ یہ ملائکہ میں سے انتہائی محنت کرنے والے اور زیادہ علم والا تھا۔ آسمان اور زمین جو کچھ ہے سب کا انتظام چلاتا تھا، اس نے اپنا شرف اور عظمت دیکھی تو یہی چیز اس کے کفر کا باعث بنی۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے دھتکارا ہوا شیطان بنا دیا۔ جب انسان کی خطا کبر کی وجہ سے ہو تو اس کی امید نہ رکھو اور جب خطا معصومیت کی وجہ سے ہو تو پھر اس کی امید رکھو۔ آدم (علیہ السلام) کی خطا معصیت تھی اور ابلیس کی خطا تکبراً تھی۔ ملائکہ کو ان کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے جن کہا جاتا ہے قرآن حکیم میں ہے : وجعلوا بینہ وبین الجنۃ نسباً (الصافات :158) شاعر نے کہا : سخر من جن الملائک تسعۃ قیاماً لدیہ یعملون بلا أجر (1) اس نے ملائکہ کے جنوں میں نو مسخر کرلیے۔ وہ اس کے سامنے بلا اجر کام کرتے رہتے ہیں۔ جب وہ جنت کے خزان (دربانوں) میں سے تھا تو اس کی طرف نسبت کی گئی، اس کا اسم جنت سے مشتق کیا گیا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ابلیس کا وزن افعیل ہے، اور یہ ابلاس سے مشتق ہے۔ اس کا معنی اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ہے اور یہ غیر منصرف ہے کیونکہ یہ معرفہ ہے۔ اسماء میں اس کی مثال نہیں ہے اسے عجمیت کے ساتھ مشابہ کیا گیا ہے۔ یہ ابو عبیدہ وغیرہ نے کہا ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ عجمی ہے اس کا اشتقاق نہیں ہے عجمہ اور تعریف کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ یہ زجاج وغیرہ نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ابیٰ اس کا معنی ہے جس کا اسے حکم دیا گیا تھا اس سے وہ رک گیا۔ اسی مفہوم میں صحیح حدیث حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے جو نبی کریم ﷺ سے انہوں نے روایت فرمائی ہے : اذا قرء ابن آدم السجدہ (فسجد) اعتزل الشیطان یبکی یقول یاویلۃ۔۔۔۔ فی روایۃ۔۔۔۔ یا ویلی امر ابن آدم بالسجود فسجد فلہ الجنۃ وامرت بالسجود فابیت فلی النار (2) (مسلم) جب انسان آیت سجدہ پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان جدا ہو کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے : ہائے افسوس ! انسان کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا۔ پس اس کے لئے جنت ہے اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں سجدہ نہ کیا تو میرے لئے دوزخ ہے۔ کہا جاتا ہے : ابی یأبی اباہ یہ نادر حرف ہے جو فعل یفعل کے وزن پر آیا ہے حالانکہ اس میں حروف حلقی میں سے کوئی حرف نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الف مضارع حروف حلقیہ کے لئے ہے۔ زجاج نے کہا : میں نے اسماعیل بن اسحاق القاضی کو یہ کہتے سنا کہ میرے نزدیک الف مضارع حروف حلقیہ کے لئے ہے۔ نحاس نے کہا : میں نہیں جانتا کہ ابو اسحاق نے اسماعیل سے اس حرف کے علاوہ کوئی اس طرح روایت کیا ہو۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے استکبر، استکبار کا معنی استعظام (اپنے آپ کو بڑا سمجھنا) ہے۔ گویا اس نے سجدہ کو اپنے حق میں ناپسند کیا اور آدم کے حق میں بڑا سمجھا۔ اس نے حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے کو ترک کیا اللہ تعالیٰ کے امر اور اس کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس حالت کو کبر سے تعبیر فرمایا۔ ارشاد فرمایا : لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من کبر۔ (1) جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ برابر تکبر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ایک شخص نے عرض کی : ایک آدمی اچھا لباس اور اچھا جوتا پسند کرتا ہے (کیا یہ کبر ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ جمیل یجب الجمال۔ الکبر بطر الحق وغمط الناس۔ (2) اللہ تعالیٰ خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے تکبر یہ ہے کہ حق کو باطل قرار دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے (مسلم) غمص الناس کے الفاظ بھی مروی ہیں۔ اس کا معنی بھی حقیر سمجھنا ہے۔ جب آدمی نعمت کا شکر ادا نہ کرے تو کہتے ہیں : غمص فلان النعمۃ۔۔۔ غمصت علیہ قولاً قالہ یعنی میں نے اسے عیب لگایا۔ اس معنی کی شیطان لعین نے وضاحت کی تھی۔ انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین۔ (اعراف) (میں بہتر ہوں اس سے تو نے پیدا کیا ہے مجھے آگ سے اور پیدا کیا ہے اسے کیچڑ سے) ۔ ء اسجد لمن خلقت طیناً ۔ (الاسراء) (کیا میں سجدہ کروں اس (آدم) کو جس کو تو نے کیچڑ سے پیدا کیا) ۔ لم اکن لاسجد لبشر خلقتہ من صلصال من حما مسنون۔ (الحجر) (میں گوارا نہیں کرتا کہ سجدہ کروں اس بشر کو جسے تو نے پیدا کیا ہے بجنے والی مٹی سے جو پہلے سیاہ بدبو دار تھی) ۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے کافر قرار دیا جو شخص اللہ تعالیٰ کے کسی امر یا رسول اللہ ﷺ کے کسی امر کو باطل قرار دیتا ہے۔ اس کا حکم بھی یہی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابن القاسم نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ سب سے پہلا گناہ حسد اور کبر تھا، ابلیس نے حضرت آدم سے حسد کیا، درخت کھلانے میں حضرت آدم کو برانگیختہ کیا (3) ۔ قتادہ نے کہا : ابلیس نے حضرت آدم سے حسد کیا اس نعمت و کرامت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی۔ شیطان نے کہا : میں ناری ہوں اور تو طینی (مٹی سے بنا ہوا) ہے۔ گناہوں کا آغا زکبر سے ہوا پھر حرص سے ہوا حتیٰ کہ آدم (علیہ السلام) نے درخت کھالیا پھر آدم کے بیٹے سے اپنے بھائی سے حسد کیا۔ مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وکان من الکفرین بعض علماء نے فرمایا : یہاں کان بمعنی صار ہے۔ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : فکان من المغرقین۔ (ہود) یعنی وہ غرق ہونے والوں میں سے ہوگیا۔ شاعر نے کہا : بتیھاء قفر والمطی کا نھا قطا الحزن قد کا نت فراخاً بیوضھا تیہاء کا میدا اور سواریاں غمگین کو نج کی طرح ہیں جن کے انڈے بچے بن گئے ہیں۔ ابن فورک نے کہا : یہاں کان کو بمعنی صار کرنا خطا ہے، اصول اس قول کا رد کرتے ہیں۔ جمہور متأولین نے کہا : اس معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ کفر کرے گا، کیونکہ حقیقۃً کافر اور حقیقۃً مومن وہی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ یہ آخر میں کفر اختیار کرے گا یا ایمان اختیار کرے گا (1) ۔ میں کہتا ہوں : یہ قول صحیح ہے کیونکہ صحیح بخاری میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے (2) بعض علماء نے فرمایا : ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی اسی ہزار سال عبادت کی اور جنت میں علی الاستدارج، ریاست اور خزانت دی گئی جس طرح کہ منافقین نے اپنی زبانوں کی اطراف پر لا الہ الا اللہ کی شہادت دی، اور اسی طرح بلعام نے اپنی زبان کی طرف سے اسم اعظم کی گواہی دی۔ پس یہ چیز اس کی ریاست میں تھی جبکہ کبر اس کے نفس میں متمکن تھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : شیطان سوچتا تھا کہ اس کو جو اللہ نے نعمتیں دی ہیں ان کی وجہ سے اسے فرشتوں پر فضیلت حاصل ہے، اسی وجہ سے اس نے کہا تھا انا خیر منہ (اعراف :12) اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی استکبرت ام کنت من العالین۔ (ص) (کس چیز نے باز رکھا تمہیں اس کو سجدہ کرنے سے جسے میں نے پیدا کیا اپنے دونوں ہاتھوں سے کیا تم نے تکبر کیا یا تو اپنے آپ کو اس سے عالی مرتبہ خیال کرتا ہے) ۔ یعنی تو نے تکبر کیا حالانکہ تجھے کبر نہیں چاہئے۔ میں نے تکبر نہیں کیا جب میں نے اسے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور کبر تو میرے لئے مناسب ہے۔ اسی لئے فرمایا : وکان من الکفرین شیطان کی خلقت کی اصل عزت کی آگ سے تھی اسی وجہ سے اس نے اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم اٹھائی اس نے کہا فبعزتک لاغوینھم اجمعین۔ (ص) عزت نے اسے کبر دیا حتیٰ کہ اس نے آدم (علیہ السلام) پر اپنی فضیلت دیکھی۔ ابو صالح سے مروی ہے، فرمایا : ملائکہ عزت کے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور ابلیس عزت کی آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 9: ہمارے علماء نے فرمایا : جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کرامات اور خوارق للعادات امور ظاہر کرے جبکہ وہ نبی نہ ہو تو یہ چیز اس کی ولایت کی دلیل نہیں ہے، لیکن بعض صوفیاء اور افضیوں کا نظریہ اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہ کرامات دلیل ہیں کہ وہ ولی ہے اگر یہ ولی نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر کرامات ظاہر نہ فرماتا۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے ولی ہونے کا علم صحیح نہیں ہوتا مگر اس کے بعد کہ یہ معلوم ہو کہ وہ مومن ہو کر فوت ہوا ہے۔ جب یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مومن ہو کر مرا ہے تو ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ ہم قطعی طور پر کہیں کہ وہ اللہ کا ولی ہے کیونکہ اللہ کا ولی وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ ایمان سے ہی موافقت کرے گا۔ جب ہمارا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہمارے لئے کسی پر قطعی طور پر یہ حکم لگانا ممکن نہیں کہ وہ ایمان سے موافقت کرے گا نہ خود اپنے بارے کوئی قطعی طور پر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ بالآخر ایمان سے موافقت کرے گا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ چیز اللہ کے ولی ہونے پر دلیل نہیں۔ وہ کہتے ہیں : یہ ممنوع نہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض اولیاء کو اپنے حسن انجام اور حسن عمل کے خاتمہ کی خبر دے دے اور اس کے ساتھ دوسروں کے حسن خاتمہ کی خبر دے دے (٭) ۔ یہ شیخ ابو الحسن اشعری وغیرہ کا قول ہے۔ طبری کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ابلیس کے واقعہ سے انسان میں سے جو ابلیس کے مشابہ ہیں انہیں تنبیہ کرنا مقصود ہے اور وہ یہودی ہیں جنہوں نے حضرت محمد ﷺ کا انکار کیا حالانکہ وہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو جانتے تھے اور ان نعمتوں کو جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کے اسلاف (1) پر کی تھیں۔ مسئلہ نمبر 10) علماء کا اختلاف ہے کہ ابلیس کافر تھا یا نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : کافر نہیں تھا اور ابلیس نے سب سے پہلے کفر کیا اور بعض علماء نے فرمایا : اس سے پہلے کفار تھے اور وہ جن تھے جو زمین میں آباد تھے۔ پھر اس میں اختلاف ہے کہ ابلیس نے جہالت یا عناد کی بنا پر کفر کیا تھا۔ اس میں اہل سنت وجماعت کے دو قول ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ اپنے کفر سے پہلے اللہ تعالیٰ کو جاننے والا تھا اور جس نے کہا اس نے جہالت کی وجہ سے کفر کیا تھا اس نے کہا اس کے کفر کے وقت اس سے علم چھین لیا گیا تھا اور جنہوں نے کہا عناد کی وجہ سے اس نے کفر کیا تھا اس نے کہا شیطان نے کفر کیا حالانکہ اس کے پاس علم تھا۔ ابن عطیہ نے کہا : علم کے باقی ہوتے ہوئے عناداً کفر کرنا بعید ہے مگر یہ میرے نزدیک جائز ہے اللہ تعالیٰ جس کو رسوا کرنا چاہے اس کے لئے محال نہیں ہے۔
Top