Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
قُلْنَا
: ہم نے کہا
لِلْمَلٰٓئِکَةِ
: فرشتوں کو
اسْجُدُوْا
: تم سجدہ کرو
لِاٰدَمَ
: آدم کو
فَسَجَدُوْا
: تو انہوں نے سجدہ کیا
اِلَّا
: سوائے
اِبْلِیْسَ
: ابلیس
اَبٰى
: اس نے انکار کیا
وَ اسْتَكْبَرَ
: اور تکبر کیا
وَکَانَ
: اور ہوگیا
مِنَ الْکَافِرِیْنَ
: کافروں سے
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گرپڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا
آیت نمبر
34
اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واذ قلنا اس سے پہلے اذکر محذوف ہے اور رہا ابو عبید کا قول کہ (اذ) زائدہ ہے یہ جائز نہیں ہے کیونکہ (اذ) ظرف ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے، اور فرمایا : قلنا، قلت نہیں فرمایا، چونکہ جبار عظیم ذات اپنے بارے میں جماعت کے فعل کے ساتھ خبر دیتی ہے، عظمت اور ذکر کی بلندی کے اظہار کے اعتبار سے۔ ملائکۃ یہ جمع ہے ملک کی۔ اس سے پہلے اس کا ذکر گزر چکا ہے، ادم کے متعلق اور اس کے اشتقاق کے متعلق بھی بحث گزر چکی ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ابو جعفر بن قعقاع سے مروی ہے کہ انہوں نے ملائکۃ کی تاء کو اسجدوا کے جیم کے ضمہ کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے۔ اس کی مثال الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر
2
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اسجدوا۔ سجود کا معنی عرب کلام میں تذلل اور خضوع (عجزوانکساری) ہے۔ شاعر نے کہا : بجمع تضل البلق فی حجراتہ تری الأکم فیھا سجداً للحوافر اس شعر میں سجداً خضوع وخشوع اور جھکنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عین ساجدۃ، ایسی آنکھ جو دیکھنے سے تھکی ہوتی ہو۔ سجدہ کی غایب زمین پر چہرے کو رکھنا ہے۔ ابن فارس نے کہا : سجد اس وقت بولتے ہیں جب کوئی سر جھکا دے۔ جس نے سجدہ کیا اس نے عجز کا اظہار کیا۔ الاسجاد، ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا۔ ابو عمرو نے کہا : اسجد کا معنی ہے : اس نے اپنا سر جھکا دیا۔ شاعر نے کہا : فضول ازم تھا اسجدت سجود النصاری لاحبارھا ان عورتوں نے اپنے جمال کے اضافی کپڑے اپنی کلائیوں پر اس طرح جھکا دئیے جیسے نصاریٰ اپنے راہبوں کے لئے جھکتے ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا : ایک بنی اسد کے اعرابی نے یہ کہا : وقلن لہ اسجد للیلی فاسجد انہوں نے اسے کہا لیلیٰ کے لئے سر جھکا دے تو اس نے سر جھکا دیا۔ یعنی جب اونٹ نے سرجھکا دیا۔ دراھم الاسجادان سکوں کو کہتے ہیں جن کے اوپر تصویریں بنی ہوئی تھی اور لوگ انہیں سجدہ کرتے تھے۔ شاعر کا قول ہے : وافی بھا کدراھم الاسجاد اس نے اسے پایا دراھم الاسجاد کی طرح۔ مسئلہ نمبر
3
: وہ علماء جنہوں نے حضرت اور ان کی اولاد کی فضیلت پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے استدلال کیا، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا اسجدوا لادم۔ فرمایا : یہ ارشاد دلیل ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسجدوا لادم کا معنی ہے : آدم کے چہرے کی طرف منہ کرتے ہوئے سجدہ کرو۔ یہ اس طرح ہے جیسے ارشاد فرمایا : اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس (الاسراء :
78
) یعنی سورج کے ڈھلنے کے وقت نماز قائم کرو اور اس طرح ارشاد ہے : نفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین۔ (ص) جب میں اس میں اپنی روح پھونک دو تو تم گر پڑنا اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے۔ یعنی اس کی تخلیق مکمل ہونے کے وقت تم اس کی طرف منہ کر کے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔ پہلے ہم نے بیان کیا ہے کہ مسجودلہ، سجدہ کرنے والے سے افضل نہیں ہوتا جیسا کہ قبلہ سجدہ کرنے والوں سے افضل نہیں۔ اگر کہا جائے کہ اگر حضرت آدم (علیہ السلام) فرشتوں سے افضل نہ تھے تو پھر اس کے ان کے سجدہ کرنے کے حکم میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ملائکہ نے جب اپنی تسبیح اور تقدیس کی وجہ سے کچھ بڑائی محسوس کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تاکہ انہیں دکھائے کہ وہ ان کی تسبیح و تقدیس اور ان کی عبادت سے مستغنی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : انہوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) پر عیب لگایا اور انہیں حقیر سمجھا اور ان کی صنعت کے خصائص کو نہ جان سکے تو انہیں بطور تکریم حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے قول اتجعل فیھا من یفسد فیھا (البقرہ :
30
) پر سزا دینے کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا جب فرشتوں کو فرمایا : انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرمائے گا تو وہ یہی کہیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا انی خالق بشراً من طین۔ (ص) (بےشک میں پیدا کرنے والا ہوں بشر کو کیچڑ سے اور اسے خلیفہ بنانے والا ہوں) ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین۔ (ص) اور جب میں پھونک دوں اس میں اپنی (طرف سے خاص) روح تو تم گر پڑنا اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ تاکہ یہ تمہارے لئے اس وقت سزا ہوگی اس قول کی جو تم نے اب کہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عباس نے انسان کی فضیلت پر اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی زندگی کی قسم اٹھائی ہے۔ فرمایا : لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون۔ (الحجر) (اے محبوب ! آپ کی زندگی کی قسم ! یہ (اپنی طاقت کے نشہ میں) مست ہیں اور بہکے بہکے پھر رہے ہیں) اور اپنے اس قول سے عذاب سے امن کی نوید سنائی : لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر (الفتح :
2
) (تا کہ دور فرمادے آپ کے لئے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے اور جو ہجرت کے بعد لگائے گئے) ۔ اور فرشتوں کو فرمایا : ومن یقل منھم انی الہ من دونہ فذلک نجزیہ جھنم (الانبیاء :
29
) (اور جو ان میں سے یہ کہے کہ میں خدا ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا تو ہم اسے سزا دیں گے جہنم کی) ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی ذات کی قسم نہیں اٹھائی اسی طرح فرشتوں کی حیات کی قسم نہیں اٹھائی۔ لعمری نہیں فرمایا، اور آسمان اور زمین کی قسم اٹھائی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین اور آسمان، عرش اور ساتوں جنتوں سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے التین اور زیتون کی قسم اٹھائی ہے۔ اور رہا یہ ارشاد : من یقل منھم الخ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی مکرم ﷺ سے یہ فرمانا ہے : لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین (الزمر :
65
) ۔ (اور اگر (بفرض محال) آپ نے بھی شرک کیا تو ضائع ہوجائیں گے آپ کے اعمال اور آپ بھی خاسرین میں سے ہوجائیں گے ) ۔ پس اس میں کوئی فضیلت کی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
4
: ملائکہ کے حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کی کیفیت میں اختلاف ہے جبکہ اس پر اتفاق ہے کہ یہ سجدہ عبادت نہ تھا۔ جمہور علماء نے فرمایا : فرشتوں کو اپنی پیشانیاں زمین پر رکھنے کا حکم تھا جیسا کہ نماز میں سجدہ ہوتا ہے، کیونکہ عرف وشرع میں سجدہ سے یہی ظاہر ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے یہ سجدہ آدم (علیہ السلام) کی تکریم اور ان کی فضیلت کے اظہار کے لئے تھا اور اللہ تعالیٰ کی طاعت کے لئے تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) ان کے لئے ایسے تھے جیسے ہمارے لئے قبلہ ہے۔ لادم کا مطلب ہے الی آدم جیسے کہا جاتا ہے : صلی للقبلۃ یعنی قبلہ کی طرف نماز پڑھی۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ سجدہ وہ نہیں تھا جو آج معروف ہے یعنی زمین پر پیشانی رکھنا بلکہ لغت کی اصل کے اعتبار سے تھا یعنی تذلل وانقیاد یعنی حضرت آدم کے لئے انہوں نے عجز کا اظہار کیا اور اس کی فضیلت کا اقرار کیا۔ فسجدوا یعنی جو انہیں حکم دیا گیا تھا اس کی انہوں نے پیروی کی۔ اس میں بھی اختلاف ہے کیا وہ سجدہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے خاص تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں یا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے زمانہ تک جائز تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ورفع ابویہ علی العرش وخروا لہ سجداً (یوسف :
100
) ( آپ نے اوپر اٹھایا اپنے والدین کو تخت پر اور وہ گر پڑے آپ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے ) ۔ یہ آخری وقت تھا جب مخلوق کے لئے سجدہ مباح کیا گیا تھا اور اکثر کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو درخت اور اونٹ نے سجدہ کیا، تو صحابہ کرام نے عرض کیا : حضور ! ہم درخت اور بد کے ہوئے اونٹ کی نسبت آپ کو سجدہ کرنے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ رب العالمین کے علاوہ کسی کے لئے سجدہ کرنا روا نہیں۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اور البتسی نے اپنی صحیح میں ابو واقد سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب حضرت معاذ بن جبل شام سے آئے تو رسول اللہ ﷺ کو سجدہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ حضرت معاذ نے کہا : یا رسول اللہ ! میں شام سے آیا ہوں میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے بزرگوں اور راہبوں کو سجدہ کرتے ہیں، میں نے آپ کے ساتھ ایسا کرنا چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا مت کرو۔ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کرسکتی حتیٰ کہ اپنے خاوند کا حق ادا کرے حتیٰ کہ اگر عورت کا خاوند اس سے خواہش پوری کرنے کا سوال کرے اور وہ کجاوے پر ہو تو اسے منع نہ کرے (
1
) ۔ حدیث میں القتب کا لفظ آیا ہے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا : عربوں کے نزدیک ولادت کے لئے کرسی کا وجود باعث عزت تھا۔ وہ اپنی عورتوں کو ولادت کے وقت کجاوے پر سوار کرتے تھے۔ بعض طرق میں ہے انسان کو سجدہ سے منع فرمایا اور مصافحہ کا حکم دیا۔ میں کہتا ہوں : یہ سجدہ جس سے منع کیا گیا ہے جاہل صوفیوں نے سماع اور مشائخ کے پاس جانے کے وقت اور ان سے دعا طلب کرنے کے وقت وہ سجدہ کرتے ہیں، ان میں سے کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ جب اس کے گمان کے مطابق اسے حال آجاتا ہے تو وہ سجدہ کرتا ہے۔ یہ اس کی جہالت ہے خواہ وہ قبلہ کی طرف ہو یا غیر قبلہ کی طرف ہو یہ ان کی جہالت ہے ان کی یہ ساری سعی و کوشش ضائع ہے اور ان کا عمل نامراد ہے۔ مسئلہ نمبر
5
: الا ابلیس۔ مستثنیٰ متصل کی بنا پر اسے نصب دی گئی ہے کیونکہ جمہور کے قول کے مطابق یہ فرشتوں میں سے تھا۔ یہ حضرات ابن عباس، ابن مسعود، ابن جریج، ابن مسیب اور قتادہ وغیرہم کا قول ہے۔ شیخ ابو الحسن کا اختیار بھی یہی ہے۔ طبری نے اس کو ترجیح دی ہے۔ یہی آیت کا ظاہر ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : ابلیس کا نام عزازیل تھا یہ معزز فرشتوں میں سے تھے اس کے چار پر تھے پھر بعد میں یہ مایوس کردیا گیا۔ سماک بن حرب نے حضرت عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : ابلیس، ملائکہ میں سے تھا جب اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر غضب فرمایا اور اس پر لعنت کی تو وہ شیطان بن گیا۔ الماوری نے حکایت کیا ہے کہ حضرت قتادہ سے مروی ہے، ملائکہ میں سے افضل صنف سے ابلیس تھا جن کو الجنۃ کہا جاتا ہے۔ حضرت سعید جبیر نے کہا : جن ملائکہ میں سے ایک قبیلہ ہے جو آگ سے پیدا کئے گئے ہیں، ابلیس ان سے تھا اور باقی تمام ملائکہ نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ ابن زید، حسن اور قتادہ نے بھی یہ کہا ہے کہ ابلیس ابو الجن ہے جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) ابو البشر ہیں وہ فرشتہ نہیں تھا۔ حضرت ابن عباس سے بھی اسی طرح مروی ہے، فرمایا : اس کا نام الحارث تھا۔ شہر بن حوشب اور بعض اصولیوں نے کہا : ابلیس ان جنوں میں سے تھا جو زمین میں رہتے تھے ملائکہ نے ان کو قتل کیا تھا، ابلیس چھوٹا تھا تو اسے فرشتوں نے قید کرلیا تھا۔ پھر یہ ملائکہ کے ساتھ عبادت کرتا رہا اور اسے خطاب کیا گیا (
1
) ۔ طبری نے یہ حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے، اس مفہوم پر یہ مستثنیٰ منقطع ہوگا۔ اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما لھم بہ من علم الا اتباع الظن (النساء :
157
) (نہیں ان کے پاس اس امر کا کوئی صحیح علم بجز اس کے کہ وہ پیروی کرتے ہیں گمان کی) اور ارشاد ہے : الا ما ذکیتم (المائدہ :
3
) سوائے اس کے جسے تم ذبح کرلو۔ شاعر نے کہا : لیس علیک عطش ولا جوع الا الرقاد والرقاد ممنوع تم پر نہ پیاس ہے نہ بھوک مگر نیند اور نیند بھی ممنوع ہے۔ بعض یہ قول کرنے والے اس سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کا وصف بیان فرمایا : لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون۔ (التحریم) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الا ابلیس کان من الجن (الکہف :
50
) اور جن ملائکہ کا غیر ہیں تو پہلے مقاملہ والوں نے یہ جواب دیا کہ ملائکہ سے ابلیس کو خارج کرنا ممتنع نہیں ہے جبکہ پہلے ہی اس کی شقاوت اللہ کے علم میں تھی۔ یہ اس کی طرف سے عدل ہے، جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا۔ اس کی تخلیق میں نہ آگ شامل تھی اور نہ وہ شہوت سے مرکب تھا جب اس پر غضب ہوا۔ یہ بعید نہیں کہ وہ ملائکہ سے ہو اور جن علماء نے کہا وہ زمین کے جنوں میں سے تھا پس وہ قیدی بنایا گیا اس کے مقابلہ میں روایت کیا گیا ہے کہ ابلیس وہ ہے جس نے زمین میں ملائکہ کے لشکر کے ساتھ جنوں سے جنگ کی۔ یہ مہدی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ ثعلبی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ابلیس ملائکہ کے قبائل میں سے ایک قبیلہ سے تھا جنہیں جن کہا جاتا تھا ان کو نار السموم سے پیدا کیا گیا تھا اور ملائکہ نور سے پیدا کئے گئے ہیں۔ سریانی زبان میں اس کا نام عزازیل ہے۔ عربی میں حارث ہے یہ جنت کے دربانوں میں سے تھا اور آسمان دنیا کے ملائکہ کا رئیس تھا۔ اسے آسمان دنیا اور زمین کی سلطانی بخشی گئی تھی۔ یہ ملائکہ میں سے انتہائی محنت کرنے والے اور زیادہ علم والا تھا۔ آسمان اور زمین جو کچھ ہے سب کا انتظام چلاتا تھا، اس نے اپنا شرف اور عظمت دیکھی تو یہی چیز اس کے کفر کا باعث بنی۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے دھتکارا ہوا شیطان بنا دیا۔ جب انسان کی خطا کبر کی وجہ سے ہو تو اس کی امید نہ رکھو اور جب خطا معصومیت کی وجہ سے ہو تو پھر اس کی امید رکھو۔ آدم (علیہ السلام) کی خطا معصیت تھی اور ابلیس کی خطا تکبراً تھی۔ ملائکہ کو ان کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے جن کہا جاتا ہے قرآن حکیم میں ہے : وجعلوا بینہ وبین الجنۃ نسباً (الصافات :
158
) شاعر نے کہا : سخر من جن الملائک تسعۃ قیاماً لدیہ یعملون بلا أجر (
1
) اس نے ملائکہ کے جنوں میں نو مسخر کرلیے۔ وہ اس کے سامنے بلا اجر کام کرتے رہتے ہیں۔ جب وہ جنت کے خزان (دربانوں) میں سے تھا تو اس کی طرف نسبت کی گئی، اس کا اسم جنت سے مشتق کیا گیا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ابلیس کا وزن افعیل ہے، اور یہ ابلاس سے مشتق ہے۔ اس کا معنی اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ہے اور یہ غیر منصرف ہے کیونکہ یہ معرفہ ہے۔ اسماء میں اس کی مثال نہیں ہے اسے عجمیت کے ساتھ مشابہ کیا گیا ہے۔ یہ ابو عبیدہ وغیرہ نے کہا ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ عجمی ہے اس کا اشتقاق نہیں ہے عجمہ اور تعریف کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ یہ زجاج وغیرہ نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ابیٰ اس کا معنی ہے جس کا اسے حکم دیا گیا تھا اس سے وہ رک گیا۔ اسی مفہوم میں صحیح حدیث حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے جو نبی کریم ﷺ سے انہوں نے روایت فرمائی ہے : اذا قرء ابن آدم السجدہ (فسجد) اعتزل الشیطان یبکی یقول یاویلۃ۔۔۔۔ فی روایۃ۔۔۔۔ یا ویلی امر ابن آدم بالسجود فسجد فلہ الجنۃ وامرت بالسجود فابیت فلی النار (
2
) (مسلم) جب انسان آیت سجدہ پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان جدا ہو کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے : ہائے افسوس ! انسان کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا۔ پس اس کے لئے جنت ہے اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں سجدہ نہ کیا تو میرے لئے دوزخ ہے۔ کہا جاتا ہے : ابی یأبی اباہ یہ نادر حرف ہے جو فعل یفعل کے وزن پر آیا ہے حالانکہ اس میں حروف حلقی میں سے کوئی حرف نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الف مضارع حروف حلقیہ کے لئے ہے۔ زجاج نے کہا : میں نے اسماعیل بن اسحاق القاضی کو یہ کہتے سنا کہ میرے نزدیک الف مضارع حروف حلقیہ کے لئے ہے۔ نحاس نے کہا : میں نہیں جانتا کہ ابو اسحاق نے اسماعیل سے اس حرف کے علاوہ کوئی اس طرح روایت کیا ہو۔ مسئلہ نمبر
7
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے استکبر، استکبار کا معنی استعظام (اپنے آپ کو بڑا سمجھنا) ہے۔ گویا اس نے سجدہ کو اپنے حق میں ناپسند کیا اور آدم کے حق میں بڑا سمجھا۔ اس نے حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے کو ترک کیا اللہ تعالیٰ کے امر اور اس کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس حالت کو کبر سے تعبیر فرمایا۔ ارشاد فرمایا : لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من کبر۔ (
1
) جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ برابر تکبر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ایک شخص نے عرض کی : ایک آدمی اچھا لباس اور اچھا جوتا پسند کرتا ہے (کیا یہ کبر ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ جمیل یجب الجمال۔ الکبر بطر الحق وغمط الناس۔ (
2
) اللہ تعالیٰ خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے تکبر یہ ہے کہ حق کو باطل قرار دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے (مسلم) غمص الناس کے الفاظ بھی مروی ہیں۔ اس کا معنی بھی حقیر سمجھنا ہے۔ جب آدمی نعمت کا شکر ادا نہ کرے تو کہتے ہیں : غمص فلان النعمۃ۔۔۔ غمصت علیہ قولاً قالہ یعنی میں نے اسے عیب لگایا۔ اس معنی کی شیطان لعین نے وضاحت کی تھی۔ انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین۔ (اعراف) (میں بہتر ہوں اس سے تو نے پیدا کیا ہے مجھے آگ سے اور پیدا کیا ہے اسے کیچڑ سے) ۔ ء اسجد لمن خلقت طیناً ۔ (الاسراء) (کیا میں سجدہ کروں اس (آدم) کو جس کو تو نے کیچڑ سے پیدا کیا) ۔ لم اکن لاسجد لبشر خلقتہ من صلصال من حما مسنون۔ (الحجر) (میں گوارا نہیں کرتا کہ سجدہ کروں اس بشر کو جسے تو نے پیدا کیا ہے بجنے والی مٹی سے جو پہلے سیاہ بدبو دار تھی) ۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے کافر قرار دیا جو شخص اللہ تعالیٰ کے کسی امر یا رسول اللہ ﷺ کے کسی امر کو باطل قرار دیتا ہے۔ اس کا حکم بھی یہی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابن القاسم نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ سب سے پہلا گناہ حسد اور کبر تھا، ابلیس نے حضرت آدم سے حسد کیا، درخت کھلانے میں حضرت آدم کو برانگیختہ کیا (
3
) ۔ قتادہ نے کہا : ابلیس نے حضرت آدم سے حسد کیا اس نعمت و کرامت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی۔ شیطان نے کہا : میں ناری ہوں اور تو طینی (مٹی سے بنا ہوا) ہے۔ گناہوں کا آغا زکبر سے ہوا پھر حرص سے ہوا حتیٰ کہ آدم (علیہ السلام) نے درخت کھالیا پھر آدم کے بیٹے سے اپنے بھائی سے حسد کیا۔ مسئلہ نمبر
8
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وکان من الکفرین بعض علماء نے فرمایا : یہاں کان بمعنی صار ہے۔ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : فکان من المغرقین۔ (ہود) یعنی وہ غرق ہونے والوں میں سے ہوگیا۔ شاعر نے کہا : بتیھاء قفر والمطی کا نھا قطا الحزن قد کا نت فراخاً بیوضھا تیہاء کا میدا اور سواریاں غمگین کو نج کی طرح ہیں جن کے انڈے بچے بن گئے ہیں۔ ابن فورک نے کہا : یہاں کان کو بمعنی صار کرنا خطا ہے، اصول اس قول کا رد کرتے ہیں۔ جمہور متأولین نے کہا : اس معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ کفر کرے گا، کیونکہ حقیقۃً کافر اور حقیقۃً مومن وہی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ یہ آخر میں کفر اختیار کرے گا یا ایمان اختیار کرے گا (
1
) ۔ میں کہتا ہوں : یہ قول صحیح ہے کیونکہ صحیح بخاری میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے (
2
) بعض علماء نے فرمایا : ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی اسی ہزار سال عبادت کی اور جنت میں علی الاستدارج، ریاست اور خزانت دی گئی جس طرح کہ منافقین نے اپنی زبانوں کی اطراف پر لا الہ الا اللہ کی شہادت دی، اور اسی طرح بلعام نے اپنی زبان کی طرف سے اسم اعظم کی گواہی دی۔ پس یہ چیز اس کی ریاست میں تھی جبکہ کبر اس کے نفس میں متمکن تھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : شیطان سوچتا تھا کہ اس کو جو اللہ نے نعمتیں دی ہیں ان کی وجہ سے اسے فرشتوں پر فضیلت حاصل ہے، اسی وجہ سے اس نے کہا تھا انا خیر منہ (اعراف :
12
) اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی استکبرت ام کنت من العالین۔ (ص) (کس چیز نے باز رکھا تمہیں اس کو سجدہ کرنے سے جسے میں نے پیدا کیا اپنے دونوں ہاتھوں سے کیا تم نے تکبر کیا یا تو اپنے آپ کو اس سے عالی مرتبہ خیال کرتا ہے) ۔ یعنی تو نے تکبر کیا حالانکہ تجھے کبر نہیں چاہئے۔ میں نے تکبر نہیں کیا جب میں نے اسے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور کبر تو میرے لئے مناسب ہے۔ اسی لئے فرمایا : وکان من الکفرین شیطان کی خلقت کی اصل عزت کی آگ سے تھی اسی وجہ سے اس نے اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم اٹھائی اس نے کہا فبعزتک لاغوینھم اجمعین۔ (ص) عزت نے اسے کبر دیا حتیٰ کہ اس نے آدم (علیہ السلام) پر اپنی فضیلت دیکھی۔ ابو صالح سے مروی ہے، فرمایا : ملائکہ عزت کے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور ابلیس عزت کی آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر
9
: ہمارے علماء نے فرمایا : جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کرامات اور خوارق للعادات امور ظاہر کرے جبکہ وہ نبی نہ ہو تو یہ چیز اس کی ولایت کی دلیل نہیں ہے، لیکن بعض صوفیاء اور افضیوں کا نظریہ اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہ کرامات دلیل ہیں کہ وہ ولی ہے اگر یہ ولی نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر کرامات ظاہر نہ فرماتا۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے ولی ہونے کا علم صحیح نہیں ہوتا مگر اس کے بعد کہ یہ معلوم ہو کہ وہ مومن ہو کر فوت ہوا ہے۔ جب یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مومن ہو کر مرا ہے تو ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ ہم قطعی طور پر کہیں کہ وہ اللہ کا ولی ہے کیونکہ اللہ کا ولی وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ ایمان سے ہی موافقت کرے گا۔ جب ہمارا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہمارے لئے کسی پر قطعی طور پر یہ حکم لگانا ممکن نہیں کہ وہ ایمان سے موافقت کرے گا نہ خود اپنے بارے کوئی قطعی طور پر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ بالآخر ایمان سے موافقت کرے گا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ چیز اللہ کے ولی ہونے پر دلیل نہیں۔ وہ کہتے ہیں : یہ ممنوع نہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض اولیاء کو اپنے حسن انجام اور حسن عمل کے خاتمہ کی خبر دے دے اور اس کے ساتھ دوسروں کے حسن خاتمہ کی خبر دے دے (٭) ۔ یہ شیخ ابو الحسن اشعری وغیرہ کا قول ہے۔ طبری کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ابلیس کے واقعہ سے انسان میں سے جو ابلیس کے مشابہ ہیں انہیں تنبیہ کرنا مقصود ہے اور وہ یہودی ہیں جنہوں نے حضرت محمد ﷺ کا انکار کیا حالانکہ وہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو جانتے تھے اور ان نعمتوں کو جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کے اسلاف (
1
) پر کی تھیں۔ مسئلہ نمبر
10
) علماء کا اختلاف ہے کہ ابلیس کافر تھا یا نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : کافر نہیں تھا اور ابلیس نے سب سے پہلے کفر کیا اور بعض علماء نے فرمایا : اس سے پہلے کفار تھے اور وہ جن تھے جو زمین میں آباد تھے۔ پھر اس میں اختلاف ہے کہ ابلیس نے جہالت یا عناد کی بنا پر کفر کیا تھا۔ اس میں اہل سنت وجماعت کے دو قول ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ اپنے کفر سے پہلے اللہ تعالیٰ کو جاننے والا تھا اور جس نے کہا اس نے جہالت کی وجہ سے کفر کیا تھا اس نے کہا اس کے کفر کے وقت اس سے علم چھین لیا گیا تھا اور جنہوں نے کہا عناد کی وجہ سے اس نے کفر کیا تھا اس نے کہا شیطان نے کفر کیا حالانکہ اس کے پاس علم تھا۔ ابن عطیہ نے کہا : علم کے باقی ہوتے ہوئے عناداً کفر کرنا بعید ہے مگر یہ میرے نزدیک جائز ہے اللہ تعالیٰ جس کو رسوا کرنا چاہے اس کے لئے محال نہیں ہے۔
Top