Al-Qurtubi - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بےروک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہوجاؤ گے
آیت نمبر 35 اس میں تیرہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقلنا یادم اسکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو اس کے کفر کرنے کے وقت اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور اسے جنت سے دور کردیا اور اس کو نکالنے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا (اسکن) یعنی ٹھہرو اور جنت کو مسکن بناؤ۔ سکن الیہ یسکن سکون (کسی کے پاس ٹھہرنا) السکن آگ کو بھی کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا : قد قومت بسکن وادھان آگ اور تیل لگانے کے ساتھ سیدھے کئے گئے۔ اور السکن ہر وہ چیز جس کی طرف سکون حاصل کیا جائے، السکین چھری کو کہتے ہیں اور چھری کو سکین کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذبوح کی حرکت کو ساکن کردیتی ہے، اسی سے مسکین ہے جس کا تصرف کم اور حرکت قلیل ہوتی ہے، سکان السفینہ کشتی کا پچھلا حصہ وہ کشتی کو اضطراب سے سکون دیتا ہے اس لئے اسے سکان السفینۃ کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اسکن یہ نکلنے پر تنبیہ ہے کیونکہ سکنی ملکیت نہیں ہوتا اس لئے بعض عارفین نے کہا : سکنی ایک خاص مدت تک ہوتا ہے پھر وہ ختم ہوجاتا ہے پس جنت میں آدم وحواء کا دخول، بطور سکنی تھا نہ کہ بطور اقامت تھا۔ میں کہتا ہوں : جب یہ معنی ہو تو پھر جمہور کے قول کی اس میں دلیل ہے کہ جو کسی شخص کو اپنی کسی جگہ ٹھہرائے تو وہ ٹھہرنے کی وجہ سے مالک نہیں ہوگا۔ جب ٹھہرانے کی مدت ختم ہوجائے تو اس کے لئے اسے نکالنا جائز ہے۔ امام شعبی فرماتے تھے : جب کوئی شخص یہ کہے : داری لک سکنی حتی تموت میرا گھر تیرے لئے سکنی ہے یہاں تک کہ تو فوت ہوجائے تو وہ زندگی اور موت میں موہوب لہ ( جس کو دیا گیا) کے لئے ہوگا۔ جب یہ کہا : داری ھذہ اسکنھا حتی تموت یہ میرا گھر ہے تو اس میں رہائش رکھ یہاں تک کہ تو فوت ہوجائے۔ تو مالک کی طرف لوٹے گا جب ٹھہرنے والا مرجائے گا۔ سکنی کی طرح عمریٰ ہے مگر عمریٰ میں سکنی کی نسبت اختلاف زیادہ قوی ہے۔ عمریٰ پر کلام انشاء اللہ سورة ہود میں آئے گی۔ حربی نے کہا : میں نے ابن اعرابی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ عربوں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ اشیاء مالک کی ملک میں ہوتی ہیں اور ان کے منافع اس کے لئے ہوتے ہیں جس کو عمری، رقبیٰ ، افقار، اخبال، منحہ، عریہ، سکنی، اطراق کے الفاظ بول کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ امام مالک اور ان کے متبعین کی حجت ہے کہ ان چیزوں کا موہوب لہ مالک نہ ہوگا مگر منافع کا مالک ہوگا سوائے غلاموں کے۔ یہ لیث بن سعد، قاسم بن محمد اور یزید بن قسیط کا قول ہے۔ عمریٰ یہ ہے کہ تو کسی شخص کو اپنے گھر میں اپنی عمر کی مدت یا اس کی عمر کی مدت ٹھہرائے، اسی طرح رقبیٰ ہے۔ تو یہ کہے کہ اگر تو مجھ سے پہلے مرگیا تو میں تیری طرف لوٹ آؤں گا اور اگر میں تجھ سے پہلے مرگیا تو یہ تیرے لئے ہوگا۔ یہ المراقبہ سے ہے اور مراقبہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کی موت کی تاڑتا رہے۔ اسی وجہ سے اس کی اجازت اور عدم اجازت میں اختلاف ہے۔ ابو یوسف اور امام شافعی نے اس کی اجازت دی ہے گویا ان کے نزدیک یہ وصیت ہے اور امام مالک اور کو فیوں نے اس سے منع کیا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک عوض کا قصد کرتا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ کیا اسے ملے گا ؟ اور ہر ایک دوسرے کی موت کی تمنا کرتا ہے، اس کے متعلق دو احادیث ہیں جن میں اجازت اور عدم اجازت کا ذکر ہے وہ دونوں احادیث ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کی ہیں پہلی وہ ہے جسے حضرت جابر بن عبد اللہ نے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : العمریٰ جائزۃٌ لمن اعمرھا والرقبیٰ جائزۃ لمن ارقبھا۔ (1) یعنی عمریٰ جائز ہے جس کے لئے اسے عمر بھر دیا گیا اور رقبیٰ جائز ہے اس کے لئے جس کے لئے رقبیٰ کیا گیا۔ اس حدیث میں عمریٰ اور رقبیٰ حکم میں برابر ہیں۔ دوسری وہ حدیث ہے جو حضرت ابن عمر نے روایت کی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لا رقبی ممن ارقب شیئاً فھو لہ حیاتہ و مماتہ۔ (2) “ فرمایا : رقبیٰ نہیں ہے، پس جس کے لئے رقبیٰ کیا گیا وہ حیات وموت میں اس کے لئے ہے۔ ” فرمایا : رقبیٰ یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے : منی ومنک موتاً میری اور تیری موت تک ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد “ لا رقبی ” یہ نہی ہے جو منع پر دلیل ہے اور من ارقبہ شیئًا فھو لہ۔ یہ جواز پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دونوں احادیث نسائی نے بھی نقل کی ہیں۔ حضرت ابن عباس سے ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : عمریٰ اور رقبیٰ برابر ہیں۔ ابن منذر نے کہا : یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : الغمریٰ جائزۃٌ لمن ارقبھا۔ ابن منذر نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ یہ اس شخص کے لئے حجت ہے جس نے کہا : عمریٰ اور رقبیٰ برابر ہیں۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے اور ثوری اور احمد نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ پہلے کی طرف کبھی نہیں لوٹے گا۔ اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ طاؤس نے کہا : من ارقب شیئًا فھو سبیل المیراث جس کو کوئی چیز رقبیٰ کے طور پر دی گئی تو وہ میراث ہے۔ الافقار، یہ فقار الظھر (پیٹھ کے مہرے) سے ماخوذ ہے۔ افقرتک نافتی یعنی میں نے تجھے عاریۃً اس کی پیٹھ سوار ہونے کے لئے دی، افقرک الصید جب وہ تجھے اس کی پیٹھ پر قدرت دے حتیٰ کہ تو اس پر تیر پھینکے۔ اس کی مثل الاخبال ہے۔ کہا جاتا ہے : اخبلت فلانا اذا عرتہ ناقۃ یرکبھا او فرساً یغزو علیہ۔ جب کوئی اپنی اونٹنی سوار ہونے کے لئے یا گھوڑا جہاد کے لئے پیش کرے تو کہتے ہیں : اخبلت فلاناً ۔ زہیر نے کہا : ھنالک ان یستحبلو المال یخبلوا وان یسئلوا یعطوا وان ییسروا یضلوا وہاں ان سے مال عاریۃً لیا جائے تو وہ مال دیتے ہیں، اگر ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ مال دیتے ہیں اور وہ جب سستے سمجھے جاتے ہیں تو وہ مہنگے ہوتے ہیں۔ المنحۃ سے مراد عطیہ ہے۔ المنحۃ دودھ کا عطیہ، المنیحہ وہ اونٹنی یا بکری جو کوئی شخص دوسرے کو دودھ پینے کے لئے دیتا ہے پھر وہ اسے واپس کردیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : العاریۃ مؤداۃٌ والمنحۃ مردودۃ والدین مقضی والزعیم غارمٌ (3) عاریۃً دی گئی چیز واپس پہنچائی جائے گی دودھ والا جانور واپس کیا جائے گا اور قرض ادا کیا جائے گا اور زعیم غارم ہے۔ اس حدیث کو ابو امامہ نے روایت کیا ہے۔ اسے ترمذی، دارقطنی وغیرہما نے ذکر کیا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ الاطراق، نر جانور عاریۃً دینا۔ استطرق فلان فلاناً فحلہ فلاں نے فلاں سے نر جانور طلب کیا تاکہ وہ اپنی اونٹنی پر بٹھائے فاطرقہ ایاہ، اسے نر جانور دیا۔ کہا جاتا ہے : اطرقنی فحلک یعنی مجھے اپنا نر جانور دو تاکہ میں اپنی اونٹنی پر بٹھاؤں۔ طرق الفحل الناقۃ۔ اونٹ اونٹنی پر بیٹھا۔ طروقۃ الفحل، مادہ اونٹنی۔ کہا جاتا ہے : ناقۃ طروقۃ الفحل یہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو جفتی کے قابل ہو۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے انت وزوجک الجنۃ، انت فعل میں مضمر ضمیر کی تاکید کے لئے ہے، اس کی مثال یہ ہے فاذھب انت وربک (مائدہ :24) صرف اسکن وزوجک جائز نہیں ہے اور اذھب وربک جائز نہیں ہے مگر ضرورت کے لئے جائز ہے۔ شاعر نے کہا : قلت اذ اقبلت وزھر تھا دیٰ کنعاج الملا تعسفن رملا میں نے کہا : جب وہ اور سفید چمکنے والیاں سوار ہو کر آہستہ آہستہ چل کر آئیں جیسے جنگلی گا ئبوں کا گروہ ہو۔ اس شعر میں زھر کا عطف ضمیر مضمر پر ہے جو اقبلت میں ہے۔ اس ضمیر کی تاکید نہیں لگائی گئی اور غیر قرآن میں بعیدی طور پر تاکید نہ لگانا جائز ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وزوجک یہ قرآن کی لغت ہے۔ زوج ھاء کے بغیر۔ اس پر کلام پہلے گزر چکی ہے۔ صحیح مسلم میں آتا ہے (زوجۃٌ) حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی ایک زوجہ محترمہ کے ساتھ تھے۔ ایک شخص آپ کے پاس سے گزرا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا۔ وہ آیا تو فرمایا : یا فلاں ھذہ زوجتی فلانۃ۔ یہ میری فلاں بیوی ہے۔ اس شخص نے عرض کی : یا رسول اللہ ! میں کون ہوں جو یہ گمان کروں میں نے آپ کے متعلق کوئی ایسا گمان نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شیطان انسان میں خون کے چلنے کی طرف چلتا ہے (1) ۔ حضرت آدم کی بیوی حضرت حوا تھی سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) ہی تھے جنہوں نے ان کا یہ نام رکھا جب وہ ان کی پسلی سے پیدا ہوئی تھیں مگر حضرت آدم (علیہ السلام) کو ان کی تخلیق محسوس نہ ہوئی تھی۔ اگر حضرت آدم (علیہ السلام) کو تکلیف محسوس ہوتی تو کوئی شخص اپنی بیوی پر مہربان نہ ہوتا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو آپ سے کہا گیا : یہ کون ہے ؟ حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا : عورت ہے۔ پوچھا گیا : اس کا نام کیا ہے ؟ فرمایا : حوا۔ پوچھا گیا : اس کا امراۃٌ نام کیوں رکھا گیا ؟ فرمایا : کیوں کہ یہ المرء (مرد) سے ہے۔ پوچھا گیا : اس کا نام حوا کیوں رکھا گیا ؟ فرمایا : کیونکہ یہ حی (زندہ) سے پیدا کی گئی ہے۔ روایت ہے کہ ملائکہ نے یہ سب سوال کئے تاکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے علم کا تجربہ کرلیں، فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے پوچھا : اے آدم ! کیا تو اس سے محبت کرتا ہے ؟ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا : ہاں۔ پھر فرشتوں نے حضرت حوا سے پوچھا : اے حواء ! کیا تو حضرت آدم سے محبت کرتی ہے : حضرت حواء نے کہا : نہیں حالانکہ حضرت حوا کے دل میں، حضرت آدم (علیہ السلام) کی محبت سے کئی گنا زیادہ محبت تھی۔ فرشتوں نے کہا : اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے محبت میں سچ بولتی ہوتی تو حضرت حوا بھی سچ کہتی۔ حضرات ابن مسعود اور ابن عباس نے فرمایا : جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت میں ٹھہرایا گیا تو وہ اس میں وحشت سے چلے جب سو گئے تو ان کی بائیں جانب سے چھوٹی پسلی سے حضرت حواپیدا کی گئی تاکہ آپ اس سے سکون حاصل کریں اور مانوس ہوں، جب آپ جاگے تو آپ نے اسے دیکھا۔ پوچھا : تو کون ہے ؟ حضرت حواء نے کہا : ایک عورت ہوں جو تیری پسلی سے پیدا کی گئی ہوں تاکہ تو سکون پائے (1) ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی معنی ہے ھو الذی خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منھا زوجھا لیسکن الیھا (اعراف : 189) (وہ (خدا ہے) جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک نفس سے اور بنایا اس سے اس کا جوڑا تاکہ اطمینان حاصل کرے اس (جوڑے) سے) ۔ علماء نے فرمایا : اسی وجہ سے عورت کا مزاج ٹیڑھا ہوتا ہے کیونکہ وہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے (2) ۔ ایک روایت میں ہے : پسلی میں سے ٹیڑھا حصہ اوپر والا حصہ ہے یہ تیرے لئے ایک طریقہ پر سیدھی نہیں ہوگی اگر تو اس سے فائدہ اٹھائے تو فائدہ اٹھالے جبکہ اس میں ٹیڑھا پن ہوگا۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے گا تو تو اسے توڑ دے گا اور اس کا توڑنا اس کو طلاق دینا ہے (3) ۔ شاعر نے کہا : ھی الضلع العوجاء لست تقیمھا الا ان تقویم الضلوع انکسارھا اتجمع ضعفا واقتداراً علی الفتی الیس عجیبا ضعفاواقتدارھا یہ ٹیڑھی پسلی ہے تو اس کو سیدھا نہیں کرسکے گا۔ خبردار ! اس کا سیدھا کرنا اس کو توڑنا ہے۔ کیا تو ایک نوجوان پر ضعف اور اقتدار کو جمع کرے گا کیا اس (عورت) کا ضعف اور اس کا اقتدار عجیب نہیں ہے۔ اس سے علماء نے خنثیٰ مشکل کی میراث پر استدلال کیا ہے۔ جب اس میں عورتوں اور مردوں والی تمام صفات و علامات برابر ہوں مثلاً داڑھی بھی ہو، پستان بھی ہوں اور پیشاب کی جگہ میں بھی برابر ہو تو اعضاء کی کمی کا اعتبار ہوگا۔ اگر اس کی پسلیاں عورت کی پسلیوں سے کم ہیں تو اسے مرد والا حصہ دیا جائے گا۔ یہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے۔۔۔ کیونکہ حضرت حوا آدم (علیہ السلام) کی ایک پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ انشاء اللہ مزید تفصیل آگے میراث کی بحث میں آئے گی۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الجنۃ اس کا معنی باغ ہے۔ اس پر تفصیلی بحث پہلے گزر چکی ہے۔ معتزلہ اور قدریہ کے قول کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی جو وہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جنۃ الخلد میں نہیں تھے بلکہ وہ عدن کی زمین ایک باغ میں تھے اور انہوں نے اپنی بدعت پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ اگر یہاں جنت سے جنۃ الخلد مراد ہوتی تو ابلیس جنت میں نہ پہنچتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لا لغو فیھا ولا تاثیم۔ (الطور) اور فرمایا : لا یسمعون فیھا لغوا ولا کذبا۔ (النبا) اور فرمایا لا یسمعون فیھا لغوا ولا تاثیماً ۔ الا قیلاً سلماً (الواقعہ : 25) نیز وہ کہتے ہیں : اہل جنت تو جنت سے باہر نہیں نکلیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وماھم منھا بمخرجین۔ (الحجر) نیز جنت دار القدس ہے گناہوں اور خطاؤں سے پاک رکھی گئی ہے۔ جبکہ ابلیس نے تو لغو بات کی اور جھوٹ بولا نیز حضرت آدم و حضرت حوا اپنی معصیت کی وجہ سے جنت سے باہر نکالے گئے۔ وہ کہتے ہیں : حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے یہ کیسے جائز تھا کہ وہ شجرۃ الخلد طلب کریں جبکہ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ کی بارگاہ میں بڑے مقرب تھے اور آپ عقل میں کمال رکھتے تھے حالانکہ وہ دارالخلد میں تھے اور ایسے ملک میں تھے جو کبھی پرانا ہونے والا نہیں تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو معرف باللام ذکر کیا ہے اور جو کہتا ہے : اسأل اللہ الجنۃ (میں اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں) مخلوق کے عرف میں جنت سے مراد جنت الخلد ہی ہوتی ہے اور عقلاً کوئی محال نہیں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو دھوکا دینے کے لئے ابلیس جنت میں داخل ہوجائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے کہا : تو نے اپنی اولاد کو محروم کیا اور انہیں جنت سے نکالا (1) ۔ الف، لام جنت پر داخل کیا گیا ہے تاکہ یہ دلالت کرے کہ اس سے مراد جنت معروفہ ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی انکار نہیں کیا اگر اس سے کوئی اور جنت مراد ہوتی تو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رد کردیتے۔ جب حضرت آدم (علیہ السلام) اس پر خاموش رہے جس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ثابت کیا تو صحیح ہوا کہ جس گھر سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نکالا وہ جنت تھی اور وہ اس گھر کے مخالف تھی جس کی طرف وہ نکالے گئے تھے۔ اور جن آیات سے معتزلہ اور قدریہ نے حجت پکڑی ہے یہ حکم اس کے بعد ہوگا جب جنتی قیامت کے دن جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ یہ بھی ممتنع نہیں ہے کہ جنت دارالخلد اس شخص کے لئے ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ اس میں رکھنے کا ارادہ کیا ہو اور وہ جنت سے نکل جائے گا جس کے متعلق فنا کا ارادہ کیا گیا ہوگا۔ اہل تاویل کا اس بات پر اجماع ہے کہ ملائکہ جنت میں اہل جنت پر داخل ہوتے ہیں اور پھر جنت سے نکل آتے ہیں۔ جنت کی چابیاں ابلیس کے ہاتھ میں تھیں پھر معصیت کے بعد اس سے واپس لے لیں گئیں۔ نبی کریم ﷺ جنت میں معراج کی رات داخل ہوئے پھر اس سے باہر تشریف لے آئے اور جو کچھ اس کے اندر تھا اس کے متعلق بتایا اور یہ یقیناً جنت الخلد تھی۔ رہا معتزلہ کا یہ قول کہ جنت دار القدس ہے اللہ تعالیٰ نے اسے گناہوں سے پاک رکھا ہے یہ ان کی جہالت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ارض مقدسہ (شام) میں داخل ہوں۔ اہل شریعت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقدس فرمایا حالانکہ ان میں گناہ، کفر جھوٹ سب پائے گئے ہیں اس کی تقدیس، گناہوں سے مانع نہیں اسی طرح دار القدس بھی ہے۔ ابو الحسن بن بطال نے کہا : بعض مشائخ نے بیان کیا ہے کہ اہل سنت کا اجماع ہے کہ جنت الخلد وہی ہے جس سے حضرت آدم (علیہ السلام) اترے، جو اس کا مخالف ہے اس کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ان کا یہ قول کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے یہ کیسے جائز ہے کہ انہوں نے شجرۃ الخلد طلب کیا حالانکہ وہ عقل کے کمال کے حامل تھے اور وہ دار الخلد میں تھے، ان پر اس کا عکس پیش کیا جاتا ہے کہ کمال عقل ہونے کے باوجود حضرت آدم پر یہ کیسے جائز ہے کہ وہ دار الفناء میں شجرۃ الخلد طلب کریں یہ تو اس شخص کے لئے بھی جائز نہیں جو معمولی سی عقل رکھتا ہو، حضرت آدم پر کیسے جائز ہے جو ازروئے عقل کے تمام لوگوں سے ارجح تھے، جیسا کہ حضرت ابو امامہ نے کہا ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکلا منھا رغدًا حیث شئتما جمہور قراء کی قراءت رغدا ہے۔ یعنی غبن کے فتحہ کے ساتھ۔ نخعی اور ابن وثاب نے غین کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے الرغد ایسا خوشگوار گھر جس میں کوئی تھکاوٹ نہ ہو۔ شاعر نے کہا : بینما المرء تراہ ناعما یامن الاحداث فی عیش رغد (1) جب تو کسی کو نرم ونازک دیکھتا ہوں۔ نوجوان خوشگوار زندگی میں امن میں ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : رغد عیشھم ورغد (غین کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ) ارغد القوم جب لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہوں۔ یہ مصدر محذوف کی صفت کی وجہ سے منصوب ہے وحیث وحیث وحیث وحوث وحوث وحاث اس میں یہ تمام لغات ہیں۔ یہ نحاس وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تقربا ھذہ الشجرۃ یعنی کھانے کے لئے اس کے قریب نہ جاؤ کیونکہ باقی نفع حاصل کرنے میں اباحت تھی (2) ۔ ابن عربی نے کہا : نضر بن شمیل کی مجلس میں میں نے شاشی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب کہا جاتا ہے : لا تقرب (راء کے فتحہ کے ساتھ) تو اس کا معنی ہوتا ہے بالفعل اس کام کو مت کر اور جب راء کے ضمہ کے ساتھ بولا جاتا ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے اس کے قریب نہ جا۔ صحاح میں ہے : قرب الشیء یقرب قرباً یعنی چیز قریب ہوئی۔ قربتہ (راء کے کسرہ کے ساتھ) اقربہ قرباناً یعنی میں اس کے قریب ہوا۔ قربت اقرب قرابۃً جیسے کتبت، اکتب کتابۃً جب تو پانی کی طرف چلے جبکہ تیرے اور اس کے درمیان ایک رات کا فاصلہ ہو، اس کا اسم القرب ہے۔ اصمعی نے کہا : میں نے اعرابی سے کہا : ما القرب ؟ انہوں نے کہا : کل پانی پروارد ہونے کے لئے رات کو چلنا۔ ابن عطیہ نے کہا : بعض ماہرین کا قول ہے : اللہ تعالیٰ نے جب اس درخت کے کھانے سے نہی فرمانے کا ارادہ فرمایا تو اس سے نہی فرمائی تو ایک ایسے لفظ کے ساتھ جو کھانے اور کھانے کی طرف راغب کرنے والے اقدام سے منع پر دلالت کرتا ہے اور وہ ہے : قرب۔ ابن عطیہ کہتے ہیں : یہ سد ذرائع کی واضح مثال ہے (3) ۔ بعض ارباب معانی نے کہا : ولا تقربا یہ خطا کے وقوع اور جنت سے خروج کا شعور دیتا ہے اور اس بات کا شعور دیتا ہے کہ ان دونوں نے جنت میں ہمیشہ نہیں رہنا ہے، کیونکہ جس نے ہمیشہ رہنا ہو اس پر کوئی چیز ممنوع نہیں ہوتی، نہ اسے حکم دیا جاتا ہے اور نہ اسے منع کیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : انی جاعل فی الارض خلیفۃً (البقرہ : 30) یہ جنت سے خروج کی دلیل ہے۔ مسئلہ نمبر 8: ھذہ الشجرۃ، ھذہ اسم مبہم ہے اس کے ساتھ ایسے اسم کو بطور صفت ذکر کیا جاتا ہے جس پر الف، لام ہو اس کے علاوہ نہیں۔ جیسے تیرا قول مررت بھذا الرجل، بھذہ المرأۃ وھذہ الشجرہ۔ ابن محیص نے اسے ھدی الشجرہ یعنی یا کے ساتھ پڑھا ہے یہی اصل ہے۔ کیونکہ اس میں ھا، یا کا بدل ہے اسی وجہ سے اس کا ماقبل مکسور ہے۔ کلام میں اس لفظ کے علاوہ کوئی ایسی ھاثانیث نہیں ہے جس کا ماقبل کسرہ ہو اور اس میں ھا کا اصل یا ہے۔ والشجرہ والشجرۃ والشیرۃ۔ یہ تین لغات ہیں الشجرہ، شین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے الشجرہ والشجرۃ اس درخت کو کہتے ہیں جس کا زمین میں تنا ہو، ارض شجیرۃ وشجراء ایسی زمین جس میں درخت زیادہ ہوں۔ واد شجیر اور واد اشجر نہیں کہا جاتا شجراء کا واحد شجرۃ ہے اس جمع کے وزن پر بہت کم حروف کی جمع آتی ہے شجرۃ شجراء۔ قصبۃ قصباء۔ طرفۃ طرفاء، حلفۃ حلفاء۔ اصمعی نے کہا : الحلفا مفرد حلفۃ ہے معنی دوسرے الفاظ سے مختلف ہے۔ سیبویہ نے کہا : الشجراء واحد اور جمع ہے۔ اسی طرح القصباء والطرفاء اور الحلفاء ہے۔ المشجرۃ درختوں والی جگہ۔ ارض مشجرۃ۔ کہا جاتا ہے : ھذہ الارض اشجر من ھذہ۔ یعنی یہ زمین اس زمین سے زیادہ درختوں والی ہے۔ یہ جوہری کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 9: اہل تاویل کا اس درخت کی تعیین میں اختلاف ہے جس کے کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ حضرات ابن مسعود، ابن عباس، شعبہ بن جبیر، جعدہ بن ہبیرہ کہا : یہ انگور کی بیل تھی، اسی وجہ سے شراب ہم پر حرام کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس، ابو مالک اور قتادہ نے فرمایا : یہ سنبل کا درخت تھا اور اس کا دانہ گائے کے گردے کی طرح ہوتا ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا اور مکھن سے زیادہ سفید ہوتا ہے۔ وہب بن منبہ کا یہی قول ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی تو اسے حضرت آدم کی اولاد کے لئے غذ ابنا دیا۔ ابن جریج نے کہا : بعض صحابہ سے مروی ہے کہ یہ انجیر کا درخت تھا (1) ۔ سعید نے حضرت قتادہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اسی وجہ سے خواب میں اس کی تعبیر ندامت کی جاتی ہے کیونکہ اس کے کھانے کی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) نادم ہوئے تھے۔ یہ سہیلی نے ذکر کیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : اس میں کوئی چیز متعین نہیں جس کی تائید خبر کرے۔ درست بات یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو درخت سے منع فرمایا اور انہوں نے اس کی مخالفت کی اور اس کے کھانے میں ان سے لغزش ہوئی۔ ابو نصر قشیری نے کہا : میرے والد صاحب فرماتے تھے معلوم ہوتا ہے بہر حال یہ محنتہ کا درخت تھا۔ مسئلہ نمبر 10: علماء کا اختلاف ہے کہ حضرت آدم نے یہ کیسے کھالیا تھا جب کہ اس کے قریب جانے پر بھی وعید سنائی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : فتکونا من الظلمین۔ بعض علماء نے فرمایا : جس درخت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اس کے علاوہ کوئی درخت کھایا تھا اور انہوں نے نہی کی تاویل یہ نہ کی کہ یہ نہی پوری جنس پر واقع ہے، گویا ابلیس نے انہیں ظاہر کو لینے کا دھوکا دیا۔ ابن عربی نے کہا : یہ پہلی معصیت تھی جو اللہ تعالیٰ کی آدم نے کی (2) ۔ اس قول کی بنا پر فرمایا : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جو قسم اٹھائے کہ وہ اس روٹی سے نہیں کھائے گا پھر وہ اس جنس سے کھالے گا تو حانث ہوجائے گا اس میں تحقیق المذاہب یہ ہے کہ اکثر علماء فرماتے ہیں : اس میں وہ حانث نہیں ہوگا۔ امام مالک اور ان کے اصحاب نے کہا : اگر قسم کی بساط مشار الیہ کی تعیین کا تقاضا کرتی ہے تو اس کی جنس سے کھانے سے حانث نہ ہوگا اور اگر قسم کی بساط یا اس کا سبب یا اس کی نیت جنس کا تقاضا کرتی ہے تو پھر اس پر اسے محمول کیا جائے گا اس جنس سے کسی دوسری چیز کو کھانے سے بھی حانث ہوجائے گا، اس پر حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصہ کو محمول کیا گیا ہے، ان کو متعین درخت سے نہی کی گئی تھی اور اس کی جنس مراد لی گئی تھی۔ پس انہوں نے قول کو لفظ پر محمول کیا معنی پر محمول نہ کیا۔ ہمارے علماء کا اس وجہ سے فرع میں اختلاف ہے۔ وہ یہ کہ جب کوئی شخص قسم اٹھائے کہ میں یہ گندم نہیں کھاؤں گا پھر اس نے اس کی روٹی کھالی تو اس میں علماء کے دو قول ہیں : الکتاب میں فرمایا : وہ حانث ہوجائے گا، کیونکہ گندم اسی طرح روٹی بنا کر کھائی جاتی ہے۔ ابن المواز نے کہا : اس پر کوئی کفارہ نہیں کیونکہ اس نے گندم نہیں کھائی اس نے روٹی کھائی ہے۔ اس نے اسم اور صفت کا اعتبار کیا۔ اور اگر اس نے اپنی قسم میں کہا میں اس گندم سے نہیں کھاؤں گا تو اس گندم سے بنائی گئی روٹی کھانے سے بھی حانث ہوجائے گا اور جب اس گندم کی قیمت سے کوئی اور کھانا خریدے یا اسے اگالے تو اس میں اختلاف ہے۔ دوسرے علماء فرماتے ہیں : نہی ندب پر محمول تھی۔ ابن عربی نے کہا : یہ مسئلہ اصول فقہ سے تھا یہاں ساقط ہوگیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فتکونا من الظلمین۔ (1) نہی کو وعید کے ساتھ ملا یا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا یخر جنکما من الجنۃ فتشقی۔ (طہٰ ) سو ( ایسا نہ ہو) کہ وہ نکال دے تمہیں جنت سے اور تم مصیبت میں پڑجاؤ۔ ابن مسیب نے فرمایا : حضرت آدم نے اس وقت کھایا جب حضرت حوا نے انہیں شراب پلا دی تھی اور آپ نشہ میں ہوگئے تھے اور آپ کو سمجھ نہ تھی۔ یزید بن قسیط نے بھی اسی طرح کہا : وہ دونوں قسم اٹھاتے تھے کہ حضرت آدم نے عقل میں ہوتے ہوئے اس درخت سے نہیں کھایا تھا۔ ابن عربی نے کہا : یہ نقلاً اور عقلاً فاسد ہے۔ نقل کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے (2) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنتی شراب کا یہ وصف بیان کیا ہے : لا فیھا غول (الصافات : 47) اور رہی رقل، تو انبیاء کرام نبوت کے بعد معصوم ہوتے ہیں ہر اس چیز سے جو فرائض میں خلل اور جرائم کے ارتکاب کا باعث بنے۔ میں کہتا ہوں : بعض علماء نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی نبوت کو جنت میں ٹھہرائے جانے سے پہلے سے ثابت کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلما انباھم باسمائھم (البقرہ :33) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرشتوں کو وہ علم بتاؤ جو ان کے پاس نہیں ہے۔ بعض علماء نے کہا : حضرت آدم نے وہ درخت بھول کر کھایا تھا اور یہ ممکن ہے کہ وہ دونوں وعید کو بھول گئے ہوں۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حتمی اور قطعی طور پر بتایا : ولقد عھدنا الی ادم من قبل فنسی ولم نجد لہ عزماً ۔ (طہٰ ) لیکن جب انبیاء کرام کو کثر معارف اور علو منازل کی وجہ ہے ایسا تحفظ وتیقظ ضروری ہوتا ہے جو دوسروں کو لازم نہیں ہوتا تو حضرت آدم (علیہ السلام) کا نہی کو یاد نہ رکھنا اسے ضائع کرنے کے مترادف تھا تو اس وجہ سے وہ مخالفت کرنے والے ہوگئے۔ حضرت ابو امامہ نے کہا : اگر حضرت آدم کی اولاد جو اللہ تعالیٰ نے ابتدا سے لے کر قیامت تک پیدا کرنی ہے ان سب کی عقلیں ایک پلڑے میں اور حضرت آدم کی عقل دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو حضرت آدم (علیہ السلام) کی عقل ان پر غالب آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولم نجد لہ عزماً ۔ (طہٰ ) میں کہتا ہوں : حضرت ابو امامہ کا یہ قول تمام بنی آدم کو شامل ہے اور احتمال ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ اس سے خاص ہوں، کیونکہ آپ عقل و دانش کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ تھے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابو امامہ کے قول کا مطلب یہ ہو کہ اگر بنی آدم کی عقول جو انبیاء نہیں ہیں وہ مراد ہیں۔ واللہ اعلم میں کہتا ہوں : پہلا قول حسن ہے۔ پس آدم وحوا نے معین درخت مراد لیا اور حقیقت میں مراد جنس تھی جیسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب آپ نے سونے اور ریشم کو پکڑا۔ فرمایا : ھذان حرامان علی ذکور امتی (1) یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔ اور ایک اور جگہ فرمایا : ھذان مھلکان امتی۔ یہ دونوں میری امت کو ہلاک کرنے والی چیزیں ہیں۔ آپ ﷺ نے سونے اور ریشم کی جنس مراد لی ہے نہ کہ وہ معین سونا اور ریشم۔ مسئلہ نمبر 11: کہا جاتا ہے : درخت سے پہلے حضرت حوا نے کھایا تھا اس کا سبب ابلیس کا انہیں اغوا (بھٹکا نا) تھا جیسا کہ آگے آئے گا۔ شیطان نے پہلے حضرت حوا سے کلام کی کیونکہ عورت محبت کا وسویہ ہے۔ یہ پہلا فتنہ تھا جو مردوں پر عورتوں کی طرف سے داخل ہوا۔ شیطان نے کہا : تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا گیا مگر اس لئے کہ یہ شجرۃ الخلد ہے کیونکہ شیطان کو معلوم تھا کہ یہ دونوں ہمیشہ رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ پس وہ دونوں کے پاس ایسی جہت سے آیا جو انہیں پسند تھی۔۔۔۔۔ حبک الثی یعمی ویصم۔۔۔۔ کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرہ کردیتی ہے۔ جب حضرت حوا نے حضرت آدم سے کہا تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے انکار کیا اور عہد الٰہی کو یاد کیا۔ حضرت حوا پر حضرت آدم اصرار کرتے رہے (کہ نہ کھاؤ) اور حضرت حوا حضرت آدم پر کھانے کے لئے اصرار کرتی رہی حتیٰ کہ حضرت حوا نے کہا : میں تجھ سے پہلے کھاتی ہوں یہاں تک کہ اگر مجھے کوئی تکلیف پہنچے تو تم سلامت رہو گے۔ پس حضرت حوا نے وہ کھالیا اور انہیں کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ حضرت حوا حضرت آدم کے پاس آئی اور کہا : تم بھی کھالو، میں نے کھایا ہے تو مجھے تکلیف نہیں ہوئی ہے۔ پس حضرت آدم نے وہ کھایا تو ان کا لباس اتر گیا اور گناہ کے حکم میں ہوگئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : ولا تقربا ھذہ الشجرہ۔ وہ دونوں نہی میں جمع فرمائے تھے اس لئے سزا نہ اتری حتیٰ کہ دونوں کی طرف سے منہی عنہ کا ارتکاب پایا گیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) پر یہ مسئلہ مخفی تھا۔ اسی وجہ سے بعض علماء نے فرمایا : اگر کسی نے اپنی دو بیویوں یا دو لونڈیوں کو کہا : اگر تم دونوں گھر میں داخل ہوئیں تو تم دونوں کو طلاق یا تم دونوں آزاد تو طلاق اور آزادی ایک کے داخل ہونے سے واقع نہ ہوگی۔ اس میں علماء کے تین اقوال ہیں۔ ابن قاسم نے کہا : دونوں کو نہ طلاق ہوگی نہ دونوں آزاد ہوں گی حتیٰ کہ اکٹھی گھر میں داخل ہوں، انہوں نے اس اصل پر محمول کیا ہے۔ مطلق لفظ کے مقتضیٰ کو لیا ہے۔ سحنون نے بھی یہی کہا ہے۔ ابن قاسم نے دوسری مرتبہ کہا : کسی ایک کے داخل ہونے سے دونوں مطلقہ ہوجائیں گی اور آزاد ہوجائیں گی کیونکہ بعض قسم کا ٹوٹنا پوری قسم کا ٹوٹنا ہے۔ جیسے اگر کوئی قسم اٹھائے کہ یہ دو روٹیاں نہیں کھاؤں گا تو وہ ایک روٹی کھانے سے بھی حانث ہوجائے گا بلکہ ان میں سے ایک لقمہ کھانے سے بھی حانث ہوجائے گا (1) ۔ اشہب نے کہا : جو داخل ہوگی وہ آزاد ہوجائے اور اسے طلاق ہوجائے گی کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنی طلاق یا آزادی میں شرط تھی۔ ابن عربی نے کہا : یہ بعید ہے کیونکہ بعض شرط، شرط نہیں ہوتی اس پر اجماع ہے (2) ۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول صحیح ہے۔ نہی جب دو فعلوں پر معلق ہو تو مخالفت متحقق نہ ہوگی جب تک کہ دونوں فعل نہ پائے جائیں کیونکہ جب تو کہتا ہے تم دونوں گھر میں داخل نہ ہو۔ پھر ایک داخل ہوتی ہے تو دونوں کی طرف سے مخالفت نہ پائی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا تقربا ھذہ الشجرۃ۔ یہ دونوں کے لئے نہی ہے : فتکونا من الظلمین۔ اس کا جواب ہے۔ پس دونوں ظالم نہ ہوں گے حتیٰ کہ دونوں اس کام کو کریں جب حضرت حوا نے کھایا تو اسے کوئی تکلیف نہ پہنچی کیونکہ منہی عنہ وہ تھا جو کامل پایا گیا۔ یہ معنی حضرت آدم (علیہ السلام) پر مخفی ہوگیا آپ نے طمع کیا اور یہ حکم بھول گئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی معنی ہے : ولقد عھدنا الی ادم من قبل فنسی (طہٰ : 115) بعض علماء نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) یہ ارشاد بھول گئے : ان ھذا عدو لک ولزوجک فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی۔ (طہٰ ) بیشک یہ تیرا بھی دشمن ہے اور تیری زوجہ کا بھی سو (ایسا نہ ہو) کہ وہ نکال دے تمہیں جنت سے اور تم مصیبت میں پڑجاؤ۔ مسئلہ نمبر 12: علماء کا اختلاف ہے کہ کیا انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین سے صغیرہ گناہ سرزد ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان سے مؤاخذہ ہوتا ہے اور ان پر انہیں عتاب کیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس اتفاق کے بعد کہ انبیاء کرام کبیرہ گناہوں اور ہر رذیل بات سے معصوم ہوتے ہیں جس میں نقص اور عیب ہوتا ہے۔ یہ قاضی ابوبکر کے نزدیک مسئلہ اجماعاً ثابت ہے اور استاذ ابو اسحاق کے نزدیک یہ معجزہ کی دلیل کا مقتضا ہے اور معتزلہ کے نزدیک یہ عقلی دلیل کا مقتضی ہے ان کے اصول پر۔ طبری وغیرہ فقہاء، متکلمین اور محدثین نے کہا : انبیاء کرام سے صغائر واقع ہوتے ہیں جبکہ رافضیوں کا قول اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں : انبیاء کرام کبائر وصغائر سے معصوم ہیں اور انہوں نے ان آیات سے حجت پکڑی ہے جو قرآن کریم میں واقع ہوئی ہیں اور جو ان کے گناہوں سے نکلنے کے متعلق احادیث میں ثابت ہے یہ بات ظاہر ہے اس میں کوئی خفا نہیں۔ جمہور فقہاء، مالکی، ابوحنیفہ اور امام شافعی فرماتے ہیں : وہ تمام صغائر سے اسی طرح معصوم ہیں جس طرح کبائر سے معصوم ہیں کیونکہ ہمیں ان کے افعال، آثار اور سیرت میں ان کی اتباع کا بغیر کسی قرینہ کے التزام کے حکم دیا گیا ہے۔ اگر ان پر ہم صغائر کو جائز قرار دیں تو پھر ان کی اقتدا ممکن نہیں کیونکہ ان کے افعال میں ہر فعل کا مقصد، قربت، اباحت یا ممانعت یا معصیت کے اعتبار سے ممتاز نہیں ہوتا اور کسی کو کسی ایسے امر کی پیروی کا حکم دینا صحیح نہیں ہے شاید کہ وہ معصیت ہو، خصوصاً ان اصولیوں کے نزدیک جو فعل کو قول پر مقدم جانتے ہیں جب ان میں تعارض آجائے۔ استاذ ابو اسحاق اسفرائینی نے کہا : علماء کا صغائر کے متعلق اختلاف ہے اور وہ بات جس پر اکثر علماء کا نظریہ قائم ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء کرام پر صغائر جائز نہیں۔ پس بعض علماء نے صغائر کو جائز قرار دیا ہے اور اس مقال کی کوئی اصل نہیں ہے۔ بعض متأخرین نے کہا : جو پہلے نظریہ کے حامل ہیں : یہ کہنا مناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء سے گناہ کے وقوع کی خبر دی ہے اور گناہ کی نسبت ان کی طرف کی ہے اور اس پر انہیں عتاب بھی فرمایا ہے اور خود انبیائے کرام کے اپنے نفوس سے گناہوں کے متعلق بتایا ہے اور ان سے وہ نکلے اور ان گناہوں کی وجہ سے ڈرے اور توبہ کی۔ یہ چیزیں بہت سی جگہوں پر وارد ہیں تاویل تمام کو قبول نہیں کرتی اگرچہ اخبار احاد اس کو قبول کرتی ہیں اور یہ تمام کام ایسے ہیں جو انبیاء کے منصب کے لئے معیوب ہیں۔ یہ تمام امور ان سے نادر طور پر اور خطا ونسیان کے طور پر یا ایسی تاویل کے طور پر واقع ہوئے ہیں جو تاویل اس کام کی طرف داعی تھی۔ یہ امور دوسرے لوگوں کے اعتبار سے نیکیاں ہیں اور ان کے حق میں سیئات ہیں ان کے مناصب اور بلند اقدار کی نسبت سے کیونکہ وزیر سے ایک بات پر مواخذہ ہوتا ہے جبکہ سپاہی کو اسی کام پر بدلہ دیا جاتا ہے۔ پس وہ قیامت کے موقف سے ڈرے باوجود اس کے کہ ان کو امن وامان اور سلامتی کا علم تھا۔ فرمایا : یہی حق اور ثواب ہے۔ حضرت جنید نے کتنا عمدہ کہا ہے : حسنات الابرار سیئات المقربین وہ کام جو ابرار کی نیکیاں ہوتے ہیں مقربین کے حق میں گناہ ہوتی ہیں۔ پس انبیاء کرام اگرچہ نصوص ان سے گناہ کے وقوع کی شہادت دیتی ہیں پھر بھی یہ ان کے مناصب میں خلل ثابت نہیں اور نہ ان کے رتبہ میں جرح کا موجب ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے امور کی تلافی فرما دی انہیں چن لیا، انہیں ہدایت سے نوازا ان کی مدح فرمائی ان کا تزکیہ فرمایا، انہیں منتخب کیا اور انہیں چن لیا۔ صلوات اللہ علیھم۔ مسئلہ نمبر 13: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فتکونا من الظلمین ظلم کا اصل معنی کسی شے کو مناسب جگہ پر نہ رکھنا۔ الارض المظلومہ اس زمین کو کہتے ہیں جو کبھی کھودی نہ گئی ہو پھر کھودی گئی۔ نابغہ نے کہا : وقفت فیھا اصیلا لاً اسائلھا عیت جواباً وما بالربع من احد الا الاواری لأیا ما ابینھا والنؤی کالحوض بالمظلومۃ الجلد میں عصر کے وقت ان کھنڈرات میں کھڑا ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا تو وہ جواب دینے سے عاجز تھے اور وہاں پر کوئی شخص نہ تھا سوائے رسیوں کے اور مشقت کے میں اس کو بیان نہیں کرتا اور حوض کی طرح گڑھے کے جو اس سخت زمین میں کھودا گیا تھا۔ اس کو التراب الظلیم بھی کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا : فاصبح فی غبراء بعد اشاحۃٍ علی العیش مردودھا علیھا ظلیمھا صبح کے وقت قبر کے گڑھے میں تھا جس کی مٹی اس پر لوٹائی گئی تھی۔ جب اونٹ کو بغیر بیماری کے ذبح کیا جائے تو اس پر ظلم کیا گیا۔۔۔۔ اونٹوں کو بغیر بیماریوں کے ذبح کرنے والوں کو ظلامون للجزر کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : سقانا ظلیمۃ طیبۃ جب اس نے دودھ پکنے سے پہلے انہیں پلا دیا۔ وقد ظلم وطبہ، مکھن نکالنے سے پہلے دودھ پلایا گیا ہو تو یہ جملہ بولتے ہیں : اللبن مظلومہ وظلیم، دودھ تیار نہ ہو۔ شاعر نے کہا : وقائلۃ ظلمت لکم سقائی وھل یخفی علی العکد الظلیم اور وہ کہہ رہی تھی میں نے تمہیں دودھ جمنے سے پہلے پلایا کیا زبان کی جڑ پر وہ دودھ مخفی تھا۔ رجل ظلیم، سخت ظلم کرنے والا شخص۔ الظلم سے مراد شرک بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان الشرک لظلم عظیم۔ (لقمان) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکلا منھا رغدًا، کلا سے نون حذف کیا گیا ہے کیونکہ یہ امر کا صیغہ ہے اور ہمزہ کثرت استعمال کی وجہ سے حذف کیا گیا ہے، اس کا حذف شاذ ہے۔ سیبویہ نے کہا : عربوں میں کچھ لوگ کہتے ہیں اء کل فیتم۔ کہا جاتا ہے : اکلت الطعام اکلاً ومأکلاً ۔ الا کلۃ (بالفتح) سیر ہو کر کھانا۔ الاکلۃ (بالضم) لقمہ میں کہتے ہیں۔ تو کہتا ہے : اکلت اکلۃً واحدۃًیعنی میں نے ایک لقمہ کھایا، روٹی کو بھی کہتے ہیں ھذا الشی اکلۃ لک یعنی طعمۃٌ لک (تمہاری خوراک سے) الاکل جو چیز کھائی جائے۔ کہا جاتا ہے : فلان ذواکل یعنی وہ شخص جس کو دنیا کا بہت حصہ ملا ہو اور وسیع رزق والا ہو۔ (رغداً ) یہ مصدر محذوف کی صفت ہے یعنی اکلاً رغداً ۔ ابن کیسان نے کہا : یہ بھی جائز ہے کہ یہ حال کی حیثیت سے مصدر ہو۔ مجاہد نے کہا : رغداً کا مطلب ہے ان پر حساب نہ ہوگا۔ الرغد لغت میں اس کثیر کو کہتے ہیں جو تجھے مشقت میں نہ ڈالے۔ کہا جاتا ہے : ارغد القوم، جب لوگ خوشحالی میں ہوں۔ یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ حیث یہ مبنی برضمہ ہے یہ دوسرے ظروف سے مختلف ہے کہ یہ مضاف نہیں ہوتابہ، قبل اور بعد سے مشابہ ہے جب وہ مضاف الیہ سے جدا کئے گئے ہوں۔ پس اس لئے اسے ضمہ دیا گیا۔ کسائی نے کہا : قیس اور کنانہ کی لغت ضمہ ہے اور تمیم کی لغت فتحہ ہے۔ کسائی نے کہا : بنو اسد جر کی جگہ اس کو جر دیتے ہیں اور نصب کی جگہ نصب دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سنستدرجھم من ھیث لا یعلمون۔ (القلم) حیث پر ضمہ اور فتحہ پڑھا جاتا ہے۔ ولا تقربا ھذہ الشجرۃ، ھذہ میں ھا، یا کا بدل ہے کیونکہ اصل میں ھذی تھا۔ نحاس نے کہا : عربی زبان میں ھا تانیث نہیں جانتا جب کہ ما قبل مکسور ہو سوائے ھذہ کے ھا کے۔ عربوں میں سے بعض کہتے ہیں : ھاتاھند بعض کہتے ہیں : ھاتی ھند۔ سیبویہ نے حکایت کیا ہے : ھذہ ھند۔ (ھا کے سکون کے ساتھ) کسائی نے عربوں سے حکایت کیا ہے : ولا تقربا ھذی الشجرۃ۔ شبل بن عباد سے مروی ہے، فرمایا : ابن کثیر اور ابن محیصن قرآن میں ھذہ میں ھا کو کسی جگہ ثابت نہیں رکھتے۔ جماعت کی قراءت رغداً غین کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ ابن وثاب اور نخعی سے مروی ہے کہ وہ غین کے سکون کے ساتھ پڑھتے تھے۔ سلمہ نے فراء سے حکایت کیا ہے، فرمایا : کہا جاتا ہے : ھذہ فعلت وھذی فعلت۔ ذال کے بعد یا کے اثبات کے ساتھ، ھذ فعلت (ذال کے کسرہ کے ساتھ یا اور ھا کے الحاق کے بغیر) ۔ ھاتا فعلت۔ ہشام نے کہا : کہا جاتا ہے تا فعلت۔ شعر کہا ہے : خلیلی لو لا ساکن الدار لم اقم بتا الدار الا عابر ابن سبیل میرے دو دوست اگر اس گھر میں رہنے والے نہ ہوتے تو میں بھی اس گھر میں نہ ٹھہرتا مگر مسافر کی طرح گزر جاتا۔ ابن انباری نے کہا : ھا کے اسقاط کے ساتھ تا اس طرح ہے جس طرح ذی، ھذہ سے ھا کے اسقاط کے ساتھ ہے، اور ھذہ سے ھا کے اسقاط کے ساتھ ذہ ہے۔ فراء نے کہا : جس نے کہا : ھذ قامت وہ ھا کو ساقط نہیں کرتا کیونکہ صرف ذال پر اسم مشتمل نہیں ہوتا۔ فتکونا، تقربا پر اس کا عطف ہے اس وجہ سے نون کو حذف کیا گیا ہے۔ جرمی نے کہا : فاناصبہ ہے اور دونوں جائز ہیں۔
Top