Al-Qurtubi - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
آیت نمبر 38 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قلنااھبطوا تغلیظ وتاکید کے لئے امر کا تکرار فرمایا جیسے تو کسی کو کہتا ہے : اٹھ اٹھ (1) ۔ بعض علماء نے فرمایا : امر کو مکرر فرمایا کیونکہ ہر امر سے نیا حکم معلق تھا جو دوسرے امر کے حکم سے مختلف تھا، پہلے امر کے ساتھ عداوت معلق تھی دوسرے کے ساتھ ہدایت کا لانا۔ بعض علماء نے فرمایا : پہلا اترنا جنت سے آسمان کی طرف تھا دوسرا اترنا آسمان سے زمین کی طرف تھا، اس قول پر یہ دلیل ہوگی کہ جنت ساتویں آسمان میں ہے جیسے کہ حدیث اسراء اس پر دلالت کرتی ہے (2) نہ جیسا کہ آگے آئے گا۔ جمیعاً حال کی بنا پر منصوب ہے۔ حضرت وہب بن منبہ نے کہا : جب حضرت آدم (علیہ السلام) زمین کی طرف اترے تو ابلیس درندوں سے کہا : یہ تمہارا دشمن ہے اسے ہلاک کردو۔ وہ سب جمع ہوئے اور انہوں نے یہ کام کتے کے سپرد کیا۔ انہوں نے کتے سے کہا : تو ہم میں سے زیادہ بہادر ہے، درندوں نے کتے کو سردار بنا دیا۔ جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے کتے کو دیکھا تو متحیر ہوئے۔ جبریل امین حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا : اپنا ہاتھ کتے کے سر پر پھیرو۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا۔ جب درندوں نے دیکھا کہ کتا تو آدم سے مانوس ہوگیا ہے تو درندے بھاگ گئے۔ کتے نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے امان مانگی تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے امان دے دی، پس وہ اور اس کی اولاد حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ باقی رہی۔ حکیم ترمذی نے اسی طرح کہا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جب زمین کی طرف اتارے گئے تو ابلیس درندوں کے پاس آیا، انہیں حضرت آدم (علیہ السلام) کو تکلیف پہنچانے کے لئے ابھارا، ان میں سے سخت ترین کتا تھا۔ پس اس کا دل مردہ کردیا گیا۔ روایت ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو کہا کہ اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھو۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ رکھا تو وہ مطمئن ہوگیا اور حضرت آدم سے الفت کرنے لگا۔ پس کتا حضرت آدم کی رکھوالی کرنے والوں میں سے ہوگیا۔ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اور آپ کی اولاد کی حفاظت کرنے والا بن گیا اور انسانوں سے الفت کرنے والا ہوگیا، اس کے دل کے مردہ ہوجانے کی وجہ سے یہ انسان سے ڈرتا ہے، اگر اسے روڑا مارا جائے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے پھر ان سے محبت کی وجہ سے لوٹ آتا ہے۔ کتے میں کچھ ابلیس کا اثر ہے اور کچھ حضرت آدم (علیہ السلام) کے چھونے کا اثر ہے۔ ابلیس کے اثر کی وجہ سے یہ بھونکتا ہے اور آدمی پر حملہ کرتا ہے، حضرت آدم (علیہ السلام) کے چھونے کی وجہ سے اس کا دل مردہ ہوگیا حتیٰ کہ یہ تابعدار ہوگیا اور حضرت آدم اور حضرت آدم کی اولاد سے محبت کرتا ہے اور ان کی حفاظت کرتا ہے۔ دل کے مردہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت ہانپتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے برے علماء کو کتے سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ سورة اعراف میں اس کا بیان آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) پر وہ ڈنڈا اتارا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے معجزہ بنایا تھا، اس ڈنڈے کے ساتھ آدم (علیہ السلام) درندوں کو اپنے سے دور کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاما یاتینکم منی ھدًی، ھدًی کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد کتاب اللہ ہے۔ یہ سدی کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد ہدایت کی توفیق ہے۔ ایک جماعت نے کہا : الھدیٰ سے مراد رسل ہیں جو فرشتوں میں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف آئے اور بشروں میں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کی طرف آئے (1) ۔ جیسا کہ حضرت ابوذر کی حدیث میں آیا ہے۔ آجری نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ منی کے قول میں اشارہ ہے کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں، جبکہ قدریہ وغیرہ کا قول اس سے مختلف ہے جیسا کہ پہلے گزرا ہے۔ جحدری نے ھدی پڑھا ہے یہ ھذیل کی لغت ہے۔ وہ کہتے ہیں : ھدی، عصی، محیی۔ نحویوں نے ابو ذؤیب کا شعر نقل کیا ہے جو وہ اپنے بیٹے کے مرثیہ میں کہتا ہے : سبقوا ھوی واعنقوا لھواھم فتخرموا ولکل جنب مصرع (2) وہ میری خواہش سے سبقت لے گئے گویا انہوں نے موت کی خواہش کی۔ پس وہ ایک ایک کر کے پکڑے گئے، ہر پہلو کے لئے گرنا ہے۔ نحاس نے کہا : خلیل اور سیبویہ کے نزدیک اس لغت کی علت یہ ہے کہ اضافت کی یا کا ماقبل کسرہ ہونا چاہئے تھا جب وہ نہ تھی کیونکہ الف کو حرکت نہیں دی جاتی تو الف کو یا سے بدل دیا گیا پھر یا کو یا میں ادغام کردیا گیا۔ (اما) اس میں ما زائدہ ہے، ان شرط کے لئے ہے، اور جواب شرط فا شرط ثانی کے ساتھ ہے۔ جو “ فمن تبع ” میں ہے۔ من مبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے اور تبع شرط کی وجہ سے محل جزم میں ہے۔ فلا خوف، اس دوسری شرط کا جواب یہ ہے، سیبویہ نے کہا دوسری شرط اور اس کا جواب دونوں پہلی شرط کا جواب ہیں، کسائی نے کہا : فلا خوف علیھم۔ دونوں شرطوں کا اکٹھا جواب ہے (3) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ ، خوف سے مراد پریشانی، گھبراہٹ ہے اور یہ مستقبل کے امر پر ہوتی ہے۔ خاوفنی فلانٌ فخفتہ۔ فلاں نے مجھے ڈرایا تو میں اس سے انتہائی خوف زدہ ہوگیا۔ التخوف کا معنی کمی ہونا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او یأخذھم علی تخوفٍ (النحل :47) حضرات زہری، حسن، عیسیٰ بن عمر، ابن ابی اسحاق اور یعقوب نے (فلا خوف) فاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور نحویوں کے نزدیک پسندیدہ رفع اور تنوین ہے۔ مبتدا ہونے کے اعتبار سے۔ کیونکہ دوسرا اسم معرفہ ہے اور اس میں صرف رفع ہی ہوتا ہے کیونکہ لا معرفہ میں عمل نہیں کرتا۔ پس انہوں نے پہلے اسم میں ہی رفع کو اختیار کیا ہے تاکہ کلام ایک جیسی ہوجائے اور یہ بھی جائز ہے کہ لا خوف میں لا بمعنی لیس ہو۔ الحزن اور الحزن۔ یہ سرور کی ضد ہیں۔ یہ ماضی کے کسی امر پر ہوتا ہے۔ حزن الرجل فھو حزن وحزین، احزنہ غیرہ وحزنہ۔ جیسے اسل کہ وسلکہ۔ (یعنی حزن لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے) اس کا مجہول محذونٌ آتا ہے۔ یزیدی نے کہا : حزنہ یہ قریش کی لغت ہے۔ احزنہ یہ تمیم کی لغت ہے۔ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے احتزن اور تحزن کا ایک معنی ہے : غمگین ہونا۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ ان پر آخرت کا کوئی خوف نہیں ہے اور دنیا میں جو فوت ہوا اس پر وہ غمگین نہیں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : اس میں قیامت کے دن کی ہولناکیوں اور اطاعت شعاروں پر قیامت کے خوف کی نفی کی دلیل نہیں ہے کیونکہ قیامت کی تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بیان فرمایا ہے لیکن اطاعت شعاروں سے وہ تکلیفیں اللہ تعالیٰ کم کر دے گا جب وہ اللہ کی رحمت کی طرف چلے گئے تو گویا انہیں خوف ہے ہی نہیں۔
Top