Al-Qurtubi - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور جو کتاب میں نے (اپنے رسول محمد ﷺ پر) نازل کی ہے جو تمہاری کتاب (تورات) کو سچا کہتی ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس سے منکر اول نہ بنو اور میری آیتوں میں (تحریف کر کے) ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) نہ حاصل کرو اور مجھی سے خوف رکھو
آیت نمبر 41 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وامنوا بما انزلت یعنی قرآن کی تصدیق کرو۔ مصدقاً یہ انزلت کی ضمیر سے حال ہے (1) ۔ تقدیر عبارت اس طرح ہے : بما انزلتہ مصدقاً ۔ اس میں عامل انزلت ہے یہ بھی جائز ہے کہ ما سے حال ہو اور اس میں عامل امنوا ہو۔ تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : آمنوا بالقرآن مصدقاً ۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ ما مصدریہ ہو۔ تقدیر عبارت آمنوا بانزال۔ لما معکم، یعنی تورات میں سے جو تمہارے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تکونوا اول کافر بہ۔ بہ میں ضمیر کا مرجع نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت محمد ﷺ ہیں۔ یہ ابو العالیہ نے کہا ہے اور ابن جریج نے کہا : اس کا مرجع قرآن ہے کیونکہ بما انزلت کا قول اسے اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مرجع تورات۔ کیونکہ لما معکم کا قول اسے اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے (2) ۔ اگر کہا جائے کہ کافرٍ کیسے فرمایا کافرین نہیں فرمایا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی تقدیر یہ ہے : ولا تکونوا اول فریق کافر ھو اظرف الفتیان واجملہ۔ ظاہر کلام ھو اظرف فتی واجملہ تھا۔ فرمایا : اول کافرٍ بہ حالانکہ ان سے پہلے کفار قریش نے اس کا انکار کیا تھا۔ اس کا معنی ہے : اہل کتاب میں سے پہلے تم کفر کرنے والے نہ ہوجاؤ، کیونکہ ایسی مثال میں ان کی طرف نظر کی جاتی ہے کیونکہ وہ حجت تھے ان کے متعلق علم کا گمان کیا جاتا ہے۔ سیبویہ کے نزدیک اول کو نصب کان کی خبر کے اعتبار سے ہے۔ یہ ان کلمات سے ہے جن کا فعل نہیں بولا جاتا یہ افعل کے وزن پر ہے اس کا عین اور فاء کلمہ واو ہے، اس سے فعل نہیں بولا جاتا تاکہ دونوں جہتوں (عین اور فا) سے تعلیل نہ ہو۔ یہ بصریوں کا مذہب ہے۔ کو فیوں نے کہا : یہ دأل سے مشتق ہے جس کا معنی ہے نجات پانا۔ اصل میں او أل تھا۔ پھر ہمزہ میں تخفیف کی گئی اور واؤ سے بدل دیا گیا اور پھر ادغام کیا گیا۔ اور اول کہا گیا جس طرح خطیئۃ کے ہمزہ کی تخفیف کی جاتی ہے۔ جوہری نے کہا : اس کی جمع الاوائل والا والی قلب کی صورت میں بھی آتی ہے۔ بعض نے کہا : اصل میں یہ وول فوعل کے وزن پر تھا پہلی واو ہمزہ سے بدل گئی اور اس کی جمع او اول نہیں بنائی جاتی کیونکہ دو واو کا جمع کرنا جن کے درمیان الف جمع ہو ثقیل ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ آل یؤول سے افعل کے وزن پر ہے اس کی اصل اول تھا، اس میں قلب کیا گیا اعفل، افعل سے مقلوب ہو کر آیا ہے، پھر تسہیل کی گئی بدل کر ادغام کیا گیا (4) ۔ مسئلہ : اس آیت میں ان علماء کے لئے کوئی حجت نہیں ہے جو دلیل خطاب کے ساتھ قول کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ کوفی اور ان کے موافقت کرنے والے علماء ہیں کیونکہ کلام سے مقصود اول وآخر کفر سے نہی ہے۔ اول کو ذکر کے ساتھ خاص کیا کیونکہ اس میں تقدم زیادہ شدید ہے۔ پس مذکور اور مسکوت عنہ کا حکم ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تشتروا بایتی ثمناً قلیلاً ۔ اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تشتروا یہ ولا تکونوا پر معطوف ہے اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر قیمت نہ لو یعنی حضرت محمد ﷺ کی صفات میں تبدیلی پر رشوت نہ لو۔ یہود کے علماء ایسا کرتے تھے اس لئے انہیں اس سے منع کیا گیا۔ یہ بعض مفسرین کا قول ہے ان میں سے حسن وغیرہ ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہودی علماء اپنے علم پر کھانا لیتے تھے جیسے وظیفہ اور تنخواہ ہوتی ہے۔ پس انہیں اس سے منع کیا گیا۔ بعض علماء نے فرمایا : ان کے علماء لوگوں کو دین اجرت پر سکھاتے تھے اس سے انہیں منع کیا گیا، ان کی کتابوں میں ہے اے ابن آدم ! علم سکھاؤ جس طرح تجھے مفت علم سکھایا گیا۔ یہ ابو العالیہ کا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی یہ ہے کہ تم میرے اوامرنواہی اور آیات کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت نہ لو یعنی دنیا اور اس کی مدت۔ اور وہ زندگی جو تھوڑی ہو اس کا کوئی مرتب نہیں (1) ۔ جو وہ عوض لیتے تھے اس ثمناً (قیمت) کیا گیا کیونکہ انہوں نے اس کو عوض بنایا تھا جو چیز عوض ہو اس پر ثمن کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ وہ حقیقت میں ثمن نہ بھی ہو۔ یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ شاعر نے کہا : ان کنت حاولت ذنبا او ظفرت بہ فما اصبت بترک الحج من ثمن “ اگر تو گناہ کا ارادہ کرے یا گناہ کرلے تو حج کے ترک کے عوض تو نے کوئی ثمن نہیں پائی ”۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اگرچہ نبی اسرائیل کے ساتھ خاص ہے لیکن یہ اس کو بھی شامل ہے جو ان جیسا فعل کرے گا۔ پس جو حق میں تبدیلی یا اس کو باطل کرنے پر رشوت لے گا یا واجبی تعلیم کے دینے سے انکار کرے گا یا جو اس نے سیکھا اس کی ادائیگی سے رکے گا حالانکہ اس کا سکھانا اس پر متعین ہے حتیٰ کہ وہ اس پر اجرت لے تو وہ اس آیت کے مقتضیٰ میں داخل ہے۔ واللہ اعلم ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایسا علم سیکھا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے وہ اسے نہیں سیکھتا مگر اس لئے کہ اس کے عوض دنیا کا مال حاصل کرے تو وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا (2) ۔ مسئلہ نمبر 2: علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن اور علم کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے یا نہیں۔ زہری اور اصحاب الرائے (احناف) نے اس سے منع کیا ہے۔ یہ کہتے ہیں : قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ تعلیم قرآن ان واجبات میں سے ایک واجب ہے جن میں تقرب کی نیت اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس نماز، روزے کی طرح تعلیم قرآن پر بھی اجرت نہیں لی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تشتروا بایتی ثمناً قلیلاً (اور نہ خریدو میری آیتوں کے عوض تھوڑی سی قیمت) حضرت ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : معلموا صبیانکم شرارکم اقلھم رحمۃ بالیتیم واغلظھم علی المسکین تمہارے بچوں کے اساتذہ تمہارے برے لوگ ہیں جو یتیم پر رحمت کم کرتے ہیں اور مسکین پر سختی زیادہ کرتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! آپ معلمین کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ان کا درہم حرام ہے، ان کا کپڑا سحت (حرام) ہے اور ان کا کلام ریا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت نے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے اہل کوفہ میں سے بعض لوگوں کو قرآن اور کتابت سکھائی۔ ان میں ایک شخص نے مجھے ایک کمان دی۔ میں نے کہا : یہ مال نہیں ہے میں اس کے ساتھ اللہ کے راستہ میں جہاد کروں گا۔ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تجھے پسند ہے کہ تجھے اس کے بدلے آگ کا طوق پہنایا جائے تو پھر یہ قبول کرلے (1) ۔ امام مالک، امام شافعی، احمد، ابو ثور اور اکثر علماء نے قرآن کی تعلیم پر اجرت کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ حضرت ابن عباس کی حدیث۔۔۔۔ حدیث الرقیہ (دم والی حدیث) میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ان احق ما اخذتم علیہ اجراً کتاب اللہ (2) ۔ جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سے سب سے زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے۔ اس حدیث کو بخاری نے نقل کیا ہے، یہ نص ہے اختلاف کو اٹھا دیتی ہے۔ پس اس پر ہی اعتماد کرنا چاہئے، رہا مخالف کا نماز اور روزے پر قیاس تو یہ فاسد ہے کیونکہ یہ قیاس نص کے مقابل ہے۔ پھر ان کے درمیان فرق بھی ہے وہ یہ کہ نماز اور روزہ فاعل کے ساتھ مختص عبادات ہیں اور تعلیم القرآن معلم کے علاوہ کے لئے متعدی عبادت ہے۔ پس اس کو نقل کرنے کے ارادہ پر اجرت جائز ہے جیسے قرآن کی کتابت کی تعلیم پر اجرت جائز ہے۔ ابن منذر نے کہا : امام ابوحنیفہ اجرت کے ساتھ قرآن کی تعلیم کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور یہ جائز قرار دیتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کو اجرت پر لے کہ وہ اسے تختی یا شعر یا معلوم گانا معلوم اجرت پر لکھ دے گا۔ جو چیز معصیت ہے اس میں اجازرہ کو جائز قرار دیتے ہیں اور جو چیز طاعت ہے اس میں اجارہ کو باطل قرار دیتے ہیں۔ آیت کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد بنو اسرائیل میں اور شرع من قبلنا ھل ھو شرعٌ لنا (جو ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت تھی کیا وہ ہمارے لئے شریعت ہے) کے اصول میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ بھی یہ نہیں کہتے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آیت کریمہ اس شخص کے متعلق ہے جس پر تعلیم دینا متعین ہو پھر وہ انکار کرے حتیٰ کہ اس پر اجرت لے لے۔ مگر جب متعین نہ ہو تو سنت کی دلیل کے ساتھ اس پر اجرت لینا جائز ہے۔ کبھی اس شخص پر تعلیم دینا متعین ہوتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو وہ اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے تو اس پر تعلیم دینا واجب نہیں ہوتا اور اس کے لئے اپنی صنعت اور اپنے ہنر پر مال قبول کرنا جائز ہے۔ امام وقت پر واجب ہے کہ دین کی اقامت کے لئے اس کی مدد کرے ورنہ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ اس کی مدد کریں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب خلافت کے والی بنے اور خلافت کے لئے آپ کو متعین کیا گیا تو آپ کے پاس اتنا مال نہ تھا جو آپ کے گھر والوں کی کفایت کرتا۔ آپ نے کپڑے اٹھائے اور بازار کی طرف نکلے۔ آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا : میں اپنے عیال پر کہاں سے خرچ کروں، تو صحابہ کرام نے آپ کو واپس لوٹا دیا اور آپ کے لئے بقدر کفایت وظیفہ مقرر کیا۔ رہیں وہ احادیث جو انہوں نے پیش کی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو قابل حجت ہو۔ ان میں کوئی حدیث نقل کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس کی حدیث وہ سعید بن طریف نے حضرت عکرمہ سے اور حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے اور سعید متروک راوی ہے اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث علی بن عاصم نے حماد بن سلمہ سے انہوں نے ابو جرہم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے، ابو جرہم مجہول غیر معروف راوی ہے۔ حماد بن سلمہ نے کسی ایسے راوی سے روایت نہیں کیا جس کو ابو جرہم کہا جاتا ہو انہوں نے ابو المہزم سے روایت کیا ہے اور وہ بھی متروک الحدیث ہے اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ رہی حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث جو ابو داؤد نے مغیرہ بن زیاد موصلی سے انہوں نے عبادہ بن نسی سے انہوں نے اسود بن ثعلبہ سے انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے مغیرہ اہل علم کے نزدیک معروف ہے لیکن اس کی بہت سی مناکیر احادیث ہیں یہ ان میں سے ایک منکر حدیث ہے۔ یہ ابو عمر نے کہا ہے، پھر فرمایا : رہی قوس (کمان) والی حدیث یہ اہل علم کے نزدیک معروف ہے کیونکہ یہ حضرت عبادہ سے دو سندوں سے روایت کی گئی ہے اور حضرت ابی بن کعب سے موسیٰ بن علی عن ابیہ عن ابی کے سلسلہ سے مروی ہے لیکن وہ منقطع ہے۔ اس بارے میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے نقل کی جہت سے جس پر عمل واجب ہو اور حضرت عبادہ اور حضرت ابی کی حدیث تاویل کا احتمال رکھتی ہے کیونکہ یہ جائز ہے کہ پہلے انہوں نے رضائے الٰہی کے لئے تعلیم دی ہو پھر اس پر اجر لیا ہو۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، فرمایا : لوگوں میں سے بہتر اور جو زمین کی سطح پر چل رہے ہیں ان میں سے بہتر اساتذہ ہیں جب بھی دین بوسیدہ ہونے لگا تو انہوں نے اسے جلا بخشی تم انہیں اجرت پر نہ لو کہ تم انہیں تنگ کرو کیونکہ معلم جب بچے کو کہتا ہے : پڑھ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، بچہ کہتا ہے : بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تو اللہ تعالیٰ اس سے بچے کی برأت، معلم کی برأت اور اس کے والدین کی برأت لکھ دیتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اجرت پر نماز پڑھانے والے کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے۔ اشہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ ان سے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا جسے نماز پڑھانے کے لئے رمضان میں اجرت پر لیا گیا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : میں امید کرتا ہوں کہ اس میں کچھ حرج نہ ہوگی۔ فرضوں میں اس کے لئے سخت کراہت ہے۔ امام شافعی اور آپ کے اصحاب، ابو ثور نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں اور اس کے پیچھے نماز میں بھی کوئی حرج نہیں۔ امام اوزاعی نے فرمایا : اس کی نماز ہی نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب نے اس کو ناپسند کیا ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ ابن عبد البر نے کہا : یہ مسئلہ سابقہ مسئلہ سے معلق ہے اور ان دونوں کی اصل ایک ہے۔ میں کہتا ہوں : سورة برأت میں اس کی ایک اور اصل آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ابن قاسم نے شعر اور نحو کی تعلیم پر اجرت لی۔ ابن حبیب نے کہا : شعر، رسائل، تاریخ عرب کی تعلیم پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں اور وہ اشعار جن میں شراب، غنا، ہجو کا کا ذکر ہو وہ مکروہ ہیں۔ ابو الحسن لخمی نے کہا : اس قول پر کتب پر اجرت لینا اور کتب کو بیچنے کا جواز لازم آتا ہے، لیکن غنا اور نوحہ ہر حال میں ممنوع ہے۔ مسئلہ نمبر 4: دارمی ابو محمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے بتایا، انہوں نے فرمایا : ہمیں محمد بن عمر بن کمیت نے بتایا انہوں نے فرمایا : ہمیں علی بن وہب الہمدانی نے بتایا، انہوں نے فرمایا : ہمیں ضحاک بن موسیٰ نے بتایا، انہوں نے فرمایا : سلیمان بن عبد الملک مدینہ طیبہ سے گزرا وہ مکہ مکرمہ جا رہا تھا۔ وہ مدینہ طیبہ میں کچھ دن ٹھہرا۔ اس سے پوچھا گیا : مدینہ طیبہ میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے نبی کریم ﷺ کے کسی صحابی سے ملاقات کی ہو ؟ لوگوں نے کہا : ابو حازم ہے۔ سلیمان نے ابو حازم کو بلایا۔ جب وہ اس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا : اے ابو حازم ! یہ جفا کیا ہے ؟ ابو حازم نے کہا : اے امیر المومنین ! تو نے کون سی جفا مجھ سے دیکھی ہے ؟ سلیمان نے کہا : تمام اہل مدینہ میرے پاس آئے اور تو میرے پاس نہ آیا۔ ابو حازم نے کہا : اے امیر المومنین ! میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تو وہ کہے جو ہوا نہیں ہے، میں نے اس دن سے پہلے نہ تجھے پہچانا ہے اور نہ میں نے تجھے دیکھا ہے۔ سلیمان، محمد بن شہاب زہری کی طرف متوجہ ہوا تو زہری نے کہا : شیخ نے صحیح کہا ہے اور تو نے غلطی کی ہے۔ سلیمان نے کہا : اے ابو حازم ! کیا وجہ ہے کہ ہم موت کو ناپسند کرتے ہیں ؟ ابو حازم نے کہا : کیونکہ تم نے اپنی آخرت کو خراب کردیا ہے اور دنیا کو آباد کیا ہے۔ پس تم آبادی سے خرابی کی طرف منتقل ہونے کو ناپسند کرتے ہو۔ سلیمان نے کہا : اے ابو حازم ! تو نے صحیح کہا، کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیسے آئیں گے ؟ ابو حازم نے کہا : جو نیکو کار ہے وہ اس غائب شخص کی طرح آئے گا جو اپنے گھر والوں کے پاس آیا ہے اور جو بدکار ہے وہ بھاگے ہوئے غلام کی طرح آئے گا جو اپنے آقا کے پاس آتا ہے۔ سلیمان رونے لگا اور کہا : کاش ! میرا شعور کام کرتا۔ ہمارے لئے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئے کیا ہے ؟ ابوحازم نے کہا : اپنے اعمال کو کتاب اللہ پر پیش کرو۔ سلیمان نے پوچھا : میں کون سا مکان پاؤں گا ؟ ابو حازم نے کہا : ان الابرار لفی نعیم۔ وان الفجار لفی جحیم۔ (انفطار) (بےشک نیک لوگ عیش و آرام میں ہوں گے اور یقیناً بدکار جہنم میں ہوں گے) سلیمان نے کہا : اے ابو حازم ! اللہ تعالیٰ کی رحمت کہا ہے ؟ ابو حازم نے کہا : رحمت اللہ قریب من المحسنین۔ (اعراف) ( اللہ کی رحمت قریب ہے محسنین کے) ۔ سلیمان نے کہا : اے ابو حازم ! اللہ کے کون سے بندے معزز ہیں ؟ ابو حازم نے کہا : صاحب مروت اور صاحب عقل۔ سلیمان نے کہا : کون سے اعمال افضل ہیں ؟ ابو حازم نے کہا : محارم سے اجتناب کے ساتھ فرائض کا ادا کرنا۔ سلیمان نے کہا : کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے ؟ ابو حازم نے کہا : جو شخص اپنے محسن کے لئے کرتا ہے۔ سلیمان نے پوچھا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ ابو حازم نے کہا : مسکین سائل کے لئے اور کم مال والے محنتی کے لئے جس میں احسان اور اذیت نہ ہو۔ سلیمان نے کہا : کون سا قول زیادہ بہتر ہے ؟ ابو حازم نے کہا : اس کے سامنے حق کا کلمہ کہنا جس سے تو ڈرتا ہے یا جس سے تو امید رکھتا ہے۔ سلیمان نے پوچھا : کون سا مومن عقلمند ہے ؟ ابو حازم نے کہا : وہ جو اللہ کی طاعت کا عمل کرے اور طاعت پر لوگوں کی رہنمائی کرے۔ کون سا مومن احمق ہے ؟ ابو حازم نے کہا : وہ جو اپنے بھائی کی خواہش میں گرگیا حالانکہ وہ ظالم تھا، اس نے اپنی آخرت کو غیر کی دنیا کے بدلے بیچ ڈالا۔ سلیمان نے اس سے کہا : تو نے صحیح کہا۔ ہم جس حالت میں ہیں اس کے متعلق تو کیا کہتا ہے ؟ ابو حازم نے کہا : اے امیر المومنین ! کیا تو مجھے معاف کر دے گا ؟ سلیمان نے کہا : نہیں لیکن یہ تو نصیحت ہے جو تو مجھے پہنچائے گا۔ ابو حازم نے کہا : اے امیر المومنین ! تیرے آباء نے تلوار کے ساتھ لوگوں پر جبر کیا اور مسلمانوں کی رضا اور مشورہ کے بغیر یہ ملک انہوں نے سختی سے حاصل کیا حتیٰ کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا وہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ کاش ! تجھے شعور ہوتا جو انہوں نے کہا اور جو ان کے بارے میں کہا گیا۔ بادشاہ سلیمان کے ایک حواری نے کہا : اے ابو حازم ! تو نے بہت بری بات کی۔ ابو حازم نے کہا : تو نے جھوٹ بولا اللہ تعالیٰ نے علماء سے عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حقائق بیان کریں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں۔ سلیمان نے کہا : ہم کیسے اصلاح کریں ؟ ابو حازم نے کہا : ڈینگیں مارنا چھوڑو، مروت کو پکڑو اور برابر تقسیم کرو۔ سلیمان نے پوچھا : ہم ٹیکس کیسے لیں ؟ ابوحا زم نے کہا : جس سے لینا جائز ہے ہے اس سے وصول کرو اور جو حقدار ہے اسے پہنچاؤ۔ سلیمان نے کہا : اے ابو حازم ! کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ تو ہمارے ساتھ رہے تو ہم سے فائدہ اٹھائے، ہم تجھ سے فائدہ اٹھائیں ؟ ابو حازم نے کہا : اعوذ باللہ (میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں) سلیمان نے پوچھا : ایسا کیوں ؟ ابو حازم نے کہا : مجھے اندیشہ ہے کہ میں تمہاری طرف کسی تھوڑی سی چیز کو جھکادوں اور اللہ تعالیٰ مجھے دنیا وآخرت کا دوہرا عذاب دے۔ سلیمان نے کہا : اپنی ضروریات ہمیں پیش کرو۔ ابو حازم نے کہا : تو مجھے آگ سے بچا لے اور مجھے جنت میں داخل کر دے۔ سلیمان نے کہا : یہ تو میری قدرت میں نہیں۔ ابو حازم نے اسے کہا : مجھے تجھ سے اور تو کوئی حاجت نہیں۔ سلیمان نے کہا : تم میرے لئے دعا کرو۔ ابو حازم نے کہا : اے اللہ ! اگر سلیمان تیرا ولی ہے تو اس کے لئے دنیا وآخرت کی خیر آسان فرمادے، اگر تیرا دشمن ہے تو اس کی پیشانی کو پکڑ لے جب تک تو پسند کرے۔ سلیمان نے کہا : یہ کافی ہے۔ ابو حازم نے کہا : میں نے مختصر دعا مانگی ہے اور اگر تو اس دعا کا اہل ہے تو میں نے زیادہ مانگ لیا ہے اور اگر تو اس کا اہل نہیں ہے تو مناسب نہیں کہ میں ایسی کمان سے مارا جاؤں جس کا وتر نہ ہو۔ سلیمان نے کہا : مجھے کوئی وصیت کیجئے۔ میں تجھے مختصر سی وصیت کروں گا، تو اپنے رب کی عظمت بیان کر اور اسے دور رکھ کہ تجھے ایسی جگہ دیکھے جہاں سے اس نے تجھے منع کیا ہے یا تجھے مفقود پائے جہاں اس نے تجھے حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ جب ابو حازم باہر نکل گیا تو سلیمان نے اس کی طرف سو دینار بھیجے اور اسے لکھا کہ تو انہیں خرچ کر اور تیرے لئے میرے پاس اس کی مثل بہت سے دینار ہیں۔ راوی فرماتے ہیں : ابو حازم نے وہ دینار واپس کر دئیے اور اسے خط لکھا : اے امیر المومنین ! میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا مجھ سے سوال کرنا مذاق ہو یا میں تیری عطا کی امید رکھوں، میں ان رقوم کو تیرے لئے پسند نہیں کرتا تو میں اپنے لئے کیسے پسند کروں گا۔ حضرت موسیٰ بن عمران جب مدین کے پانی پر وارد ہوئے تو اس پانی پر چرواہوں کو اپنے جانوروں کو پانی پلاتے ہوئے پایا اور ان کے تھوڑا دور دو لڑکیوں کو پایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے وہاں کھڑے ہونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں یہاں تک کہ چرواہے واپس چلے جائیں۔ ہمارا باپ بوڑھا آدمی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی بکریوں کو پانی پلایا پھر سائے کی طرف لوٹ گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ اے میرے رب ! میں محتاج ہوں اس کا جو تو میری طرف خیر میں سے اتارے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ بھوکے بھی تھے اور خوفزدہ بھی تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سوال کیا لوگوں سے سوال نہ کیا اور نہ آپ نے چرواہوں کو اپنا مسافر ہونا جتایا۔ وہ بچیاں آپ کی کیفیت پہچان گئی تھیں۔ جب وہ دونوں لڑکیاں اپنے باپ کے پاس آئیں تو سارا واقعہ انہیں عرض کیا اور جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا مانگی تھی وہ بھی بتائی۔ ان بچیوں کے والد، جو حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے انہوں نے کہا : وہ شخص بھوکا تھا۔ حضرت شعیب نے ایک بچی سے کہا : تو جا اور اس شخص کو بلا کرلے آ۔ جب وہ بچی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئی تو اس نے ان کی عظمت کو دیکھا اور اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور کہا : میرے والد صاحب تمہیں بلا رہے ہیں تاکہ آپ کو ہمارے لئے پانی پلانے کا اجر عطا فرمائیں۔ جب اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی پلانے کے اجر کا ذکر کیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بہت شاق گزرا، آپ نے اس بچی کے ساتھ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا کیونکہ آپ پہاڑوں کے درمیان بھوکے اور خوفزدہ تھے۔ جب آپ اس کے پیچھے چلے تو ہوا چل پڑی، اس کے کپڑے اس کی پیٹھ کے ساتھ چپک گئے اور اس کا پچھلا حصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ظاہر ہونے لگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کبھی نظر اوپر اٹھاتے کبھی جھکا دیتے جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو آواز دی : اے اللہ کی بندی ! میرے پیچھے ہوجا اور اپنی زبان سے میری رہنمائی کر۔ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو وہ کھانا کھانے کے لئے تیار تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : اے نوجوان ! بیٹھ اور کھانا کھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے پوچھا : کیوں کیا تو بھوکا نہیں ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : کیوں نہیں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ میرے پانی پلانے کا عوض نہ ہوجائے۔ میں اہل بیت سے ہوں ہم اپنے دین کو زمین بھر سونے کے عوض نہیں بیچتے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں کہا : اے نوجوان ! ایسا نہیں لیکن یہ میری اور میرے آباء کی عادت ہے ہم مہمان نوازی کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیٹھ گئے اور کھانا کھالیا۔ ابو حازم نے کہا : یہ سو دینار میری گفتگو کا عوض ہیں تو مردار، خون اور خنزیر کا گوشت حالت اضطرار میں حلال ہوتا ہے، اور اگر یہ بیت المال میں حق کی وجہ سے ہے تو اس میں میرے جیسے اور لوگ بھی ہیں۔ اگر تو نے ہمارے درمیان برابری کی ہے تو فبھا ورنہ مجھے اس رقم کی ضرورت نہیں ہے (1) ۔ میں کہتا ہوں : اس طرح کتاب اور انبیاء کرام کی اقتدا ہوتی ہے۔ اس امام فاضل عالم کو دیکھو کیسے اس نے اپنے عمل پر عوض نہیں لیا اور نہ ہی اپنی وصیت کا بدل لیا اور نہ اپنی نصیحت پر بخشش لی بلکہ انہوں نے حق کو بیان کیا اور ڈنکے کی چوٹ پر بیان کیا۔ اس بارے میں اسے کوئی گھبراہٹ اور پریشانی لاحق نہ ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کسی کی ہیبت حق کہنے یا حق کو قائم کرنے سے نہ روکے جہاں بھی ہو (1) ۔ قرآن حکیم میں ہے : یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم (المائدہ :54) (جہاد کریں گے اللہ کی راہ میں اور نہ ڈریں گے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وایای فاتقون تقویٰ کا معنی پہلے گزر چکا ہے، فاتقونی یا کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، سہل بن عبد اللہ نے کہا : وایای فاتقون تمہارے بارے میں مجھے ازلی علم ہے اس لئے مجھ سے ڈرو۔ وایای فارھبون۔ یہ استدراج اور تدبیر کے مقام پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سنستدرجھم من حیث لا یعلمون۔ (اعراف) (ہم انہیں بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے اس طرح کہ انہیں علم تک نہ ہوگا) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا یامن مکر اللہ الا القوم الخسرون۔ (الاعراف) (پس نہیں بےخوف ہوتے اللہ کی خفیہ تدبیر سے سوائے اس قوم کے جو نقصان اٹھانے والی ہوتی ہے) کسی نبی اور صدیق کا استثناء نہیں فرمایا۔
Top