Al-Qurtubi - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
(یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کیے دیتے ہو حالانکہ تم کتاب (خدا) بھی پڑھتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
آیت نمبر 44 اس میں نو مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اتامرون الناس بالبر یہ استفہام ہے اس کا معنی زجروتوبیخ ہے (1) اور اہل تاویل کے نزدیک اس سے مراد علماء یہود ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : مدینہ طیبہ کے یہودی اپنے کسی سسرالی رشتہ والے یا کسی قرابت دار یا کسی رضاعی رشتہ دار کو کہتے جو مسلمانوں میں سے ہوتا تو اس دین پر قائم رہ جس پر تو ہے، جس کا تجھے یہ شخص حکم دیتا ہے اس سے ان کی مراد حضرت محمد ﷺ ہوتے۔ کیونکہ اس کا امر حق ہے وہ لوگوں کو اس کا حکم دیتے تھے اور خود ایسا نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہود کے علماء اپنے مقلدین اور اپنے پیروکاروں کو تورات کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور حضرت محمد ﷺ کی صفات کے انکار میں تورات کی مخالفت کرتے تھے (2) ۔ ابن جریج نے کہا : علماء یہود لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ابھارتے تھے اور خود گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ ایک گروہ نے کہا : وہ لوگوں کو صدقہ پر ابھارتے تھے اور خود گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ ایک گروہ نے کہا : وہ لوگوں کو صدقہ پر ابھارتے تھے اور خود بخل کرتے تھے (3) ۔ یہ تمام معانی قریب قریب قریب ہیں۔ بعض اہل اشارات نے فرمایا : اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم لوگوں سے معانی کے حقائق کا مطالبہ کرتے ہو اور تم اس کے نقوش کے ظاہر کی مخالفت کرتے ہو۔ مسئلہ نمبر 2: جس شخص کی یہ صفت ہو وہ سخت عذاب میں ہوگا۔ حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں کچھ لوگوں کے اوپر سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے کہا : اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ جبریل نے کہا : یہ اہل دنیا کے خطباء ہیں لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں حالانکہ یہ کتاب کی تلاوت کرتے ہیں کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے (4) کہا جائے گا : تم کون ہو ؟ وہ کہیں گے : ہم وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے۔ میں کہتا ہوں : اس حدیث میں اگرچہ کمزوری ہے کیونکہ اس کی سند میں خصیب بن جحد رہے امام احمد اسے ضعیف کہتے تھے۔ اس طرح ابن معین نے یہ حدیث ابو غالب عن ابی امامہ صدی بن عجلان الباہلی کے سلسلہ سے روایت کی ہے۔ ابو غالب وہ جس کے بارے میں یحییٰ بن معین نے بیان کیا ہے کہ حزور القرشی مولیٰ خالد بن عبد اللہ بن اسید ہے۔ بعض نے فرمایا : باہلہ کا غلام تھا بعض نے فرمایا : عبد الرحمن حضرمی کا غلام تھا۔ تجارت کے لئے شام میں آتا جاتا تھا۔ یحییٰ بن معین نے کہا : یہ صالح الحدیث ہے۔ مسلم نے اپنی صحیح میں اس حدیث کے ہم معنی حضرت اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا : قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا پھر اسے دوزخ میں ڈالا جائے گا پھر جلدی سے اس کے پیٹ سے انتڑیاں باہر آجائیں گی وہ ان کے اردگرد اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے اردگرد گھومتا ہے، دوزخی لوگ اس پر جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے : اے فلاں ! تجھے کیا ہوا کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے منع نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں میں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود نیکی نہیں کرتا تھا اور برائی سے منع کرتا تھا لیکن خود برائی سے رکتا نہیں تھا (1) (آگے مصنف نے حدیث کے الفاظ کا مفہوم بیان کیا ہے میں نے وہ حدیث کے ترجمہ میں لکھ دیا ہے) میں کہتا ہوں : یہ حدیث اور آیت کریمہ کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جو نیکی اور بدی کو جانتا ہے اور ہر ایک کے قیام کے وجوب سے باخبر ہے اسے بےعلم سے زیادہ سزا ملے گی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حرمات کی اہانت کرنے والا ہے اور اس کے احکامات کو خفیف سمجھنے والا ہے اور وہ ان لوگوں سے ہے جو اپنے علم سے نفع حاصل نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس عالم کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے اپنے علم سے نفع نہیں پہنچایا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے (2) ۔ مسئلہ نمبر 3: اے قاری ! اللہ تجھے توفیق بخشے ! جان لے کہ اس آیت میں توبیخ نیکی کے فعل کے ترک کے سبب سے ہے نہ کہ نیکی کے حکم کے سبب ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس قوم کی مذمت فرمائی ہے جو نیک اعمال کا حکم دیتے ہیں اور ان پر خود عمل نہیں کرتے انہیں سخت توبیخ فرمائی ہے جو قیامت تک سارا زمانہ پڑھی جائے گی۔ فرمایا : اتامرون الناس بالبر منصور الفقیہ نے کہا اور خوب کہا : ان قوماً یامرونا بالذی لا یفعلونا لمجانین وان ھم لم یکونوا یصرعونا بے شک ایک قوم ہمیں اس بات کا حکم دیتی ہے جسے وہ خود نہیں کرتے۔ وہ نادان ہیں اگرچہ وہ گرتے نہیں ہیں۔ ابو العتابیہ نے کہا : وصفت التقی حتی کا نک ذوتقی وریح الخطایا من ثیابک تسطع تو نے تقویٰ کی اس طرح صفت بیان کی حتیٰ کہ یوں لگا کہ تو صاحب تقویٰ ہے جبکہ تیرے کپڑوں سے گناہوں کی بدبو چھائی ہوئی ہے ابو الاسود الاؤلی نے کہا : لائنہ عن خلق وتاتی مثلہ عارٌ علیک اذا فعلت عظیم وأبداً بنفسک فانھا عن غیھا فان انتھت عنہ فانت حکیم وھناک یقبل ان و عظمت ویقتدی بالقول منک وینفع التعلیم تو ایسے خلق سے منع نہ کر جبکہ خود تو ایسا کرے، جب تو ایسا کرے گا تو تجھ پر یہ بڑی عار ہوگا۔ تو اپنے نفس سے آغاز کر اسے گمراہی سے روک اگر تیرا نفس گمراہی سے رک جائے گا تو تو حکیم ہوگا۔ اس وقت تیری بات قبول کی جائے گی اگر تو وعظ کرے گا اور تیری بات کی اقتدا کی جائے گی اور تعلیم نفع دے گی۔ ابو عمرو بن مطر نے کہا : میں ابو عثمان الحیری الزاہد کی مجلس میں حاضر تھا۔ وہ گھر سے باہر آئے اور اس جگہ بیٹھ گئے جہاں وہ وعظ ونصیحت کے لئے بیٹھا کرتے تھے، وہ خاموش بیٹھے رہے حتیٰ کہ ان کی خاموشی لمبی ہوگئی۔ ایک شخص نے انہیں آواز دی جو ابو العباس کے نام سے مشہور تھے تو اپنے سکوت میں کچھ کہنا چاہتا ہے۔ تو ابو عثمان نے یہ شعر پڑھا : وغیر تقی یامر الناس بالتقی طبیب یداوی و الطبیب مریض جو خود غیر متقی ہے وہ لوگوں کو تقویٰ کا حکم دیتا ہے، طبیب لوگوں کا علاج کرتا ہے حالانکہ طبیب خود مریض ہے۔ ابو عمرو نے کہا : رونے اور چیخنے کے ساتھ آوازیں بلند ہوگئیں۔ مسئلہ نمبر 4: ابراہیم النحعی نے کہا : تین آیات کی وجہ سے میں وعظ ونصیحت ناپسند کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اتامرون الناس بالبر (الایۃ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لم تقولون ما لا تفعلون۔ ( الصف) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما ارید ان اخالقکم الیٰ ما انھکم عنہ (ہود :88) ( میں ارادہ نہیں کرتا کہ میں تمہاری مخالف کروں جس سے میں تمہیں منع کرتا ہوں) ۔ مسلم بن عمرو نے کہا۔ ما أقبع التذھید من واعظ یزھد الناس ولا یزھد لو کان فی تزھیدہ صادقاً اضحیٰ وامسیٰ بیتہ المسجد ان رفض الدنیا فیما بالہ یستمنح الناس ویسترفد والرزق مقسوم علی من تری ینال الابیض والاسود اس واعظ کا لوگوں کو زہد کی تلقین کرنا کتنا برا ہے جو لوگوں کو زہد کی تلقین کرتا ہے اور خود زہد اختیار نہیں کرتا، اگر وہ زہد کی تلقین میں سچا ہوتا تو صبح وشام اس کا گھر مسجد ہوتا۔ اگر وہ دنیا کو چھوڑ چکا ہوتا تو وہ لوگوں سے عطیہ طلب نہ کرتا اور بخشش نہ مانگتا۔ رزق تقسیم ہوچکا ہے ان لوگوں پر جنہیں تو دیکھتا ہے، سفید اور سیاہ اسے حاصل کر رہا ہے۔ حسن نے مطرف بن عبد اللہ سے کہا : اپنے دوستوں کو نصیحت کرو۔ مطرف نے کہا : میں وہ کہنے سے ڈرتا ہوں جو میں کرتا نہیں۔ حسن نے کہا : اللہ تجھ پر رحم فرمائے، ہم میں سے کون ہے جو وہی کرتا ہے جو وہ کہتا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ وہ اپنے اس حال کے ساتھ کامیاب ہوجائے، کوئی شخص نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے منع نہ کرے۔ امام مالک نے ربیعہ بن ابی عبد الرحمٰن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت سعید بن جبیر کو یہ فرماتے سو کہ اگر آدمی نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے منع نہ کرے تاکہ اس میں کوئی ایسی بات نہ پائی جائے تو پھر کوئی نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے منع نہ کرے۔ امام مالک نے فرمایا، انہوں نے سچ فرمایا، کون ہے وہ جس میں ایسی بات نہ ہو ( یعنی ہر شخص نیکی کا حکم دیتا ہے اور خود پوری طرح نیکی نہیں کرتا۔ ) مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے بالبر یہاں البر سے مراد طاعت اور عمل صالح ہے۔ البر کا معنی سچائی بھی ہے۔ البر، لومڑی کے بچے کو بھی کہتے ہیں۔ البرء بکریوں کے ہانکنے کو بھی کہتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں : لا یعرف ھراً من برٍ یعنی بکریوں کے چرواہے نہیں جانتے کہ کون بکریوں کو ہانک کرلے گیا ہے (اور اس کا لفظ معنی ہے : وہ بلی اور چوہے میں فرق نہیں کرسکتا) یہ مشترک لفظ ہے۔ شاعر نے کہا : لا ھم رب ان بکراً دونکا یبرک الناس ویفجرونکا “ یترک الناس ” سے شاعر نے یہ ارادہ کیا ہے لوگ تجھے عطیہ دیتے ہیں۔ مابعد شعر میں البر کا معنی دل ہے۔ اکون مکان البر منہ ودونہ واجعل مالی دونہ واوامرہ البربا کے ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی معروف ہے (یعنی گندم) اور با کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی اجلال اور تعظیم کرنا ہے۔ اسی سے ہے ولد برٌوبار یعنی بچہ اپنے والدین کی تعظیم کرتا ہے اور ان کی عزت کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتنسون انفسکم اپنے آپ کو ترک کرتے ہیں۔ النسیان (نون کے کسرہ کے ساتھ) اس کا معنی کبھی ترک کرنا ہوتا ہے اور یہاں یہی معنی مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نسوا اللہ فنسیھم (توبہ :67) (جب انہوں نے بھلا دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کردیا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلما نسوا ما ذکروا بہ (انعام :44) (جب انہوں نے بھلا دیا اسے جس کے ساتھ نصیحت کی گئی تھی ) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تنسوا الفضل (البقرہ : 237) اور تم آپس میں فضل کو نہ بھولو۔ یہ یاد اور حفظ کا متضاد ہے۔ اسی مفہوم میں حدیث ہے نسی آدم فنسیت ذریتہ (1) ، حضرت آدم بھولے تو آپ کی اولاد بھی بھولی۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ کہا جاتا ہے : رجل نسیان، کسی چیز کو بہت زیادہ بھولنے والا شخص۔ وقد نسیت الشیء نسیاتاً (بکسر نون کہے گا) تو نسیاناً نہیں کہے گا۔ کیونکہ النسیان، یہ نسا کا تثنیہ ہے جس کا معنی رگ ہے۔ انفس یہ نفس کی جمع ہے اور جمع قلت ہے۔ النفس کا معنی روح بھی ہے۔ کہا جاتا ہے : خرجت نفسہ اس کی روح نکل گئی۔ ابو خراش نے کہا : نجا سالم والنفس منہ بشدقہ ولم ینج الاجفن سیف ومئزراً سالم نے نجات پائی جبکہ اس کی سانس اس کے ہونٹ کے کنارے پر تھی اور اس نے تلوار کی میان اور چادر کے ساتھ نجات پائی۔ النفس سے مراد روح ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے : اللہ یتوفیٰ الانفس حین موتھا (الزمر : 42) (اللہ تعالیٰ قبض کرتا ہے روحوں کو جن کی موت کا فیصلہ کرتا ہے ) ۔ اکثر علماء کے نزدیک اس آیت میں الانفس سے مراد ارواح ہیں۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ حضرت بلال نے نبی کریم ﷺ سے کہا تھا : اخذ بنفسی یا رسول اللہ الذی اخذ بنفسک۔ (1) میری روح کو بھی اس نے قبض کرلیا جس نے آپ کی روح کو قبض کرلیا۔۔۔۔ یہ ابن شہاب کی حدیث میں ہے، اور حضرت زید بن اسلم کی حدیث میں ہے : ان اللہ قبض ارواحنا ولو شاء لرد ھا الینا فی حین غیر ھذا۔۔۔۔ (2) اللہ تعالیٰ نے ہماری روحوں کو قبض کرلیا اگر وہ چاہتا تو اس وقت کے علاوہ ہماری طرف انہیں لوٹا دیتا، یہ دونوں روایات امام مالک نے روایت کی ہیں۔ یہ معنی اولیٰ ہے جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا ہے۔ النفس سے مراد خون بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : سالت نفسہ اس کا خون بہہ پڑا۔ شاعر نے کہا : تسیل علی حد السیوف نفوسنا ولیست علی غیر ظبات تسیل ہمارے خون تلواروں کی انیوں پر بہتے ہیں، تلواروں کی انیوں کے بغیر یہ بہتے ہی نہیں۔ ابراہیم نخعی نے کہا : ما لیس لہ نفس سائلۃ وہ جانور جس کا بہنے والا خون نہیں ہوتا وہ پانی میں مرجائے تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ النفس سے مراد جسد بھی ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا : نبئت ان بنی سحیم ادخلوا ابیاتھم تامور نفس المنذر مجھے بتایا گیا ہے کہ بنی سحیم نے اپنے گھروں میں منذر کے جسم کا خون داخل کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وانتم تتلون الکتب جو سمجھے تو اس کے لئے یہ بڑی توبیخ ہے۔ تتلون کا معنی پڑھنا ہے۔ الکتب سے مراد تورات ہے۔ جس نے یہود کی طرح عمل کیا وہ ان کی مثل ہے تلاوہ کی اصل اتباع ہے۔ اسی وجہ سے یہ قراءت (پڑھنے) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ بعض کلام حروف میں بعض کے تابع ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ ترتیب پر ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے : تلوتہ، تلواً میں نے اس کی اتباع کی۔ تلوت القرآن تلاوۃً ۔ میں نے قرآن کی تلاوت کی۔ تلوت الرجل تلواً کسی کو رسوا کرنا۔ التلیۃ التلاوۃ (تاء کے ضمہ کے ساتھ) اس کا معنی بقیہ ہے۔ کہا جاتا ہے : تلیت لی من حقی تلاوۃ وتلیۃ ً یعنی میں نے اپنے لئے اپنے حق سے باقی رکھا۔ اتلیت، ابقیت (میں نے باقی چھوڑا) تتلیت حقی۔ میں نے اپنے حق کا پیچھا کیا حتیٰ کہ اسے پورا وصول کرلیا۔ ابو زید نے کہا : تلی الرجل جب انسان زندگی کے آخری سانسوں میں ہو۔ مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : افلا تعقلون یعنی تم اپنے نفسوں کو ہلاکت کی جگہوں سے نہیں روکتے۔ العقل کا معنی روکنا ہے، اسی سے عقال البعیر ہے، اونٹ کی رسی جو اسے حرکت سے روکتی ہے۔ العقل کا معنی دیت ہے کیونکہ وہ مقتول کے ولی کو قاتل کے قتل سے روکتی ہے۔ اسی سے ہے : اعتقال البطن واللسان، پیٹ اور زبان کو روکنا۔ اسی وجہ سے قلعہ کو معقل کہا جاتا ہے۔ العقل، یہ جہالت کی نقیض ہے، العقل اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عربوں کی عورتیں بناتی تھیں اس کے ساتھ ہودج کو لپیٹا جاتا تھا۔ علقمہ نے کہا : عقلاً ورقماً تکاد الطیر تخطفہ کأنہ من دم اجواف مدموم سرخ، منقش کپڑا قریب تھا پرندے اسے اچک لیتے، گویا وہ پٹیوں کے خون سے سرخ کیا گیا ہے۔ المدموم سے مراد سرخ ہے اور اس شعر میں یہی معنی مراد ہے، اور المدموم سے مراد چربی سے بھرا ہوا اونٹ وغیرہ کو بھی کہتے ہیں۔ بعض نے فرمایا : یہ دو چادریں ہیں۔ ابن فارس نے کہا : وہ کپڑا جس کا نقش طول میں ہوا سے عقل کہتے ہیں اور جس کا نقش گول ہو اسے رقم کہتے ہیں۔ زجاج نے کہا : عاقل وہ ہے جو اس پر عمل کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے اور جاہل وہ ہے جو احکام الٰہیہ پر عمل نہ کرے۔ مسئلہ نمبر 9: اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عقل مخلوق اور موجود ہے نہ وہ قدیم ہے نہ معدوم ہے کیونکہ اگر معدوم ہوتی تو اس کے ساتھ متصف ہونے کے ساتھ بعض ذوات مختص نہ ہوتیں جب اس کا وجود ثابت ہے تو اس کے قدیم ہونے کا قول محال ہے کیونکہ اس بات پر دلیل قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قدیم نہیں ہے جیسا کہ بیان اسی سورت میں اور دوسری سورتوں میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ فلاسفہ کا نظریہ یہ ہے کہ عقل قدیم ہے پھر بعض فلاسفہ کہتے ہیں کہ عقل بدن میں ایک جوہر لطیف ہے اس سے اس کی شعاعیں پھیلتی ہیں جس طرح گھر میں چراغ کی شعاعیں پھیلتی ہیں۔ اس کے ذریعے معلومات کے حقائق کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جوہر بسیط ہے یعنی غیر مرکب ہے پھر اس کے محل کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ دو چادریں ہیں۔ ابن فارس نے کہا : وہ کپڑا جس کا نقش طول میں ہوا سے عقل کہتے ہیں اور جس کا نقش گول ہو اسے رقم کہتے ہیں۔ زجاج نے کہا : عاقل وہ ہے جو اس پر عمل کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے اور جاہل وہ ہے جو احکام الہٰیہ پر عمل نہ کرے۔ مسئلہ نمبر 9: اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عقل مخلوق اور موجود ہے نہ وہ قدیم ہے نہ معدوم ہے کیونکہ اگر معدوم ہوتی تو اس کے ساتھ متصف ہونے کے ساتھ بعض ذوات مختص نہ ہوتیں جب اس کا وجود ثابت ہے تو اس کے قدیم ہونے کا قول محال ہے کیونکہ اس بات پر دلیل قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قدیم نہیں ہے جیسا کہ بیان اسی سورت میں اور دوسری سورتوں میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ فلاسفہ کا نظریہ یہ ہے کہ عقل قدیم ہے پھر بعض فلاسفہ کہتے ہیں کہ عقل بدن میں ایک جوہر لطیف ہے اس سے اس کی شعاعیں پھیلتی ہیں جس طرح گھر میں چراغ کی شعاعیں پھیلتی ہیں۔ اس کے ذریعے معلومات کے حقائق کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جوہر بسیط ہے یعنی غیر مرکب ہے پھر اس کے محل کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : عقل کا محل دماغ ہے کیونکہ دماغ حس کا محل ہے۔ بعض فرماتے ہیں : اس کا محل دل ہے کیونکہ دل حیات کا معدن اور حواس کا مادہ ہے۔ عقل کے بارے میں یہ قول کہ یہ جوہر ہے، یہ فاسد ہے اس حیثیت سے کہ جو اہر ہم مثل ہوتے ہیں۔ اگر جوہر عقل ہوتا تو ہر جو ہر عقل ہوتا۔ بعض علماء نے فرمایا : عقل اشیاء کا ادراک کرنے والی ہے معانی کے حقائق میں سے اشیاء جس پر قائم ہیں۔ یہ قول اگرچہ پہلے قول کے زیادہ قریب ہے، لیکن اس جہت سے درست ہونے سے دور ہے کہ ادراک زندہ کی صفات سے ہے، اور عقل عرض ہے اس سے یہ چیز محال ہے جیسا کہ اس کا ملتذ اور مشتہیی ہونا محال ہے۔ شیخ ابو الحسن اشعری، استاذ ابو اسحاق اسفرائینی وغیرہما فرماتے ہیں : عقل، علم ہے اس دلیل سے کہ یہ نہیں کہا جاتا : عقلت و ما علمت او علمت وما عقلت (میں نے سمجھا اور جانا نہیں یا میں نے جانا اور سمجھا نہیں) قاضی ابوبکر نے کہا : واجبات کے وجود، جائزات کے جواز اور مستحیلات کے استحالہ کے علوم ضروریہ کا نام عقل ہے، یہ ابو المعالی نے “ الارشاد ” میں اختیار فرمایا ہے اور “ البرہان ” میں انہوں نے یہ اختیار فرمایا کہ عقل ایک صفت ہے جس کے ذریعے علوم کا ادراک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے قاضی کے مذہب پر اعتراض کیا اور قاضی کے مذہب کے فساد پر استدلال کیا۔ “ البرہان ” میں محاسبی سے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : عقل ایک فطرت ہے، استاذ ابوبکر نے امام شافعی، ابو عبد اللہ بن مجاہد ے سے حکایت کیا ہے کہ ان دونوں نے فرمایا : علق تمییز کا آلہ ہے۔ ابو العباس القلاسی سے حکایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : عقل تمییز کی قوت ہے۔ محاسبی سے حکایت کیا کہ انہوں نے فرمایا : عقل انوار اور بصائر ہیں پھر ان اقوال کو مرتب کیا اور چند محامل پر انہیں معمول کیا۔ فرمایا : اولیٰ یہ ہے کہ یہ نقل امام شافعی اور ابن مجاہد سے صحیح نہیں ہے کیونکہ آلہ کیونکہ آلہ تو مثبت چیز میں استعمال ہوتا ہے اور اعراض میں اس کا استعمال مجازاً ہے۔ اسی طرح جنہوں نے کہا کہ یہ قوت ہے (یہ بھی صحیح نہیں ہے) کیونکہ قوت سے صرف قدرت سمجھی جاتی ہے۔ قلانسی نے جو اطلاق کیا ہے وہ عبارات میں حجاز کی بناء پر ہے، اسی طرح محاسبی کا قول ہے عقل نہ تو صورت ہے نہ نور ہے بلکہ اس کے ذریعے انواروبصائر کو حاصل کیا جاتا ہے۔ آیت توحید کے تحت اس کے فائدہ کا بیان انشاء اللہ اسی سورت میں آئے گا۔
Top