Al-Qurtubi - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں
آیت نمبر 45 “ اور مدد لو صبر اور نماز سے اور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر عاجزی کرنے والوں کے لئے نہیں ”۔ اس آٹھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ، الصبر کا لغوی معنی روکنا ہے۔ قتل فلان صبراً ، فلاں باندھا گیا اور روکا گیا حتیٰ کہ تلف ہوگیا۔ صبرت نفسی علی الشیء میں نے اپنے آپ کو اس کام یہ روکا۔ المصبورۃ۔ وہ جس سے منع کیا گیا ہو۔ حدیث میں اس سے مراد وہ جانور ہے جو موت پر روکا گیا ہو، اسی کو المجثمہ بھی کہتے ہیں۔ عشرہ نے کہا : فصبرت عارفۃ لذالک حرۃ ترسو اذا نفس الجبان تطلع میں نے اس وجہ سے آزاد عارفہ سے اپنے آپ کو روکا جو ٹھہری ہوئی تھی جبکہ بزدل کا نفس جھانک رہا تھا۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ نے اطاعت پر صبر کرنے کا حکم دیا اور کتاب اللہ میں مخالفت سے رکے رہنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا : واصبروا۔ کہا جاتا ہے : فلاں صابر عن المعاصی جب کوئی گناہوں سے بچے اور طاعت پر قائم رہے، جو کچھ صبر کے بارے میں کہا گیا اس میں یہ قول بہتر ہے۔ نحاس نے کہا : جو مصیبت پر صبر کرے اسے صابر نہیں کہا جاتا بلکہ کہا جاتا ہے صابر علی کذا، اس پر صبر کرنے والا ہے۔ جب مطلق صابر کہا جائے تو پھر اس کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب۔ (الزمر) مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والصلوٰۃ تمام عبادات میں سے الصلوٰۃ (نماز) کو خاص طور پر ذکر فرمایا اس کے ذکر کی بلند کے لئے۔ نبی کریم ﷺ کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو آپ نماز کی طرف پناہ لیتے۔ اسی سے وہ روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کو ان کے بھائی قسم کی موت کی خبر دی گئی۔۔۔۔ بعض نے فرمایا : ان کی بیٹی کی موت کی خبر دی گئی۔۔۔۔ جبکہ وہ سفر میں تھے تو انہوں نے انا للہ وان الیہ راجعون پڑھا اور کہا یہ پوشیدہ چیز تھی اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھانپ دیا۔ یہ مؤنث تھی اللہ تعالیٰ نے اس کی کفایت فرمائی یہ اجر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ پھر راستہ سے ایک طرف ہوگئے اور نماز پڑھی۔ پھر اپنی سواری کی طرف واپس آئے اور یہ پڑھ رہے تھے واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ اس تاویل پر نماز سے مراد شریعت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : لغت میں اپنے عرف پر اس کا معنی دعا ہے۔ پس اس تاویل پر یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مشابہ ہوگی اذا لقیتم فئۃ ً فاثبتوا واذکر وا اللہ (انفال :45) کیونکہ ثبات سے مراد صبر ہے۔ ذکر سے مراد دعا ہے اور تیسرا قول مجاہد نے کیا اس آیت میں الصبر سے مراد روزہ ہے، اسی وجہ سے رمضان کو شھر الصبر کہا جاتا ہے۔ پس اس قول کی مناسبت سے روزہ اور نماز مناسب ہیں کیونکہ روزہ شہوات سے روکتا ہے اور دنیا میں دم دلچسپی پیدا کرتا ہے نماز برائیوں اور منکرات سے روکتی ہے اس میں خشوع کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس میں قرآن پڑھا جاتا ہے جو قرآن آخرت کی یاد دلاتا ہے (1) ۔۔۔۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 4: اذیتوں پر صبر کرنا اور طاعات پر صبر کرنا یہ نفس کے جہاد سے ہے اور نفس کی شہوات کو ختم کرنے اور لالچ سے اسے روکنے کے باب سے ہے۔ یہ انبیاء کرام اور صالحین کے اخلاق میں سے ہے۔ یحییٰ بن الیمان نے کہا : صبر یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا فرمایا اس کے علاوہ کی تمنا نہ کر اور رضا یہ ہے تو اپنی دنیا وآخرت کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہو۔ شعبی نے کہا : حضرت علی ؓ نے فرمایا : صبر کا ایمان سے اس طرح کا تعلق ہے جو سر کا تعلق جسم سے ہے۔ طبری نے کہا : حضرت علی ؓ نے سچ فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان دل کی معرفت، زبان کے اقرار اور عمل بالجوارح کا نام ہے جو عمل بالجوارح پر صبر نہیں کرتا وہ ایمان کے اطلاق کا مستحق نہیں ہوتا اور عمل بالشرائع پر قائم رہنا بالکل ایمان کے ساتھ اس کا وہی تعلق ہے جو سر کا جسم کے ساتھ تعلق ہے کہ انسان کا جسم مکمل نہیں ہوتا مگر یہ کہ سر موجود ہو۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ نے اعمال کی جزا کا ذکر فرمایا اور اعمال کے لئے جزا کی ایک حد ذکر فرمائی۔ فرمایا : من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (انعام : 160) (جو کوئی لائے گا ایک نیکی تو اس کے لئے دس ہوں گی) اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے کی جزا سے زیادہ بیان فرمائی۔ فرمایا : مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃٍ (البقرہ : 261) (مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں ایسی ہے جیسے ایک دانہ) اور صبر کرنے والوں کا اجر بغیر حساب کے بنایا۔ اور صبر کرنے والوں کی مدح بیان فرمائی، فرمایا : انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب۔ (الزمر) (صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بےحساب دیا جائے گا ) ۔ اور فرمایا : ولمن صبر وغفر ان ذلک لمن عزم الامور۔ (الشوریٰ ) (اور جو شخص (ان مظالم پر) پر صبر کرے اور (طاقت کے باوجود) معاف کر دے تو یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ ) بعض علماء نے فرمایا : انما یوفی الصبرون (الزمر : 10) میں صابرون سے مراد روزے دار ہیں کیونکہ صحیح سنت سے نبی کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد مروی ہے، الصیام لی وانا اجزی بہ (2) (روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا) روزے کا ثواب ذکر نہیں فرمایا جس طرح کہ صبر کی جزا ذکر نہیں فرمائی۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 6: صبر کی فضیلت۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وصف صبر سے بیان فرمایا جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ کی حدیث میں ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : لیس احدٌ اولیس شیء اصبر علی اذی سمعہ من اللہ تعالیٰ انھم لیدعون لہ ولداً وانہ لیعافیھم ویرزقھم (3) ۔ (اللہ تعالیٰ سے کوئی اذیت پر زیادہ صبر کرنے والا نہیں جسے وہ سنتا ہے، مشرک لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹا ہونے کا قول کرتے ہیں لیکن پھر وہ انہیں عافیت بھی دیتا ہے اور انہیں رزق بھی دیتا ہے۔ ) اس حدیث کو بخاری نے نقل کیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے صبر کے ساتھ وصف بیان فرمایا تو صبر سے مراد حلم ہے اور حلم سے متصف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سزا کے مستحقین کو فوری سزا نہیں دیتا اس میں تاخیر فرماتا ہے۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کا صبر کے ساتھ موصوف ہونا قرآن میں وارد نہیں ہے بلکہ حدیث حضرت ابو موسیٰ میں وارد ہے اہل سنت نے صبر کی تاویل حلم سے کی ہے۔ یہ ابن فورک وغیرہ کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں الصبور کا لفظ آیا ہے یہ مجرموں سے حلم میں مبالغہ کے اظہار کے لئے ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانھا لکبیرۃ ضمیر کے مرجع میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مرجع صرف طور پر نماز ہے کیونکہ یہ نفوس پر اتنی بھاری ہوتی ہے جتنا روزہ بھاری نہیں ہوتا، یہاں صبر سے مراد روزہ ہے اور نماز میں نفوس کی قید ہے اور روزہ میں شہوت کو ختم کرنا ہے۔ پس جو ایک شہوت سے یاد و شہوتوں سے رکا ہوا ہے وہ اس شخص کی مانند نہیں جو تمام شہوات سے روکا گیا ہے۔ پس روزہ دار کو عورتوں، کھانے اور پینے کی شہوت سے روکا جاتا ہے پھر تمام شہوات کلام، چلنے اور مخلوق سے ملنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں پھر ان اشیاء کی وجہ سے وہ تسلی پاتا ہے جن سے اسے روکا گیا ہوتا ہے، جبکہ نمازی ان تمام شہوات سے رکتا ہے، اس کے تمام اعضاء نماز کے ساتھ مقید ہوتے ہیں اور تمام شہوات سے دور ہوتا ہے۔ جب صورت حال یہ ہے تو نماز نفس پر زیادہ بھاری اور مشکل ہوئی، اسی وجہ سے فرمایا : یہ بہت بھاری ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : انھا کی ضمیر سے مراد دونوں (صبر اور نماز) ہیں لیکن اغلب سے کنایہ فرمایا اور وہ نماز ہے جیسے ارشاد فرمایا : والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ (توبہ :34) (اور جو لوگ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا، چاندی اور نہیں خرچ کرتے اسے اللہ کی راہ میں۔ ) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا راوا تجارۃًاو لھوا انفضوا الیھا (الجمہ :11) (جب دیکھا کسی تجارت یا تماشا کو تو اس کی طرف گئے) پہلی آیت میں ضمیر کو الفضۃ کی طرف لوٹایا کیونکہ وہ اغلب اور اعم ہے، اور دوسری آیت میں تجارت کی طرف لوٹایا کیونکہ وہ افضل اور اہم ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : صبر چونکہ نماز میں داخل ہے اس لئے ضمیر نماز کی طرف لوٹا دی جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ (توبہ :62) اس آیت میں لم یرضوھما نہیں فرمایا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا میں داخل ہے۔ اسی طرح شاعر نے کہا : ان شرخ الشباب والشعر الاسو دما لم یعاص کان جنونا اس شعر میں لم یعاصیا نہیں فرمایا اور ضمیر شباب کی طرف لوٹا دی کیونکہ شعر اس میں داخل ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : ضمیر ہر ایک کی طرف لوٹائی لیکن اختصار اً حذف کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وجعلنا ابن مریم وانہ ایۃً (مومنون : 50) اس آیت میں آیتین نہیں فرمایا اسی طرح شاعر کا قول ہے : فمن یک امسٰی بالمدینۃ رحلہ فأنی وقیار بھا لغریب اور ایک شاعر نے کہا : لکل ھم من الھموم سعہ والصبح والمسی لا فلاح معہ پہلے شعر میں لغریب سے مراد لغربیان ہے اور دوسرے شعر میں لا فلاح معھما مراد ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ضمیر کا مرجع عبادت ہے جو معنی کے اعتبار سے صبر اور صلاۃ کے ذکر کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے۔ بعض نے فرمایا : ضمیر کا مرجع مصدر ہے، اور وہ الاستعانۃ ہے جس کا تقاضا استعینوا ارشاد کر رہا ہے۔ بعض نے فرمایا : ضمیر کا مرجع حضرت محمد ﷺ کی اجابت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ جس چیز کی طرف بلاتے تھے ان میں سے صبر اور صلاۃ بھی ہے۔ بعض نے فرمایا : ضمیر کا مرجع کعبہ ہے کیونکہ نماز کا حکم اس کی طرف ہے۔ کبیرۃٌ سے مراد بھاری اور مشکل ہے اور یہ (ان) کی خبر ہے، غیر قرآن میں وانہ لکبیرۃ بھی جائز ہے۔ الا علی الخشعین مگر ڈرنے والوں پر نماز خفیف (ہلکی) ہے۔ ارباب المعانی نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ مگر جن کی ازل میں اجتباء اور ہدایت کے خصائص کے ساتھ تائید کی گئی ان پر بھاری نہیں۔ مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے علی الخشعین، خاشعون جمع ہے خاشع کی اس سے مراد تواضع کرنے والا ہے اور الخشوع نفس کی اس ہیئت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے اعضاء میں سکون اور تواضع ظاہر ہوتی ہے۔ قتادہ نے کہا : خشوع دل میں ہوتا ہے، اور وہ نماز میں خوف اور آنکھوں کا جھکانا ہے۔ زجاج نے کہا : الخاشع وہ ہے جس پر خشوع اور ذلت کا اثر دکھائی دے جیسے خشوع الدار بعد الاقواء، یہ اصل ہے۔ نابغہ نے کہا : رماد ککحل العین لأیا ابینہ ونؤیٌ کجذم الحوض اثلم خاشع مکان خاشعٌ ایسا مکان جس کے لئے رہنمائی نہ پائی جاسکے۔ خشعت الاصوات، یعنی آواز ساکن ہوگئیں۔ خشعت خراشی صدرہ۔ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب سینہ سے لیس دار تھوک باہر پھینکے۔ خشع لبصرہ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی اپنی نظر کو جھکا دے۔ الخشعۃ، زمین کا نرم ٹکڑا۔ حدیث پاک میں ہے : کا نت خشعۃ علی الماء ثم دحیت بعد، کعبہ پانی پر ایک نرم ٹکڑا تھا پھر بعد میں اس سے زمین پھیلائی گئی۔ بلدۃ خاشعۃ ایسا شہر جو غبار آلود ہو اس میں کوئی اترنے والا نہ ہو۔ سفیان ثوری نے کہا : میں اعمش سے خشوع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اے ثوری ! تو لوگوں کا امام بننا چاہتا ہے اور تو خشوع کو نہیں جانتا۔ میں نے ابراہیم نخعی سے خشوع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اے اعمش ! تو لوگوں کا امام بننا چاہتا ہے اور تو خشوع بھی نہیں جانتا۔ خشوع موٹی خوراک کھانا، موٹا لباس پہننا اور سر جھکانا نہیں ہے بلکہ خشوع یہ ہے کہ تو شریف اور گھٹیا کو حق میں برابر دیکھے اور ہر اس فرض کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو تجھ پر فرض ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے ایک نوجوان کو دیکھا وہ سر جھکائے ہوئے تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا : اے فلاں ! اپنا سر اٹھا کیونکہ خشوع اس سے زائد نہیں ہوتا جو دل میں ہوتا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : خشوع دل میں ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کو مسلم آدمی کے لئے نرم کرے اور تو نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہ ہو۔ یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت اچھی طرح آئے گا : قد افلح المؤمنون۔ الذین ھم فی صلاتھم خشعون۔ (مومنون) جس نے لوگوں کے لئے اس سے زیادہ خشوع ظاہر کیا جو اس کے دل میں ہے تو اس نے نفاق پر نفاق ظاہر کیا۔ حضرت سہل بن عبد اللہ نے کہا : خاشع اس وقت تک نہیں ہوگا حتیٰ کہ ہر بال اس کے جسم پر خشوع کا اظہار کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم (الزمر :23) میں کہتا ہوں : یہ خشوع محمود ہے، کیونکہ خوف جب دل کو لاحق ہوتا ہے تو ظاہر خشوع کو ثابت کرتا ہے، ایسا شخص ظاہری خشوع کو دور کرنے کا مالک نہیں ہوتا، تو اسے دیکھے گا وہ سر جھکائے ہوئے متأدب اور متذلل ہوگا۔ نیک لوگ اس قسم سے جو ان پر ظاہر ہوتا تھا اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ مذموم خشوع وہ ہے جس میں تکلف ہوتا ہے، جان بوجھ کر رونا اور سر جھکانا ہوتا ہے جیسا کہ جہلاء کرتے ہیں تاکہ انہیں عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جائے، یہ شیطان کا دھوکا ہے اور انسان کے نفس کا فریب ہے۔ حضرت حسن نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے پاس سانس لیا گویا وہ پریشان ہے۔ حضرت عمر نے اسے مکا مارا۔ حضرت عمرؓ جب بولتے تھے تو اپنی آواز سناتے تھے، جب چلتے تھے تو تیز چلتے تھے جب مارتے تھے تو سخت مارتے تھے آپ سچے احکام پر عمل کرنے والے تھے اور سچا خشوع رکھنے والے تھے۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کیا ہے، فرمایا : الخاشعون سے مراد سچے مومن ہیں۔
Top