Al-Qurtubi - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ (کسی اور طرح) مدد حاصل کرسکیں
آیت نمبر 48 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئًا یہ امر ہے اور اس کا معنی وعید ہے، تقویٰ پر کلام پہلے گزر چکا ہے۔ یوماً سے مراد ان دن کا عذاب اور ہول ہے۔ اس سے مراد قیامت کا دن ہے، یوماً کی نصب اثقوا کی وجہ سے ہے، غیر قرآن میں یوم لا تجزی اضافت کے ساتھ بھی جائز ہے۔ کلام میں حذف ہے اس میں نحویوں کا اختلاف ہے۔ بصریوں نے کہا : تقدیر عبارت اس طرح ہے : یوماً لا تجزی فیہ نفسٍ پھر فیہ کو حذف کیا گیا۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : ویوما شھدناہ سلیماً و عامراً اس دن سلیم اور عامر قبیلوں میں حاضر تھے۔ اصل میں شھدنا فیہ تھا۔ کسائی نے کہا : یہ خطا ہے فیہ کا حذف جائز نہیں لیکن تقدیر اس طرح ہے : واتقوا یوما لا تجزیہ نفس تھا پھر ضمیر کو حذف کیا گیا اور ضمیر کا حذف کرنا جائز ہے کیونکہ ظروف کا ان کے نزدیک حذف کرنا جائز نہیں ہے اور فرمایا : یہ کہنا جائز نہیں ہے : ھذا رجلاً قصدت ولا رایت رجلاً ارغب۔ جبکہ تیری مراد یہ ہو قصدت الیہ وارغب فیہ۔ فرمایا : اگر یہ جائز ہوتا تو یہ بھی جائز ہوتا : الذی تکلمت زید۔۔۔۔ یعنی تکلمت فیہ زید۔ فراء نے کہا : ضمیر اور فیہ کا حذف کرنا جائز ہے۔ مہدوی نے حکایت کیا ہے کہ سیبویہ، اخفش اور زجاج کے نزدیک دونوں وجہیں جائز ہیں۔ لا تجزی نفس عن نفس شیئًا کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کے گناہ کی وجہ سے کسی سے مؤاخذہ نہ ہوگا اور کوئی نفس دوسرے کا دفاع نہیں کرسکے گا۔ جزی عنی ھذا الامر یجزی جیسے تو کہتا ہے قضیٰ عنی۔ واجتزأت بالشیء اجتزاء کہا جاتا ہے جب تو کسی کی کفایت کرے۔ شاعر نے کہا : فان الغدر فی الاقوام عارٌ وان الحر یجزء بالکراع اقوام میں غدر عار ہے، بیشک آزاد شخص جانور کے بازو پر کفایت کرتا ہے۔ حضرت عمر ؓ کی حدیث میں ہے : اذا اجریت الماء علی الماء جزیٰ عنک۔ جب تو پیشاب کے اوپر پانی بہا دے گا تو اس پر مکان کی طہارت کا حکم جاری ہوگا تجھے اس جگہ کو دھونے کی ضرورت نہیں اور کپڑے وغیرہ کے ساتھ پانی کو خشک کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ اکثر لوگ کرتے ہیں۔ ابو بردہ بن نیار سے قربانی کے بارے میں صحیح حدیث میں ہے لن تجزی عن احد بعدک (1) ۔ یعنی تیرے علاوہ کسی کے لئے بکری کا چھوٹا بچہ کفایت نہیں کرے گا۔ لا تجزی کا معنی لا تقضی، لا تغنی اور لا تکفی ہے۔ یعنی وہ ادا نہیں کرے گا، فائدہ نہیں دے گا اور کفایت نہیں کرے گا اگر اس پر کسی کا حق نہ ہوگا اگر اس پر کسی کا حق ہوگا تو وہ اس کی نیکیوں کے اختیار کے بغیر کفایت کرے گا اور ادا کرے گا اور فائدہ دے گا۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے بھائی پر اس کی عزت وغیرہ کے سلسلہ میں ظلم کیا ہو وہ آج ہی اس سے معاف کرا لے اس سے پہلے کہ نہ کوئی دینار ہوگا اور نہ درہم ہوگا، اگر اس عمل کا صالح ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار اس سے عمل صالح لیا جائے گا اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کے گناہوں میں سے گناہ لے کر ظالم کے نامہ اعمال میں داخل کئے جائیں گے (2) ۔ یہ حدیث بخاری نے نقل کی ہے اس کی مثل مفلس کے بارے میں حدیث ہے۔ ہم نے “ تذکرہ ” میں ذکر کردی ہے۔ اسے مسلم نے تخریج کیا ہے اسے تجزنی تاء کے ضمہ اور ہمزہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ جزی اور اجزیٰ کا معنی ایک ہے۔ بعض نے ان کے درمیان فرق کیا ہے انہوں نے کہا : جزی بمعنی قضی ہے کا فا اور اجزیٰ بمعنی اغنی وکفیٰ ہے۔ اجزانی الشی یجزئنی یعنی کفانی اس نے میری کفایت کی۔ شاعر نے کہا : لو اجزأت امر العالمین ولم یکن لیجزی الا کامل وابن کامل تو نے تمام لوگوں کے معاملات کی کفایت کی اور کوئی کفایت نہیں کرتا سوائے کامل اور ابن کامل کے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا یقبل منھا شفاعۃ، شفاعۃٌ، شفع سے مشتق ہے جس کا معنی دو ہے۔ تو کہتا ہے : کان وتراً فشفعتہ شفعا وہ طاق تھا میں نے اسے جفت بنا دیا۔ اسی سے الشفعہ ہے کیونکہ اپنے شریک کی ملک کو اپنی ملک سے ملا دیتا ہے۔ الشفیع، شفعہ کرنے والے کو کہتے ہیں اور شفاعت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ناقۃ شافع ایسی اونٹنی جس کا حمل اور بچہ متواتر جمع ہوجائیں۔ تو کہتا ہے : شفعت الناقۃ شفعاً ۔ ناقۃ شفوع اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو ایک ہی مرتبہ دوہنے میں دو برتن بھرنے والی ہو۔ استشفعتہ الی فلانٍ یعنی میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ میری اس کے پاس سفارش کرے۔ تشفعت الیہ فی فلانٍ فشفعنی۔ میں نے اسے فلاں کے پاس سفارش کرنے کے لئے کہا تو اس نے میری سفارش کی۔ پس شفاعت تب ہوگی جب تیرا غیر تیرے مرتبہ اور تیرے وسیلہ کے ساتھ ملے۔ یہ حقیقت میں جس کے پاس سفارش کی گئی ہے اس کے پاس شفیع کی منزلت و مرتبہ کا اظہار ہے اور اس کی منفعت مشفوع (جس کی سفارش کی گئی ہے) کو پہنچانا ہے۔ مسئلہ نمبر 4: اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ شفاعت حق ہے۔ معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے وہ کہتے ہیں : گنہگار مومنین جو آگ میں داخل ہوں گے وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے لیکن اخبار ظاہر میں ہے کہ موحدین گنہگار انبیاء کرام کی امتوں میں سے ہوں گے انہیں ملائکہ، انبیاء، شہداء اور صالحین میں سے سفارش کرنے والوں کی سفارش پہنچے گی۔ قاضی نے معتزلہ کا رد کرتے ہوئے دو چیزوں سے استدلال کیا ہے : (1) وہ اخبار جو معنی میں متواتر ہیں۔ (2) ان اخبار کے قبول کرنے پر سلف کا اجماع۔ کسی بھی زمانہ میں کسی شخص سے ان احادیث کا انکار ظاہر نہیں ہوا۔ شفاعت پر مبنی روایات اور ان کی صحت اور قبولیت پر علماء کا اتفاق، اہل حق کے عقیدہ کی صحت اور معتزلہ کے دین کے فساد پر قطعی دلیل ہے۔ اگر وہ کہیں کہ کتاب اللہ میں ایسی نصوص وارد ہیں جو ان اخبار کو رد کرتی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما للظلمین من حمیم ولا شفیع یطاع۔ (غافر) (نہ ہوگا ظالموں کے لئے کوئی دوست نہ ایسا سفارشی جس کی سفارش مانی جائے) وہ کہتے ہیں : گناہ کبیرہ کرنے والے ظالم ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من یعمل سوءًا یجز بہ (النساء : 123) (جو عمل کرے گا برے اسے سزا ملے گی) ولا یقبل منھا شفاعۃٌ (البقرہ :48) (اس سے شفاعت قبول نہ کی جائے گی) ہم کہتے ہیں : یہ آیات ہر ظالم کے لئے عام نہیں ہیں اور عموم کے لئے وضع نہیں ہے اور یہ آیات ہر برے عمل کرنے والے اور ہر نفس کے لئے نہیں ہیں ان سے مراد کافر لوگ ہیں نہ کہ مومنین۔ اس کی دلیل وہ اخبار ہیں جو شفاعت کے متعلق وارد ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے بعض اقوام کے لئے شفاعت کو ثابت کیا ہے اور بعض اقوام سے شفاعت کی نفی کی ہے۔ کافروں کی صفت میں فرمایا : فماتنفعھم شفاعتۃ الشفعین۔ (مدثر) (اور نہ نفع دے گی انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش) اور فرمایا : ولا یشفعون الا لمن ارتضیٰ (الانبیاء :28) (اور سفارش نہیں کریں گے مگر اس کے لئے جسے وہ پسند فرمائے) اور فرمایا : ولا تنفع الشفاعۃ عندہ الا لمن اذن لہ (سبا : 23) (اور نہ نفع دے گی سفارش اس کے ہاں مگر جس کے لئے اس نے اجازت دی ہو) ہم نے ان تمام آیات سے جان لیا کہ شفاعت مومنوں کو نفع دے گی کافروں کو نفع نہ دے گی اور مفسرین کا اجماع ہے کہ اتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئًا ولا یقبل منھا شفاعۃ ٌسے مراد نفس کا فرۃ ہے نہ کہ ہر نفس، اگر ہم ہر ظالم گنہگار کے لئے عذاب کے عموم کا قول کریں بھی تو ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ اس کی دلیل وہ اخبار ہیں جو ہم نے روایت کی ہیں اور دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء (النساء : 48) (اور بخش دیتا ہے جو اس کے علاوہ ہے جس کو چاہتا ہے) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہ لا یا یبئس من روح اللہ الا القوم الکفرون۔ (یوسف) (بلاشبہ مایوس نہیں ہوتے رحمت الٰہی سے مگر کافر لوگ۔ ) اگر وہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا یشفعون الا لمن ارتضیٰ (الانبیاء : 28) اور فاسق پر تو رضا نہیں ہوتی۔ ہم کہیں گے : اللہ تعالیٰ نے لمن لا یر ضی نہیں فرمایا بلکہ لمن ارتضیٰ (الانبیاء : 28) فرمایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جن کے لئے شفاعت کو پسند کرے گا وہ توحید پرست ہوں گے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : لا یملکون الشفاعۃ الا من اتخذ عند الرحمٰن عھدًا۔ (مریم) (انہیں کوئی اختیار نہیں ہوگا شفاعت کا بجزان کے جنہوں نے خداوند رحمن سے کوئی وعدہ لے لیا ہے) نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے کیا عہد ہے ؟ فرمایا : وہ ایمان لائیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں (1) ۔ مفسرین نے کہا : مگر جس نے لا الہ الا اللہ کہا۔ اگر وہ کہیں کہ جس پر اللہ راضی ہوتا ہے وہ تو بہ کرنے والا جس نے اللہ کی بارگاہ میں لوٹنے کا عہد کیا اس کی دلیل یہ ہے کہ فرشتے ان کے لئے مغفرت کرتے ہیں۔ اور فرمایا : فاغفر للذین تابوا سبیلک (غافر :7) (بخش دے انہیں جنہوں نے (کفر سے) توبہ کی ہے اور پیروی کی ہے تیرے راستہ کی) اسی طرح انبیاء کرام کی شفاعت توبہ کرنے والوں کے لئے ہے اہل کبائر کے لئے نہیں ہے۔ ہم کہیں گے : تمہارے نزدیک اللہ پر توبہ قبول کرنا واجب ہے جب اللہ تعالیٰ گنہگار کی توبہ قبول کرے گا تو شفاعت اور استغفار کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔ اہل تفسیر کا اس بات پر اجماع ہے کہ فاغفر للذین تابوا (غافر :7) سے مراد یہ ہے کہ ان کی مغفرت فرما جنہوں نے شرک سے توبہ کی واتبعوا سبیلک (غافر :7) یعنی مومنین کے راستہ کی اتباع کی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ ان کی مغفرت کرے ان کے گناہوں سے نہ کہ شرک سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء (النساء : 48) (اور بخش دیتا ہے جو اس کے علاوہ ہے جس کو چاہتا ہے۔ ) اگر وہ کہیں کہ ساری امت نبی کریم ﷺ کی شفاعت میں رغبت رکھتی ہے، اگر یہ اہل کبائر کا خاصہ تھی تو ان کا سوال باطل ہوا۔ ہم کہیں گے ہر مسلمان رسول اللہ ﷺ کی شفاعت طلب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے رغبت رکھتا ہے کہ اسے شفاعت نصیب ہو کیونکہ ہر شخص کا عقیدہ ہے کہ وہ گناہوں سے سلامت نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر جو فرض کیا ہے وہ اسے شفاعت نصیب ہو کیونکہ ہر شخص کا عقیدہ ہے کہ وہ گناہوں سے سلامت نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر جو فرض کیا ہے وہ اسے پوری طرح ادا کرنے والا نہیں ہے بلکہ ہر شخص اپنے بارے میں نقص کا معترف ہے اسی وجہ سے ہر شخص سزا سے ڈرتا ہے اور نجات کی امید رکھتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص نجات نہیں پائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ بھی بغیر رحمت الٰہیہ کے نجات نہیں پائیں گے ؟ فرمایا : “ میں بھی نجات نہیں پاؤں گا مگر مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ڈھانپ دیا ہے (1) ”۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا یقبل ابن کثیر اور ابو عمرو نے تقبل تاء کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ شفاعت مؤنثت ہے۔ باقی قراء نے مذکر یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ کیونکہ شفاعت بمعنی شفیع ہے۔ اخفش نے کہا : تذکیر (مذکر کا صیغہ) بہتر ہے کیونکہ تو نے فعل اور فاعل کے درمیان فرق کیا ہے جس طرح کہ پیچھے فتلقیٰ ادم من ربہ کلمتٍ (البقرہ : 37) میں گزرا ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا یؤخذ منھا عدل، عدلٌ سے مراد فدیہ ہے۔ العدل عین کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی الفداء ہے اور عین کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی المثل ہے۔ کہا جاتا ہے عدلٌ وعدیل اس لئے بولا جاتا ہے جو وزن اور مقدار میں تیری مثل ہو۔ کہا جاتا ہے : عدل الشیء جو چیز قدروقیمت میں دوسری چیز کے مساوی ہو اگرچہ اس کی جنس سے نہ بھی ہو۔ العدل (عین کے کسرہ کے ساتھ) جو چیز اپنی جنس سے دوسری چیز کے مساوی ہو اور جسم میں مساوی ہو۔ طبری نے حکایت کیا ہے عرب عین کے کسرہ کے ساتھ فدیہ کے معنی میں استعمال کرتے ہیں (2) اور اعدال کا واحد عدل ہی ہے (یعنی عین کے کسرہ کے ساتھ) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا ھم ینصرون۔ یعنی ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ النصر کا معنی العون (مدد) ہے۔ الانصار، الاعوان۔ اسی سے یہ ارشاد ہے : من انصاری الی اللہ (آل عمران : 52) یعنی کون اپنی نصرت کو میری نصرت کے ساتھ ملائے گا، انتصر الرجل، آدمی نے انتقام لیا۔ النصر کا معنی آنا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے : نصرت ارض بنی فلاں، میں فلاں کی زمین میں آیا۔ شاعر نے کہا : اذا دخل شھر الحرام فودعی بلاد تمیم وانصری ارض عامر جب شہر حرام داخل ہو تو تمیم کے شہروں کو الوداع کہہ اور عامر قبیلہ کی زمین میں آ۔ النصر کا معنی بارش بھی ہے۔ کہا جاتا ہے : نصرت الارض زمین پر بارش ہوئی۔ النصر کا معنی عطا بھی ہے۔ شاعر نے کہا : وامہ واسطار سطرم سطرا لقائل یا نصر نصرًا نصرا ان سطور کی قسم جو لکھی گئی ہیں میں کہنے والا ہوں : اے عطا، عطا، عطا۔ اس آیت کا سبب جو علماء مفسرین نے ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے کہا : ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور پیارے ہیں اور انبیاء کی اولاد ہیں، ہمارے آباء ہماری سفارش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ قیامت کے روز سفارشات قبول نہیں کی جائیں گی اور نہ فدیہ لیا جائے گا۔ شفاعت، فدیہ اور نصرت کا خاص طور پر ذکر فرمایا کیونکہ ان چیزوں کے بنی آدم دنیا میں عادی ہیں۔ تکلیف میں مبتلا خلاصی نہیں پاتا مگر اس کے ساتھ کہ اس کی سفارش کی جائے، یا اس کی مدد کی جائے یا فدیہ دیا جائے۔
Top