Al-Qurtubi - Al-Baqara : 61
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآئِهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا١ؕ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌ١ؕ اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ١ؕ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ١ۗ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠   ۧ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسٰى : اے موسیٰ لَنْ نَصْبِرَ : ہم ہرگز صبر نہ کریں گے عَلٰى طَعَامٍ : کھانے پر وَاحِدٍ : ایک فَادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُخْرِجْ : نکالے لَنَا : ہمارے لئے مِمَّا : اس سے جو تُنْبِتُ : اگاتی ہے الْاَرْضُ : زمین مِنْ : سے (کچھ) بَقْلِهَا : ترکاری وَقِثَّائِهَا : اور ککڑی وَفُوْمِهَا : اور گندم وَعَدَسِهَا : اور مسور وَبَصَلِهَا : اور پیاز قَالَ : اس نے کہا اَتَسْتَبْدِلُوْنَ : کیا تم بدلنا چاہتے ہو الَّذِیْ : جو کہ هُوْ اَدْنٰی : وہ ادنی بِالَّذِیْ : اس سے جو هُوْ : وہ خَيْرٌ : بہتر ہے اهْبِطُوْا : تم اترو مِصْرًا : شہر فَاِنَّ : پس بیشک لَكُمْ : تمہارے لئے مَّا سَاَلْتُمْ : جو تم مانگتے ہو وَضُرِبَتْ : اور ڈالدی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت وَالْمَسْکَنَةُ : اور محتاجی وَبَآءُوْا : اور وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِنَ اللہِ : اللہ کے ذٰلِکَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ کَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : جو انکار کرتے تھے بِاٰيَاتِ اللہِ : اللہ کی آیتوں کا وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے النَّبِيِّیْنَ : نبیوں کا بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق ذٰلِکَ : یہ بِمَا : اس لئے کہ عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّکَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھنے والوں میں
اور جب تم نے کہا کہ موسیٰ ! ہم سے ایک (ہی) کھانے پر صبر نہیں ہوسکتا تو اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز (وغیرہ) جو نباتات زمین میں سے اگتی ہیں ہمارے لئے پیدا کر دے، انہوں نے کہا کہ بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو ؟ (اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں) تو کسی شہر میں جا اترو وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا اور (آخر کار) ذلت (و رسوائی) اور محتاجی (وبے نوائی) ان سے چمٹا دی گئی اور وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگئے یہ اس لئے کہ وہ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور (اسکے) نبیوں کو ناحق قتل کردیتے تھے (یعنی) یہ اس لیے کہ نافرمانی کئے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے
آیت نمبر 61 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ قلتم یموسیٰ لن نصبر علیٰ طعامٍ واحدٍ یہ انہوں نے تیہ کے صحراء میں کیا تھا جب وہ من وسلویٰ کھا کھا کر اکتا گئے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی شہری زندگی کو یاد کیا (1) ۔ حسن نے کہا : وہ سبزیوں، پیازوں اور دالوں کے کھانے کے عادی تھے۔ پس وہ اپنی عادت کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کی طبیعتیں، ان کی سابقہ عادت کا اشتیاق کرنے لگیں۔ انہوں نے کہا : ہم ایک جیسے کھانے پر صبر نہیں کریں گے۔ انہوں نے من وسلویٰ کو ایک کھانا کہا حالانکہ یہ دو کھانے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک کھانے کو دوسرے کے ساتھ ملا کر کھاتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے کہا : ایک کھانا۔ بعض علماء نے فرمایا : ہر دن چونکہ بار بار یہی کھانا ملتا تھا اسی وجہ سے انہوں نے اسے ایک کھانا کہا جیسے تو اس شخص کے بارے میں کہتا ہے جو روزہ، نماز اور قراءت پر مداومت اختیار کرتا ہے، وہ ایک امر پر ہے کیونکہ وہ ان تمام کاموں پر ملازمت اختیار کئے ہوئے ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : لن نصبر کا معنی یہ ہے کہ ہم تمام اغنیاء ہیں ہم میں سے کوئی دوسرے پر مدد حاصل کرنے پر قادر نہیں ہے کیونکہ ہر شخص دوسرے سے مستغنی تھا (2) ۔ وہ اسی طرح تھے یہ پہلے وہ لوگ تھے جنہوں نے غلام اور خدام بنائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : علیٰ طعامٍ طعام کا اطلاق ہر کھانے اور پینے والی چیز پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن لم یطعمہ فانہ منی (البقرہ :249) (اور جس نے نہ پیا وہ یقیناً میرے ساتھیوں میں سے ہے) اور ارشاد ہے : لیس علی الذین امنوا وعملوا الصلحت جناح فیما طعموا (المائدہ :93) (نہیں ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے کوئی گناہ نہیں (اس حکم سے پہلے) وہ کھا پی چکے۔ ) یعنی جو انہوں نے شراب پی اس کا بیان اپنے مقام پر آئے گا۔ اگر سلویٰ سے مراد شہد ہے جیسا کہ المورج نے حکایت کیا ہے تو وہ بھی مشروب ہے۔ بعض اوقات طعام کے ساتھ گندم اور کھجور کو خاص کیا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں ہے۔ فرمایا : ہم رسول اللہ کے عہد میں صدقہ فطر ایک صاع طعام یا ایک صاع جو نکالتے تھے (1) ۔ عرف اسی سے جاری ہے کہ جب کوئی کہتا ہے : ذھبت الی سوق الطعام تو اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ جگہ جہاں کھانے یا پینے کی چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ الطعم (طاء کے فتحہ کے ساتھ) جو ذائقہ دے۔ کہا جاتا ہے : طعمہ مر اس کا ذائقہ کڑوا ہے۔ الطعم جس کی بد خواہی کی جائے۔ کہا جاتا ہے : لیس لہ طعم اس کا کوئی ذوق نہیں ہے۔ وما فلانٌ بذی طعامٍ ، جب کوئی بیکار شخص ہو۔ الطعم (طاء کے ضمہ کے ساتھ) کھانا۔ ابو خراش نے کہا : ارد شجاع البطن لو تعلمینہ وأوثر غیری من عیالک بالطعم واغتبق الماء القراح فانتھٰی اذا الزاد امسی للمزلج ذاطعم شاعر نے پہلے طعم سے کھانا مراد لیا اور دوسرے طعم سے وہ چیز مراد لی جس کا شوق کیا جاتا ہے۔ طعم یطعم فھو طائم، جب کوئی کھائے اور چکھے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن لم یطعمہ فانہ منی (البقرہ :249) (یعنی جس نے نہ چکھا) فرمایا فاذا طعمتم فانتشروا (احزاب :53) (یعنی جب تم کھا چکو) ۔ رسول اللہ ﷺ نے زمزم کے بارے میں فرمایا : انھا طعام طعم و شفاء سقم یہ کھانے کا کھانا ہے اور بیمار کے لئے شفاء ہے۔ استطعمنی فلان الحدیث یعنی اس نے مجھے بات بتائی۔ اور حدیث میں ہے : استطعمنی فلان الحدیث۔ یعنی اس نے مجھے بات بتائی۔ اور حدیث میں ہے : اذا استطعمکم الامام فاطعموہ۔ جب امام تم پر اپنے خزانے کھول دے تو تم بھی اس پر کھول دو ۔ فلان ما یعطم النوم الاقائماً ، وہ شخص کھڑے کھڑے سو لیتا ہے۔ شاعر نے کہا : نعاماً بوجرۃ صفر الخدو دما تطعم النوم الا صیاماً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فادع لنا ربک یخرج لنا مما تنبت الارض بنی عامر کی لغت فادع عین کے کسرہ کے ساتھ ہے کیونکہ دو ساکنوں کا التقاء ہوگیا ہے۔ وہ معتل کو صحیح کے قائم مقام رکھتے ہیں۔ وہ محذوف کا اعتبار نہیں کرتے۔ اور یخرج کو جزم سلہ اور قل لہ کے معنی کی وجہ سے ہے۔ اخرج، یخرج۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ لام کے حذف کی تقدیر کے ساتھ دعا کے معنی میں ہے۔ زجاج نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مما میں من اخفش کے قول کے مطابق زائدہ ہے اور سیبویہ کے قول کے مطابق غیر زائدہ ہے کیونکہ کلام موجب ہے۔ نحاس نے کہا : اخفش نے یہ اس لئے کیا کیونکہ اس نے خرج کا مفعول نہیں پایا۔ اس نے ما کو مفعول بنانے کا ارادہ کیا۔ بہتر یہ ہے کہ مفعول محذوف ہو اس پر تمام کلام دلالت کر رہا ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے : یخرج لنا مما تنبت الارض ما کو لاً ۔ اس صورت میں پہلا من بعضیہ ہے اور دوسرا تخصیص کے لئے ہے۔ ومن بقلھا حرف جر کے اعادہ کے ساتھ یہ ما سے بدل ہے۔ وقثأئھا، یہ معطوف ہے اسی طرح بعد والی کلام بھی معطوف ہے، البقل۔ ہر وہ سبزی جس کا تنا نہ ہوالشجر جس کا تنا ہو۔ القثاء یہ معروف ہے۔ کبھی اس میں قاف کو ضمہ دیا جاتا ہے یہ یحییٰ بن وثاب اور طلحہ بن مصرف کی قراءت ہے (1) ۔ یہ دونوں لغتیں ہیں۔ کسرہ زیادہ ہے۔ بعض نے جمع میں قثائی کہا جیسے علباء کی جمع علابی مگر قثاء واوی ہے تو کہتا ہے : اقثأت القوم یعنی میں نے لوگوں کو کھیرے کھلائے وقثات القدر جب ہانڈی کے پانی کا ابلنا ختم ہوجائے۔ جعدی نے کہا : تفور علینا قدرھم فندیمھا ونفثؤھا عنا اذا حمیھا غلا فثأت الرجل جب کسی کو کلام یا کسی اور ذریعے سے توڑدے اور تو اس کے غصہ کو ٹھنڈا کر دے۔ عداحتی افشا، یعنی وہ دوڑا حتیٰ کہ وہ تھک گیا، اور اس نے پوری کوشش کی۔ افثأالحر، گری ڈھیلی پڑگئی۔ عرب تھوڑی سی نیکی میں مثال دیتے ہیں : ان الرثیئۃ تفثأفی الغضب۔ اس کی اصل یہ ہے کہ ایک شخص لوگوں سے ناراض ہو اور غصہ کے ساتھ ساتھ وہ بھوکا بھی تھا۔ پس انہوں نے اسے دہی یا لسی پلائی تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ الرثیئۃ، کٹھی چیز پر دوہا گیا دودھ تاکہ وہ دہی بن جائے، رثأت اللبن رثأ جب دودھ کو کٹھی چیز پر دوہا جائے تاکہ دہی بن جائے۔ اسم الرثینۃ سے ارتثأ اللبن۔ اس کا معنی ہے : دودھ دہی بن گیا۔ ابن ماجہ نے اپنی سند سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : میری والدہ موٹاپے کے لئے میرا علاج کرتی تھی۔ آپ چاہتی تھیں کہ آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجیں۔ یہ ان کے لئے ممکن نہ ہوا حتیٰ کہ میں نے کھجور کے ساتھ کھیرے کھائے تو میں اچھی طرح موٹی ہوگئی (2) ۔ یہ سند صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وفومھا۔ فوم کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ تھوم ہے کیونکہ پیاز کے مشابہ ہے یہ جو یبر نے ضحاک سے روایت کیا ہے۔ الثاء فاء سے بدل جاتی ہے جیسے کہتے ہیں : مغافیر اور مغاثیر۔ جدثٌ وجدفٌ (قبر) حضرت ابن مسعود نے ثاء کے ساتھ ثوم ہی پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہی مروی ہے۔ امیہ بن صلت نے کہا : کانت منارلھم اذ ذاک ظاھرۃً فیھا الفرا دیس والفومان والبصل ان کے گھر ظاہر تھے ان میں انگور کی بیلیں، تھوم اور پیاز تھے۔ حضرت حسان نے کہا : وانتم اناسٌ لئام الاصول طعامکم القوم والحوقل تم لوگ اصل کے اعتبار سے لیئم (کمینے) ہو تمہارا کھانا تھوم اور سبزیاں ہیں۔ یعنی تھوم اور پیاز ہے۔ یہ کسائی اور نضر بن ثمیل کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الفوم سے مراد گندم ہے۔ حضرت ابن عباس اور اکثر مفسرین سے یہی مروی ہے (3) ۔ نحاس نے اس کو پسند کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : یہ معنی بہتر ہے، جس نے یہ معنی کیا ہے وہ اعلیٰ ہے اور اس کی اسانید صحیح ہیں اور جویبر کی روایت کے لئے کوئی مثال نہیں ہے اگرچہ کسائی اور فراء نے بھی پہلے قول کو پسند فرمایا ہے کیونکہ عرب فا کو ثا سے بدل دیتے ہیں اور ابدال پر قیاس نہیں کیا جاتا۔ اور یہ عربوں کے کلام میں زیادہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس نے احیحۃ بن جلاح کا شعر پڑھا اس شخص کے لئے جس نے آپ سے فوم کا مطلب پوچھا جبکہ وہ گندم ہے : قد کنت اغنی شخصا واجداً ورد المدینۃ عن زراعۃ فوم ابن درید نے کہا : الفومۃ سے مراد خوشہ ہے۔ اس نے یہ شعر پڑھا : وقال ربئیھم لما اتانا بکفہ فومۃٌ او فومتان ان کے چوکیدار نے کہا : جب وہ ہمارے پاس آیا اس ہتھیلی میں ایک خوشہ تھا یا دو تھے۔ اور بکفہ میں ھا غیر مشبعہ حرکت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الفوم سے مراد دال ہے۔ یہ شامی لغت ہے اس کے پیچھے والے کو فامی مغیرٌ عن فومی۔ کیونکہ وہ نسب میں تبدیلی کرتے تھے جیسا کہ سہلی اور دہری نے کہا۔ کہا جاتا ہے : فوموا لنا، ہمارے لئے روٹی پکاؤ۔ فراء نے کہا : یہ قدیم لغت ہے۔ عطا اور قتادہ نے کہا : الفوم ہر اس دانے کو کہتے ہیں جس سے روٹی پکائی جائے۔ مسئلہ : علماء کا پیاز، تھوم اور بدبودار دوسری سبزیاں کھانے میں اختلاف ہے۔ جمہور علماء ان کی اباحت کے قائل ہیں کیونکہ ان کے بارے میں احادیث ثابت ہیں اور اہل ظواہر کا ایک گروہ جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض خیال کرتے ہیں وہ ایسی چیزوں کے کھانے سے منع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : ہر وہ چیز جو فرض کی طرف آنے اور فرض کے قیام سے رد کے اس کا کرنا حرام ہے اور اس کے ساتھ مشغول ہونا حرام ہے۔ انہوں نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو خبیث کہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کا وصف بیان فرمایا کہ یحرم الخبائث کہ آپ خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور جمہور کی حجت وہ حدیث ہے جو حضرت جابر سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک تھال لایا گیا جس میں سبزیاں تھیں۔ آپ نے ان سے بو محسوس کی۔ حضرت جابر نے فرمایا : آپ ﷺ کو ان سبزیوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان کو ان کے (صحابہ جو آپ کے پاس موجود تھے) قریب کردو۔ جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ صحابہ بھی اس کا کھانا ناپسند کر رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم کھاؤ کیونکہ میں ان سے باتیں کرتا ہوں جن سے تم باتیں نہیں کرتے (1) ۔ اس حدیث کو مسلم اور ابو داؤد نے نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں واضح ثبوت ہے کہ یہ آپ کے لئے نہ کھانا خاص تھا اور دوسروں کے لئے مباح تھا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ایوب سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت ابو ایوب کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کھانا تیار کیا جس میں تھوم بھی تھا۔ جب کھانا واپس حضرت ابو ایوب کے گھر بھیجا گیا تو انہوں نے نبی کریم ﷺ کی انگلیوں کے لگنے کی جگہ پوچھی تو انہیں بتایا گیا کہ آپ ﷺ نے یہ کھانا کھایا ہی نہیں۔ حضرت ابو ایوب پریشان ہوئے اور آپ کے پاس اوپر چڑھ گئے۔ پوچھا : حضور ! کیا یہ حرام ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نہیں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ حضرت ابو ایوب نے کہا میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں جسے آپ ناپسند کرتے ہیں یا فرمایا : جسے آپ نے ناپسند کیا۔ فرمایا : نبی کریم ﷺ کے پاس وحی آتی تھی یہ حرام نہ ہونے پر نص ہے۔ اسی طرح حضرت ابو سعید خدری نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے جب صحابہ نے خیبر کے حملہ اور اس کی فتح کے زمانہ میں تھوم کھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے لوگو ! جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا میں اسے حرام نہیں کرسکتا لیکن یہ ایک درخت (تھوم) ہے جسے میں ناپسند کرتا ہوں۔ یہ تمام احادیث یہ شعور دیتی ہیں کہ یہ حکم آپ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہونے میں آپ خاص تھے لیکن حدیث میں اس حکم کو اس طرح پایا کہ آپ ﷺ اور دوسرے لوگ اس میں برابر ہیں۔ جہاں فرمایا : جس نے اس سبزی تھوم سے کھایا۔۔۔ کبھی فرمایا : میں نے پیاز اور تھوم اور کر اث (بدبودار سبزی ہے) سے کھایا۔۔۔۔ وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ ملائکہ کو بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے جس سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے ایک طویل حدیث میں فرمایا : اے لوگو ! تم ان درختوں سے کھاتے ہو میں انہیں خبیث دیکھتا ہوں۔ یہ پیاز اور تھوم ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ مسجد میں کسی شخص سے ان دو چیزوں (پیاز، تھوم) کی بدبو محسوس کرتے تو اسے نکالنے کا حکم دیتے تو وہ بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ تو جوان دو (پیاز اور تھوم) میں سے کھائے اسے اچھی طرح پکا کر کھائے۔ (مسلم) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعدسھا وبصلھا، العدس معروف ہے۔ الحدسۃ وہ پھوڑا جو ان کو نکلتا ہے اور بعض اوقات اسے قتل کردیتا ہے۔ عدس خچر کو جھڑکنے کے لئے بولتے ہیں۔ عدس مالعباد علیک امارۃ نجوت وھذا تحملین طلیق العدس۔ سختی سے روندنے کو کہتے ہیں اور کوشش کو بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : عدسہ، عدس فی الارض۔ یعنی زمین میں چلا گیا۔ وعدست الیہ المنیۃ، موت اس کی طرف چلی۔ کمیت نے کہا : اکلفھا ھول الظلام ولم ازل اخا اللیل معدوساً الی وعادسا یعنی میری طرف رات کے وقت اسے چلایا جاتا ہے۔ عدس ایک لغت میں حدس بھی ہے۔ یہ جوہری نے کہا ہے۔ حضرت علی ؓ کی حدیث میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، فرمایا : دال کھاؤ کیونکہ یہ برکت والی اور مقدس ہے، یہ دل کو نرم کرتی ہے اور آنسوؤں کو زیادہ کرتی ہے، اس میں ستر انبیاء کی برکت ڈالی گئی ہے۔ ان میں آخری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں (1) یہ ثعلبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ایک دن زیتون کے تیل کے ساتھ روٹی کھاتے تھے، ایک دن گوشت کے ساتھ اور ایک دن دال کے ساتھ۔ حلیمی نے کہا : دال اور زیتون کا تیل نیک لوگوں کا کھانا ہے، اگر دال کی فضیلت نہ ہوتی، مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ضیافت اپنے شہر میں اس سے خالی نہیں ہوتی تھی، اس میں کفایت تھی۔ اس کے فوائد میں سے یہ ہے کہ یہ جسم کو ہلکا کرتی ہے اور بدن عبادت کے لئے ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس سے شہوات نہیں ابھرتیں جس طرح گوشت سے ابھرتی ہیں اور حنطۃ، دانوں میں سے دانہ ہے اور صحیح قول کے مطابق یہی فوم (گندم) ہے اور جو اس کے قریب ہے۔ اہل مدینہ کا کھانا گندم تھی جس طرح کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے شہر کا کھانا دال تھی۔ پس ان دونوں دانوں میں سے ہر ایک دانہ کے لئے کسی ایک نبی کی وجہ سے فضیلت ہے۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کبھی سیراب نہیں ہوئے درآں حالیکہ آپ ﷺ اور آپ کے گھروالے تین دن متواتر گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے۔ یہ معمول رہا مدینہ طیبہ سے لے کر وصال تک (1) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال اتستبدلون الذی ھو ادنیٰ بالذی ھو خیرٌ۔ الاستبدال کا مطلب کسی چیز کو دوسری چیز کی جگہ رکھنا۔ اسی سے بدل ہے پہلے اس کا معنی گزر چکا ہے۔ ادنی زجاج کے نزدیک الدنو سے مشتق ہے یعنی قیمت میں قرب۔ یہ عربوں کے اس قول سے ہے : ثوبٌ مقارب۔ کم قیمت کپڑا۔ علی بن سلیمان نے کہا : یہ مہموز ہے الدنی البین الدناءۃ سے مشتق ہے یعنی خسیس ترین مگر اس کے ہمزہ میں تخفیف کی گئی۔ بعض نے فرمایا : الدون سے مشتق ہے۔ گرا وا۔ اس کی اصل ادون، افعل ہے پھر اس میں قلب ھو افلع ہوا پھر واو کو طرف کلمہ میں ہونے کی وجہ سے الف سے بدلا گیا اور شاذ صورتوں میں ادنیٰ بھی پڑھا گیا ہے (2) آیت کا معنی یہ ہے کیا تم سبزیوں، ککڑیوں، تھوم، دال اور پیاز جو ادنیٰ (گھٹیا) ہیں انہیں بدلنا چاہتے ہو من وسلویٰ جگہ جو من وسلویٰ ان سے بہتر ہیں۔ ان وجوہ میں اختلاف ہے جو دوسری چیزوں میں من وسلویٰ کی فضیلت کا موجب ہیں۔ 1۔ سبزیوں کی من وسلویٰ کی نسبت کوئی اہمیت نہ تھی وہ دونوں کھانے افضل تھے۔ یہ زجاج کا قول ہے۔ 2۔ جب من وسلویٰ کا کھانا اللہ تعالیٰ کا ان پر انعام تھا اور اس نے وہ انہیں کھانے کا حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے امر کی ہمیشہ پیروی کرنا اور اس کی نعمت کا شکر کرنا آخرت میں اجر اور ذخر کا موجب تھا اور جو انہوں نے طلب کیا وہ ان خصائل میں عاریۃً تھا۔ پس اس وجہ سے وہ کھانا ادنیٰ تھا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے جو ان پر احسان فرمایا وہ زیادہ پاکیزہ اور لذیذ تھا بنسبت اس کے جو انہوں نے مطالبہ کیا۔ پس اس وجہ سے لامحالہ جو انہوں نے سوال کیا وہ ادنیٰ تھا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے جو انہیں عطا فرمایا تھا اس میں کوئی کلفت وتھکاوٹ نہ تھی اور جو انہوں نے طلب کیا وہ کھیتی باڑی اور تھکن سے ملتا تھا۔ پس یہ ادنیٰ ہوا۔ 5۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا تھا اس کے حلال ہونے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول کی وجہ سے اس کے خالص ہونے میں کوئی شک نہیں تھا اور باقی تمام دانے اور زمین جن کو بیوع اور غصب لاحق ہوتا اور ان میں شبہ داخل ہوتا ہے اس وجہ سے یہ ادنیٰ تھا۔ مسئلہ : اس آیت میں طیبات اور متلذذ کھانے کے جواز پر دلیل ہے۔ نبی کریم ﷺ حلویٰ اور شہد پسند فرماتے تھے (1) اور ٹھنڈا، میٹھا پانی پیتے تھے۔ یہ مفہوم سورة مائدہ اور سورة النحل میں تفصیل کے ساتھ آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اھبطوا مصرًا، ھبوط کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔ یہ امر کا صیغہ انہیں عاجز کرنے کے لئے ہے جیسے یہ ہے قل کونوا حجارۃً او حدیدًا۔ (الاسراء) کیونکہ وہ تیہ میں تھے اور یہ ان کے لئے سزا تھی۔ بعض نے کہا : انہوں نے جو طلب کیا وہ انہیں دیا گیا (2) مصرًا تنوین کے ساتھ نکرہ یہ جمہور کی قراءت ہے اور یہی قرآن کا خط ہے (3) ۔ مجاہد وغیرہ نے کہا : جنہوں نے اس کو منصرف بنایا انہوں نے غیر معین شہر مراد لیا۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے : اھبطوا مصرًا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : شہروں میں سے ایک شہر۔ ایک طائفہ جنہوں نے اس کو منصرف بنایا انہوں نے معین فرعون کا شہر مراد لیا۔ پہلے قول والے علماء نے ظاہر قرآن کے مقتضیٰ سے استدلال کیا ہے کہ انہیں شہر میں داخل ہونے کا حکم ہوا تھا۔ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ وہ تیہ کے بعد شام میں ٹھہرے تھے۔ اور دوسرے قول کے قائلین نے جو قرآن میں وارد ہے اس سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون کے شہروں اور آثار کا وارث بنایا تھا اور ان علماء نے اس کے منصرف ہونے کو جائز قرار دیا۔ اخفش اور کسائی نے کہا : اس کی خفت اور ھند اور دعد سے مشابہت کی وجہ سے اس کا منصرف ہونا جائز ہے۔ شعر ہے : لم تتلفع بفضل مئزرھا دعدٌ ولم تسق دعد فی العلب وعد نے اپنی اضافی چادر کے ساتھ اپنے آپ کو نہ لپیٹا اور چمڑے کے پیالے میں اسے دودھ نہ پلایا گیا۔ اس شعر میں شاعر نے دونوں لغتیں (منصرف اور غیر منصرف) جمع کی ہیں۔ سیبویہ، خلیل اور فراء اس کو جائز قرار نہیں دیتے کیونکہ اگر تو کسی عورت کا نام زید رکھ دے تو وہ منصرف نہیں ہوجائے گا۔ اخفش کے علاوہ علماء نے کہا : اس سے مراد مکان ہے اس لئے منصرف ہے۔ حسن، ابان بن تغلب اور طلحہ نے اسے مصراً غیر منصرف پڑھا ہے اسی طرح حضرت ابی بن کعب کے مصحف میں اور حضرت ابن مسعود کی قراءت میں ہے (4) ۔ انہوں نے کہا : یہ فرعون کا مصر ہے۔ اشہب نے کہا : مجھے امام مالک نے فرمایا : میرے نزدیک مصر تمہارا شہر ہے جو فرعون کا مسکن تھا۔ یہ ابن عطیہ نے ذکر کیا ہے (5) ۔ مصر کا لغوی معنی الحد ہے۔ مصر الدار (گھر کی حدود) ابن فارس نے کہا : کہا جاتا ہے کہ اہل حجر اپنی شروط میں لکھتے تھے : اشتریٰ فلان الدار بمصورھا۔ یعنی فلاں نے گھر حدود سمیت خریدا۔۔۔۔ عدی نے کہا : وجاعل الشمس مصراً لا خفاء بہ بین النھار وبین اللیل قد فصلا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان لکم ما سالتم، ما، ان کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ ابن وثاب اور نخعی نے سألتم (سین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے ) ۔ کہا جاتا ہے : سألت وسلت بغیر ہمزہ کے، یہ وادی الفاظ میں سے ہے اس کی دلیل عربوں کا قول۔۔۔۔ ہے۔ وضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ یعنی وہ ذلت ومسکنت سے ملائے گئے ان پر ان دونوں کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ضرب القباب سے مشتق ہے (1) ۔ فرزدق نے جریر کے متعلق کہا تھا : ضربت علیک العنکبوت بنسجھا وقضی علیک بہ الکتاب المنزل تجھ پر مکڑی نے اپنا جالا لگا دیا ہے اور اس کا تجھ پر فیصلہ نازل شدہ کتاب نے کیا ہے۔ ضرب الحاکم علی الید۔ یعنی اس نے اٹھایا اور لازم کیا، الذلۃ، رسوائی، المسکنۃ غربت۔ کوئی یہودی فقر اور خضوع اور ذلت سے خالی نہیں ہوگا اگرچہ وہ غنی بھی ہو۔ المسکنہ، سکون سے مشتق ہے یعنی فقر نے اس کی حرکت کو کم کردیا۔ یہ زجاج نے کہا ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : الذلہ کا معنی رسوائی ہے : المسکنۃ، المسکین کا مصدر ہے۔ ضحاک بن مزاحم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، وضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ فرمایا : ان سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وبأء و یعنی وہ لوٹے اور پلٹے۔ یہ ان کو لازم ہوگیا۔ اسی سے نبی کریم ﷺ کی دعا ہے ابؤ بنعمتک علی (2) ۔ یعنی میں تیری نعمت کا اقرار واعتراف کرتا ہوں اور اپنے نفس پر اسے لازم کرتا ہوں۔ لغت میں اس کا معنی رجوع ہے۔ کہا جاتا ہے : باء بکذا، یعنی اس کے ساتھ لوٹا۔ وباء الی المباءۃ، منزل کی طرف لوٹا۔ البواء قصاص کے ساتھ لوٹنا۔ ھم فی ھذا الامربواء، یعنی وہ اس امر میں برابر ہیں۔ وہ اس امر میں ایک معنی کی طرف لوٹتے ہیں۔ شاعر نے کہا : الا تنتھی عنا ملوک و تتقی محارمنا لا یبؤ ؤ الدم بالدم یعنی کیا بادشاہ ہم سے رکتے نہیں ہیں اور ہماری محارم سے بچتے نہیں ہیں خود خون خون کو قصاص میں لوٹاتا نہیں۔ فابوا بالنھاب وبالسبایا وابنا بالملوک مصفدینا یعنی وہ لوٹے اور ہم بھی لوٹے۔ الغضب کا معنی پہلے سورة فاتحہ میں گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک یہ علت بیان ہو رہی ہے بانھم کانوا یکفرون یعنی وہ جھٹلاتے ہیں بایت اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب کی آیات اور انبیاء کے معجزات جیسے حضرت عیسیٰ ، حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا اور حضرت محمد (علیہ السلام) یقتلون النبیین، یکفرون پر معطوف ہے۔ حسن سے مروی ہے، یقتلون پڑھنا بھی مروی ہے اور ان سے دوسرے قراء کی طرح پڑھنا بھی مروی ہے۔ نافع نے النبیئین ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے جہاں بھی یہ لفظ قرآن میں واقع ہوا ہے مگر سورة الاحزاب میں ان وھبت نفسھا للنبی ان اراد (الاحزاب :50) میں اور لا تدخلوا بیوت النبی (الاحزاب :53) میں بغیر مد اور بغیر ہمزہ کے پڑھا ہے ان دونوں جگہوں پر ہمزہ کو ترک کیا کیونکہ دو مکسور ہمزے جمع ہو رہے تھے اور باقی قراء نے پورے قرآن میں ہمزہ کو ترک کیا ہے (1) ۔ جنہوں نے ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے ان کے نزدیک یہ انباء سے مشتق ہے جس کا معنی ہے خبر دینا۔ اس کا اسم فاعل منبئ ہے (2) نبی کی جمع انبیاء ہے اور نبی کی جمع نباء بھی آئی ہے۔ عباس بن مرداس السلمی نے نبی کریم ﷺ کی مدح میں کہا۔ یا خاتم النبأء انک مرسلٌ بالحق کل ھدی السبیل ھداکا اے خاتم النبیین ! تم حق کے ساتھ مبعوث کیے گئے ہو اور ہر ہدایت کا راستہ آپ کی ہدایت سے ہے۔ یہ ہمزہ کی قراءت کا معنی ہے۔ ہمزہ کے ترک کرنے والوں میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : ہمزہ سے اشتقاق کیا پھر ہمزہ میں تسہیل کی۔ بعض نے فرمایا : یہ نبا ینبوا (ظاہر ہونا) سے مشتق ہے۔ پس النبی، نبوۃ سے جس کا معنی بلند ہونا ہے، پس نبی کا مرتبہ بلند ہے بغیر ہمزہ کے نبی سے مراد راستہ بھی ہوتا ہے رسول کو نبی کہا جاتا ہے کہ مخلوق اس سے ہدایت حاصل کرتی ہے جیسے راستہ سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ شاعر نے کہا : لا صبح رتماً دقاق الحصی مکان النبی من الکاثب رتمت الشیء میں نے اسے توڑ دیا۔ کہا جاتا ہے : رتم انفہ ورثمہ، یعنی تا اور ثا دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ الرتم کا مطلب المرتوم یعنی ٹوٹا ہوا بھی ہے، الکاثب پہاڑ کا نام ہے۔ انبیاء ہمارے زمین میں راستوں کی مانند ہیں۔ روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے کہا : السلام علیک یا نبئ اللہ ہمزہ ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لست بنبئ اللہ۔ لیکن میں نبی اللہ (بغیر ہمزہ کے) ہوں۔ ابو علی نے کہا : اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، اور اس کے ضعف کو جو چیز مزید قوت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مدح کرنے والے نے نبی کریم ﷺ کی اس طرح مدح کی یا خاتم النباء۔۔۔۔ الخ۔ اور اس پر آپ ﷺ کا انکار مروی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بغیر الحق، برائی اور جو انہوں نے جرم کیا تھا اس کی بڑائی بیان کرنا ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ دلیل ہے کہ حق کے ساتھ ان کو قتل کرنا صحیح ہوگا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ معصوم ہوتے ہیں اس سے کہ ان سے کوئی ایسا قول یا فعل صادر ہو جس کی وجہ سے انہیں قتل کیا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے حقیقت ایسی نہیں ہے۔ یہ کلام اس انداز میں کیا گیا ہے کہ انبیاء کا قتل ظلم ہے اور حق نہیں ہے۔ ان پر مذمت کی زیادتی کے لئے یہ فرمایا ہے یہ معلوم شدہ ہے کہ کسی نبی کو حق کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا لیکن حق کے خلاف قتل کیا جائے گا۔ بغیر الحق سے ان کے گناہ کی برائی اور اس کے واضح ہونے کی تصریح فرمائی۔ نبی سے کبھی ایسی بات سرزد نہیں ہوتی کہ اس کے قتل کا موجب بنے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ انبیاء کی کرامت اور ان کے مقامات میں زیادتی کے لئے تھا جیسے مومنین میں سے جو اللہ کے راستہ میں شہید کیا جاتا ہے (تو اسے مرتبہ ملتا ہے) یہ انبیاء کے لئے خذلان ورسوائی نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس اور حسن انبیاء میں سے کبھی کوئی نبی شہید نہیں ہوا مگر وہ جسے قتال کا حکم نہیں دیا گیا تھا اور جس نبی کو قتال کا حکم دیا گیا تھا اس کی مدد کی گئی (1) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون، ذلک پہلے ذالک کی طرف لوٹ رہا ہے اور اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے تاکید ہے۔ بما میں با سبب کے لئے ہے (2) ۔ اخفش نے کہا ما مصدریہ ہے یعنی بعصیانھم، العصیان، طاعت کا متضاد ہے۔ اعتصت النواۃ (گٹھلی سخت ہوگئی) الاعتداء کا معنی ہر چیز میں حد سے تجاوز کرنا ہے۔ یہ ظلم اور معاصی میں معروف ہے۔ (3)
Top