Al-Qurtubi - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہوجاؤ
آیت نمبر 65 اس میں سات مسائل ہیں (٭) ۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت، علمتم اس کا معنی ہے : تم نے ان کے اعیان (اشخاص) کو پہچان لیا۔ بعض علماء نے فرمایا : تم ان کے احکام جان چکے ہو، ان دونوں (علم اور معرفت) میں فرق یہ ہے کہ معرفت ذات مسمیٰ کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور علم مسمیٰ کے احوال کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جب تو کہتا ہے کہ عرفت زیداً اس سے مراد ہے میں نے زید کی شخصیت کو پہچان لیا۔ جب تو کہتا ہے : علمت زیداً اس سے مراد اس کے احوال (فضل یا نقص) وغیرہ کو جان لیا۔ پہلی صورت میں ایک فعل کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ یہ سیبویہ کا قول ہے اور علمتم بمعنی عرفتم ہے اور دوسری صورت میں دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ اخفش نے حکایت کیا ہے : لقد علمت زیداً ولم اعلمہ، اس میں ایک مفعول کی طرف متعدی ہے، قرآن حکیم میں ہے : لا تعلمونھم اللہ یعلمھم۔ یہ تمام معرفت کے معنی میں ہیں۔ اعتدوا منکم فی السبت، الذین کا صلہ ہے۔ الاعتداء کا معنی حد سے تجاوز کرنا ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: نسائی نے حضرت صفوان بن عسال سے روایت کیا ہے، فرمایا : ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا : ہم اس نبی کے پاس چلیں۔ دوسرے ساتھی نے کہا : نبی نہ کہو اگر اس نے تجھے (یہ کہتے ہوئے) سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ (یعنی بہت خوش ہوگا) ۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے نو آیات بینات کے بارے پوچھا۔ آپ ﷺ نے ان سے کہا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، زنانہ کرو، اس نفس کو قتل نہ کرو جس کا قتل نہ کرو جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ، کسی بری شخص کو سلطان (بادشاہ) کے پاس نہ لے جاؤ، کسی کا تمسخر نہ اڑاؤ، سود نہ کھاؤ، کسی پاکدامنہ پر بہتان نہ لگاو، جنگ کے دن پیٹھ نہ پھیرو اور اے یہودیو ! خاص تمہارے لئے کہ تم ہفتہ کے دن (کے احکام سے) تجاو نہ کرو۔ پس انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم نبی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تمہیں میری اتباع کرنے سے کون سی چیز مانع ہے ؟ انہوں نے کہا : حضرت داؤد (علیہ السلام) نے دعا مانگی تھی کہ ان کی اولاد سے ہمیشہ نبی ہو۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم آپ کی اتباع کریں گے تو یہود ہمیں قتل کردیں گے۔ اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس کے الفاظ سورة سبحان میں انشاء اللہ آئیں گے۔ مسئلہ نمبر 3: فی السبت اس کا معنی فی یوم السبت ہے، (یعنی ہفتہ کے دن میں ) ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مراد ہفتہ کے دن کا حکم ہو (1) ۔ پہلا قول حسن کا ہے۔ انہوں نے حلال سمجھنے کی جہت سے اس میں مچھلیاں پکڑی تھیں۔ اشہب نے مالک سے روایت کیا ہے، فرمایا : ابن رومان نے کہا : ایک شخص ایک دھاگہ لیتا تھا اور اس میں ایک ایسی رسی لگاتا تھا جو جانور کی گردن میں ڈالی جاتی ہے پھر اسے مچھلی کے دم میں ڈالتا تھا اور دھاگے کی دوسری طرف ایک کیل ہوتا تھا، وہ اتوار کے دن تک اسے اسی طرح چھوڑے رکھتا تھا پھر جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ ایسا کرنے والے کو کسی مصیبت میں گرفتار نہیں کیا گیا تو عام لوگ بھی ایسا کرنے لگے۔ حتیٰ کہ مچھلی کا شکار ہفتہ کے دن میں زیادہ ہوگیا اور مچھلیاں بازار میں آنے لگیں اور فاسق لوگوں نے شکار کا اعلان کردیا۔ ایک فرقہ اٹھا، انہوں نے ایسے لوگوں کو منع کیا اور برسر منبرا نہیں منع کیا اور ایسا کرنے والوں سے جدا ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ منع کرنے والوں نے کہا : ہم تمہارے ساتھ نہیں رہیں گے۔ پس انہوں نے ایک دیوار کے ساتھ شہر کو تقسیم کردیا۔ ایک دن منع کرنے والے اپنی مجلس میں تھے کہ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے کوئی باہر نہ نکلا، انہوں نے کہا : لوگوں کو کچھ ہوگیا ہے۔ انہوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہ بند ربنے ہوئے تھے۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور ان کے پاس گئے۔ پس بندروں کا نسب انسان سے جانا گیا ہے، لیکن انسان کا نسب بندروں سے معروف نہیں۔ وہ بندر اپنے خاندان والوں میں سے کسی انسان کے پاس آتے، اس کے کپڑے سونگھتے اور رونے لگتے۔ وہ اسے کہتا : کیا ہم نے تمہیں منع نہیں کیا تھا وہ سر سے اشارہ کر کے کہتے : ہاں (1) ۔ قتادہ نے کہا : نوجوان بندر بن گئے تھے، بوڑھے خنزیر بن گئے تھے صرف منع کرنے والے بچے تھے باقی سب ہلاک ہوگئے تھے (2) ۔ ان لوگوں کا قول سورة اعراف میں آئے گا جنہوں نے کہا تھا کہ وہ تین گروہوں میں تھے، اور یہ قول ان لوگوں کے قول سے زیادہ صحیح ہے جنہوں نے کہا : ان کے دو گروہ تھے۔ واللہ اعلم۔ السبت، السبت سے ماخوذ ہے جس کا معنی کاٹنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ہفتہ کے دن میں اشیاء جدا کی گئی تھیں اور ان کی خلقت مکمل ہوئی تھی۔ بعض نے فرمایا : یہ السبوت سے مشتق ہے جس کا معنی راحت اور سکون ہے۔ (3) علماء کا مسخ شدہ امت کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ان کی نسل چلی ہے یا نہیں۔ علماء کے دو قول ہیں : زجاج نے کہا : ایک قوم کا خیال ہے کہ یہ جائز ہے کہ یہ بندر ان لوگوں میں سے ہوں۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے اس کو اختیار کیا ہے۔ جمہور علماء نے کہا : مسخ شدہ امت کی نسل باقی نہیں چلی۔ رہے بندر اور خنازیر وغیرہما اس سے پہلے بھی موجود تھے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مسخ کیا تھا وہ ہلاک ہوگئے تھے اور ان کی نسل باقی نہیں رہی تھی کیونکہ انہیں سخط اور عذاب لاحق ہوا تھا ان کے لئے دنیا میں تین دن کے بعد قرار نہیں تھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : کوئی قوم جو مسخ کی گئی تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہی، نہ اس نے کھایا، نہ پیا اور نہ ان کی نسل چلی (4) ۔ ابن عطیہ نے کہا (5): نبی کریم ﷺ سے مروی ہے اور ثابت ہے کہ مسخ شدہ کی نہ نسل چلی، نہ کھایا اور نہ پیا اور نہ تین دن سے زیادہ زندہ رہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول دونوں قولوں میں صحیح ہے اور ابن عربی وغیرہ نے پہلے قول کی صحت پر نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے حجت پکڑی ہے۔ بنی اسرائیل کی ایک امت مفقود ہوگئی۔ معلوم نہیں اس کا کیا ہوا میں نے نہیں دیکھا مگر وہ چوہیا ہے کیا تم اسے دیکھتے نہیں کہ جب اس کے سامنے اونٹنی کا دودھ رکھا جائے تو یہ اسے نہیں پیتی اور اس کے سامنے بکری کا دودھ رکھا جائے تو پی لیتی ہے (6) ۔ یہ مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور دوسری حجت گوہ والی حدیث ہے جو مسلم نے حضرت ابو سعید اور حضرت جابر سے روایت کی ہے۔ حضرت جابر نے کہا : نبی کریم ﷺ کے پاس گوہ لائی گئی تو آپ نے اسے کھانے سے انکار کردیا اور فرمایا : میں نہیں جانتا شاید یہ ان قوموں سے ہو جو مسخ کی گئیں۔ یہ روایات منقول ہیں جیسا کہ آگے آئے گا۔ ابن عربی نے کہا : بخاری میں عمرو بن میمون سے مروی ہے، انہوں نے کہا : میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر یا کو دیکھا جس نے زنا کیا تھا۔ بندروں نے اسے رجم کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ اسے رجم کیا۔ یہ بخاری کے بعض نسخوں میں ثابت ہے اور بعض میں ساقط ہے۔ حدیث کی نص میں ثابت ہے (اس نے زنا کیا) یہ لفظ بعض سے ساقط ہے۔ ابن عربی نے کہا : اگر کہا جائے کہ چوپائیوں میں شریعت کی پہچان باقی ہے حتیٰ کہ وہ نسل در نسل ان احکام کے وارث بنتے رہے حتیٰ کہ عمرو کے زمانہ تک پہنچے ؟ ہم کہیں گے : ہاں، اسی طرح تھا کیوں کہ یہود نے رجم میں تبدیلی کی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے مسخ شدہ لوگوں میں اس کو قائم رکھا تاکہ ان لوگوں پر حجت میں مبالغہ ہوجائے جنہوں نے اس کا انکار کیا اور اسے تبدیل کیا تاکہ ان کی کتب اور ان کے علماء اور ان کی مسخ شدہ قومیں ان کے خلاف گواہی دیں تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی جانتا ہے جو چھپاتے ہیں اور جو اعلان کرتے ہیں اور وہ سب شمار کیا جا رہا ہے جو وہ تغیر وتبدل کرتے ہیں ان پر حجت قائم فرمائی جہاں سے اسے قیام کا انہیں تصور بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد فرماتا ہے اور ان کی مدد نہیں کی جاتی (1) ۔ میں کہتا ہوں : یہ ابن عربی کا کلام احکام میں ہے اور اس میں کوئی حجت نہیں ہے۔ انہوں نے جو عمرو میمون کا قصہ ذکر کیا ہے حمیدی نے جمع صحیحین میں ذکر کیا ہے۔ ابو مسعود الد مشقی نے حکایت کیا ہے کہ عمرو بن میمون الاودی کی صحیحین میں حصین کی روایت سے حکایت ہے، عمرو نے کہا : میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریا دیکھی جس پر دوسرے بندر جمع ہوئے اور اسے رجم کیا میں نے بھی ان کے ساتھ اسے رجم کیا۔ اسی طرح حضرت ابو مسعود نے حکایت کیا ہے، اس نے ذکر نہیں کیا کہ کسی جگہ بخاری نے اپنی کتاب میں اس کو نقل کیا ہے ہم نے اس کے متعلق کوشش کی تو ہم نے اسے بعض نسخوں میں پایا نہ کہ تمام نسخوں میں۔ امام بخاری نے اسے “ کتاب ایام الجاہلیہ ” میں ذکر کیا ہے اور نعیمی عن الفربری کی روایت میں بندروں کے بارے میں اس خبر کی کوئی اصل نہیں ہے۔ شاید یہ کتاب البخاری میں مقحمات (گھسیڑی گئی روایات) میں سے ہے اور وہ جو بخاری نے “ تاریخ کبیر ” میں ذکر کیا ہے مجھے نعیم بن حماد نے کہا : ہمیں ہشیم نے ابو بلج سے اور حصین نے عمرو بن میمون سے روایت کر کے بتایا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریا دیکھی جس پر بندر جمع تھے انہوں نے اسے رجم کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ اسے رجم کیا۔ اس روایت میں قدزنت۔ (اس نے زنا کیا) کے الفاظ نہیں ہیں اگرچہ روایت صحیح ہو تو امام بخاری نے اسے اس بات پر دلالت کرنے کے لئے روایت کیا کہ عمرو بن میمون نے زمانہ جاہلیت پایا ان کے گمان کی کوئی پرواہ نہیں جو انہوں نے زمانہ جاہلیت کے بارے میں کیا۔ ابو عمرو نے “ الاستیعاب ” میں حضرت عمرو بن میمون کا ذکر کیا ہے ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہے کو فیوں میں سے بڑے تابعین میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں بندروں کا رجم دیکھا تھا اگر یہ صحیح ہو کیونکہ اس کے راوی مجہول ہیں۔ بخاری نے نعیم عن ھشیم عن حصین عن عمرو بن میمون الاودی کے سلسلہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریا دیکھی جس نے زنا کیا تھا پھر بندروں نے اسے رجم کیا تھا میں نے بھی ان کے ساتھ اسے رجم کیا تھا۔ اس کو عباد بن العوام نے حصین سے روایت کیا جس طرح ہشیم نے مختصراً روایت کیا۔ اور رہا یہ قصہ اپنے طول کے ساتھ تو وہ عبد الملک بن مسلم عن عیسیٰ بن خطان پر گھومتا ہے جو دونوں استاد، شاگرد قابل حجت نہیں ہیں۔ یہ اہل علم کی جماعت کے نزدیک منکر ہے کہ زنا کی اضافت غیر مکلف کی طرف کی گئی ہے اور اس میں حدود کو حیوانوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو یہ جنوں میں سے ہوں گے دوسرے حیوان نہ ہوں گے۔ رہا حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد میں نے نہیں دیکھا۔ چوہے اور گوہ کے بارے میں فرمایا : میں نہیں جانتا شاید یہ ان قوموں میں سے ہو جو مسخ کی گئی تھی اور اس کی مثل دوسری مثالیں۔ یہ ظن اور خوف کی بنا پر فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ گوہ اور چوہے وغیرہما مسخ شدہ سے ہوں۔ یہ نبی کریم ﷺ نے وحی آنے سے پہلے اپنی طرف سے اظہار فرمایا، جب وحی آگئی تو یہ خوف زائل ہوگیا اور جان لیا کہ گوہ اور چوہے مسخ شدہ قوموں میں سے نہیں ہیں۔ وحی کے آنے کے بعد ہمیں اپنے ارشاد میں بتایا جب آپ سے پوچھا گیا بندروں اور خنازیر کے متعلق کہ کیا یہ مسخ شدہ قوموں میں سے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : کسی قوم کو ہلاک نہیں کیا یا عذاب نہیں دیا پھر ان کی نسل چلائی۔ بندر اور خنازیر اس سے پہلے موجود تھے۔ یہ نص صحیح صریح ہے اسے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے روایت کیا ہے اور اسے مسلم نے کتاب القدر میں نقل کیا ہے اور نصوص ثابت ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی اور آپ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اور آپ نے انکار نہیں فرمایا۔ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے یہ اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری توفیق ہے۔ مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ صرف ان کے دل مسخ کیے گئے اور ان کے افہام، بندروں کے افہام جیسے بنا دئیے گئے (1) ، میری معلومات کے مطابق کسی اور مفسر نے یہ نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فقلنا لھم کونوا قردۃً ، قردۃً کان کی خبر ہے۔ خسئین اس کی صفت ہے، اگر تو چاہے تو اسے کان کی خبر بنا دے یا کونوا میں ضمیر سے حال بنا دے اور خسئین کا معنی مبعدین دور کئے گئے ہے۔ کہا جاتا ہے : فخسأ و خسئ وانخساً یعنی میں اسے دور کیا تو وہ دور ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ینقلب الیک البصر خاسئاً (الملک : 4) (لوٹ آئے گی تیری طرف (تیری) نگاہ ناکام ہو کر) اخسئوا فیھا۔ یعنی اس میں دور چلے جاؤ۔ تباعد کا معنی ناراض ہونا ہے۔ کسائی نے کہا : خساً الرجل خسؤاً ۔ وخساتہ خساً ، اس صورت میں الخاسئی کا معنی گھٹیا اور رسوا ہوگا۔ کہا جاتا ہے : قمؤ الرجل قمائً وقماءۃ صارقمیئاً یعنی ذلیل و خوار ہوا۔ اقمأتہ میں نے اسے رسوا و ذلیل کیا فھو قمیئی، فعیل کے وزن پر ہے۔
Top