Al-Qurtubi - Al-Baqara : 85
ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِیَارِهِمْ١٘ تَظٰهَرُوْنَ عَلَیْهِمْ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١ؕ وَ اِنْ یَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْهُمْ وَ هُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْكُمْ اِخْرَاجُهُمْ١ؕ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ١ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
ثُمَّ اَنْتُمْ : پھر تم هٰؤُلَاءِ : وہ لوگ تَقْتُلُوْنَ : قتل کرتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنوں کو وَتُخْرِجُوْنَ : اور تم نکالتے ہو فَرِیْقًا : ایک فریق مِنْكُمْ : اپنے سے مِنْ دِيَارِهِمْ : ان کے وطن سے تَظَاهَرُوْنَ : تم چڑھائی کرتے ہو عَلَيْهِمْ : ان پر بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَالْعُدْوَانِ : اور سرکشی وَاِنْ : اور اگر يَأْتُوْكُمْ : وہ آئیں تمہارے پاس أُسَارٰى : قیدی تُفَادُوْهُمْ : تم بدلہ دیکر چھڑاتے ہو وَهُوْمُحَرَّمٌ : حالانکہ حرام کیا گیا عَلَيْكُمْ : تم پر اِخْرَاجُهُمْ : نکالناان کا اَفَتُؤْمِنُوْنَ : تو کیا تم ایمان لاتے ہو بِبَعْضِ : بعض حصہ الْكِتَابِ : کتاب وَتَكْفُرُوْنَ : اور انکار کرتے ہو بِبَعْضٍ : بعض حصہ فَمَا جَزَآءُ : سو کیا سزا مَنْ يَفْعَلُ : جو کرے ذٰلِکَ : یہ مِنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : سوائے خِزْيٌ : رسوائی فِي : میں الْحَيَاةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ : اور قیامت کے دن يُرَدُّوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے اِلٰى : طرف اَشَدِّ الْعَذَابِ : سخت عذاب وَمَا : اور نہیں اللّٰہُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم کرتے ہو
پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو اور اپنے میں سے بعض لوگوں پر گناہ اور ظلم سے چڑھائی کر کے انہیں وطن سے نکال بھی دیتے ہو اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہو کر آئیں تو بدلا دے کر انکو چھڑا بھی لیتے ہو حالانکہ ان کا نکال دینا ہی تم کو حرام تھا (یہ) کیا (بات ہے کہ) تم کتاب (خدا) کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں ان کو سزا اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دئیے جائیں ؟ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے غافل نہیں
آیت نمبر 85 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم انتم ھؤلاء، انتم مبتدا ہے اس کو اعراب نہیں دیا جاتا کیونکہ یہ ضمیر ہے۔ انتم میں تا کو ضمہ دیا جاتا ہے، کیونکہ واحد مذکر مخاطب کے صیغہ میں تا مفتوح ہوتی ہے واحد مونث مخاطب میں تا مکسور ہوتی ہے۔ پس جب تو تثنیہ یا جمع کا صیغہ بنائے گا تو صرف ضمہ باقی ہے۔ ھؤلاء قتبی نے کہا : اس کی تقدیر یا ھؤلاء ہے۔ نحاس نے کہا : یہ سیبویہ کے قول کے مطابق خطاب ہے، اور ھذا اقبل جائز نہیں ہے۔ زجاج نے کہا : ھؤلاء بمعنی الذین ہے، تقتلون یہ صلہ میں داخل ہے یعنی ثم انتم الذین تقتلون۔ بعض نے فرمایا : ھؤلاء مبتدا ہے اور انتم خبر مقدم ہے اور تقتلون، ھؤلاء سے حال ہے۔ بعض نے فرمایا : اعنی کے اضمار کے ساتھ ھؤلاء منصوب ہے (1) ۔ زہری نے تقتلون پہلی تامضموم اور دوسری کو شد کے ساتھ پڑھا ہے اسی طرح فلم یقتلون انبیاء اللہ میں پڑھا ہے، یہ خطاب موجودہ لوگوں کو ہے۔ یہ ان کے اسلاف کی طرف لوٹانے کا احتمال نہیں رکھتا۔ یہ بنی قینقاع، قریظہ اور نضیر یہود کے بارے میں نازل ہوئی۔ بنو قینقاع، قریظہ کے دشمن تھے اور اوس، بنی قینقاع کے حلیف تھے۔ خزرج، بنی قریظہ کے حلیف تھے۔ نضیر (2) ، اوس اور خزرج بھائی تھے اور قریظہ اور نضیر آپس میں بھائی بھائی تھے۔ پھر وہ جدا جدا ہوگئے وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے پھر جنگ ختم ہوتی تو وہ اپنے قیدیوں کا فدیہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر شرم دلائی اور فرمایا : وان یاتوکم اسری تفدوھم (3) (اگر وہ آئیں تمہارے پاس قیدی بن کر (تو بڑے پاکباز بن کر) ان کا فدیہ ادا کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تظھرون اس کا معنی تتعاونون (معاونت کرنا) ہے۔ یہ الطھر ہے مشتق ہے کیونکہ بعض، بعض کو تقویت دیتا ہے تو وہ اس کے لئے پیٹھ کی طرح ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا : تظاھرتم استاہ بیت تجمعت علی واحدٍ لازلتم قرن واحد اس شعر میں تظاھر کا معنی مدد کرنا ہے۔ الاثم اس فعل کو کہتے ہیں جس کا کرنے والا مذمت کا مستحق ہوتا ہے۔ العدوان ظلم میں زیادتی کرنا اور ظلم میں تجاوز کرنا۔ اہل مدینہ اور اہل مکہ نے تظاھرون ظا کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے وہ تا کو ظا میں ادغام کرتے ہیں ان کے قرب کی وجہ سے، اصل میں تتظاھرون تھا۔ کو فیوں نے تظاھرون تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ انہوں نے پہلی تا کی دلالت کی وجہ سے دوسری تا کو حذف کردیا اسی طرح وان تظاھرا علیہ کو پڑھا ہے۔ قتادہ نے تظھرون علیھم پڑھا ہے، یہ سب تعاون کے معنی کی طرف راجع ہیں۔ اس سے ہے وکان الکافر علی ربہ ظھیراً ۔ (الفرقان) (اور کافر اپنے رب کے مقابلہ میں (ہمیشہ شیطان کا) مددگار ہوتا ہے) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والملئکۃ بعد ذلک ظھیرٌ۔ (التحریم) (سارے فرشتے اس کے علاوہ مدد کرنے والے ہیں) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان یاتوکم اسری تفدوھم وھو محرمٌ علیکم اخراجھم۔ اس میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان یاتوکم اسری یہ شرط ہے اور اس کا جواب تفدوھم ہے اور اسری کی نصب حال کی بنا پر ہے۔ ابو عبید نے کہا : ابو عمرو کہتے تھے جو ان کے ہاتھوں میں تھا وہ اسری تھا، اور جو قیدی ہو کر آئیں وہ اسریٰ ہیں۔ اہل لغت میں یہ معروف نہیں جو ابو عمرو نے کہا ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : سکاریٰ ، سکریٰ ۔ اکثر کی قراءت اساریٰ ہے۔ حمزہ نے اسے اسریٰ فعلی کے وزن پر پڑھا ہے۔ یہ اسیر کی جمع ہے، اسیر بھی مامور ہے، فعلی، فعیل کی جمع ہے۔ جیسے تو کہتا ہے قتیل سے قتلی، جریح سے جرحیٰ ۔ ابو حاتم نے کہا اساریٰ جائز نہیں ہے۔ زجاج نے کہا : اساریٰ جیسے کہا جاتا ہے سکاریٰ ، فعلی ہی اصل ہے اور فعالی اس پر داخل ہے۔ محمد بن یزید سے حکایت ہے، فرمایا : کہا جاتا ہے : اسیرٌ، اسراء، جیسے ظریف سے ظرفاء۔ ابن فارس نے کہا : اسیر کی جمع میں اسریٰ ، اساریٰ کہا جاتا ہے دونوں طرح پڑھا گیا ہے بعض نے فرمایا : اساری (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ) مسئلہ نمبر 2: الاسیر، یہ الاسار سے مشتق ہے اس سے مراد وہ چمڑے کی رسی ہے جس کے ساتھ محمل کو باندھا جاتا ہے، اس کو اسیر اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس کو باندھا جاتا ہے۔ عرب کہتے ہیں : قد اسر قتبہ، اس نے پالان کو باندھا پھر ہر پکڑی گئی چیز کو اسیر کہتے ہیں اگرچہ اسے باندھا نہ بھی گیا ہو۔ اعشی نے کہا : وقیدنی الشعر فی بیتہ کما قید الآسرات الحمارا مجھے شعر نے اس طرح قید کردیا جس طرح عورتیں پالان کی لکڑی کو قید کئے ہوئے ہوتی ہیں۔ یعنی انا فی بیتہ۔ اس سے اس کی مراد انتہا کو پہنچنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد وشدد نا اسرھم (الدہر :28) میں اسر سے مراد خلق ہے۔ اسرۃ الرجل، آدمی کا خاندان، گروہ۔ کیونکہ وہ ان سے قوت حاصل کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے تفدوھم۔ نافع، حمزہ اور کسائی نے اسی طرح پڑھا ہے اور باقی قراء نے تفدوھم پڑھا ہے یہ فداء سے ہے الفداء کا معنی قیدی کا فدیہ طلب کرنا ہے۔ جوہری نے کہا : الفداء کو جب فا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ ممدود اور مقصور ہوتا ہے اور فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے تو صرف مقصور ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : قم فدی لک ابی۔ اور عربوں میں سے جو فا کو کسرہ دیتے ہیں اسے فداء تنوین کے ساتھ پڑھتے ہیں خصوصاً جب اس کے ساتھ لام جارہ ہو۔ پس وہ کہتے ہیں : فداء لک۔ کیونکہ یہ نکرہ ہے اس سے وہ دعا کا معنی مراد لیتے ہیں۔ اصمعی نے نابغہ کا یہ شعر پڑھا ہے : مھلاً فداءٍ لک الاقوام کلھم وما اثمر من مال ومن ولدٍ کہا جاتا ہے : فداہ وفاداہ تو کوئی عطیہ دے پھر اسے ختم کر دے۔ فداہ بنفسہ وفداہ یفدیہ جب کہا میں نے تیرا فدیہ دیا۔ تفادوا، یعنی بعض نے بعض کو فدیہ دیا۔ الفدیۃ، الفدی، الفداء تمام کا معنی ایک ہے۔ وفادیت نفسی یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب تو کوئی چیز دینے کے بعد اسے چھوڑ دے۔ یہ بمعنی فدیت ہے، اسی سے حضرت عباس کا نبی کریم ﷺ سے عرض کرنا ہے : فادیت نفسی وفادیت عقیلاً میں نے اپنا فدیہ دیا ہے اور عقیل کا فدیہ دیا ہے۔ یہ دونوں فعل دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں، ان میں سے دوسرا حرف جر کے ساتھ ہے۔ تو کہتا ہے : فدیت نفسی بما لی وفایتہ بمالی (1) ۔ شاعر نے کہا : قفی فادی اسیرک ان قومی وقومک ما اریٰ لھم اجتماعا تو ٹھہر جا اور اپنے قیدی کا فدیہ دے دے میری اور تیری قوم میں ان کا اجتماع میں نہیں دیکھتا۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وھو محرمٌ علیکم اخراجھم۔ ھو مبتدا ہے یہ اخراج سے کنایہ ہے، محرمٌ خبر ہے اور اخراجھم، ھو سے بدل ہے، اگر تو چاہے تو ھو ضمیر کو الحدیث اور القصہ سے کنایہ بنا دے اور اس کا ما بعد جملہ خبر ہو، یعنی والامر محرم علیکم اخراجھم، پس فاخراجھم دوسرا مبتدا ہوگا اور محرم اس کی خبر ہوگی اور پھر جملہ ھو کی خبر ہوگا۔ اور محرم میں جو ضمیر نائب فاعل ہے وہ الاخراج کی طرف لوٹ رہی ہے یہ بھی جائز ہے کہ محرم مبتدا ہو اور اخراجھم اس کا نائب فاعل، محرم کی خبر کے قائم مقام ہے پھر جملہ ھو کی خبر ہو۔ فراء نے کہا : ھو عماد ہے یہ بصریوں کے نزدیک خطا ہے اس کا کوئی معنی نہیں کیونکہ عماد اول کلام میں نہیں ہوتا اور ضمہ کے چقل کی وجہ سے ھاء کے سکون کے ساتھ وھو بھی پڑھا جاتا ہے۔ جس طرح شاعر نے کہا : فھو لا تنمی رمیتہ ما لہ لا عد من نفرہ اس میں فھو کو ھا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے لام اور ثم لائے تو بھی ھا ساکن کر دے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان سے چار عہد لئے تھے : قتل نہ کرنا، جلا وطن نہ کرنا، مدد نہ کرنا اور قیدیوں کا فدیہ دینا۔ انہوں نے سوائے فدیہ کے حکم کے سب سے اعراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں توبیخ فرمائی جو پڑھی جاتی ہے۔ فرمایا : افتومنون ببعض الکتاب (تورات) وتکفرون ببعض۔ میں کہتا ہوں : اللہ کی قسم ! ہم نے فتنوں کی وجہ سے تمام احکام کو ترک کردیا۔ اور ہم نے ایک دوسرے کی مدد کی مسلمانوں پر افسوس بلکہ کافروں پر افسوس۔ ہم نے اپنے بھائیوں کو ذلیل ورسوا چھوڑ دیا ان پر مشرکین کے احکام جاری ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ ہمارے علماء نے فرمایا : قیدیوں کا فدیہ دینا واجب ہے اگرچہ ایک درہم بھی باقی نہ ہو۔ ابن خویز منداد نے کہا : یہ آیت قیدیوں کے چھڑانے کے وجوب کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے، نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی اس کے متعلق وارد ہیں، آپ نے قیدیوں کو چھرایا اور ان کو چھرانے کا حکم دیا (1) ، اسی پر مسلمان کا عمل جاری ہے اور اس پر اجماع منعقد ہے۔ بیت المال سے قیدیوں کو چھڑوانا واجب ہے اگر بیت المال نہ ہو تو تمام مسلمانوں پر یہ فرض ہے۔ جس نے بھی یہ فریضہ ادا کردیا باقی لوگوں سے ساقط ہوجائے گا۔ مسئلہ نمبر 5: فما جزأء من یفعل ذلک منکم الا خزیٌ فی الحیوۃ الدنیا یہ مبتدا اور خبر ہیں الخذی کا معنی رسوائی ہے۔ جوہری نے کہا : خذی یخذی خذیاً جب کوئی ذلیل ورسوا ہوجائے۔ ابن سکیت نے کہا وہ مصیبت میں واقع ہوا۔ اخذاہ اللہ اللہ تعالیٰ نے اسے رسوا کیا۔ خذی، یخذیٰ خذایۃً جب کوئی حیا کرے۔ فھو خذیان، قوم خذایا وامرء ۃٌ خذیا۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یوم القیمۃ یردون عام قراء کی قراءت یردون یا کے ساتھ ہے۔ حسن نے تردون تا خطاب کے ساتھ پڑھا ہے۔ الی اشد العذاب وما اللہ بغافلٍ عما تعملون اس سے پہلے کلام گزر چکی ہے۔ اسی طرح اولئک الذین الشتروا اس پر بھی کلام ہوچکی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں یوم کو نصب یردون کی وجہ سے ہے۔
Top