Al-Qurtubi - Al-Baqara : 90
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ۚ فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
بِئْسَمَا : برا ہے جو اشْتَرَوْا : بیچ ڈالا بِهٖ : اسکے بدلے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ اَنْ يَكْفُرُوْا : کہ وہ منکرہوا بِمَا : اس سے جو اَنْزَلَ اللہُ : نازل کیا اللہ بَغْيًا : ضد اَنْ يُنَزِّلَ : کہ نازل کرتا ہے اللہُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنافضل عَلٰى : پر مَنْ يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے فَبَآءُوْا : سو وہ کمالائے بِغَضَبٍ : غضب عَلٰى : پر غَضَبٍ : غضب وَ : اور لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے عَذَابٌ : عذاب مُهِیْنٌ : رسوا کرنے والا
جس چیز کے بدلے انہوں نے اپنے تئیں بیچ ڈالا وہ بہت بری ہے یعنی اس جلن سے کہ خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنی مہربانی سے نازل فرماتا ہے خدا کی نازل کی ہوئی کتاب سے کفر کرنے لگے تو وہ (اس کے) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے اور کافروں کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے
آیت نمبر 90 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بئسما اشتروا۔ بئس عرب کلام میں مذمت کے لئے جسے نعم مدح کے لئے ہے ان میں سے ہر ایک کی چار لغات ہیں : بئس بئس بئس بئس، نعم نعم نعم نعم۔ سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ ما، بئس کا فاعل ہے اور یہ اسمائے اجناس اور نکرات پر داخل ہوتا ہے اسی طرح نعم ہے تو کہتا ہے : نعم الرجل زیدٌ، نعم رجلاً زیدٌ جب اس کے ساتھ اسم بغیر الف، لام کے ہو تو اسے ہمیشہ نصب دی جاتی ہے جب اس پر الف لام ہو تو ہمیشہ مرفوع ہوتا ہے رجلاً پر نصب تمییز کی بنا پر ہے اور نعم میں ضمیر تفسیر کی شرط پر مضمر ہے اور زید دو اعتبار سے مرفوع ہے۔ ایک مبتدا محذوف کی خبر کے اعتبار سے گویا پوچھا گیا ممدوح کون ہے تو تو نے کہا : وہ زید ہے۔ دوسری وجہ مبتدا کی حیثیت سے اور اس کا ماقبل خبر ہے۔ ابو علی نے جائز قرار دیا ہے کہ اس کے ساتھ موصولہ اور غیر موصولہ ملا ہوا ہو اس حیثیت سے کہ وہ مبہمہ ہو جو کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ کسی ایک کو خاص نہیں کرتا۔ سیبویہ کے نزدیک تقدیر اس طرح ہے (1) : بئس الشیء اشتروا بہ انفسھم ان یکفروا۔ پس ان یکفروا محل رفع میں مبتدا ہوگا اور اس کا ماقبل خبر ہوگا جیسے تیرا قول ہے بئس الرجل زیدٌ اور اس قول کے مطابق ما موصولہ ہوگا۔ اخفش نے کہا (2): ما تمییز کی بنا پر محل نصب میں ہے جیسے تیرا قول ہے : بئس رجلاً زیدٌ پس تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : بئس شیئاً ان یکفروا۔ اشتروا بہ انفسھم۔ اس قول کے مطابق ما کی صفت ہوگا۔ فراء نے کہا : (3) بئسما ایک شے ہے حبذا کی طرح مرکب کیا گیا ہے اس قول کے مطابق یہ معرترضہ ہے۔ کیونکہ فعل بغیر فاعل کے رہ جائے گا۔ کسائی نے کہا : ما اور اشتروا، ایک اسم کے قائم مقام ہے اور یہ قائم بنفسہ ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : بئس اشتراؤھم ان یکفروا۔ یہ قول مردود ہے کیونکہ نعم اور بئس اسم معین معرف پر داخل نہیں ہوتے۔ شراء ضمیر کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے معرفہ بن گیا ہے۔ نحاس نے کہا : ان اقوال میں سے واضح قول اخفش اور سیبویہ کا قول ہے۔ فراء اور کسائی نے کہا : ان یکفروا اگر تو چاہے تو ان کو محل جز میں کر دے بہ میں ھاء ضمیر کی طرف لوٹاتے ہوئے۔ فراء نے کہا : اس کا مطلب ہوگا اشتروا انفسھم بان یکفروا بما انزل اللہ۔ فاشتریٰ بمعنی باع اور بمعنی ابتاع ہے۔ مطلب یہ ہے : بئس الشیء الذی اختاروالانفسھم حیث استبدلوا لباطل بالحق والکفر بالایمان۔ (یعنی بری ہے وہ چیز جو انہوں نے اپنے نفسوں کے لئے اختیار کی اس حیثیث سے کہ انہوں نے حق کو باطل سے بدلا اور ایمان کو کفر سے بدلا) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بغیاً اس کا معنی حسداً ہے یہ قتادہ اور سدی کا قول ہے (4) ۔ یہ مفعول لا جلہ ہے۔ یہ حقیقت میں مصدر ہے، اصمعی نے کہا : یہ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے قد بغی الجرح، زخم خراب ہوگیا۔ بعض نے فرمایا : اس کا اصل معنی طلب کرنا ہے اسی وجہ سے زانیہ کو بغیا کہا جاتا ہے۔ ان ینزل اللہ یہ محل نصب میں ہے یعنی لان ینزل۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے اپنے نبی ﷺ پر فضل نازل کرنے کی وجہ سے۔ ابن کثیر، ابو عمرو، یعقوب اور ابن محیصن نے ان ینزل تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اسی طرح پورے قرآن میں تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے سوائے ما ینزلہ جو سورة الحجر میں ہے اور سوائے علی ان ینزل آیۃً جو سورة الانعام میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فبأء و وہ لوٹے۔ اکثر یہ شر میں بولا جاتا ہے یہ پہلے گزر چکا ہے بغضبٍ علی غضب، غضب اللہ علیھم کا معنی گزر چکا ہے۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : پہلا غضب ان کے بچھڑے کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے اور دوسرا غضب حضرت محمد ﷺ کا انکار کرنے کی وجہ سے ہے۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حضرت عکرمہ نے کہا کیونکہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کفر کیا پھر حضرت محمد ﷺ کا انکار کیا یعنی یہود نے ایسا کیا۔ سعید نے قتادہ سے روایت کیا ہے، پہلا غضب ان کا انجیل کے انکار کی وجہ سے تھا، دوسرا قرآن کا انکار کرنے کی وجہ سے تھا۔ بعض نے فرمایا : مراد تائید ہے (1) اور اس حال کی شدت کے لئے دو غضبوں کا ذکر فرمایا نہ کہ دو معصیتوں کی تعلیل کے لئے دو غضبوں کا ذکر فرمایا : مراد تائید ہے (1) اور اس حال کی شدت کے لئے دو غضبوں کا ذکر فرمایا نہ کہ دو معصیتوں کی تعلیل کے لئے دو غضبوں کا ذکر فرمایا مھینٌ یہ الھوان سے ہے، یہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا مقتضی ہے بخلاف مسلمان گنہگار کے خلود کے، کیونکہ مسلمانوں کا آگ میں جانا ان کی طہارت اور تمحیص کے لئے ہوگا جیسے زانی کو رجم کیا جاتا ہے، چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے، اس کا بیان سورة نساء میں حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top