Al-Qurtubi - Al-Baqara : 97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ : جبرئیل کے دشمن فَاِنَّهُ : تو بیشک اس نے نَزَّلَهُ ۔ عَلٰى قَلْبِکَ : یہ نازل کیا۔ آپ کے دل پر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَهُدًى : اور ہدایت وَبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لئے
کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہو (اس کو غصے میں مرجانا چاہئے) اس نے تو (یہ کتاب) خدا کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے
آیت نمبر 97 اس آیت کے نزول کا سبب یہ کہ یہود نے نبی کریم ﷺ سے کہا : کوئی نبی نہیں آیا مگر اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ایک فرشتہ وحی اور رسالت کے ساتھ آیا، تمہارا ساتھی (فرشتہ) کون ہے تاکہ ہم آپ کی اتباع کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جبریل، انہوں نے کہا : وہ تو جنگ وجدل کو لاتا ہے۔ وہ ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کا نام لیتے جو بارش اور رحمت لاتا ہے تو ہم آپ کی اتباع کرتے۔ پس اللہ تعالیٰ نے للکفرین۔ تک یہ آیت نازل فرمائی۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے (2) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فانہ نزلہ علیٰ قلبک، انہ میں ضمیر دو معانی کا احتمال رکھتی ہے پہلا معنی یہ کہ فان اللہ نزل۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل کو آپ کے دل پر اتارا۔ دوسرا معنی یہ کہ فان جبریل۔ یعنی جبریل نے قرآن کو آپ کے دل پر اتارا۔ قلب کو خصوصی طور پر ذکر فرمایا کیونکہ یہ عقل، علم اور معرف کے حصول کی جگہ ہے۔ یہ آیت جبریل کے شرف اور اس کے دشمنوں کی مذمت پر دلالت کرتی ہے۔ (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : باذن اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور اس کے علم سے۔ مصدقاً لما بین یدیہ اس سے مراد تورات ہے۔ وھدًی وبشری للمؤمنین اس کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔
Top