بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اقترب للناس حسابھم حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : سورة الکہف، مریم، طہ اور انبیاء پہلی سورتوں میں سے ہیں اور یہ میری پہلی یاد کی ہوئی سورتیں ہیں یعنی پہلے پہل یہ سورتیں حاصل کیں اور قرآن کو یاد کیا جیسے پرانا مال ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ ایک شخص جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے تھا وہ دیوار بناتا تھا اس سورت کے نزول کے دن اس کے پاس سے ایک اور شخص گزرا جو دیوار بنا رہا تھا اس نے پوچھا آج قرآن میں سے کیا نازل ہوا ہے ؟ دوسرے نے کہا یہ نازل ہوا ہے اقترب للناس حسابھم و ھم فی غفلۃ معرضون۔ تو اس شخص نے اپنے ہاتھ سے اپنی عمارت کو توڑ دیا اور کہا : اللہ کی قسم ! میں کھبی تعمیر نہیں کروں گا جبکہ حساب کا وقت قریب آگیا۔ ( 1) اقترب عینی وہ وقت قریب آگیا ہے جس میں لوگوں کے اعمال کا حساب ہوگا۔ للناس حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے مراد مشرکین ہیں اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : الا استمعوہ وھم یلعبون۔ لا ھیۃ قلوبھم، و اسرّو النّجوی، الذین ظلمو، ھل ھذا الّا بشر مثلکم، افتاتون السحر و انتم تبصرون۔ بعض علماء نے فرمایا : الناس عام ہے اگرچہ اس وقت اس کا مشار الیہ کفار قریش تھے۔ اس کے بعد والی آیات دلالت کرتی ہیں جس کو قیامت کے قرب کا علم ہوگیا اس کی امیدیں مختصر ہوگئیں اور توبہ کے ساتھ اس کا نفس پاک رہا۔ اور وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوا گویا جو موجود تھا جب وہ چلا گیا تو وہ تھا ہی نہیں۔ ہر آنے والا امر قریب ہے موت لامحالہ آنے والی ہے۔ اور ہر انسان کی موت اس کے لیے قیامت کا قیام ہے اور قیامت قریب ہے۔ گزشتہ زمانہ کی نسبت سے جو زمانہ باقی ہے وہ گزرے ہوئے زمانہ سے کم ہے۔ ضحاک نے کہا : اقترب للناس حسابھم کا معنی عذابھم یعنی کفار مکہ کے عذاب کا وقت قریب آگیا ہے کیونکہ انہوں نے عذاب کے وعدہ کی تکذیب کرتے ہوئے اس دیر سے آنے والا سمجھا۔ ان کا قتل بدر کے دن تھا۔ نحاس نے کہا : کلام میں اقترب حسابھم للناس جائز نہیں تاکہ مظہر پر مضمر مقدم نہ ہو اور اس کے ساتھ تاخیر کی نیت کرنا بھی جائز نہیں۔ و ھم فی غفلۃ معرضون۔ یہ مبتدا اور خبر ہیں۔ غیر قرآن میں حال کی بنا پر نصب بھی جائز ہے۔ اس میں دو ج ہیں ہیں : (1) وھم فی غفلۃ معرضون یعنی دنیا کی طرف متوجہ ہیں آخرت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (2) حساب کے لیے تیار ہونے سے غافل ہیں اور اس سے غافل ہیں جو حضرت محمد ﷺ لے آئے ہیں۔ یہ واو سیبویہ کے نزدیک اذ کے معنی میں ہے اس کو نحوی واو حالیہ کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یغشیٰ طآئفۃ منکم، و طآئفۃ قد اھمتم انفسھم (آل عمران :154)
Top