Al-Qurtubi - Al-Kahf : 78
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ سے وَقَوْمِهٖ : اور اپنی قوم مَا هٰذِهِ : کیا ہیں یہ التَّمَاثِيْلُ : مورتیاں الَّتِيْٓ : جو کہ اَنْتُمْ : تم لَهَا : ان کے لیے عٰكِفُوْنَ : جمے بیٹھے ہو
جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ یہ کیا مورتیں ہیں جن (کی پرستش) پر تم معتکف (و قائم ہو) ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذ قال لابیہ بعض علماء نے فرمایا : یعنی تو یاد کر جب اس نے اپنے باپ کو کہا۔ پس کلام وکنا بہ علمین پر مکمل ہوگی۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے ہم جانتے تھے جب انہوں نے کہا۔ اس مفہوم پر کلام متصل ہوگی اور عالمین پر وقف نہ گا لابیہ سے مراد آزر ہے۔ قومہ نمرود اور اس کے پیروکار۔ ما ھذہ التماثیل اس سے مراد مورتیاں ہیں۔ التماثیل ہر اس شی کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے مشابہ بنائی گئی ہو۔ کہا جاتا ہے : مثلث الشئی بالشئی میں نے ایک چیز کو دوسری چیز سے مشابہت دی۔ اس ممثل کا اسم تماثل ہے۔ التی انتم لھا عکفون۔ یعنی تم ان کی عبادت پر قائم ہو۔ قالوا وجدنا لھا عبدین۔ ہم اپنے اسلام کی تقلید میں ان کی عبادت کرتے ہیں۔ قال لقد کنتم انتم و ابائو کم فی ضلل مبین۔ ان کی عبادت کی وجہ سے گمراہی میں ہیں، کیونکہ یہ جمادات ہیں جو نہ نفع دیتے ہیں نہ نقصان اور نہ کچھ جانتے ہیں۔ قالوا اجئتنا بالحق یعنی کیا تو حق کو لانے والا ہے اپنی بات میں ؟ ام انت من العبین۔ یا تو مزاح کرنے والا ہے۔ قال بل ربکم رب السموات والارض میں مزاح کرنے والا نہیں ہوں بلکہ تمہارا پروردگار اور تمہاری تدبیر کو قائم کرنے والا آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔ الذی فطر ھن جس نے انہیں پیدا کیا۔ وان علی ذلکم من الشھدین۔ میں گواہ ہوں کہ وہ آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ شاھد حکم کو بیان کرتا ہے : اسی سے ہے شھد اللہ (آل عمران :18) اللہ نے بیان کیا معنی یہ ہے کہ میں جو کہتا ہوں دلیل ہے، بیان کرتا ہوں۔
Top