Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 58
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ
فَجَعَلَهُمْ : پس اس نے انہیں کر ڈالا جُذٰذًا : ریزہ ریزہ اِلَّا : سوائے كَبِيْرًا : بڑا لَّهُمْ : ان کا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
پھر ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر ایک بڑے (بت) کو (نہ توڑا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فجعلھم جذ ذا ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ الجذو الذاذ جو توڑا گیا ہو۔ ضمہ، کسرہ سے افصح ہے، یہ جوہری کا قول ہے۔ کسائی نے کہا : سونے کے پتھروں کو جذاذ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسائی، اعمش اور ابن محیص نے جذا ذجیم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ جذیز کی جمع ہے۔ ریزہ ریزہ جیسے خفیف کی جمع خفاف اور ظریف کی جمع ظراف آتی ہے۔ شاعر نے کہا : جذذ الاصنام فی محرابھا ذاک فی اللہ العلی المقتدر باقی قراء نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عبید اور ابو حاتم نے اس کو اختیار کیا ہے جیسے الحطام اور الزفات وغیرہ یہ جذاذۃ کی جمع ہے یہ وہ کید ہے جس کی آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ آپ ضرور ایسا کریں گے۔ فرمایا : فجعلھم کیونکہ قوم کا اپنے بتوں کے بارے الہ (خدا) ہونے کا عقیدہ تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ ابو نہیک اور ابو السمال نے دذاذ جیم کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے فتح اور کسرہ دونوں لغتیں ہیں، جیسے الحصاد اور الحصاد۔ ابو حاتم نے کہا : فتحہ، کسرہ اور ضمہ ہم معنی ہیں، یہ قطرب نے حکایت کیا ہے۔ الا کبیراً لھم حجم میں بڑا خدا۔ حضرت ابراہیم نے بڑے بت کو نہیں توڑا تھا۔ سدی اور مجاہد نے کہا : آپ نے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور اس ہتھوڑے کو اس کی گردن میں لٹکا دیا جس کے ساتھ دوسرے بتوں کو توڑا تھا تاکہ اس کے ذریعے ان پر حجت قائم کریں۔ لعلھم الیہ شاید حضرت ابراہیم اور اس کے دین کی طرف یرجعون۔ لوٹیں جب ان پر حجت قائم ہوجائے۔ بعض نے کہا : الیہ کی ضمیر کی مرجع بڑا بت ہے۔ یرجعون ان کے توڑنے میں۔
Top