Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 5
بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ١ۖۚ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَضْغَاثُ : پریشان اَحْلَامٍ : خواب بَلِ : بلکہ افْتَرٰىهُ : اسنے گھڑ لیا بَلْ هُوَ : بلکہ وہ شَاعِرٌ : ایک شاعر فَلْيَاْتِنَا : پس وہ ہمارے پاس لے آئے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی كَمَآ : جیسے اُرْسِلَ : بھیجے گئے الْاَوَّلُوْنَ : پہلے
بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں (نہیں بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے (نہیں) بلکہ یہ شعر جو اس) شاعر (کا نتیجہ طبع) ہے تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بل قالوا اضغاث احلام، زجاج نے کہا : انہوں نے کہا جو آپ لائے ہیں وہ پریشان خواب ہیں۔ اور دوسرے علماء نے کہا : انہوں نے کہا وہ ملی جلی باتیں ہیں جیسے پریشان خواب ہوتے ہیں یعنی ڈرائونی چیزیں جو آپ خواب میں دیکھتے ہیں، یہ معانی مجاہد اور قتادہ نے بیان کیے ہیں، اس طرح شاعر کا قول ہے : کضغث حلم غر منہ حالمہ قتبی نے کہا : اس سے مراد جھوٹے خواب ہیں : شاعر کا قول ہے : احادیث طسم أو سراب بفد فد تر قرق للساری و أضغاث حالم یزیدی نے کہا : الاضغاث اس خواب کو کہتے ہیں جس کی کوئی تعبیر نہ ہو، یہ مفہوم سورة یوسف میں گزر چکا ہے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ معاملہ اس طرح کا نہیں ہے جس طرح انہوں نے کہا ہے تو وہ اس بات کو چھوڑ کر کہنے لگے : بل افترہہ بلکہ انہوں نے خود گھڑا ہے، پھر اس کو چھوڑ کر کہنے لگے : بل ھو شاعر بلکہ نہیں وہ تو شاعر ہے یعنی وہ متحیر ہیں کسی ایک بات پر ٹھرتے نہیں، کبھی کہا : جادو ہے، کبھی کہا : یہ پریشان خواب ہیں، کبھی کہا : یہ خود گھڑا ہے۔ ایک فریق نے کہا : یہ شاعر ہے۔ الفتراء کا معنی گھڑنا ہے۔ اس کا مفہوم پہلے گزر چکا ہے۔ فلیاتنا بایۃ کما ارسل الاولاون۔ یعنی تم بھی اس طرح کی کوئی نشانی لائو جیسی پہلے رسول لائے تھے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عصا وغیرہ معجزات لائے تھے اور جیسے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی۔ اور وہ جانتے تھے کہ قرآن جادو نہیں ہے اور نہ خواب ہے لیکن انہوں نے کہا : مناسب ہے کہ وہ ایسی نشانی لے آئیں جو تم کو تجویز کرو جبکہ ایک آیت دیکھنے کے بعد ان کے لیے تجویز نہ تھی نیز وہ آیت پر ایمان نہیں لائے تھے یہ اس کی جنس سے تھی جس کو وہ لوگوں سے زیادہ جانتے تھے اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ تھی تو پھر وہ کسی دوسری نشانی پر کیسے ایمان لے آئیں گے ؟ اگر وہ مادر زاد اندھے کو بینا کر دے اور کوڑھی کے مریض کو درست کر دے تو کہیں گے : یہ باب الطب سے ہے یہ ہماری شان نہیں کہ ان کی ہر بات کو پورا کرتے رہیں۔ ان کا سوال ہٹ دھرمی اور تعصب کی بنا پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی نشانیاں دکھائی تھیں جن میں کفایت ہے اور اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو جو وہ سوال کرتے ہم انہیں عطا فرماتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولو علم اللہ فیھم خیراٰ لا سمعھم، ولا اسمعھم لتولو وھم معرضون۔ (الانفال) ۔
Top