Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 79
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا١٘ وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ١ؕ وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
فَفَهَّمْنٰهَا : پس ہم نے اس کو فہم دی سُلَيْمٰنَ : سلیمان وَكُلًّا : اور ہر ایک اٰتَيْنَا : ہم نے دیا حُكْمًا : حکم وَّعِلْمًا : اور علم وَّسَخَّرْنَا : اور ہم نے مسخر کردیا مَعَ : ساتھ۔ کا دَاوٗدَ : داود الْجِبَالَ : پہار (جمع) يُسَبِّحْنَ : وہ تسبیح کرتے تھے وَالطَّيْرَ : اور پرندے وَكُنَّا : اور ہم تھے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا تھا اور ہم نے پہاڑوں کو داود کا مسخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور جانوروں کو بھی (مسخر کردیا تھا) اور ہم ہی ایسا کرنے والے تھے
مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکلا اتینا حکما و علما ایک قوم نے یہ تاویل کی ہے کہ حضرت دائود علیہ السلا نے اس واقعہ میں خطا نہیں کی تھی بلکہ انہیں بھی حکم اور علم عطا کیا گیا تھا انہوں نے ففھمنھا سلیمن کو حضرت سلیمن کی فضیلت پر محمول کیا ہے اور ان کی فضیلت حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف لوٹتی ہے۔ والد کو بیٹے کی فضیلت زیادہ خوش کرتی ہے۔ ایک جماعت نے کہا : بلکہ حضرت دائود (علیہ السلام) اس واقعہ میں مطلوب فیصلہ نہ پا سکے اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی مدح فرمائی ہے کہ ان کے لیے حکم اور علم تھا تو یہ دوسرے واقعات کی طرف راجع ہے۔ رہا یہ کہ اس فیصلہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) صحیح فیصلہ پر پہنچے اور حضرت دائود (علیہ السلام) صحیح فیصلہ پر نہ پہنچے اور انبیاء سے غلطی اور خطا کا وجوہ مانع نہیں جس طرح دوسروں سے اس کا وجود مانع نہیں لیکن انبیاء کرام غلطی اور خطا پر قائم نہیں رہتے اور دوسرے برقرار رہتے ہیں (1) ۔ جب ولید نے دمشق کا کنیسہ (عیسائیوں کا عبادت خانہ) گرایا تو روم کے بادشاہ نے اس کی طرف خط لکھا کہ تو نے وہ کنیسہ گرا دیا جس کو تیرے باپ نے دیکھا تو چھوڑ دیا تھا اگر تو نے صحیح کیا تو تیرے باپ نے غلطی کی تھی اگر تیرے باپ نے درست کیا تھا تو تو نے غلطی کی ہے۔ ولید نے اسے جواب دیا : و داودو سلیمن اذ یحکمن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم، و کنا لحکمھم شھدین۔ ففھمنھا سلیمن، وکلا اتینا حکما و علما، ایک قوم نے کہا : حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) دونوں نبی تھے اسی وحی کے مطابق فیصلہ فرماتے تھے جو ان کی طرف بھیجی جاتی تھی پس حضرت دائود (علیہ السلام) نے وحی کے مطابق فیصلہ کیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی وحی کے مطابق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلہ کو منسوخ کردیا۔ اس بنا پر ففھمنھا سلیمن اسی وحی کے ساتھ ہوگا جس نے حضرت دائود علی السلام کی طرف کی گئی وحی کو منسوخ کردیا اور حضرت سلیمان کو یہ حضرت دائود (علیہ السلام) تک پہنچانے کا حکم دیا سی لیے فرمایا : وکلا اتتینا حکما و علما یہ ایک جماعت کا قول ہے ان میں سے ابن فورک بھی ہے۔ جمہور علماء فرماتے ہیں : ان دونوں کا فیصلہ اجتہاد کی بنا پر تھا۔ مسئلہ نمبر 6: علماء کا انبیاء کے اجتہاد کے جواز پر اختلاف ہے ایک قوم نے اس سے منع کیا ہے اور محققین نے انبیاء کے اجتہاد کے جواز کا قول کیا ہے۔ اس میں کوئی استحالہ عقلیہ نہیں کیونکہ یہ دلیل شرعی ہے پس انبیاء کا اس سے استدلال کرنا کوئی محال نہیں جیسا کہ رب تعالیٰ نے آپ کو فرمایا : جب تیرے گمان پر اس طرح غالب آجائے تو اپنے غالب گمان پر فیصلہ کر جے وہ میرا فیصلہ ہے اور وہ امت کو پہنچا دے۔ یہ عقلاً غیز محال ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اجتہاد اس وقت دلیل ہوتا ہے جب نص موجود نہ ہو اور ان سے نص معدوم نٰہیں ہوتی، ہم کہیں گے : جب فرشتہ وحی لے کر نازل نہ ہو تو نص نہ پائی گئی تو وہ بھی بحث میں نصوص کے معنی میں دوسرے مجتہدین کی طرح ہوگئے۔ انبیاء کرام اور دوسرے مجتہدین کے درمیان فرق یہ ہے کہ انبیاء کرام خطا اور غلطی سے اور اجتہاد میں کوتاہی سے معصوم ہوتے ہیں جبکہ دوسرے مجتہدین غلطی اور خطا سے معصوم نہیں ہوتے جیسا کہ جمہور علماء کا خیال ہے کہ تمام انبیاء اپنے اجتہاد میں غلطی اور خطا سے معصوم ہوتے ہیں اور ابو علی بن ابی ہریرہ۔ جو اصحاب شافعی میں سے تھے ان کا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ انبیاء سے خطا میں جواز میں خارج تھے ہمارے نبی کریم ﷺ اور دوسرے انبیاء کے درمیان فرق یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نہیں جو آپ کی غلطی کا تدراک کرے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو غلطی سے محفوظ فرمایا اور دوسرے انبیاء کے بعد چونکہ انبیاء مبعوث ہوتے رہے جو ان کی غلطی کا تدراک کرتے تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ تمام انبیاء میں عام ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ اور دوسرے انبیاء خطا کے جواز میں ہیں۔ اگر انبیاء کرام خطا پر باقی نہیں رہتے پس بعد والے انبیاء کرام کا استدراک کا اعتبار نہیں۔ نبی کریم ﷺ سے ایک عورت نے عدت کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے اسے فرامایا : ” تو جہاں چاہے عدت گزار “ پھر اسے فرمایا : ” تو اپنے گھر میں ٹھہری رہ تاکہ تیری عدت پوری ہوجائے “ (1) ۔ ایک شخص نے آپ سے کہا : بتائیے اگر مجھے باندھ کر قتل کیا جائے جبکہ میں ثواب کی امید رکھتا ہوں تو کیا مجھے جنت سے کوئی چیز روکے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں “۔ پھر اسے بلایا اور کہا : ’ سوائے قرض کے ۔ مجھے اسی طرح جبریل نے خبر دی ہے “۔ (2) ۔ مسئلہ نمبر 7: حسن نے کہا : اگر یہ آیت نہ ہوتی تو دیکھتا کہ فیصلہ کرنے والے ہلاک ہوگئے ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی صواب کی وجہ سے تعریف فرمائی اور حضرت دائود (علیہ السلام) کا اجتہاد کی وجہ سے عذر قبول کیا۔ مجتہدین جو فروع میں اختلاف کرتے ہیں اسے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ ایک جماعت نے کہا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق ایک طرف ہوتا ہے اس نے ادلہ قائم کی ہیں اور مجتہدین کو ان کے متعلق بحث کرنے اور ان میں غور و فکر کرنے پر ابھارا ہے۔ پس جس نے مسئلہ میں صیح سمت کو پالیا وہ علی الاطلاق مصیب ہے اور اس کے لیے دو اجر ہیں ایک اجتہاد میں اجر اور ایک درست سمت پانے میں اجر اور جس نے درست سمت کہ نہیں پایا وہ اپنے اجتہاد میں مصیب ہے اور اس اعتبار سے مخطی ہے کہ اس نے حقیقت کو نہیں پایا اس کے لیے اجر ہے اور وہ معذور نہیں ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مطلوب جہت کو پا لیا وہ وہی تھی جو انہیں سمجھائی گئی تھی۔ ایک فرقہ نے کہا : عالم جو اجتہاد میں غلطی کرتا ہے اس پر خطا میں گناہ نہیں ہوتا اگرچہ غیر معذور ہوتا ہے۔ ایک فرقہ نے کہا : حق ایک طرف میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر دلائل قائم نہیں کیے ہوتے بلکہ معاملہ مجتہدین کی نظر کے سپرد کیا گیا ہے جو صحیح سمت کو پہنچے گا وہ مصیب ہوگا اور جو غلطی کھا جائے گا وہ بھی معذور و ماجور ہوگا۔ صحیح سمت کو پانے کا اس نے ہمیں مکلف نہیں بنایا بلکہ ہمیں صرف اجتہاد کرنے کا مکلف کیا گیا ہے۔ جمہور اہل سنت نے کہا اور ہی امام مالک اور ان کے اصحاب سے محفوظ ہے کہ فروعی مسائل میں حق دونوں طرفوں میں ہوتا ہے ہرک مجتہد مصیب ہوتا ہے اور مطلوب وہ ہوتا ہے جو اس کے گمان میں افضل ہوتا ہے۔ ہر مجتہد کی نظر اس کے گمان میں افضل کی طرف پہنچی ہوتی ہے اس مقالہ پر دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین بہت سے مسائل میں ایک دوسرے کے خلاف ثابت کرتے رہے اور ان میں سے کسی نے بھی اپنے قول پر عمل کرنے کو لازم نہیں کیا۔ اسی سے امام مالک کا قول ہے آپ نے منصور ابی جعفر کو موطا پر مجبوراً عمل کرانے سے روکا۔ جب کوئی عالم کسی معاملہ میں حلت کا قول کرے تو وہ اس میں حق ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس عالم کے ساتھ مختص ہے اور جو اس عالم کے قول پر عمل کرنے والے ہیں اسی طرح اس کا برعکس بھی ہے۔ علماء نے فرمایا : حضرت سلیمان نے اگرچہ فیصلہ کو سمجھا اور وہ ارجح تھا لیکن پہلا بھی خطا نہیں تھا۔ اس بنا پر لوگ حضور ﷺ کے قول : اذ اجتھدالعالم فاخطا کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ اس نے اضل میں خطا کی (3) ۔ مسئلہ نمبر 8: مسلم وغیرہ نے حضرت عمرو بن عاص سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے پھر صحیح جہت کو پا لے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے پھر غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ امام مسلم کی کتاب میں حدیث کے لفظ اس طرح ہیں : اذا حکم فاجتھد، (1) اجتہاد سے پہلے حکم کا ذکر کیا جبکہ معاملہ برعکس ہے فیصلہ پر اجتہاد مقدم ہوتا ہے پس بالا جماع اجتہاد سے پہلے فیصلہ جائز نہیں۔ حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب فیصلہ کرنے کا ارادہ کرے جیسا کہ فرمایا : فاذا قرات القران فاستعذ (النحل :98) تو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا جب واقعہ میں اجتہاد کرنے کا ارادہ کرے۔ یہ اصولیوں کے قول کی صحت کو مفید ہے۔ مجتہد پر واقعہ کے وقوع کے وقت نئے سرے سے غور و فکر کرنا واجب ہے وہ اپنے پہلے اجتہاد پر اعتماد نہ کرے کیونکہ ممکن ہے کہ دوبارہ غور و فکر کرنے سے وقت پہلے اجتہاد کے خلاف ظاہر ہوجائے مگر یہ کہ وہ اپنے اجتہاد کے ارکان کو یاد کرنیوالا اس کی طرف مائل ہو اور دوسری نشانی میں نئے غور و فکر کا محتاج نہ ہو۔ مسئلہ نمبر 9: اس حاکم کے لیے اجر ہوتا ہے جو خطا کر جائے جبکہ وہ اجتہاد، سنن اور قیاس کو جاننے والا ہو اور گزشتہ لوگوں کے فیصلوں کو جاننے والا ہو کیونکہ اس کا اجتہاد کرنا عبادت ہے خطا پر اجر نہیں دیا جائیگا بلکہ اس سے صرف گناہ ساقط ہوگا۔ اور وہ شخص جو اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھتا ہو وہ متکلف ہوگا حکم میں خطا کی صورت میں معزور نہ ہوگا بلکہ اس پر بڑے گناہ کا خوف ہے۔ اس پر لیل دوسری حدیث ہے، ابو دائود نے اس کو روایت کیا ہے : القضاۃ ثلاثۃ (2) (الحدیث) ابن منذر نے کہا : صواب کی طلب میں اس کی اجتہاد پر اسے اجر دیا جائے گا نہ کہ خطا پر اجر دیا جائے گا اس کی تائید اس ارشاد سے ہوتی ہے : ففھمنھا سلیمن، حسن نے کہا : حضرت سلیمان کی تعریف کی اور حضرت دائود (علیہ السلام) کی مذمت نہیں کی۔ مسئلہ نمبر 10: ابو التمام مالکی نے ذکر کیا ہے کہ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ مجتہدین کے اقوال میں سے ایک میں حق ہوگا، تمام مختلف اقاویل میں نہیں ہوگا، اکثر فقہاء نے یہی کہا ہے۔ ابن قاسم نے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے امام مالک سے صحابہ کے اختلاف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : مخطی و مصیب (یعنی خطا کرنے والا یا درست جہت کو پہنچنے والا) ہوگا۔ تمام اقوال میں حق نہیں یہ قول امام مالک سے مشہور ہے، محمد بن حسین کا بھی یہی نظریہ ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو کی حدیث سے حجت پکڑی ہے انہوں نے کہا : یہ نص ہے کہ مجتہدین اور فیصلہ کرنے والوں میں خطا کرنے والے اور صحیح سمت پہنچنے والے ہیں انہوں نے کہا : یہ قول کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے یہ قول اس مسئلہ تک پہنچاتا ہے کہ کوئی حرام چیز حلال، حرام ہوجائے واجب، مستحب ہوجائے۔ پہلے قول والوں نے حضرت ابن عمر کی حدیث سے حجت پکڑی ہے، فرمایا : جنگ احزاب سے واپسی کے دن رسول اللہ ﷺ نے ندا دی : ” خبردار ! کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں (اس سفر میں) لوگوں کو نماز کے وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوا تو بعض نے بنی قریظہ پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی۔ دوسرے صحابہ نے کہا : ہم نماز نہیں پڑھیں گے مگر جہاں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اگرچہ وقت فوت بھی ہوجائے “۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے کسی فریق پر سختی نہ فرمائی انہوں نے کہا : اگر ایک فریق خطا کرنے والا ہوتا تو نبی مکرم ﷺ اسے معین فرماتے۔ یہ کہنا بھی ممکن ہے شاید خطا کرنے والوں کی تعیین اس لیے نہ فرمائی ہو کیونکہ وہ گنہگار نہیں تھے بلکہ ماجور تھے۔ پس کسی کی تعیین نہیں فرمائی۔ واللہ اعلم۔ اجتہاد کا مسئلہ طویل اور بہت سی جہتوں کو رکھتا ہے یہ چیدہ چیدہ گفتگو کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دینے والا ہے۔ مسئلہ نمبر 11 ۔ اس آیت سے ایک اور فصل بھی متعلق ہے وہ یہ ہے کہ حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرنے کے بعد دوسرے اجتہاد کی طرف رجوع کرے جو پہلے اجتہاد سے ارجح ہو۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے ایسا کیا تھا اس کے متعلق ہمارے علماء کا اختلاف ہے۔ عبدالملک اور مطرف نے (الواضحہ) میں کہا ہے یہ اس کے لیے جائز ہے جب تک وہ اپنی ولایت میں ہو۔ جب دوسری ولایت ہو تو اس کے لیے جائز نہیں وہ دوسرے قضاۃ کی طرح ہوگا ؛ یہ المدونہ میں امام مالک کے قول کا ظاہر ہے۔ سحنون نے کہا : قاضی کا اپنے اجتہاد والے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کرنا جس کو وہ صائب دیکھتا ہے جائز نہیں، یہ ابن عبدالحکم کا قول ہے۔ ان دونوں نے فرمایا : جو اس کے نزدیک قوی ہے اس کے ساتھ نیا فیصلہ صادر کرے۔ سحنون نے کہا : مگر یہ کہ اس وقت اس کو قوی بھول جائے یا اسے وہم ہو تو پھر اس نے اس کے علاوہ کے ساتھ فیصلہ کردیا ہو تو اس کے لیے اس فیصلہ کو توڑنا جائز ہے۔ اگر اس نے اس حکم کے ساتھ فیصلہ کیا جو اس وقت اس کے نزدیک قوی تھا پھر اس کے بعد اس کے نزدیک کوئی دوسرا فیصلہ قوی ہوگیا تو پہلے فیصلہ کو توڑنا جائز نہیں ؛ یہ سحنون نے اپنے بیٹے کی کتاب میں کہا ہے۔ اشہب نے ابن المواز کی کتاب میں کہا : گر اس کا رجوع مال میں اصوب کی طرف ہے تو اسے پہلے فیصلہ کو توڑنا جائز ہے اگر فیصلہ طلاق یا نکاح یا آزادی کا تھا تو اسے پہلے فیصلہ کو توڑنا جائز نہیں۔ میں کہتا ہوں : قاضی کا اپنے فیصلہ سے رجوع کرنا اولیٰ ہے جب اس کے لیے واضح ہوجائے کہ حق دوسرے قول میں ہے جبکہ وہ اپنی ولایت میں ہو۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو جو خط لکھا تھا اس میں اسی طرح ہے اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور ہم نے سورة الاعراف میں اس کا ذکر کیا ہے اور تفصیلی نہیں ہے۔ یہ امام مالک کے قول کے ظاہر کے لیہ حجت ہے اور علماء کا اختلاف نہیں ہے کہ قاضی نے جب تجوزاً اور اہل علم کے خلاف فیصلہ کیا تو وہ مردود ہوگا اگرچہ وہ اجتہاد کے ساتھ کیا ہو اور قاضی کا دوسرے قاضی کے حکم کو توڑنا جائز نہیں کیونکہ احکام کو توڑنے کی جہت سے اور حلال کو حرام سے تبدیل کرنے، قوانین اسلام ضبط نہ کرنے کی صورت پیش آجائے گی۔ علماء میں سے کسی نے دوسرے کے فیصلہ کو توڑنے کا قول نہیں کیا وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اس کے لیے ظاہر ہو۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ بعض علماء نے کہا : حضرت دائود (علیہ السلام) نے ابھی حکم نافذ نہیں کیا تھا اور ان کے لیے وہ ظاہر ہوا جو دوسرے نے کا تھا۔ دوسرے علماء نے فرمایا : وہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ فتویٰ تھا۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابوہریرہ ؓ نے جو روایت کیا ہے اس کی بھی اسی طرح تاویل کی جاتی ہے انہوں نے فرمایا : دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ اپنا اپنا بیٹا تھا ایک بھیڑیا آیا اور ایک کا بیٹا لے گیا جس کا بیٹا بھیڑیا لے گیا تھا اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا : بھیڑیا تمہارا بچہ لے گیا ہے۔ دوسری نے کہا : تیرا بیٹا لے گیا ہے۔ فیصلہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس لے گئیں حضرت دائود (علیہ السلام) نے فیصلہ بڑی عورت کے حق میں کردیا وہ حضرت سلیمان بن دائود (علیہما السلام) کے پاس آئیں اور انہیں اپنا مسئلہ بتایا حضرت سلیمان نے فرمایا : میرے پاس چھری لے آئو میں اس بچہ کو تمہارے درمیان دو ٹکڑے کردیتا ہوں چھوٹی عورت نے کہا : ایسا نہ کرو اللہ تجھ پر رحم فرمائے یہ اس کا بیٹا ہے (1) ۔ تو حضرت سلیمان نے فیصلہ چھوٹی عورت کے حق میں کردیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : میں نے اس سے پہلے السکین (چھری) کا لفظ کبھی نہی سنا تھا ہم چھری کو المدیۃ کہتے تھے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے نقل کیا ہے اور رہا یہ قول کہ یہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف سے فتویٰ تھا ضعیف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اذ یحکمن فی الحرث یہ واضح کرتا ہے کیا ہر ایک نے فیصلہ دیا تھا اسی طرح حدیث میں فقضیٰ بہ الکبریٰ آپ نے بڑی کے لیے اس کا فیصلہ کیا۔ یہ قضاء کے انفاذ اور انجاز پر دلیل ہے اور جنہوں نے یہ کہا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی شریعت میں بڑی کے لیے فیصلہ ہوتا تھا اس حیثیت سے کہ وہ بڑی ہے۔ یہ قول بہت بعید ہے کیونکہ بڑا ہونا چھوٹا ہونا دعاوی میں مطرود ہوتا ہے جیسے لمبا ہونا، چھوٹا ہونا، کالا ہونا اور سفید ہونا کسی چیز کا اعتبار نہیں ہوتا یہ دونوں جھگڑنے والوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کا موجب نہیں حتیٰ کہ اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے یا اس وجہ سے اس کے خلاف فیصلہ کیا جائے۔ شرائع سے جو بات سمجھی جاتی ہے یہ قطعی ہے یہ کہنا چاہیے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اس سبب سے بڑی کے لیے فیصلہ کیا جس کی وجہ سے ان کے نزدیک بڑی کا قول راجح تھا۔ حدیث میں اس کی تعیین کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کی حاجت نہیں تھی ممکن ہے بچہ اس کے قبضہ میں ہو اور دوسری کا دلیل قائم کرنے سے عاجز ہونا آپ کے نزدیک ثابت ہوگیا ہو پس آپ نے موجود صورت کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ کردیا ہو۔ اس حدیث کی تاویل میں جو کہا گیا ہے سب سے بہتر یہی قول ہے یہ وہ فیصلہ ہے جس کے لیے ان دعاوی شرعیہ کا قاعدہ تائید کرتا ہے جو شرائع کے اختلاف کو دور کرتا ہے۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ اگر حضرت دائود (علیہ السلام) نے سبب شرعی کے ساتھ فیصلہ کیا تھا تو پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان کے فیصلہ کو توڑنا کیسے جائز تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے فیصلہ کو توڑنے سے تعرض نہیں کیا انہوں نے تو ایک لطیف حیلہ کیا جس کی وجہ سے ان کے لیے چھوٹی کی سچائی ظاہر ہوئی۔ وہ حیلہ یہ تھا کہ جب آپ نے فرمایا : چھری لے آئو میں اسے تمہارے درمیان دو ٹکڑے کردوں تو چھوٹی نے کہا : ایسا نہ کرو، تو آپ کے لیے چھوٹی میں شفقت کا قرینہ ظاہر ہوا اور بڑی میں یہ نہیں تھا اس کے ساتھ ساتھ دوسرے قرائن بھی آپ کو مل گئے جن کی بنا پر آپ نے اس کے لیے فیصلہ کردیا شاید آپ ان لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرنا جائز قرار دیا گیا ہو۔ نسائی نے اس حدیث کا یہ عنوان باندھا ہے حکم الحاکم (حاکم کا اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرنا اور یہ بھی عنوان باندھا ہے) السعۃ للحاکم أن یقول لشی الذی لایفعل افعل یستبین الحق اور یہ عنوان بھی باندھا ہے نقض الحاکم لا یحکم بہ غیرہ فمن ھو مثلہ أو أجل منہ شاید بڑی عورت نے اعتراف کرلیا ہو بچہ چھوٹی کا ہے جب حضرت سلیمان کا اس نے دو ٹکڑے کرنے میں عزم اور یقین دیکھا ہو پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فیصلہ چھوٹی کے لیے کردیا یہ اس طرح ہوگا جس طرح حاکم قسم کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔ جب وہ قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوتا ہے تو وہ شخص آجاتا ہے جو منکر سے ایسی بات نکالتا ہے جو اس کے اقرار کو واجب کرتی ہے پس وہ اس کے خلاف ان کے اقرار کے ساتھ قسم سے پہلے اور قسم کے بعد فیصلہ کردیتا ہے یہ پہلے حکم کے توڑنے کے باب سے نہیں ہوگا بلکہ یہ اسباب کے تبدیل ہونے کے مطابق احکام کی تبدیل ہونے کے باب سے ہوگا۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ انبیاء کے لیے اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے۔ یہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں اس سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ حکام کے لیے ان حیلوں کا استعمال جائز ہے جن کے ذریعے حقوق ظاہر کیے جاتے ہیں اور یہ ذکاوت و فطانت اور قوت سے ہوتا ہے اور مخلوق کے احوال کی مہارت سے ہوتا ہے اور کبھی اہل تقویٰ کے لیے فراست دینیہ ہوتی ہے اور نور یعلامات ہوتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اس میں یہ کہنے والے کے لیے حجت ہے کہ ماں کی طرف اس کو لاحق کیا جائے۔ یہ امام مالک کا مشہور مذہب نہیں ہی اور نہ یہ اس مسئلہ کو ذکر کرنے کا مقام ہے۔ بہرحال حضرت سلیمان کا اس واقعہ میں ایسا فیصلہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح بیان فرمائی : ففھمنھا سلیمن۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ کھیتی کے بارے میں قول اور ہماری شریعت میں اس واقعہ کا حکم گزر چکا ہے کہ باغوں والے اور کھیتوں والے دن کے وقت اپنے بباغات کی حفاظت کریں گے پھر مثل چیزوں میں ضمانت مثلی چیزوں کے ساتھ ہوگی اور ذوالقیم میں قیمت کے ساتھ ہوگی۔ اس مسئلہ میں اصل ہماری شریعت میں وہ فیصلہ ہے جو ہمارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، جو حضرت براء بن عازب کی اونٹنی کے بارے میں تھا جس کو امام مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے حرام بن سعد بن محیصّہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت براء کی اونٹنی ایک شخص کے باغ میں داخل ہوگئی اور اس نے اس کو خراب کردیا نبی کریم ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ ” باغ والوں پر دن کے وقت ان کی حفاظت کرنا ہے مویشی جو رات کے وقت کھیت خراب کردیں تو ان کے مالکوں پر اس کی ضمانت ہوگی “ (1) اسی طرح تمام روات نے مرسلاً روایت کی ہے اسی طرح ابن شہاب کے شاگردوں نے ابن شہاب سے روایت کی ہے مگر ابن عینیہ نے زہری سے انہوں نے سعید اور حرام بن سعد بن محیصہ سے روایت کیا ہے کہ اونٹنی الخ انہوں نے اس کی مثل حدیث بیان کی۔ اس حدیث کو ابن ابی ذئب نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ انہیں خبر پہنچی ہے کہ حضرت براء کی اونٹنی ایک قوم کے باغ میں داخل ہوگئی۔ امام مالک کی حدیث کی مثل بیان کی مگر انہوں نے حرام بن سعید بن محیصہ وغیرہ کا ذکر نہیں کیا۔ اببو عمر نے کہا ابن ابی آئب نے کچھ بھی نہیں کہا مگر انہوں نے اس کی سند کو خراب کردیا۔ عبدالرزاق نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے حرام بن محیصہ سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ عبدالرزاق کا کوئی متابع نہیں ہے اور عن ابیہ کے قول پر بعض علماء نے انکار کیا ہے۔ ابن جریج نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے فرمایا مجھے ابو امامہ بن سہل بن حنیف نے بتایا کہ اونٹنی ایک قوم کے باغ میں داخل ہوگئی اور اس نے اسے خراب کردیا۔ پس ابن شہاب کی حدیث کو حضرت ابو امامہ سے روایت کیا ہے اور حضرت براء کے لیے اونٹنی کا ذکر نہیں کیا۔ یہ بھی جائز ہے کہ حدیث ابن شہاب عن ابن محیصہ سے روایت ہو اور سعید بن مسیب نے روایت کی ہو اور حضرت ابو امامہ سے مروی ہے اور جس سے چاہا روایت کیا اور جو لوگ موجود تھے انہوں نے انہیں بیان کیا اور تمام ثقہ ہیں۔ ابو عمر نے کہا : یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے یہ حدیث مشہور ہے ائمہ حدیث نے اسے مرسل بنایا ہے اور ثقات نے اس کو بیان کیا ہے۔ فقہاء چجاز نے اس کو استعمال کیا ہے اور قبولیت کے ساتھ لیا ہے۔ اور مدینہ طیبہ میں اس پر عمل جاری ہوا ہے۔ تیرے لیے اہل مدینہ اور اہل حجاز کا اس حدیث کو استعمال کرنا کافی ہے۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ مالک اور جمہور ائمہ نے حدیث براء کو لیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور کو فیوں کی ایک جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ جانور جب کھیتی کو خراب کردیں خواہ دن ہو یا رات ہو تو جانور وائے پر کچھ لازم نہ ہوگا اور ان ائمہ نے اس کے فساد کو نبی کریم ﷺ کے قول ” جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے “ (یعنی اس کی ضمانت نہ ہوگی جانور جس کو زخمی کر دے گا) کے عموم میں داخل کیا ہے۔ اور جانوروں کے تمام اعمال کو ان کے زخمی کرنے پر قیاس کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ سے پہلے کسی نے یہ قول نہیں کیا ہے۔ العجماء والی حدیث میں نہ ان کی حجت ہے اور نہ ان کے متبعین کے لیے حجت ہے اور حدیث براء کے لیے نہ ناسخ ہے اور نہ اس کی معارض ہے کیونکہ نسخ کی شروط نہیں پائی جاتیں اور تعارض وہاں ہوتا ہے جب ایک کے استعمال سے دوسری کی نفی لازم آتی ہو اور العجماء جرحھا جبار (جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے) میں عموم متفق علیہ ہے پھر اس سے کھیتی اور باغ کو حدیث البراء کے ذریعے خاص کیا گیا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے ایک حدیث میں یہ آیا العجماء جرحھا جبارنھار الا لیلاً وفی الزرع والحوائط والحرث پھر بھی یہ قول محال نہ تھا پھر یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ یہ متعارض ہے ؟ ییہ عموم اور خصوص کے باب سے ہے جیسا کہ یہ اصول میں مذکور ہے۔ مسئلہ نمبر 15 ۔ اگر کہا جائے کہ رات اور دن کے درمیان تفریق کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ لث بن سعد نے کہا : رات اور دن کے وقت مویشی اگر نقصان کر جائیں تو مویشیوں والے ضامن ہوں گے ہر اس مال کے جس کو وہ خراب کردیں گے لیکن مویشی کی قیمت سے زیادہ ضمانت نہ ہوگی ؟ ہم نے کہا : ان کے درمیان فرق واضح ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ مویشیوں والوں کو دن کے وقت مویشیوں کو چرانے کے لیے چھوڑنا ہوتا ہے ان کے نزدیک اغلب یہ ہے کہ جس کے پاس کھیتی ہو وہ دن کے وقت اس کا خیال کرتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے پس دن کے وقت کھیتی کی حفاظت کھیت والوں پر رکھی کیونکہ یہ معاش میں تصرف کا وقت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وجعلنا النھار معاشا۔ (النائ) اور جب رات ہوتی ہے تو ہر چیز اپنی جگہ اور مسکن کی طرف لوٹ جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من الہ غیر اللہ یاتیکم بلیل تسکنون فیہ (القصص : 72) اور فرمایا : وجعل الیل سکنا (الانعام :86) رات کے وقت مویشیوں والے اپنے مویشی اپنی جگہ پر لوٹاتے ہیں تاکہ ان کی حفاظت کریں جب مویشی والا اس کو گھر لوٹانے میں کوتاہی کرے گا یا رات کے وقت اس کو اچھی طرح باندھنے میں کوتاہی کرے گا حتیٰ کہ وہ کسی چیز کو تلف کر دے گا تو مالک پر ضمانت ہوگی پس حکم آسان طریقہ پر جاری ہوگا اس میں دونوں فریقوں کے لیے آسانی ہے اور دونوں فریقوں کے لیے سہولت ہے اور دونوں کے اموال کے لیے زیادہ حفاظت ہے۔ صاحب نظر کے لیے مسئلہ واضح ہے لیکن جو آنکھوں سے محروم ہے اس کے لیے نہیں رہے۔ لیث کا قول کہ جانور کی قیمت سے زیادہ ضمانت نہ ہوگی۔ ابوعمر نے کہا : میں نہیں جانتا کہ لیث بن سعد نے یہ قول کہاں سے لیا ہے مگر یہ کہ جرم کرنے والے غلام پر اسے قیاس کیا ہو تو اس کی قیمت سے زیادہ نہیں دیا جاتا اور جنایت کی صورت میں اس کے مالک پر اس کی قیمت سے زیادہ لازم نہیں ہوتا۔ یہ وجہ ضعیف ہے اسی طرح التمہید میں کہا اور الاستذ کار میں فرمایا انہوں نے العجماء جرحھا جبار کی مخالفت کی اور ناقۃ البراء والی حدیث کی مخالفت کی ان سے پہلے بھی چند علماء کا یہ قول ہے جن میں سے عطا بھی ہے۔ ابن جریج نے کہا : میں نے عطا سے کہا کھیتی بھی جانور اگر رات یا دن کے وقت پڑجائے تو کیا حکم ہے تو انہوں نے کہا : مالک اس کی چٹی دے گا۔ میں نے کہا : کیا چٹی دے گا ؟ عطا نے کہا : جو گدھے، جانور اور ماشیہ نے کھایا اس کی چٹی دے گا۔ معمر نے ابن شبرمہ سے روایت کیا ہے : کھیتی جس حالت میں تھی اس کی دراہم کے اعتبار سے قیمت لگائی جائے گی۔ حضرت عمربن خطاب اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ سے غیر صحیح طرق سے مروی ہے کہ رب الماشیہ (جانور کا مالک) ہر صورت میں ضامن ہوگا خواہ رات ہو یا دن ہو۔ مسئلہ نمبر 16 ۔ امام مالک نے فرمایا : کھیتی جس کو رات کے وقت مویشیوں نے خراب کیا اس کی رجا اور خوف پر قیمت لگائی جائے گی۔ فرمایا : وہ باغات جن کی حفاظت کی جاتی ہے اور جن کی حفاظت نہیں کی جاتی ہے اور جن سے روکا جاتا ہے اور جن سے روکا نہیں جاتا برابر ہے۔ ہر صورت میں مویشیوں کے مالکوں کو ضمانت دینی ہوگی جب رات کے وقت ان کے مویشی نقصان کریں گے خواہ وہ نقصان کہاں تک پہنچ جائے اگرچہ وہ مویشیوں کی قیمت سے زائد بھی ہو۔ فرمایا : جب ایک جانور رات کے وقت کھل جائے اور وہ کسی سوئے ہوئے آدمی کو لتاڑ دے تو اس کا مالک کسی چزع کا ضامن نہ ہوگا یہ حکم باغ، زرع اور حرث میں ہے ابن عبدالحکم نے امام مالک سے یہ روایت کیا ہے۔ ابن القاسم نے کہا : رات کے وقت جانور جو نقصان کرے گا وہ اس جانور کے مالک کے مال میں ہوگا اگرچہ وہ نقصان اس جانور کی قیمت سے کئی گنا زیادہ بھی ہو کیونکہ جنایت اس کی طرف سے ہے جب اس نے جانور کو صحیح نہیں باندھا۔ جانور، غلام کی طرح نہیں ہے ؛ یہ سحنون اور اصبغ نے ابن القاسم سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 17 ۔ کھیتی کے اگنے یا نہ اگنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا جیسا کہ چھوٹے بچے کی عمر میں کیا جاتا ہے : عیسیٰ نے ابن قاسم سے روایت کیا ہے کہ اس کی قیمت لگائی جائے گی جبکہ وہ اتنی ہوچکی ہو کہ اس کی بیع حلال ہو۔ اشہب اور ابن نافع نے المجموعۃ میں کہا : اگرچہ اس کی منفعت ظاہر نہ بھی ہو۔ ابن عربی نے کہا : پہلا قول قوی ہے کیونکہ یہ اس کی صفت ہے پس اس کی قیمت لگائی جائے گی جس طرح ہر تلف شدہ مال کی اس کی صفت پر قیمت لگائی جاتی ہے۔ مسئلہ نمبر 18 ۔ اگر اس کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا جس کی کھیتی خراب ہوئی ہے حتیٰ کہ اس کی کھیتی پھر اگ آئی اور اس کی کمی پوری ہوگئی اگر تو اس میں اس سے پہلے چرنے کی یا کوئی اور منفعت تھی تو اس منفعت کا ضامن ہوگا اگر اس میں کوئی منفعت نہ تھی تو کوئی ضمانت نہ ہوگی۔ اصغ نے کہا : وہ ضامن ہوگا کیونکہ تلف ہونا متحقق ہوچکا ہے اور پھر کھیتی کا تیار ہونا اس کی طرف سے نہیں ہے۔ پس اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ مسئلہ نمبر 19 ۔ ابن سحنون کی کتاب میں واقع ہے کہ یہ حدیث ان شہروں کے بارے میں ہے جو چار دیواری کے ساتھ گھیرے گئے ہوتے ہیں۔ رہے وہ شہر جن کی کھیتیاں متصل ہوتی ہیں اور ان کے اردگرد باڑ وغیرہ نہیں ہوتی اور باغات بھی اسی طرح کھلے ہوتے ہیں تو بکریوں والے اس کے ضامن ہوں گے جو وہ خراب کریں گے خواہ وہ رات ہو یا دن ہو گویا ان کا خیال ہے کہ ایسے شہروں میں حیوانوں کو کھلا چھوڑنا ضرور خرابی کا باعث ہوگا ؛ یہ لیث کے قول کی طرف میلان ہے۔ مسئلہ نمبر 20 ۔ اصبغ نے مدینہ میں کہا : مویشیوں والوں کے لیے دیہاتوں کی طرف بغیر چرواہوں کے نکالنا جائز نہیں۔ علماء نے اس بنا پر کہا کہ کوئی جگہ کھیت کے ٹکڑے یا چراگاہ کے ٹکڑے سے خالی نہیں ہوتی۔ اگر کھیت کا ٹکڑا ہو تو جانور اس میں داخل نہ ہوگا مگر وہ جس کی حاجت ہوگی اس کے مالکوں پر اس کی حفاظت لازم ہے اور جو وہ خراب کرے گا اس کا مالک ضامن ہوگا خواہ دن ہو یا رات ہو اور اگر چراگاہ کا ٹکڑا ہو تو کھیت والے کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے، مویشیوں والوں پر کچھ نہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر 21 ۔ مویشیوں کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو کھلے پھرتے ہیں 0 ایک وہ جو باڑوں میں بند کئے جاتے ہیں۔ امام مالک نے ان کی یہی تقسیم کی ہے۔ وہ جو کھیتوں اور پھلوں کے عادی ہوتے ہیں تو امام مالک نے فرمایا : انہیں ایسے شہروں میں نکالا اور بیچا جائے گا جہاں کھیت نہیں ہوتے اور ابن القاسم نے الکتاب وغیرہ میں اس کو روایت کیا ہے۔ ابن حبیب نے کہا : اگرچہ اس کا مالک اسے ناپسند بھی کرے۔ اسی طرح امام مالک نے اس جانور کے بارے میں کہا ہے جو کھیتی کو خراب کرنے کا عادی ہو اسے نکالا جائے گا اور بیچا جائے گا۔ رہے وہ جانور جس سے حفاظت کی جاسکتی ہے تو اس کے مالک کو اسے نکالنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 22 ۔ اصبغ نے کہا : شہد کی مکھی، کبوتر، مرغی، جانور کی طرح ہے ان کے رکھنے سے اس کے مالک کو منع نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ نقصان کرتی بھی ہوں۔ دیہات والوں پر کھیتوں کی حفاظت کرنا ہوگا۔ ابن عربی نے کہا : یہ روایت ضعیف ہے اس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی جو ایسی چیز رکھنے کا ارادہ کرے گا جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتی تو اسے رکھنے کی اجازت دی جائے گی لیکن جس چیز سے نفع حاصل کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی وہ دوسروں کے نقصان کا باعث ہے تو پھر اسے اجازت نہیں ہوگی۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : لا ضرر ولا ضرار نہ نقصان اٹھایا جائے گا اور نہ نقصان پہنچایا جائے گا۔ یہ نقصان پہنچانے والے جانور ہیں۔ ابن القاسم کی روایت ہے کہ ان کے مالکوں پر تاوان نہیں ہے مگر یہ کہ وہ انہیں خود نقصان کرنے کے لیے بڑھائیں۔ ابن عربی نے کہا : ان پر تاوان ہوگا تقدم سے پہلے بھی جب وہ نقصان کرنے والے ہوں۔ مسئلہ نمبر 23 ۔ عبدالرزاق نے معمر سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ ان کی بکری جو لا ہے کی تانی میں داخل ہوگئی (اس نے اس کے دھاگے توڑ دیے) تو وہ جھگڑا قاضی شریح کے پاس لے آئے۔ شعبی نے کہا : اس کو دیکھو وہ ان سے سوال کریں گے کہ وہ دن کے وقت واقع ہوئی یا رات کے وقت داخل ہوئی پس قاضی شریح نے ایسا ہی کیا پھر کہا : اگر رات کو ایسا ہوا ہے تو بکری کا مالک ضامن ہوگا اور اگر دن کے وقت ایسا ہوا ہے تو ضامن نہ ہوگا پھر شریح نے یہ آیت پڑھی۔ اذ نفشت فیہ غنم القوم فرمایا : النفش کا معنی رات کو چرنا ہے اور الھمل کا معنی دن کو چرنا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس باب سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : العجماء جرحا جبار جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے یعنی اس کا تاوان نہیں ہوگا۔ ابن شہاب نے کہا : الجبار کا معنی رائیگان ہونا ہے۔ العجماء سے مراد جانور ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اس قول کا ظاہر یہ ہے کہ اکیلا جانور نقصان کرے تو اس میں کچھ نہیں ہے یہ مجمع علیہ ہے اور اگر اس کے ساتھ مہار پکڑنے والا ہو یا پیچھے سے ہانکنے والا ہو یا اس پر سوار ہو پھر مالک نے اسے کسی چیز کو روندنے کے لیے ابھارا اور اس نے کسی چیز کو تلف کردیا تو تلف کرنے والے کا حکم اس پر لاگو ہوگا اگر اس نے ایسی جنایت کردی جس میں قصاص ہے ور اس کا اس پر چڑھانا عمداً تھا تو اس میں قصاص ہوگا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ جانور آلہ (قتل) کی طرح ہے اگر بلا ارادہ ایسا ہوا ہے تو اس میں عاقلہ پر دیت ہوگی اور مال کے تلف کرنے کی صورت میں مجرم کے مال میں چٹی ہوگی۔ مسئلہ نمبر 24 ۔ علماء کا اس کے بارے اختلاف ہے جس کو جانور نے پائوں یا دم کے ساتھ نقصان پہنچایا۔ امام مالک، لیث اور ازاعی اس کے مالک پر ضمانت نہیں لگاتے جبکہ امام شافعی، ابن ابی لیلی اور ابن شبرمہ اس پر ضمانت لگاتے ہیں۔ نقصان کرنے والے جانور جمہور کے نزدیک دوسرے جانوروں کی طرح ہیں۔ امام مالک اور بعض ان کے اصحاب اس کو ضمانت لگاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 25 ۔ سفیان بن حسین نے زہری سے انہوں نے سعید بن مسیب سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” پائوں سے جانور جنایت کرے تو رائیگاں ہے “ (1) ۔ دار قطنی نے کہا : سفیان بن حسین کے علاوہ کسی نے اس کو روایت نہیں کیا اور اس کا کوئی متابع بھی نہیں۔ زہری سے روایت کرنے میں حفاظ حدیث نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان میں سے امام مالک، ابن عینیہ، یونس، معمر، ابن جریج، زبیدی، عقیل، لیث بن سعد وغیرہم ہیں، تمام زہری سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا : العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار، جانور کسی کو نقصان پہنچا دے تو وہ رائیگاں ہے، کنویں میں کوئی گر کر مر جائے تو رائیگاں ہے، کان میں کوئی مر جائے تو رائیگاں ہے۔ ان تمام نے (پائوں سے جانور نقصان پہنچائے تو رائیگاں ہے) کو ذکر نہیں کیا اور یہی درست ہے اسی طرح اس کو ابو صالح سمان، عبدالرحمن اعرج، محمد بن سیرین، محمد بن زیاد وغیرہم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بھی الرجل جبار کے الفاظ ذکر نہیں کیے اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہی محفوظ ہے۔ مسئلہ نمبر 26 البئر جبار اس کی جگہ النار جبار بھی مروی ہے۔ دارقطنی نے کہا ہمیں حمزہ بن قاسم ہاشمی نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں حنبل بن اسحاق نے بتایا انہوں نے کہا میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل کو عبدالرزاق کی حدیث میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث والنار جبار کچھ نہیں ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔ ہمیں مخلد نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں ابو اسحاق ابراہیم بن معانی نے بتایا فرمایا میں نے احمد بن حنبل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اہل یمن النار کو النیر لکھتے ہیں اور اس کی مثل البیر لکھتے ہیں۔ عبدالرزاق نے النار جبار کی تلقین کی (1) ۔ رمادی نے کہا : عبدالرزاق نے کہا معمر نے کہا : میرا خیال ہے یہ وہم ہے۔ ابو عمر نے کہا نبی کریم ﷺ سے مروی ہے معمر کی حدیث جو انہوں نے ہمام بن منبہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : النار جبار، یحییٰ بن معین نے کہا : اس کی اصل البئر جبار تھا معمر نے اس میں تصحیف کی ہے۔ ابو عمر نے کہا : ابن معین نے اپنے اس قول پر دلیل پیش نہیں کی۔ ثقات کی حدیث کو اس طرح رد نہیں کیا جاتا۔ وکیع نے عبدالعزیز بن حصین سے انہوں نے یحییٰ بن یحییٰ غسانی سے ذکر کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے کھیت کے تنکے جلائے تو آگ کی ایک چنگاری اڑی اور اس نے پڑوسی کے کھیت کا کچھ حصہ جلا دیا۔ فرمایا : انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اس کے متعلق لکھا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا العجماء جبار، اور میرا خیال ہے ان النار جبار اور العجماء کی جگہ السائمۃ جبار بھی مروی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ میں یہ وارد ہے اور ہر معنی کے لیے لفظ صحیح مذکور ہے۔ شرح حدیث میں اور کتب فقہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وسخرنا مع داود الجبال یسبحن، وہب نے کہا دائود (علیہ السلام) پہاڑوں کے پاس تسبیح کرتے ہوئے گزرتے تو پہاڑ انہیں تسبیح کے ساتھ جواب دیتے۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کے ساتھ تسبیح کرتے۔ بعض علماء نے فرمایا : جب حضرت دائود (علیہ السلام) کمزوری محسوس کرتے تو پہاڑوں کو حکم دیتے تو وہ تسبیح کرتے حتیٰ کہ آپ کا اشتیاق بڑھ جاتا اسی وجہ سے فرمایا : وسخرنا یعنی ہم نے انہیں ایسا بنا دیا کہ وہ ان کی اطاعت کرتے جب وہ انہیں تسبیح کرنے کا حکم کرتے۔ بعض علماء نے فرمایا : پہاڑوں کا آپ کے ساتھ چلنا ان کا تسبیح کرنا ہے۔ التسبیح، السباحۃ سے ماخوذ ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : یجال اوبی معہ (سبا :10) قتادہ نے کہا : یسبحن کا مطلب ہے وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے جب آپ نماز پڑھتے۔ التسبیح سے مراد نماز ہے۔ یہ تمام احتمال ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا کیونکہ پہاڑ عقل نہیں رکھتے۔ پس ان کا تسبیح کرنا، اللہ تعالیٰ کی عاجز اور محدث کی صفات سے پاکیزگی بیان کرنے پر دلالت ہے۔
Top