Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 80
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ
وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے اسے سکھائی صَنْعَةَ : صنعت (کاریگر) لَبُوْسٍ : ایک لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے لِتُحْصِنَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں بچائے مِّنْ : سے بَاْسِكُمْ : تمہاری لڑائی فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم شٰكِرُوْنَ : شکر کرنے والے
اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک (طرح کا) لباس بنانا بھی سکھا دیا تاکہ تم لڑائی کے ضرر سے بچائے، پس تم کو شکر گذار ہونا چاہئے
(آیت نمبر 80) اس میں تین مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم یعنی لوہے کو دائود کے لیے نرم کر کے زرہ بنانے کا ہنر سکھایا۔ عربوں کے نزدیک لبوس ہر ہتھیار کو کہتے ہیں خواہ وہ زروہ ہو یا جو شن (زرہ) ہو یا تلوار ہو یا نیزہ ہو۔ ہزلی نیزے کی تعریف کرتا ہے : ومعی لبوس للبئیس کا نہ روق بجبھۃ ذی نعاج مخفل اللبوس ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو پہنی جاتی ہے، ابن سکیت نے کہا : البیس لکل حالۃ لبوسھا اما نعیمھا اما بوسھا اللہ تعالیٰ نے یہاں لبوس سے زرہ کا ارادہ کیا ہے۔ یہ لبوس بمعنی ملبوس ہے جیسے رکوب اور حلوب بمعنی مفعول استعمال ہوتا ہے۔ قتادہ نے کہا : سب سے پہلے زرہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے بنائی۔ پہلے سیدھی ہوتی تھیں۔ سب سے پہلے آپ نے اس کے حلقے بنائے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لتحصنکم تاکہ تمہیں بچائے۔ من باسکم تمہاری جنگ سے۔ بعض علماء نے فرمایا : باسکم سے مراد من سلاحکم (تمہارے ہتھیاروں سے) ہے۔ ضحاک نے کہا : من حرب اعدائکم تمہارے دشمن کی جنگ سے۔ مفہوم ایک ہی ہے۔ حسن، ابو جعفر، ابن عامر، حفص اور رح نے لتحنکم کو تائہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ضمیر کو الصنعۃ کی طرف لوٹاتے ہوئے۔ بعض نے کہا : اللبوس اور المنعۃ کی طرف ضمیر راجع ہے جس کا مطلب زر ہیں۔ شیبہ، ابوبکر مفضل، رویسی، ابن ابی اسحاق نے، لنحصنکم نون کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ پیچھے ہے وہ علمنہ باقی قراء نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے فعل کو لبوس کے لیے بنایا ہے یا معنی ہوگا اللہ تعالیٰ تمہیں بچائے گا۔ فھل انتم شکرون۔ کیا تم زرہ کی نعمت کو آسان کرنے پر شکر کرتے ہو۔ بعض نے فرمایا : ھل انتم شاکرون کیا تم میرے رسول کی اطاعت کر کے شکر کرتے ہو۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ یہ آیت اسباب اور صنائع کے استعمال میں اصل ہے، یہ صاحب العقول لوگوں کا قول ہے۔ یہ ان جہلاء اور اغنیاء کا قول نہیں جو کہتے ہیں : یہ ضعفاء کے لیے شروع کی گئئی۔ سبب کا بنانا اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں سنت ہے۔ پس جس نے سبب میں طعن کیا اس نے کتاب و سنت میں طعن کیا اور اس کو ضعف اور عدم احسان کی طرف منسوب کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت دائود علیہ اللسلام کے متعلق خبر دی ہے کہ وہ زرہیں بناتے تھے اور اسی طرح وہ کھجور کے پتوں سے چیزیں بناتے تھے، وہ اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کھیتی باڑی کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) لکڑی کا کام کرتے تھے۔ حضرت لقمان درزی تھے۔ حضرت طالوت کھالوں کی دباغت کرتے تھے۔ بعض نے فرمایا : پانی بھرتے تھے۔ ہنر انسان کے نفس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتا ہے اور ان کے نفس سے ضرر اور تکلیف کو دور کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے ” اللہ تعالیٰ اس مومن سے محبت کرتا ہے جو کوئی پیشہ اختیار کیے ہوئے ہو، عاجزی کرنے والا ہو، لوگوں سے سوال نہ کرنے والا ہو، اصرار سے سوال کرنے والے سے بغض رکھتا ہو۔ “ (1) اس کا مزید بیان سورة الفرقان میں آئے گا۔ کچھ اس سے پہلے گزر چکا ہے۔ اس میں کفایت ہے۔ واللہ اعلم۔
Top