Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 97
وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَاقْتَرَبَ : اور قریب آجائے گا الْوَعْدُ : وعدہ الْحَقُّ : سچا فَاِذَا : تو اچانک هِىَ : وہ شَاخِصَةٌ : اوپر لگی (پھٹی) رہ جائیں گی اَبْصَارُ : آنکھیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) يٰوَيْلَنَا : ہائے ہماری شامت قَدْ كُنَّا : تحقیق ہم تھے فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے بَلْ كُنَّا : بلکہ ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور (قیامت کا) سچا وعدہ قریب آجائے تو ناگاہ کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں (اور وہ کہنے لگیں کہ) ہائے شامت ہم اس (حال) سے غفلت میں رہے بلکہ ہم (اپنے حق میں) ظالم تھے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و اقترب الوعد الحق، الوعد الحق سے مراد قیامت ہے۔ فراء، کسائی وغیرہ نے کہا ہے کہ وائو زئدہ مقحمہ ہے۔ معنی یہ ہے کہ جب یاجوج و ماجوج کا بند کھل جائے گا قیامت قریب آجائے گی۔ اقترب، اذا کا جواب ہے۔ فراء نے یہ شعر اس پر کہا ہے : فلماء اجرنا ساحۃ الحث و اتتحی یعنی اس میں بھی وائو زائدہ ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و تلہ للجبین۔ و نادینہ (الصافات) نادینہ سے پہلے وائو زائد ہے۔ کسئی نے اذا کا جواب فاذا ھی شاخصۃ ہونا بھی جائز قرار دیا ہے اس صورت میں اقترب الوعد الحق اس فعل پر معطوف ہوگا جو شرط ہے۔ بصریوں نے کہا : جواب محذوف ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہے : قالوا یاویلنا، یہ زجاج کا قول ہے اور یہ عمدہ قول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : والذین اتخذوا من دونہ اولیآء ما نعبدھم الا لیقربونآ الی اللہ زلفیٰ (الزمر :3) اس کا معنی ہے قالوا ما نعبدھم قول کا حذف کثیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذا ھی شاخصۃ، ھی ضمیر ابصار کے لیے ہے اور ابصار بعد میں اس کی تفسیر کے طور پر مذکور ہے گویا یوں فرمایا : فاذا ابصار الذین کفروا شخصت عند مجی الوعد، شاعو نے کہا : لعمر ابیھا لا تقول ظعینتی الا فرعنی مالک بن أبی کعب شاعر نے پہلے ھاضمیر ذکر کی ہے پھر ظعینتی کو ظاہر ذکر کیا۔ فراء نے کہا : ھی عماد ہے جیسے فانھا لا تعمی الابصار (الحج :46) ہے۔ بعض نے فرمایا : ھی پر کلام مکمل ہوگی۔ تقدیر اس طرح ہے فاذاھی یعنی قیامت ظاہر ہوگی یعنی ان کے قریب سے گویا وہ آنے والی ہے حاضر ہے پھر نئی کلام کا آغاز کیا۔ شاخصۃ ابصار الذین کفروا یہ مبتدا پر خبر کو مقدم کیا گیا ہے یعنی کفار کی آنکھیں قیامت کے دن پھٹی پھٹی ہوں گی۔ قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے آنکھیں نہیں جھپکیں گی وہ کہیں گے : ہائے افسوس ! ہم اپنی معصیت کی وجہ سے ظالم تھے ہم نے عبادت کو اپنے مقام پر نہ رکھا۔
Top