Al-Qurtubi - Al-Hajj : 37
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ
لَنْ يَّنَالَ : ہرگز نہیں پہنچتا اللّٰهَ : اللہ کو لُحُوْمُهَا : ان کا گوشت وَلَا : اور نہ دِمَآؤُهَا : ان کا خون وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) يَّنَالُهُ : اس کو پہنچتا ہے التَّقْوٰي : تقویٰ مِنْكُمْ : تم سے كَذٰلِكَ : اسی طرح سَخَّرَهَا : ہم نے انہیں مسخر کیا لَكُمْ : تمہارے لیے لِتُكَبِّرُوا : تاکہ تم بڑائی سے یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا هَدٰىكُمْ : جو اس نے ہدایت دی تمہیں وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
خدا تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کردیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے اسے بزرگی سے یاد کرو اور (اے پیغمبر) نیکو کاروں کو خوشخبری سنا دو
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لن ینال اللہ لحومھا حضرت ابن عباس ؓ نھے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں لوگ اونٹوں کا خون بیت اللہ پر مل دیتے تھے پھر مسلمانوں نے بھی ایسا کرنے کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، النیل باری تعالیٰ کے متعلق نہیں ہوتا لیکن قبولیت کی مجازی تعبیر ہے مطلب یہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں نہیں پہنچے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس کی طرف بلند نہیں ہوگا۔ ابن عیسیٰ نے کہا : ان کے گوشت اور خون قبول نہیں کرے گا لیکن اس کی بارگاہ میں تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے یعنی جو اس کی ذات کا ارادہ کیا گیا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور وہ اس کی طرف بلند ہوتا ہے، وہ اسے سنتا ہے اور اس پر ثواب دیتا ہے ؛ اسی سے حدیث ہے : ” اعمال کا دارومدار نیت پر ہے “ (1) اور لن ینال اللہ وینالہ دونوں جگہ یاء کے ساتھ ہے اور یعقوب سے دونوں جگہ اللحومکا اعتبار کرتے ہوئے تاء کے ساتھ مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کذلک سخرھا لکم اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے بڑے جانوروں کو ہمارے لیے مطیع بنا کر اور ہمیں ان پر تصرف کی قدرت دے کر ہم پر احسان فرمایا، حالانکہ بدن اور اعضاء کے اعتبار سے ہم سے قوی ہیں اور بڑے ہیں۔ یہ اس لیے ہے تاکہ بندے کو معلوم ہوجائے یہ امور ایسے نہیں جیسے ببندے کے لیے ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ ایسے ہوتے ہیں جیسے وہ غالب و قادر ارادہ فرماتا ہے۔ پس چھوٹا بڑے پر غالب ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لتکبروا اللہ علی ما ھدکم اللہ تعالیٰ نے اس سے قبل آیت میں ان جانوروں پر اپنا نام ذکر کرنے کو بیان کیا تھا فرمایا : فاذکروا اسم اللہ علیھا اور اب یہاں تکبیر کا ذکر فرمایا اور حضرت ابن عمر ؓ دونوں کو جمع فرماتے تھے جب ہدی کو نحر کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے بسم اللہ واللہ اکببر یہ ان کی فقہ سے ہے۔ صحیح میں حضرت انس سے مروی ہے فرمایا : نبی پاک ﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈھے ذبح کیے (2) اور فرمایا : میں نے آپ ﷺ کو انہیں ہاتھ سے ذبح کرتے دیکھا اور میں نے دیکھا کہ آپ اپنا قدم ان کے کندھے پر رکھے ہوئے تھے آپ نے بسم اللہ اور تکبیر پڑھی۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے۔ ابو ثور نے کہا : ذبح میں بسم اللہ متعین ہے جس طرح نماز میں تکبیر متعین ہے اور تمام علماء اس کے استحباب پر متفق ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کوئی اور اسم ذکر کر دے اور اس سے بسم اللہ کا ارادہ کرے تو بھی جائز ہے اسی طرح اگر صرف اللہ اکبر کہا یا لا الہ الا اللہ کہا تو بھی جائز ہے ؛ یہ ابن حبیب کا قول ہے۔ اگر اس سے بسم اللہ کا ارادہ نہ کیا تو بسم اللہ کی طرف سے جائز نہ ہوگا اور جانور نہیں کھایا جائے ؛ یہ امام شافعی اور امام محمد بن حسن کا قول ہے۔ ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء کے نزدیک ذبح کے وقت نبی کریم ﷺ پر درود یا آپ کا ذکر مکروہ ہے اور فرماتے ہیں : ذبح کے وقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔ امام شافعی نے ذبح کے وقت نبی کریم ﷺ پر درود کو جائز کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ جمہور علماء کا خیال ہے کہ قربانی کرنے والے کا اللھم تقبل منی اے اللہ ! میری طرف سے قبول فرما۔ کہنا جائز ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ نے مکروہ کہا ہے۔ اور امام صاحب پر حجت حضرت عائشہ کی روایت ہے جس میں ہے پھر کہا : باسم اللہ اللھم تقبل من محمد وآل محمد ومن امۃ محمد (1) پھر اس کو قربان کیا۔ بعض علماء نے بعض قرآنی ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ (القرہ) کی وجہ سے یہ کہنا مستحب ہے۔ امام مالک نے یہ قول مکروہ کہا ہے : اللھم نک والیک۔ امام مالک نے فرمایا : یہ بدعت ہے۔ ابن حبیب جو ہمارے علماء میں سے ہیں اور حسن نے اس کو جائز قرار دیا ہے ان دونوں کے قول کی صحت کی دلیل ابو دائود کی روایت ہے جو انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے (2) فرمایا : نبی کریم ﷺ نے ذبح کے دن دو سینگوں والے خصی چتکبرے مینڈھے ذبح کیے جب انہیں لٹایا تو یہ پڑھا : انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفاً الی قولہ وانا اول المسلمین، اللھم منک ولک عن محمد وامۃ باسم اللہ واللہ اکبر پھر ذبح فرمایا۔ شاید امام مالک کو یہ خبر نہ پہنچی ہو یا ان کے نزدیک صحیح نہ ہو یا عمل اس کے مخالف دیکھا ہو اس بنا پر فرمایا یہ بدعت ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وبشر المحسنین۔ روایت ہے کہ یہ خلفاء اربعہ کے بارے میں نازل ہوئی جیسا کہ اس سے پہلے آیت میں گزرا ہے۔ لفظ کا ظاہر عموم کا تقاضا کرتا ہے کہ محسن کے بارے میں ہے۔ روایت ہے کہ یہ مومنین کے سببب نازل ہوئی جب مکہ میں ان کی کثرت ہوئی تو کفار نے انہیں اذیتیں دیں اور بعض حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے اور بعض مومنین نے ارادہ کیا کہ جس کافر پر غالب آئیں اسے قتل کردیں اور دھوکہ اور حیلہ سازی کی کوشش کریں تو یہ یت نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے مدافعت کا وعدہ فرمایا اور خیانت و عذر سے بڑے بلیغ انداز میں منع فرمایا۔ دھوکہ دینے میں شدت سورة الانفال میں بھی گزر چکی ہے۔ ” قیامت کے روز دھوکہ دینے والے کے لیے اس کی سرین کے پاس ایک جھنڈا گاڑھا جائئے گا جو اس کے دھوکا کی مقدار کا ہوگا “ (1) ۔ کہا جائے گا : یہ فلاں کا دھوکہ ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ مومنین کو ہمیشہ توفیق عطا فرماتا رہے گا حتیٰ کہ ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوجائے گا اور کفار ان کو اپنے دین سے پھیرنے پر قادر نہ ہوں گے اگرچہ اکراہ جاری رہے گا پس اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے گا حتیٰ کہ وہ دلوں سے مرتد نہ ہوں گے۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حجت کے ذریعے مومنین کو بلندی عطا فرمائے گا پھر کسی کافر کا مومن کو قتل کرنا نادر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس مومن کا دفاع اس طرح کرے گا کہ اسے اپنی رحمت میں لے لے گا۔ نافع نے یدافع اور لولا دفاع پڑھا ہے۔ ابو عمرو، اببن کثیر نے یدفع اور ولولا دفع پڑھا ہے۔ عاصم، حمزہ اور کسائی نے یدافع اور لولا دفع اللہ پڑھا ہے۔ یدافع بمعنی یدفع ہے جیسے عاقبت اللص ہے اور عافاہ اللہ ہے مصدر دفعاً ہے۔ زہری نے حکایت کیا ہے کہ دفاعاا، دفع کا مصدر ہے جیسے حسب کا مصدر حساباً ہے۔
Top