Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو عمل تم کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں
آیت نمبر 51 اس میں دو مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ نے فرمایا : اے لوگو بیشک قبول نہیں فرماتا مگر پاک اور اللہ نے مومنین کو وہی حکم دیا جو اس نے مرسلین کو حکم دیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، قبول الصدقۃ من الکسب الطیب، جلد 1، صفحہ 326) فرمایا یایھا الرسل کلو من طیبت واعملو صالحا انی بما تعملون علیم۔ اور اللہ نے فرمایا : یا ایھا الذین امنو کلو من طیبت ما رزقنکم (البقرہ :172) پھر ذکر کیا ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ ہیں، جسم غبار آلود ہے، اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتا ہے کہتا ہے : یارب یارب جب کہ اس کا کھانا حرام ہے اور پینا حرام ہے اور اس کا لباس بھی حرام ہے اور اسے حرام سے غذادی گئی ہے پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی ؟۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ بعض علماء نے فرمایا : اس آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو تمام رسل کے قائم مقام رکھا جیسے فرمایا : الذین قال لھم الناس (آل عمران :173) ۔ اس آیت میں الناس سے مراد نعیم بن مسعود ہے۔ زجاج نے کہا : یہ نبی کریم ﷺ کو خطاب ہے جمع کا صیغہ ہے اس بات پر دلیل ہے کہ تمام رسل کو اسی طرح حکم دیا گیا تھا، یعنی حلال سے کھائو۔ طبری نے کہا خطاب حضرت عیسیٰ کو ہے روایت ہے کہ وہ اپنی والدہ کے سوت کاتنے سے کھاتے تھے۔ ان سے یہ مشہور ہے کہ وہ جنگل کی سبزیوں سے کھاتے تھے اور حضرت عیسیٰ کو خطاب کی وجہ وہی ہے جو ہم نے حضرت محمد ﷺ کے متعلق ذکر کی ہے یعنی انہیں شرف دینے کے لئے۔ بعض نے کہا : اس بات سے ہر نبی کو خطاب کیا گیا ہے کیونکہ یہ ان کا طریقہ ہے جس پر ان کا ہونا مناسب ہے پس معنی یہ ہوگا ہم نے کہا : اے رسل : کھائو پاکیزہ چیزوں سے جیسے تو تاجر کو کہتا ہے : اے تاجرو : سود سے بچو تو اس کو معنی سے خطاب کرتا ہے اس کے ساتھ متصل ہے کہ یہ مقالہ تمام اصناف کی صلاحیت رکھتا ہے انبیاء کرام کو اکٹھا کبھی خطاب نہیں کیا گیا ہر ایک کو اس زمانہ میں خطاب کیا گیا۔ فراء نے کہا : یہ اس طرح ہے جیسے ایک شخص کو کہتا ہے، ہمیں اذیت دینے سے رک جائو۔ اللہ نے اکل حلال کے وجوب اور حرام سے اجتناب کے ساتھ خطاب میں انبیاء کرام اور مومنین میں برابری فرمائی اور پھر تمام اس وعید میں شامل ہیں جس کو انی بما تعملون علیم کا ارشاد اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ اللہ درود بھیجے اپنے رسل اور انبیاء پر جب انبیاء کرام کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو پھر باقی لوگوں کے ساتھ کیسا گمان ہے ؟ الطیبات اور الرزاق کے بارے میں گفتگو کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ الحمد اللہ۔ اور حدیث شریف یمد یمدیہ (صحیح مسلم، بیان ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع امن المعروف، جلد 1، صفحہ 326) ، وہ ہاتھوں کو بلند کرتا ہے۔ دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کرنے کی مشروعیت پر دلیل ہے۔ اس میں کلام گزرچکی ہے۔ اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فان یستجاب لذلک۔ (ایضا) اس کی دعا قبول کیسے ہوگی ؟ یہ استبعاد کی جہت ہے یعنی وہ دعا کی قبولیت کا اہل نہیں لیکن یہ جائز ہے کہ اللہ اپنے لطف وکرم سے اس کی دعا قبول فرمالے۔
Top