Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ هُمْ : وہ مِّنْ : سے خَشْيَةِ : ڈر رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّشْفِقُوْنَ : ڈرنے والے (سہمے ہوئے)
جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں
آیت نمبر 57-60 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان الذین ھم من خشیۃ ربھم مشفقون۔ کفار کے ذکر اور ان کو وعید سنانے کے بعد مومنین کا ذکر کیا جو نیکیوں میں جلدی کرنے والے ہیں اور اللہ نے جو ان کے ساتھ وعدہ کیا ہے اس کا ذکر کیا ہے اور ان کی ابلغ صفات کا ذکر کیا۔ مشفقون وہ ان چیزوں سے ڈرنے والے ہیں جن سے اللہ نے ڈرایا ہے۔ والذین ھم بایت ربھم یومنون۔ والذین ھم بربھم لا یشرکون۔ والذین یئوتون ما اتواو قلوبھم وجلۃ۔ حسن نے کہا : وہ اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں کہ ان کا عمل کہیں غیر مقبول ہوجائے۔ ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ سے اس آیت کے متعلق پوچھا : والذین یئوتون ما اتواو قلوبھم وجلۃ حضرت عائشہ نے عرض کی : کیا وہ شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں۔ (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، سورة مومنون، جلد 2، صفحہ 147) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں اے صدیق کی بیٹی۔ لیکن وہ روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں جبکہ وہ ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ کہیں انکے یہ اعمال رد نہ کیے جائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں جلدی کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، باب ومن سورة المومن، حدیث نمبر 3099، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حسن نے کہا : ہم نے ایسے لوگوں کو پایا کہ انہیں اپنی نیکیوں کے رد ہونے کا زیادہ خوف ہوتا تھا اس سے زیادہ جتنا کہ تمہیں اپنی برائیوں پر عذاب دیئے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ، حضرت ابن عباس ؓ اور نخعی نے والذین یئوتون ما اتوا۔ الاتیان سے مشتق کرکے مقصور پڑھا ہے۔ فراء نے کہا : یہ قرأت حضرت عائشہ سے صحیح ہوتی تو جماعت کی قرأت کے خلاف نہ ہوتی کیونکہ عربوں میں سے جو تمام حالات میں ہمزہ میں الف کو لازم کرتے ہیں جب اسے لکھا جاتا ہے پس سئل الرجال سین کے بعد الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ یستھزئون۔ زا اور وائو کے درمیان الف کے ساتھ ہے اور شئی یا کے بعد الف کے ساتھ ہے۔ پس ان علماء کے نزدیک یا کے بعد الف کے ساتھ لکھنا ناپسندیدہ نہیں یہ لفظ اس خط کی بناء پر دونوں پر دونوں قرائوتوں کا احتمال رکھتا ہے۔ یئوتون ما اتوا۔ ویاتون ما اتوا (زاد المسیر، جلد 3، صفحہ 348) ان دونوں تاویلوں کے احتمال کے ساتھ منفرد ہے۔ وہ نظریہ جو جماعت کا ہے، وہ جو زکاۃ، صدقہ دیتے ہیں تو ان کے دل رہے ہوتے ہیں اور وہ جو فرشتوں کے اعمال پیش کرتے ہیں تو ڈر رہے ہوتے ہیں۔ مفعول کو اس باب میں حذف کیا گیا ہے کیونکہ اس کا معنی واضح ہے جس طرح کے اس قول میں حذف کیا گیا ہے۔ فیہ یغاث الناس وفیہ یعصرون (یوسف) یعنی وہ تلوں اور انگور کو نچوڑتے ہیں۔ مفعول کو حذف کیا کیونکہ اس کی تاویل واضح ہے۔ اصل اس قرأت پر ہوگی اور قرآن کے اصل نسخہ میں موجود ہے یاتون، الف ہمزہ سے بدلا گیا ہے اور الف کو وائو کی صورت میں لکھا گیا ہے، کیونکہ خفاء میں حروف مدہ اور لین برابر ہیں، ابن الانباری نے یہ حکایت کیا ہے۔ نحاس نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت سے معروف والذین یاتون ما اتوا ہے یہ قرأت نبی کریم ﷺ سے مروی ہے اور حضرت عائشہ سے مروی ہے اور اس کا معنی ہے وہ عمل کرتے ہیں جو عمل کرتے ہیں جیسا کہ حدیث میں مروی ہے۔ الوجل کا معنی ڈرنا اور خوف کھانا ہے متقی اور تائب کو انجام کا خوف ہوتا ہے اور ان امور کا خوف ہوتا ہے جو موت کے بعد اس پر طاری ہوں گے۔ انھم الی ربھم راجعون۔ یہ خاتمہ پر تنبیہ ہے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ انما الاعمال بالخواتیم۔ (صحیح بخاری، باب العمل بالخواتیم، جلد 2، صفحہ 978) ۔ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ رہا وہ شخص جس سے نیکیاں اور گناہ دونوں سرزد ہوتے ہیں تو انہیں وعید کے نفاز کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اصحاب الخواطر نے کہا : عارف پر اطاعت کیوجہ سے کپکپی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جتنا کہ مخالفت پر کپکپی ہوتی ہے کیونکہ مخالفت کو توبہ مٹادیتی ہے اور طاعت میں غرض کی تصحیح مطلوب ہوتی ہے۔ انھم یعنی لانھم یامن من اجل انھم۔۔۔۔۔۔ ا لی ربھم راجعون۔ (النکت والعیون، جلد 4، صفحہ 59)
Top