Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 80
وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : وہی جو يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے وَ لَهُ : اور اسی کے لیے اخْتِلَافُ : آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پس تم سمجھتے نہیں
اور وہی جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے اور رات اور دن کا بدلتے رہنا اسی کا تصرف ہے کیا تم سمجھتے نہیں ؟
آیت نمبر 80-89 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : وھوا لذی یحیٖ ویمیت ولہ اختلاف الیل والنھار دن اور رات کو اس نے مختلف بنایا جیسے تیرا قول ہے لک الاجر والصلۃ تجھے اجر دیا جائے گا اور صلہ دیا جائے گا۔ یہ فراء کا قول ہے۔ بعض نے کہا : دن رات کے اختلاف سے مراد نور وظلمت میں مختلف ہونا ہے۔ بعض نے کہا : اس سے مراد اس کا تکرار ہے دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن آتا ہے۔ پانچواں احتمال یہ ہے کہ ان میں جو سعادت وشقاوت اور گمراہی وہدایت گزرچکی ہیں اس کا اختلاف مراد ہے۔ افلا تعقلون۔ کیا تم اس کی قدرت، ربوبیت اور وحدانیت کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ اس کی مخلوق سے اس کا شریک ہونا جائز نہیں وہ دوبارہ اٹھانے پر قادر ہے پھر انہیں ان کے قول کے ساتھ بدلا اور ان کے متعلق خبردی کہ انہوں نے کہا اس کی مثل جو پہلے کفار نے کہا : انہوں نے کہا : کیا جب ہم مرجائیں گے اور ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ہمیں اٹھایا جائے گا یہ تو متصور نہیں ہوسکتا۔ لقد وعدنا نحن وابائونا ھذا من قبل محمد ﷺ کی آمد سے پہلے بھی ہم سے اور ہمارے آباء سے یہ وعدہ کیا گیا تھ۔ ہم اس کی حقیقت نہیں دیکھتے ان ھذا، ان بمعنی ما ہے۔ الا اسا طیر الاولین۔ یہ ان کی من گھڑت باتیں ہیں۔ یہ پہلے گزرچکا ہے اللہ نے فرمایا : قل، اے پیارے حبیب انکے جواب میں فرمائیے لمن الارض ومن فیھا کس کی ملکیت ہے یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے۔ اسمیں اللہ اپنی ربوبیت، وحدانیت اور لازوال بادشاہی کی اور اپنی کامل قدرت کی خبر دے رہے ہیں۔ سیقولون للہ وہ ضرور کہیں گے اللہ۔۔ قل افلا تذکرون۔ تو آپ فرمائیے : کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ جو ابتداء اس کی تخلیق پر قادر ہے وہ ان کے مرنے کے بعد ان کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ قل من رب السماوات السمع ورب العرش العظیم۔ سیقولون للہ قل افلا تتقون۔ یعنی کیا تم نہیں ڈرتے ہو کہ تم میرے لئے وہ بناتے ہو جو تم اپنے لئے ناپسند کرتے ہو تم کہتے ہو کہ ملائکہ میری بیٹیاں ہیں اور تم اپنے لیے بیٹیاں ناپسند کرتے ہو۔ قل من بیدہ ملکوت کل شیئ۔ اس سے مراد آسمان اور جو کچھ انکے اوپر ہے اور جو کچھ انکے درمیان ہے اور وہ چیزیں مراد ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مجاہد نے کہا : ملکوت کل شیء ہر چیز کے خزائن۔ ضحاک نے کہا : ہر چیز کی ملک۔ ملکوت مبالغہ کی صفات سے ہے جیسے جبروت اور رہبوت۔ یہ سورة انعام میں گزرچکا ہے۔ وھو یجیر ولا یجار علیہ بعض نے کہا : اس کا مطلب ہے جسے چاہتا ہے امن دیتا ہے ولا یجار علیہ اور جسے وہ ڈراتا ہے اسے امن نہیں د یا جاتا۔ بعض نے کہا : یہ دنیا میں ہے یعنی اللہ جس کے ہلاک کرنے اور خوف کا ارادہ فرماتا ہے کوئی روکنے والا اس کو روک نہیں سکتا اور جس کی مدد کا اور امن دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کی مدد کوئی روک نہیں سکتا اور اس کے امن کو کوئی روک نہیں سکتا۔ بعض نے کہا : یہ آخرت میں ہوگا یعنی جو ثواب کا مستحق ہے اسے ثواب دینے سے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو عذاب کا مستحق ہے اسے عذاب دینے سے کوئی روکنے والا نہیں۔ فانی تسحرون۔ یعنی تم اس کی طاعت اور توحید سے کیسے پھیرے گئے ہو اور کیسے دھوکا دیے گئے ہو یا کیسے یہ تصور دیا گیا ہے کہ تم ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرائو جو نہ نفع دیتی ہیں اور نہ نقصان دیتی ہیں۔ السحر کا معنی خیال کرنا ہے۔ یہ تمام ان عربوں پر حجت ہے جو صانع کا اقرار کرنے والے ہیں۔ ابو عمرو نے آخری دونوں جگہ سیقولون اللہ ؛ پڑھا ہے یہی اہل عراق کی قرأت ہے اور باقی قرأء نے للہ پڑھا ہے اور پہلے کے للہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ قل لمن الارض ومن فیھا کا جواب ہے جب لمن میں لام مقدم ہوئی تو جواب میں لوٹائی گئی۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تمام مصاحف میں بغیر الف کے لکھا ہوا ہے اور جنہوں نے سیقولون اللہ پڑھا تو سوال بغیر لام کے ہے تو جواب بھی اسی طرح آیا اور پہلی صورت میں للہ لام کے ساتھ پڑھا ہے اور سوال میں بھی لازم ہے۔ کیونکہ قل من رب السموات السمع ورب العرش العظیم۔ کا مطلب ہے قل لمن السموات السبع الخ۔ پس جواب کے ساتھ دیا جب سوال میں لام مقدر کیا گیا اور تیسرے کی علت دوسرے کی علت کی طرح ہے ؛ شاعر نے کہا۔ اذا قیل من رب المزالف والقری ورب الجیاد الجرد قلت لخالد اصل میں لمن المزالف ہے۔ مزالف ان شہروں کو کہتے ہیں جو صحراء اور آبادی کے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ آیات کفار سے جھگڑنے اور انکے خلاف حجت قائم کرنے پر دلیل ہیں۔ یہ مسئلہ سورة البقرہ میں گزرچکا ہے۔ ان آیات نے آگاہی بخشی کہ جو خلق اختراع، ایجاد اور ابداع پر ابتداء قادر ہے وہ الوہیت اور عبادت کا مستحق ہے۔
Top