Al-Qurtubi - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن عورتیں ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا : پھر وہ نہ لائیں بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاجْلِدُوْهُمْ : تو تم انہیں کوڑے مارو ثَمٰنِيْنَ : اسی جَلْدَةً : کوڑے وَّلَا تَقْبَلُوْا : اور تم نہ قبول کرو لَهُمْ : ان کی شَهَادَةً : گواہی اَبَدًا : کبھی وَاُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا الزام لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی بد کردار ہیں
آیت نمبر 4 تا 5 اسمیں چھبیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ یہ آیت تہمت لگانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی سعید بن جبیر نے کہا : اس کا سبب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت تھی (1) ۔ بعض نے کہا : یہ عام تہمت لگانے والوں کے سبب نازل ہوئی نہ کہ مخصوص واقعہ میں۔ ابن المندر نے کہا : ہم نبی کریم ﷺ کی اخباری میں کوئی ایسی خبر نہیں پاتے جو صراحۃً قذف پر دلالت کرتی ہو۔ اور ظاہر کتاب اللہ اس سے مستغفی ہے۔ جو اس قذف پر ولایت کرتی ہو جس کی وجہ وجہ سے حدواجب ہوتی ہے اہل علم کا اس پر اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذین یرمون یعنی جو زبان درازی کرتے ہیں اس کے لیے رمی کا اسم عاریہ لیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ زبان کے ساتھ اذیت ہے۔ نابغہ نے کہا : جرح اللسان کجرح الید زبان کے زخم ہاتھ کے زخم کی طرح ہیں ایک اور شاعر نے کہا : رمان با مر کنت منہ ووالدی بریئا من اجل الطوی رمانی اس کو قذف کہا جاتا ہے اسی سے حدیث پاک ہے ” ابن امیہ نے ایک عورت پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کرنے کی تہمت لگائی “ (2) ۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں عورتوں کا ذکر کیا ہے کیونکہ وہ اہم ہیں اور ان پر برائی کی تہمت لگانا زیادہ قبیح ہے اور نفوس کو زیادہ زخمی کرنے والا ہے۔ اور مردوں پر تہمت لگانا بھی معنی اور اجماع امت کی وجہ سے حکم میں داخل ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے اس نے خنزیر کے گوشت کی تحریم پر نص قائم فرامائی اور اس میں اس کی چربی اور بھر بھری ہڈی بھی شامل ہے۔ یہ معنی اور اجماع کی وجہ سے ہے۔ زہراوی نے حکایت کیا ہے اس کا معنی : الانفس المحصنات ہے اور یہ اپنے لفظ کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کو شامل ہے، اس پر دلیل والمحصنت من النساء (النساء : 24) کا قول ہے۔ ایک قوم نے کہا : المحصنات سے مراد فروض، شرمگاہ ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : والتی احصنت فرجھا (الابنیاء : 91) اس میں مردوں اور عورتوں کی شرمگاہیں داخل ہیں۔ بعض نے کہا : اجنبیہ عورت کا ذکر کیا گیا، جب اس پر تہمت لگائی جائے تاکہ اس پر مرد کا اپنی عورت پر تہمت لگانے کا عطف کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ جمہور نے المحصنات سے مراد یہاں پاکدامن عورتیں لی ہیں۔ سورتۃ النساء میں الحصان کا ذکر اور اس کے مرابت گزر چکے ہیں۔ والحمد اللہ مسئلہ نمبر 4 ۔ علماء کے نزدیگ قذف کی نو 9 شرائط ہیں دو شرطیں تہمت لگانے والے میں ہیں۔ (1) عقل و (2) بلوغت، کیونکہ مکف ہونے کی یہ دو اصل ہیں جو عقل مندنہ ہو اور جو بالغ نہ وہ مکلف نہیں ہوتے اوعر دو شرطیں اس میں ہیں جس کے ساتھ تہمت لگائی گئی ہے وہ یہ کہ وہ ایسی وطی کی تہمت لگائی گئی ہے، عقل، بلوغت، اسلام، حریت اور اس برائے سے پاک ہونا جس کی تہمت لگائی گئی ہے خواہ وہ دوسری برائیوں سے پاک ہو یا نہ ہو۔ ہم نے اس کے بارے میں جس پر تہمت لگائی گئی ہو عقل اور بلوغت کی شرط رکھی ہے جس طرح ہم نے قاذف میں یہ شرطیں ذکر کی ہیں اور اگر یہ دونوں احصان کے معافی سے نہیں ہیں۔ کیونکہ حد اس اذیت کو دور کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے جس اس پر داخل ہوتی ہے جس پر تہمت لگائی جاتی ہے اور عقل اور بلوغت کے نہ ہونے پر کوئی ضرر نہیں ہے کیونکہ ایسے شخصکو نہ لوطی کہا جاتا ہے نہ زانی کہا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ علماء کا اتفاق ہے کہ جب سراحۃً زنا کا ذکر کرے تو یہ قذف اور تہمت ہوگی اور حد کا موجب ہوگی۔ اگر وہ تعریض کرے اور صراحۃ ً زنا کا ذکر نہ کرے تو امام مالک نے فرمایا : وہ قذف، تہمت ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ نے فرمایا : وہ قذف نہ ہوگا حتی کہ وہ خود کہے کہ میں نے قذف کا ارادہ کیا تھا۔ امام مالک کے قول کی دلیل یہ ہے کہ قذف میں حد اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ وہ عاردور ہو جو تہمت لگانے والا، متہم شخص پر لگا تا رہے جب تعریض کے ساتھ عار حاصل ہو تو واجب ہے کہ وہ قذف ہو جیسے صریح تہمت لگانے میں حد ہوتی ہے، اور فہم پر اعتماد کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے متعلق خبردیتے ہوئے کہا : انک لا نت الحلیم الرشید۔ (ہود) یعنی قوم نے آپ کو سفیہ اور گمراہ کہا۔ انہوں نے برا کہنے کے لیے تعریض کی ایسی کلام کے ساتھ جس کا ظاہر مدح ہے۔ یہ ایک تاویل ہے جیسا کہ سورة ہود میں گذر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کے بارے میں فرمایا : ذق انک انت العزیز الکریم۔ (الدخان) اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کے متعلق حکایت کیا ہے : یاخت ھرون ما کان ابوک امراسوء وما کا نت امک بغیا۔ (مریم) لوگوں نے حضرت مریم کے باپ کی تعریف کی اور ان کی والدہ سے بدکاری کی نفی کی اور حضرت مریم کے لیے تعریض کی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : و بکفرھم و قولھم علی مریم بھتانا عظیما۔ (النساء) اور ان کا کفر معروف تھا وہ بہتان عظیم ہے جس کے لیے انہوں نے تعریض کی یعنی نہ تیرا باپ برا تھا، نہ تیری والدہ بدکارہ تھی یعنی تو ان دونوں کے برعکس ہے جبکہ تو بچہ لائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قل من یرزقکم من السموات والارض۔ قل اللہ و انا اوایاکم لعلی ھدی او فی ضلل مبین۔ (سبا) اس لفظ سے سمجھا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کفار ہدایت یافتہ نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہدایت یافتہ ہیں پس اس تعریض سے وہی سمجھا گیا جو اس تصریح سے سمجھا گیا۔ حضرت عمر ؓ نے حطیہ کو قید کیا تھا جب اس نے کہا تھا : دع المکارم لا ترحل لبغی تھا واقعد فانک انت الطاعم الکاسی کیونکہ حطیئہ نے س شعر میں عورتوں کے ساتھ انہیں تشبیہ دی کہ انہیں کھلایا پلایا جاتا ہے اور لباس دیا جاتا ہے، جب اس نے نجاشی کا قول سنا : قبیلۃ لا یغدرون بذمۃ ولا یظلمون الناس حبۃ خردل اس نے کہا : کاش خطاب بھی اسی طرح ہوتا۔ شاعر نے قبیلہ کے ضعف کو بیان کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ اس شخص پر حد نہیں ہے جو کسی اہل کتاب میں سے کسی مرد یا عورت پر تہمت لگائے۔ زہری، سعید بن مسیب اور ابن ابی لیلی نے کہا : اس پر حد ہوگی جب کہ اہل کتاب کا بیٹا مسلمان ہو۔ اس میں تیسرا قول یہ ہے کہ جب کوئی نصرانی عورت پر تہمت لگائے جو مسلمان کی بیوی، ہو تو اسے کوڑوں کی حد لگائی جائے گی۔ ابن المنذر نے کہا : بڑے بڑے علماء پہلے قول کے قائل ہیں میں نے کسی عالم کو نہیں پایا جو اس کے مخالف ہو۔ جب کوئی نصرانی آدمی، آزاد مسلمان پر تہمت لگائے تو اس پر وہی حد ہوگی جو مسلمان کی حد ہوگی یعنی اسی کوڑے اس کے بارے میں اختلاف میں نہیں جانتا۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ غلام کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے جب وہ کسی آزاد پر تہمت لگائے گا کیونکہ غلام کی وجہ سے اس کی حد نصف ہوجاتی ہے جیسے زنا کی حد اس کی نصف ہوتی ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور قبیصہ بن ذئویب سے مروی ہے کہ غلام کو بھی اسی کوڑے مارے جائیں گے۔ ابوبکر بن محمد نے غلام کو اسی کوڑے مارے تھے جس نے آزاد پر تہمت لگائی تھی ؛ یہی امام اوزاعی کا قول ہے۔ جمہور علماء نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے حجت پکڑی ہے : فان اتین بفا حشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب (النساء : 25ٌ) اور دوسرے علماء نے کہا : ہم نے یہاں سمجھا کہ زنا کی حد اللہ کے لیے ہے اور بعض اوقات اس کے حق میں تخفیف ہوتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کم ہوتی ہیں اور اس پر حد سخت ہوتی ہے جس پر نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور رہی حد قندف تو یہ آدمی کا حق ہے یہ واجب ہوتی ہے اس پر جو کسی کی عزت کو تار تار کرتا ہے۔ اور جنایت غلامی اور حریت کی وجہ سے مختلف نہیں ہوتی۔ بعض اوقات کہتے ہیں : اگر ان کی سزا مختلف ہوتی تو ذکر کیا جاتا جس طرح زنا میں ذکر کیا گیا ہے ابن المنذر نے کہا : اکثر علماء کا نظرپہلا قول ہے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ علماء کا اجماع ہے کہ آزاد جب غلام پر تہمت لگائے گا تو اس کی وجہ سے آزاد کو حد نہیں لگائی جائے گی کیونکہ ان کے مرابت مختلف ہیں نیز نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جس نے اپنی لونڈی پر زنا کی تہمت لگائی قیامت کے روز اس پر حد لگائی جائے گی مگر یہ کہ وہ اسی طرح ہو جس طرح آقا نے کہا ہے۔ “ (1) ۔ اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے تخریج کیا ہے۔ بعض طرق میں ہے : ” جس نے اپنے غلام پر زنا کی تہمت لگائی پھر زنا ثابت نہ ہوا تو اس پر قیامت کے روز اسی کوڑے حد لگائی جائے گی “۔ یہ دار قطنی نے ذکر کی ہے۔ علماء نے فرمایا : آخرت میں اس لیے حد ہوگی کیونکہ اس وقت ملکیت اٹھ چکی ہوگی اور شریف، وضع، آزاد، غلام برابر ہوچکے ہوں گے اور کسی کو کوئی فضلیت نہ ہوگی مگر تقویٰ کی بنا پر جب ایسا ہوتا تو حددود میں سب لوگ برابر ہوں گے ہر شخص سے دوسرے کا بدلہ لیا جائے گا مگر یہ کہ مظلوم، ظالم کو معاف کر دے۔ دنیا میں ہم پلہ نہیں ہیں۔ تاکہ مالکوں پر ان سے بدلہ لینے میں ذلت داخل نہ ہو اور ان کے لیے مرتبہ میں حرمت و فضل صحیح نہیں ہے ورنہ تسخیر کا فائدہ باطل ہوگا اور حلیم وعلیم کی حکمت بھی ختم ہوجائے گی۔ لا الہ الا ھو۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ امام مالک اور امام شافعی نے بتایا : جس نے کسی کو غلام سمجھ کر اس پر تہمت لگائی جب کہ وہ آزاد تھا تو اس پر حد ہوگی۔ یہ حسن بصری کا قول ہے اور ابن المنذر کا مختار قول ہے۔ امام مالک نے کہا : جس نے ام الولد پر تہمت لگائی اسے حد لگائی جائے گی۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے اور یہی امام شافعی کے قول کا قیاس ہے۔ حسن بصری نے کہا : اس پر حد ہوگی۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جس نے کسی کو کہا : اے رانوں میں وطی کرنے والا : ابن القاسم نے کہا : اس پر حد ہوگی کیونکہ یہ تعریض ہے۔ اشہب نے کہا : اس میں حد نہیں ہے کیونکہ یہ ایسے فعل کی طرف نسبت ہے جو بالا جماع زنا شمار نہیں کیا جاتا۔ مسئلہ نمبر 11 ۔ جب ایسی چھوٹی بچی پر زنا کی ہتمت لگائی بلوغت سے پہلے جس کے ساتھ زنا ممکن ہے تو امام مالک کے نزدیک یہ بھی قذف ہوگا۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور ابو ثور نے کہا : یہ قذف نہیں ہے کیونکہ اس پر حد نہیں ہے اسے تعزیر لگائی جائے گی۔ (زاد المسیر، جلد 3، صفحہ 365) ۔ ابن عربی نے کہا : یہ مسئلہ کئی احتمم رکھتا ہے اور کئی شکلیں رکھتا ہے۔ امام مالک نے مقذوف کی عزت کی حفاظت طلب کی ہے اور دوسرے علماء نے قاذف کی پیٹھ کی حفاظت کا خیال کیا ہے اور مقذوف کی حمایت اولی ہے کیونکہ تہمت لگانے والے نے اس کا پردہ چاک کیا ہے اپنی زبان سے تو اس پر تہمت لگانے والے کو کوڑے لگائے جائیں گے اسی طرح بچے پر تہمت لگانے والا جو دس سال کو پہنچ چکا ہے، تو تہمت لگانے والے کو حد لگائی جائے گی۔ اسحاق نے کہا : جب ایسے غلام پر تہمت لگائے جس کی مثل وطی کرسکتا ہے تو اس پر حد ہوگی اور بچی جب نو سال کسے تجاوز کرجائے تو یہی حکم ہے۔ ابن المنذر نے کہا : جس نے نابالغ پر زنا کی تہمت لگائی اسے حد نہیں لگائی جائے گی کیونکہ یہ جھوٹ ہے لیکن اذیت پر تعزیر لگائی جائے گی۔ ابو عبیدہ نے کہا : حضرت علی ؓ کی حدیث میں ہے ایک عورت آئی اس نے ذکر کیا کہ اس کا خاوند اس کی لونڈی سے وطی کرتا ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : اگر توسچی ہے تو ہم اسے رجم کریں گے اگر تو جھوٹی ہے تو ہم تجھے کوڑے لگائیں گے۔ اس عورت نے کہا : مجھے اپنے گھر والوں کی طرف لوٹا دو میرا اندر غصہ سے ابل رہا ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اپنی بیوی کی لونڈی سے وطی کرے اس پر حد ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب اس پر کوئی تہمت لگائے تو اس کے تہمت لگانے والے پر حد ہے کیا تو نے حضرت علی ؓ کا قول سنا نہیں : اگر تو جھوٹی ہے تو ہم تجھے کوڑے لگائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایسا کرنے والا اپنے فعل اور قول سے جاہل نہ ہو اگر وہ جاہل ہوگا اور وہ شبہ کا دعویٰ کرنے والا ہوگا تو ان تمام صورتوں میں اس سے حد دور کی جائے گی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ کوئی شخص حاکم کی موجودگی میں کسی پر تہمت لگائے اور جس پر تہمت لگائی گئی، حاضر نہ ہو تو قاذف، تہمت لگانے والے پر کچھ نہیں ہوگا حتیٰ کہ وہ آئے اور حد کا مطالبہ کرے کیونکہ معلوم نہیں یہ سچا ہو کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ حضرت علی ؓ نے اس عورت سے کوئی تعریض نہیں کیا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حاکم کے پاس جب کسی شخص پر تہمت لگائی جائے پھر مقذوف آئے اور اپنا حق طلب کرے تو حاکم اس کی بات سن کر تہمت لگانے والے کو حد لگائے کیا تو نے ملاحظہ نہیں کیا کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : اگر تو جھوٹی ہوگی تو ہم تجھے کوڑے لگائیں گے، کیونکہ یہ انسانوں کے حقوق سے ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں اختلاف ہے کہ یہ حقوق اللہ سے ہے یا آدمیوں کے حقوق سے ہے یہ آگے آئے گا۔ ابو عبیدہ نے کہا : ا صمعی نے کہا شعبتہ نے مجھ سے غیری نغرہ کا مفہوم پوچھا تو میں اسے کہا : ی نغرا لقدر سے مشتق ہے۔ ہانڈی کا ابلنا۔ اسی سے ہے۔ نغرت تنغر نغرت تنغر جب وہ ابلنے لگے اس کا معنی ہے اس کا اندر غیرت اور غصہ کی وجہ سے ابل رہا ہے۔ رایت فلا یتنغر علی فلان یعنی اس کا اندر فلاں پر غصہ کی وجہ سے ابل رہا ہے۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ جس نے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر تہمت لگائی تو اس پر دو حدیں لگائی جائیں گی ؛ یہ مسروق کا قول ہے۔ ابن عربی نے کہا : صحیح یہ ہے کہ اسے ایک حد لگائی جائے گی کیونکہ اللہ کا ارشاد عام ہے : و الذین یرمون المحصنت ان کا شرف محدود کی حد میں زیادتی کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ مرتبہ کا شرف حدود میں مئوثر نہیں ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ پر جنہوں نے تہمت لگائی ان پر کلام آگے آئے گا کیا قتل کیا جائے گا یا نہیں۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ثم لم یتوبو باربعۃ شھداء چار گواہ صرف زنا میں ضروری ہیں باقی حقوق میں چار گواہ نہیں ہیں، یہ حکم بندوں پر رحمت اور ان کی پردہ پوشی کے لئے ہے۔ یہ سورة النساء میں گزرچکا ہے۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ گواہوں کی گواہی کی ادائیگی کے لئے امام مالک کے نزدیک ایک مجلس ہونا شرط ہے۔ اگر مجالس جدا ہوئیں تو شہادت نہ ہوگی۔ عبد الملک نے کہا : گواہی گواہوں سے قبول کی جائے گی خواہ وہ اکھٹے ہوں یا جدا جدا آئیں۔ امام مالک کا نظریہ یہ ہے کہ گواہوں کا اجتماع تعبدی ہے ؛ یہ ابن القاسم کا قول ہے۔ اور عبد الملک کا نظریہ یہ ہے کہ مقصود شہادت کی ادائیگی ہے اور اس کا جمع ہونا ہے اور وہ حاصل ہوچکا ہے ؛ یہ عثمان بتی، ابو ثور کا قول ہے اور ابن المنذر کا مختار ہے، کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے : ثم لم یا تو باربعتہ شھداء اور اللہ کا ارشاد ہے : فاذلم یا تو بالشھداء ان آیات میں اکٹھا آنے یا متفرق طور پر آنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ مسئلہ نمبر 15 ۔ اگر شہادت مکمل ہوگی مگر ان کی تعدیل نہیں کی گئی تو حسن بصری اور شبعی کا خیال ہے کہ نہ گواہون پر حد ہوگی اور نہ اس پر جس کے خلاف گواہی دی گئی ہے ؛ یہی قول امام احمد، امام نعمان اور امام محمد بن حسن کا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : جب اس پر چار گواہ گواہی دیں کہ اس نے زنا کیا ہے اگر ان گواہوں میں سے کوئی اس پر ناراضگی کی وجہ سے گواہی دے رہا ہو یا کوئی غلام ہو تو سب کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ سفیان ثوری، احمد اور اسحاق نے کہا : چار گواہوں میں دو اندھے ہوں اور وہ کسی عورت پر زنا کی گواہی دیں تو سب کو سزا ملے گی۔ مسئلہ نمبر 16 ۔ اگر گواہوں میں سے ایک اپنی گواہی سے رجوع کرلے جب کہ جس پر زنا کی گواہی دی گئی تھی اسے رجم ہوچکا ہو تو ایک طائفہ نے کہا : وہ چوتھائی دیت کا ضامن ہوگا اور دوسرے گواہوں پر کچھ نہ ہوگا، اسی طرح قتادہ، حماد، عکرمہ، ابوہاشم، امام مالک، امام احمد اور اصحاب الرائے کا نظریہ ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر وہ کہے کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تاکہ اسے قتل کیا جائے تو اس کے اولیاء کو اختیار ہے کہ وہ چاہین تو بدلے میں اسے بھی قتل کردیں گے اگر چاہین تو اسے معاف کردیں اور اس سے چوتھائی دیت وصول کرلیں اور اس پر حد ہوگی۔ حسن بصری نے کہا : اسے قتل کیا جائے گا اور دوسرے گواہون پر دیت کا 3/4 حصہ ہوگا۔ میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا توا سے قتل کیا جائے گا ؛ یہی ابن شبرمہ کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 17 ۔ حد قذف کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ حقوق اللہ سے ہے یا حقوق العباد سے ہے یا اس میں ان دونوں کا شائبہ ہے۔ پہلا امام ابوحنیفہ کا قول ہے اور دوسرا مالک اور امام شافعی کا قول ہے، تیسرا قول بعض متاخرین کا ہے۔ اختلاف کا ثمرہ اس وقت مرتب ہوگا کہ اگر وہ اللہ کا حق ہے اور امام تک معاملہ پہنچ جائے تو وہ اس پر حق قائم کرے اگرچہ مقذوف مطالبہ نہ بھی کرے اور قاذف کی توبہ اللہ اور اس کے درمیان نفع بخش ہوگی۔ اس میں حد غلامی کی وجہ سے نصف ہوجائے گی جیسے زنا میں ہوتی ہے۔ اگر یہ آدمی کا حق ہو تو امام حد کو قائم نہیں کرے گا مگر مقذوف کے مطالبہ کے ساتھ اور مقذوف کے معاف کرنے کے ساتھ معاف ہوجائے گا اور قاذف کو توبہ نفع نہیں دے گی یہاں تک کہ مقذوف اسے معاف کردے۔ مسئلہ نمبر 18 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : باربعۃ شھداء جمہور کی قرأت اربعہ کی الشھداء کی طرف اضافت کے ساتھ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسلم بن یسار اور حضرت ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر نے اربعۃ تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔ شھداء میں چار وجوہ ہیں۔ یہ اربعۃ کی صفت کی بناء پر مجرور ہوگا یا بدل ہوگا اور اس کا نکرہ سے حال یا تمیز ہونا بھی جائز ہے۔ حال اور تمیز کے قول میں نظر ہے کیونکہ حال نکرہ سے ہے اور تمیز جمع ہے۔ اور سیبویہ کا خیال ہے یہ عدد کی تنوین ہے اور اس کی اضافت ترک کی گئی ہے اور یہ شعر میں جائز ہے۔ ابو الفتح عثمان بن جنی نے اس قرأت کوا چھا کہا ہے اور جمہور کی قرأت پر اس کو بہتر سمجھا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ بھی جائز ہے کہ شھداء محل نصب میں ہو اس معانی میں ثم لم یحضروا اربعۃ شھدا۔ مسئلہ نمبر 19 ۔ چار گواہوں کی گواہی کا حکم یہ ہے کہ انہوں نے وہ اس طرح دیکھا ہو جس طرح سرمچو سرمہ دانی میں ہوتا ہے جیسا کہ سورة نساء میں نص حدیث میں گذر چکا ہے اور وہ ایک جیسی گواہی ہو ؛ یہ مالک کے قول پر ہے۔ اگر چار گواہوں میں سے ایک بھی ادھر ادھر ہوگیا تو تین کوڑے لگائے جائیں گے جیسے حضرت عمر ؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے معاملہ میں کیا تھا۔ ان کے خلاف ابو بکرہ نفیع بن حارث اور ان کے بھائی نافع نے زنا کی گواہی دی تھی۔ زہراوی نے کہا : عبد اللہ بن حارث اور ان کا ماں کی طرف سے بھائی زیادجو حضرت معاویہ کے ساتھ لاحق کیا گیا تھا شبل بن معبد بجلی، چاروں گواہ شہادت دینے کے لئے آئے تو زیادہ نے توقف کیا اور گواہی نہ دی حضرت عمر ؓ نے مذکورہ تین گواہوں کو کوڑے لگائے۔ مسئلہ نمبر 20 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : فاجلدوھم، الجلد کا معنی ہے مارنا، المجالدۃ والمضاربۃ کوڑے مارنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، پھر الجلد کا لفظ تلوار وغیرہ سے مارنے کے لئے بھی استعمال ہوا ؛ اسی سے قیس بن خطیم کا قول ہے : اجا لدھم یوم الحدیقۃ حاسرا کان یدی بالسیف محراق لاعب ثمنین مصدر کی بناء پر منصوب ہے جلدۃ تمیز ہے۔ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا یہ ان کی مدت عمر کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر ان پر حکم لگایا کہ وہ فاسق ہیں۔ یعنی اللہ کی طاعت سے خارج ہیں۔ مسئلہ نمبر 21 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : الا الذین تابوا استثناء کی بناء پر محل نصب میں ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ بدل کی بناء پر محل جر میں ہو معنی یہ ہو کہ ان شہادت قبول نہ کرو مگر جو قذف کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں۔ فان اللہ غفور رحیم۔ یہ آیت قاذف، تہمت لگانے والا کے بارے میں تین احکام اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے۔ اس کو کوڑے لگنا، اس کی شہادت کا ہمیشہ رد ہونا اور اس کا فاسق ہونا استثناء کوڑوں کے بارے میں تو بالا جماع عامل نہیں ہے مگر جو شعبی سے مروی ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور فسق میں بالا جماع عامل ہے اور شہادت کے رد میں اس کے عامل ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔ شریح قاضی، ابراہیم نخعی، حسن بصری، سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں ؛ استثناء اس کی شہادت کے لوٹانے میں عامل نہیں ہے۔ اور اس کا فسق اللہ کے نزدیک زائل ہوجائے گا اور رہی قاذف کی شہادت تو وہ کبھی قبول نہیں ہوگی خواہ وہ توبہ کرے اور اپنے نفس کو جھٹلا بھی دے کسی صورت میں بھی اس کی گواہی قبول نہ ہوگی۔ جمہور علماء فرماتے ہیں : شہادت لوٹانے میں عامل ہے۔ جب قاذف توبہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔ اس کی شہادت کا رد ہونا فسق کی علت کی وجہ سے تھا جب توبہ سے فسق زائل ہوگیا تو حد سے پہلے اور حد کے بعد مطلقا اس کی شہادت قبول ہوگی ؛ یہ عام فقہاء کا قول ہے۔ پھر اس کی توبہ کی صورت میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب اور شعبی وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ اس کی توبہ نہیں ہوگی مگر یہ کہ وہ اس قذف میں اپنے آپ کو جھوٹا کہے جس میں اس کو حد لگائی گئی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے ایسا کیا تھا آپ نے مغیرہ کے خلاف گواہی دینے والوں کو کہا تھا جس نے اپنے آپ کو جھوٹا کہا اس کی شہادت مستقبل میں قبول ہوگی اور جس نے ایسا نہیں کیا اس کی شہادت کو جائز قرار نہیں دوں گا۔ ابو بکرہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا پس اس کی شہادت قبول نہیں کی جاتی تھی۔ یہ قول نحاس نے اہل مدینہ سے روایت کیا ہے۔ ایک فرقہ نے کہا جن میں امام مالک بھی ہیں کہ اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت کو درست کرے اگرچہ تکذیب کے ساتھ اپنے قول سے رجوع نہ بھی کرے اس قذف پر اس کی ندامت اور اس سے استغفار اور پھر ایسا نہ کرنے پر پر عزم کافی ہے۔ یہ ابن جریر کا قول ہے۔ شعبی سے مروی ہے انہوں نے کہا : استثناء تینوں احکام سے ہے جب وہ توبہ کرے اور اسکی توبہ ظاہر ہو تو اسے حد نہیں لگائے جائے گی اور اس کی شہادت قبول ہوگی اس سے تفسیق زائل ہوجائے گی کیونکہ وہ اب پسندیدہ گواہوں سے ہوگیا ہے۔ اللہ نے فرمایا : وانی لغفار لمن تاب (طہٰ :82) مسئلہ نمبر 22 ۔ علماء کا اختلاف ہے کہ قاذف کی شہادت کب ساقط ہوگی ؟ ابن الماجشون نے کہا : نفس قذف کے ساتھ۔ ابن القاسم، اشہب اور سحنون نے کہا : اس کی شہادت ساقط نہ ہوگی حتیٰ کہ اسے کوڑے لگ جائیں اگر معافی یا کسی اور وجہ سے اسے کوڑے نہ لگائے گئے تو اس کی شہادت رد نہ ہوگی۔ شیخ ابو الحسن لخمی نے کہا : اس کی شہادت عمر کی مدت میں موقوف ہوتی ہے اس قول کی ترجیح دی ہے جب تو بہ قذف میں اپنے آپ کو جھٹلانے کے ساتھ ہو ورنہ کونسا رجوع اس کے عدل کے لئے ہے اگر وہ تمہت لگائے اور اسے حد لگائی گئی ہو اور اپنی عدالت پر باقی ہو۔ مسئلہ نمبر 23 ۔ علماء کا اختلاف ہے کہ توبہ کے بعد شہادت کے جواز پر کسی چیز میں شہادت جائز نہ ہوگی۔ امام مالک نے فرمایا : ہر چیز میں مطلقا شہادت جائز ہے، اسی طرح اس میں بھی جس چیز میں حد لگائی گئی ہو۔ (المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 165) ۔ اس کو نافع اور ابن عبد الحکم نے مالک سے رو ایت کیا ہے ؛ یہ ابن کنانہ کا قول ہے۔ وقار نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ اس کی شہادت اس مسئلہ میں خاص طور پر قبول نہیں ہوگی جس میں اسے حد لگائی گئی تھی اس کے علاوہ معاملات میں اس کی گواہی قبول ہوگی ؛ یہ مطرف اور ماجشون کا قول ہے۔ عتبی نے اصبغ اور سحنون سے اس کی مثل روایت کیا ہے۔ سحنون نے کہا : جس کو کسی چیز میں حد لگائی گئی ہو تو اس کی مثل میں اس کی شہادت جائز نہ ہوگی۔ مطرف اور ابن الماجشون نے کہا : جس کو قذف یا زنا میں حد لگائی گئی ہو تو زنا قذف، لعان میں کسی چیز میں گواہی قبول نہ ہوگی اگرچہ وہ عادل بھی ہو۔ ان دونوں حضرات نے یہ امام مالک سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 24 ۔ جب کئی معطوفہ جملوں کے بعدا ستثناء آئے تو وہ امام مالک، امام شافعی اور ان کے اصحاب کے نزدیک تمام جملوں کی طرف لوٹے گی۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے بڑے اصحاب کے نزدیک جو قریب ترین جملہ ہوگا استثناء اس کی طرف لوٹے گی اور وہ فسق ہے۔ اس لئے اس کی شہادت ہمیشہ قبول نہ ہوگی کیونکہ استثناء صرف فسق کی طرف راجع ہے نہ کہ شہادت کی قبولیت کی طرف راجع ہے۔ اس اصل میں اختلاف کے دو سبب ہیں۔ (1) ۔ معطوفہ جملے عطف کی وجہ سے ایک جملہ کے حکم میں ہیں یا یہ جملہ اپنے حکم میں مستقل ہے اور حرف عطف صرف محسن ہے مشرک (شریک کرنے والا) نہیں یہ جملوں کے عطف میں صحیح ہے کیونکہ مختلف جملوں کا ایک دوسرے پر عطف صحیح ہے جیسا کہ نحو میں معروف ہے۔ دوسرا سبب : استثناء سابقہ جملوں کی طرف لوٹنے میں شرط کے مشابہ ہے کیونکہ شرط فقہاء کے نزدیک تمام کی طرف لوٹتی ہے یا استثناء شرط کے مشابہ نہیں ہے کیونکہ لغت میں یہ قیاس کے باب سے ہے۔ اورا صل فقہ میں یہ فاسد ہے اصل یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک محتمل ہے اور ترجیح نہیں ہے۔ پس جو قاضی نے وقف کا قول کیا ہے وہ متعین ہوگیا ہے۔ اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کتاب اللہ میں دونوں امر موجود ہیں۔ آیتہ المحاربۃ میں ضمیر بالا تفاق تمام کی طرف راجع ہے اور مومن کو خطاء قتل کرنے کی آیت میں استثناء کا رد بالا تفاق آخری جملہ کی طرف ہے۔ آیت قذف دونوں وجوہ کا احتمال رکھتی ہے پس بغیر شک کے وقف متعین ہوجاتا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : یہ کلی اصولی نظر ہے اور فقہی جزئی نظر کے اعتبار سے امام مالک اور امام شافعی کا قول راجح ہے وہ اس طرح کہ استثنا فسق اور شہادت کی قبولیت کی نہی کی طرف راجع ہے مگر ان کے درمیان ایک خبر کے ساتھ فرق کیا گیا ہے جس کا تسلیم کرنا واجب ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ تو بہ کفرکو مٹا دیتی ہے پس جو اس سے کم ہوگا اس کو بدرجہ اولیٰ مٹا دے گی۔ ابو عبیدہ نے کہا : استثناء تمام سابقہ جملوں کیطرف راجع ہے۔ انہوں نے کہا : جس نے زنا کی طرف نسبت کی ہے وہ زنا کے مرتکب سے بڑا جرم کرنے والا نہیں، پھر جب زانی توبہ کرے تو اس کی شہادت قبول ہوتی ہے۔ کیونکہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ جب اللہ بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے تو بندوں کو اس کی توبہ بدرجہ اولیٰ قبول ہونی چاہیے۔ جب کہ اس استثناء کی مثل قرآن میں کئی جگہ موجود ہے مثلا اللہ کا ارشاد ہے : انما جزائوا الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلو اور یصلبو اور تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف اور ینفو من الارض ذالک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم۔ الا الذین تابو (المائدہ) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ استثناء تمام جملوں کی طرف راجع ہے۔ زجاج نے کہا اور فرمایا : اللہ کا ارشاد ہے۔ ابدا اس کا مطلب ہے جب تک وہ تہمت لگانے والا ہے جیسے کہا جاتا ہے : لا تقبل شھادۃ الکافر ابدا اس کا مطلب ہے جب تک وہ کافر ہے۔ شعبی نے اس مسئلہ میں مخالفت کرنے والے کو کہا : اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور تم اس کی شہادت قبول نہیں کرتے۔ بعض اصولیین کے نزدیک استثناء آخری جملہ کی طرف راجع ہے اور وہ اولئک ھم الفسقون ہے۔ یہ تعلیل ہے مستقل جملہ نہیں یعنی ان کے فسق کی وجہ سے انکی شہادت قبول نہ کرو جب فسق زائل ہوجائے تو پھر ان کی شہادت قبول کیوں نہیں کی جائے گی ؟ پھر تہمت لگانے والے کا توبہ کرنا اپنے نفس کو جھٹلانا ہے جیسے حضرت عمر ؓ نے حضرت مغیرہ پر تہمت لگانے والوں کو صحابہ کی موجودگی میں کہا تھا۔ حالانکہ وہ واقعہ بصرہ سے حجاز تک اور دوسرے علاقوں تک پھیل چکا تھا۔ اگر آیت کی وہ تاویل ہوتی جو کو فیوں نے کی ہے تو صحابہ کرام سے اس کا علم غائب نہ ہوتا وہ حضرت عمر ؓ کو کہہ دیتے کہ تہمت لگانے والے کی توبہ ہمیشہ قبول نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کتاب اللہ کی تاویل کی تحریف کے فیصلہ پر وہ خاموش رہیں ورنہ ان کا قول ساقط ہوجاتا۔ مسئلہ نمبر 25 ۔ قشیری نے کہا : اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب تہمت لگانے والے کو کوڑے نہ لگائے گئے ہوں مثلا قاذف سے مطالبہ حد کرنے سے پہلے مقذوف مرجائے یا وہ مقدمہ سلطان تک نہ لے جائے یا مقذوف اسے معاف کردے تو پھر اس کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ خصم کے نزدیک بھی اس مسئلہ میں شہادت کی قبولیت سے نہی کوڑوں پر معطوف ہے۔ اللہ نے فرمایا : فاجلدوھم ثمنین جلدۃ ولا تقبلو لھم شھادۃ ابدا امام شافعی نے اس مقام پر کہا : یہ حد لگنے سے پہلے حد لگنے کے وقت سے زیادہ برا ہے کیونکہ حدود تو کفارہ ہیں پھر اس کی کیسے شہادت رد کی جائے گی جو دو حالتوں میں سے بہتر حالت میں ہے نہ کہ گھٹیا حالت میں ہے۔ میں کہتا ہوں : ا سی طرح کہا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں اورا بن ماجشون سے پہلے روایت ہوچکا ہے کہ قذف کے ساتھ ہی اس کی شہادت ردہوجائے گی۔ یہ لیث، اوزاعی اور شافعی کا قول ہے۔ اس کی گواہی رد کردی جائے گی اگرچہ اسے حد نہ بھی لگی ہو کیونکہ تہمت لگانے کے ساتھ ہی وہ فاسق ہوجاتا ہے، کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے پس اس کی شہادت قبول نہ ہوگی حتیٰ کہ اس کی برأت صحیح ہوجائے وہ اس طرح کہ جس پر تہمت لگائی گئی ہے وہ زنا کا اقرار کرے یا اس کے خلاف بینہ قائم ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 26 ۔ اللہ کا ارشاد ہے ؛ واصلحوا یعنی توبہ کا اظہار کرے۔ بعض نے کہا : عمل کی اصلاح کرے۔ فان اللہ غفور رحیم۔ جب وہ توبہ کریں اور ان کی توبہ قبول ہو۔
Top