بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
وہ (خدائے عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل عالم کو ہدایت کرے
(تبرک الذی۔۔۔۔۔۔ 1۔ 3) تَبٰـرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ ۔ تَبٰـرَکَ کے معنی میں اختلاف ہے۔ فراء نے کہا : عربی لغت میں تَبٰـرَکَ اور تقدس ایک ہی ہیں دونوں لفظ عظمت کے لیے بولے جاتے ہیں۔ زجاج نے کہا : تبارک یہ برکت سے تفاعل کا وزن ہے۔ کہا : برکت کا معنی ہے ہر خیر والے کی جانب سے کثرت۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے۔ تبارک کا معنی ہے بلند ہونا۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے : تعالیٰ عطاء ہ، اس کی عطاء زیادہ اور کثیر ہوئی۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے : معنی ہے اس کا انعام دائمی ہے اور ثابت ہے۔ نحاس نے کہا : لغت اور اشتقاق میں یہ ان سب سے اولیٰ ہے، یہ برک الشثیٔ سے مشتق ہے، جب وہ ثابت ہو، سی سے برک الجمل والطیر علی الماء ہے یعنی وہ ثابت رہا۔ جہاں تک پہلے قول کا تعلق ہے وہ غلط ہے کیونکہ تقدیس میں طہارت کا تصور ہوتا ہے۔ ثعلبی نے کہا : یہ تو کہا جاتا ہے تبارک اللہ، یہ نہیں کہا جاتا : اللہ متبارک، اور نہ ہی یہ کہا جاتا ہے : اللہ مبارک کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات امور توفیقی ہیں (1 ؎ قرآن اور حدیث میں جیسے ذکر آیا ہے قیامت اور اجتہاد کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا) وہی اسماء صفات ذکر کی جاسکتی ہیں جن کے بارے میں کوئی نص ہو۔ طرماح نے کہا : تبارکت لا معط لشئی منعتہ ولیس لما اعطیت یا رب مانع ” تو بڑی ہی برکتوں والا ہے جس شے کو تو روک لے وہ کوئی عطا کرنے والا نہیں اور جو تو عطا کرے اے میرے رب ! اسے کوئی روکنے والا نہیں “۔ ایک اور نے کہا : تبارکت ما تقدر یقع ولک الشکرتو بڑی ہی برکتوں والا ہے تو جو اندازہ لگاتا ہے واقع ہوجاتا ہے اور تیرے لیے شکر ہے۔ میں کہتا ہوں : بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے اسماء میں مبارک ذکر کیا ہے اور ہم نے بھی اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے، اگر اس پر اجماع واقع ہو کہ یہ اسم استعمال نہ کیا جائے تو اجماع کی وجہ سے اسے تسلیم کیا جائے گا اگر اس میں اختلاف واقع ہو تو بہت سے اسماء ایسے ہیں جن کو اسم شمار کرنے میں اختلاف ہے جس طرح دھروغیرہ۔ ہم نے وہاں اس پر متنبہ کردیا ہے۔ الحمد للہ۔ الفرقان سے مراد قرآن ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ہر نازل شدہ کتاب کا نام ہے جس طرح فرمایا : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی وَہٰـرُوْنَ الْفُرْقَانَ (الانبیائ : 48) اس کا نام فرقان رکھنے کی دو وجہیں ہیں : (1) اس نے حق اور باطل، مومن اور کافر میں تفریق کردی ہے (2) جو حلال و حرام کے احکام مشروع کیے گئے ہیں ان کی اس میں وضاحت ہے، نقاش نے اس کی وضاحت کی ہے۔ علی عبدہ اس سے مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے لیکون للعلمین نذیرا، یکون کا اسم مضمر ہے جو ھو ضمیر ہے وہ عبدہ کی طرف لوٹ رہی ہے یہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ اس سے زیادہ قریب ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ ضمیر الفرقان کی طرف لوٹے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے علی عبادہ قرأت کی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے : انذر جب وہ ڈرائے۔ سورة بقرہ کے آغاز میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ النذیر جو ہلاکت سے خبر در کرنے والاہو۔ جوہری نے کہا : نذیر کا معنی منذر ہے اور نذیر کا معنی انداز بھی ہے۔ العالمین سے مراد یہاں انسان اور جن ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کو ان دونوں کی طرف بھیجا گیا تھا اور آپ ﷺ ان دونوں کے لیے نذیر تھے۔ اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں، آپ ﷺ کے علاوہ کسی رسالت عام نہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) طوفان کے بعد تمام انسانوں کے لئے رسول تھے کیونکہ آپ کے ذریعے مخلوق کا آغاز ہوا۔ الذی لہ ملک السموات والارض اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کو بیان فرمایا ولم یتخذو لدا اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکی بیان کی ان چیزوں سے، جو مشرکوں نے کہا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی اولاد ہیں، یعنی اللہ سبحانہٗ کی بیٹیاں ہیں اور ان چیزوں سے بھی پاکی بیان کی، جو یہودیوں نے کہا : حضرت عزیز اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بالا ہے اور اس سے پاکی بیان کی، جو نصاریٰ نے کہا : حضرت مسیح اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے ماورا ہے۔ ولم یکن لہ شریک فی الملک جس طرح بت پرستوں نے کہا : وخلق کل شی بات اس طرح نہیں جس طرح مجوسیوں اور بت پرستوں نے کہا : شیطان اور ظالم بعض اشیاء کو پیدا کرتے ہیں۔ اور نہ ہی بات اس طرح ہے جس طرح کوئی یہ کہتا ہے : مخلوق کو ایجاد کی قدرت حاصل ہے، آیت اس سب کا رد کرتی ہے۔ فقدرہٗ تقدیرا مخلوقات میں سے جس چیز کو بھی پیدا کیا اپنی حکمت کے ساتھ اس کا اندازہ لگایا، جس کا بھی ارادہ کیا سہو اور غفلت سے پیدا نہیں کیا۔ مقاد پر اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر قیامت اور قیامت کے بعد تک جاری ہیں وہی خالق اور مقدر ہے پس اسی کی عبادت کرو۔ واتخذوا من دونہ الھۃً مشرکوں نے جو کچھ کہا اس کا ذکر تعجب کے انداز میں کیا کہ انہوں نے کئی معبود بنا لیے، ساتھ ہی ساتھ اپنی واحدانیت اور قدرت پر دلیل کو ظاہر کیا۔ لا یخلقون شیئاً یہ معبود ان باطلہ کوئی چیز پیدا نہیں کرتے۔ وھم یخلقون جب کہ انہیں بتایا جاتا ہے۔ جب مشرکوں نے اعتقاد کیا کہ یہ بت نفع اور نقصان پہنچاتے ہیں تو ان کو اس طرح تعبیر کیا جس طرح ذوی العقول کو تعبیر کیا جاتا ہے۔ ولا یملکون لا تقسھم ضرا ولا نفعا نہ وہ تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ نفع لا سکتے ہیں، مضاف کو خذف کردیا گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائیں یا نفع پہنچائیں اور نہ ہی انہیں، جو ان کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ یہ جمادات ہیں۔ ولا یملکون موتا ولا حیوۃً ولا تشورا نہ وہ کسی کو موت دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کو زندہ کرتے ہیں۔ نشور سے مراد موت کے بعد زندگی دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زندہ کیا تو وہ زندہ ہوگئے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اعشی نے کہا : حتی یقول الناس مما راوا یا عجبا للمیت الناشر یہاں تک کہ لوگوں نے جو دیکھا اس کی وجہ سے کہہ اٹھیں : اس میت پر تعجب جو دوبارہ زندہ ہونے والا ہے۔
Top