Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) من گھڑت باتیں ہیں جو اس (مدعی رسالت) نے بنا لی ہیں اور لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ہے یہ لوگ (ایسا کہنے سے) ظلم اور جھوٹ پر (اتر) آئے ہیں
(وقال الذین کفرو۔۔۔۔۔۔۔۔ وقا الذین کفروا مراد مشرکین قریش ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ان میں سے یہ بات کرنے والا نضر بن حارث تھا اور اس طرح قرآن میں جہاں اساطیر کا ذکر ہے اس کا کہنے والا بھی یہی تھا (1) محمد بن اسحاق نے کہا : وہ نبی کریم ﷺ کو اذیت دیا کرتا تھا۔ ان ھذا اسم اشارہ سے مراد قرآن حکیم ہے الا افک افترہ یعنی جھوٹ ہے جو خود انہوں نے گھڑا ہے۔ واعانہ علیہ وقم اخرون مراد یہودی ہیں، یہ مجاہد کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : قوم اخرون سے مراد ابوفکیہ جو بنی حضری کا غلام تھا، عداس اور جبر ہے، یہ تینوں اہل کتاب تھے۔ سورة نحل میں ان کا ذکر گزر چکا ہے۔ فقد جاء وظلماً انہوں نے ظلم کیا، ظلم سے پہلے باء حرف مخدوف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے فقد اتوا ظلما انہوں نے ظلم کیا۔ وروا۔ وقالو اساطیر اولین زجاج نے کہا : اساطیر کا واحد اسطورہ ہے جس طرح احدوثہ کی جمع احادیث آتی ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : اساطیر، یہ اسطار کی جمع ہے جس طرح اقوال کی جمع اقاویل آتی ہے۔ اکتتبھا اسے حضرت محمد ﷺ نے لکھا ہے فھی تمل علیہ یہ اس پر پڑھا جاتا ہے۔ یکرۃ واصیلا صبح و شام، یہاں تک کہ یہ یاد ہوجاتا ہے۔ تملی ٰ اصل میں تملل ہے، اس جنس کے دو حرف ہونے کی وجہ سے دوسرے لام کو یاء سے بدل دیا جس طرح تقضی البازی اصل میں تقضض تھا اسی طرح دوسرے افعال میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ قل انزلہ الذی یعلم السرفی السمات والارض اے محمد ﷺ ! کہہ دیجئے : اس قرآن کو اس ذات نے نازل کیا ہے جو سر کو جانتا ہے وہ عالم الغیب ہے اسے کسی معلم کی کوئی ضرورت نہیں۔ السر کا ذکر کیا جہر کا ذکر نہیں، کیونکہ جو ذات سر کو جانتی ہے وہ جہر کو بدرجہ اولیٰ جانتی ہے۔ اگر قرآن اہل کتاب وغیرہ سے اخذ کیا گیا ہوتا تو ان پر زائد نہ ہوتا جب کہ یہ ایسے فنون لایا ہے جو ان سے خارج ہیں یہ ان سے مآخوذ نہیں۔ اگر یہ ان سے مآخوذ ہوتا تو مشرک بھی اس پر قادر ہوتے جس طرح حضرت محمد ﷺ قادر ہوئے، انہوں نے اس کے ساتھ معارضہ کیوں نہ کیا تو ہر طرح سے ان کا اعتراض باطل ہوگیا۔ انہ کان غفورا رحیما وہ اپنے اولیاء کے گناہ بخشنے والا اور ان پر رحم فرمانے والا ہے۔
Top