Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
(وعباد الرحمن۔۔۔۔۔ ) وعباد الرحمن الذین یمسون علی الارض ھونا “ جب مشرکوں کی جہالتوں، قرآن اور نبوت کے بارے ان کے طعن کو ذکر کیا تو اپنے مومن بندوں کا ذکر کیا اور ان کی صفات کا ذکر کیا اور انہیں شرف عطاء کرنے کے لیے اپنی عبودیت لی طرف منسوب کیا، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ “ (الاسرائ : 1) اس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اس کی عبادت کی، اپنے کان، آنکھ، زبان اور دل کو ان امور میں مصروف رکھا، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو وہ ہی عبودیت کے اسم کا مسحق ہوا، جو اس کے برعکس ہے اسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان شامل ہوگا :” اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط (الاعراف : 179) یعنی وہ عبرت حاصل کرنے والا نہیں : جس طرح سورة اعراف میں پہلے گزر چکا ہے، گویا فرمایا : و عباد الرحمن ھم الذین یمشون علی الارض ھم ضمیر کو حذف کردیا گیا ہے جس طرح تیرا قول ہے : زید الامر یعنی زیاد ھو الامیر، الذین مبتدأء محذوف کی خبر ہے : یہ اخفش کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کی خبر سورت کا آخر ” اولیک یجزون العرفۃ بما صبروا “ ہے، مبتداء اور خبر کے درمیان ان کے اوصاف اور ان کے متعلقات ہیں، یہ زجاج کا قول ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ خبر الذین یمشون علی الارض ہو۔ یشون سے مراد ان کی زندگی، ان کی زندگی کی مدت اور ان کے تصرفات ہیں۔ ان میں سے بڑی چیز کا ذکر کیا خصوصاً اس میں زمین میں گھومنا پھرنا ہے وہ لوگوں کے ساتھ میل جول اور خلط ملط ہونا ہے۔ ھونا، ھون یہ عین کا مصد ہے جس کا معنی سکینہ اور وقار ہے، تفسیر میں ہے وہ زمین پر حلم کا پیکر اور تواضع اختیار کرتے ہوئے چلتے ہیں وہ میانہ روی اختیار کرتے ہوئے چلتے ہیں۔ میانہ روی، آہستگی اور اچھی چال چلن نبوت کے اخلاق میں سے ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ایھا الناس علیکم بالسکینۃ فان البرلیس فی الایضاع “ ، اے لوگو ! سکینہ و وقار کو لازم پکڑو ایضاع (چال کا ایک انداز جو خبب کی طرح ہوتا ہے) میں کوئی نیکی نہیں۔ نبی کریم ﷺ کے اوصاف میں یہ بیان کیا گیا ہے : انہ کان اذا ازال زال تقلعا ویخطوتکفا و یمش ھونا ذریع المشیۃ اذا مشی کا نما ینحط من صبب، تقلع سے مراد قوت کے ساتھ پائوں کو اٹھانا، تکفو چلنے میں درمیانی چال کی طرف مائل ہونا۔ ھون سے مراد نرمی اور وقار ہے۔ ذریع سے مراد کھلے قدم والے یعنی آپ کی چال اس طرح تھی آپ جلدی سے اپنے قدم کو اٹھاتے، اپنے قدم کو لمبا کرتے مگر متکبر کی چال کی طرح نہ ہوتا، اپنی سمت کو سیدھا رکھتے یہ ہر ایک نرمی سے ہوتا اور جلدی کے بغیر ثابت ہوتا جس طرح کہا : کانما ینحط من صبب گویا آپ بلندی سے پستی کی طرف آ رہے ہیں، یہ قاضی عیاض کا قول ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ تکلف کی بجائے فطرتی طور پر جلدی چلا کرتے تھے۔ زہری نے کہا : تیز چلنا چہرے کی رونق کو ختم کردیتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : مراد تیز رفتاری ہے کیونکہ یہ وقار میں مخل ہوتا ہے اور بھلائی میانہ روی میں ہے۔ زید بن اسلم نے کہا : پس میں اللہ تعالیٰ کے فرمان : الذین یمستون علی الارض ھونا کی تفسیر کے بارے پوچھتا تھا اور اس میں کوئی شافی جواب نہ پاتا۔ میں نے خواب دیکھا ایک آدمی میرے پاس آیا اس نے مجھے کہا : مراد وہ لوگ ہیں جو زمین میں فساد کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ قشیری نے کہا : وہ فساد اور نافرمانی کے لیے تگ و دو نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مباع امور کے لیے بغیر سستی و کاہلی کے کدو کاوش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاط اِنَّ اللہ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ۔ “ (لقمان : 18) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وہ طاعت میں معروف اور تواضع کو اپناتے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : وہ حلیم ہیں اگر ان کے ساتھ جہالت کا رویہ اپنایا جائے تو وہ جہالت کا رویہ نہیں اپناتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ لوگوں پر تکبر نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں : یہ سب قریب قریب معانی ہیں۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ کا عرفان، اس کا خوف، اس کے احکام کی معرفت اور اس کے عذاب اور عقاب کی خشیت جامع ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے ہمیں ان لوگوں میں سے بنا دے۔ ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ ھونا کا لفظ یمسون علی الارض سے متعلق ہے اور مشی ہی ھون ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : اس کی یہ تاویل کرنا مناسب ہے کہ اس چلنے والے کے اخلاق نرم ہوں اور اس کی چال کے مناسب ہوں۔ قول اسی کی طرف لوٹ جاتا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے، جہاں تک صرف چال کی صفت کا تعلق ہے تو یہ باطل ہے، کیونکہ بعض نرمی سے اور ٹھہر ٹھہر کر چلتے ہیں جب کہ وہ مٹیالے رنگ کا بھیڑیا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرتے گویا آپ ڈھلان سے اتر رہے ہیں۔ اس آیت میں آپ ہی مقتدا ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : من مشی منکم فی طمع فلیمش رویدا تم میں سے جو آدمی کسی غرض کے لیے چلے تو وہ آہستہ آہستہ چلے۔ یہاں صرف چال کا ارادہ نہیں کیا۔ کیا تم دیکھتے نہیں باطل پرست اور اپنے آپ کو ظاہری طور پر دین سے آراستہ کرنے والے صرف چال کی صورت کو اپناتے ہیں یہاں تک کہ شاعر نے ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا : کلھم یمشی رویدا کلھم یطلب صید ان میں سے ہر ایک ٹھہر ٹھہر کر چلتا ہے ان میں سے ہر ایک شکار کا طالب ہوتا ہے۔ ابن عربی نے اپنے بارے میں اس کے برعکس کہا : تواضعت فی العلیاء والاصل کا بر وحزت قصاب السبق بالھون فی الامر سکون فلا خبث السریرۃ اصلہ وجل سکون الناس من عظم الکبر واذا اخاطبھم الجھلون قالو اسلما نحاس نے کہا : سلام یہ تسلیم سے نہیں بلکہ یہ تسلم سے ہے، عرب کہتے ہیں : سلاما مراد تسلما منک کہتے ہیں یعنی تجھ سے بری۔ دو امور میں سے کسی ایک کی وجہ سے منصوب ہے یہ بھی جائز ہے کہ یہ قالو کی وجہ سے منصوب ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مصدر ہو یہ سیبویہ کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : جو میں کہتا ہوں وہ یہ کہ قالو یہ سلما ً میں عامل ہے کیونکہ معنی ہے انہوں نے یہ لفظ کہا۔ مجاہد نے کہا : سلاما کا معنی سدادا ہے، یعنی وہ جاہل سے ایسی گفتگو کرتا ہے کہ اسے نرمی کے ساتھ اپنے آپ سے دور کردیتا ہے۔ اس تاویل کی بناء پر قالوا یہ سلما ً میں عامل ہوگا۔ یہ نحویوں کے طریقہ پر ہے کیونکہ یہ قولا کے معنی میں ہے۔ ایک جماعت کا کہنا ہے : مخاطب کو یہ چاہیے کہ وہ جاہل کو سلاما کہے، اس صورت میں تقدیر کلام یہ ہوگی، سلمنا سلاما او تسلیما اس صورت میں نحویوں کے طریقہ پر عامل اسی کا فعل ہوگا۔ مسئلہ :۔ یہ آیت، آیت سیف سے پہلے نازل ہوئی، جو کافروں کے ساتھ خاص ہے وہ اس میں سے منسوخ ہے اور مسلمانوں کے بارے میں ادب قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ سیبویہ نے اپنی کتاب میں اس آیت کے نسخ کا ذکر کیا ہے اس کے غیر کے نسخ کے بارے میں جو کلام کی گئی ہے اس کے ساتھ یہ بات راجح ہوجاتی ہے کہ مراد سلامتی ہے، سلام کرنا نہیں کیونکہ مومنوں کو کبھی بھی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ کافروں کو سلام کریں۔ یہ آیت مکی ہے اسے آیت سیف نے منسوخ کردیا ہے۔ نحاس نے کہا : ناسخ اور منسوخ کے بارے میں سیوبہ کا کلام اس آیت کے سوا ہم نہیں جانتے۔ سیبویہ نے کہا : اس روز مسلمانوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ وہ مشرکوں کو سلام کریں مگر اس معنی میں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی خیرو شر نہیں ہے۔ مبرد نے کہا : یہ کہنا چاہیے تھا اس وقت مسلمانوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ ان کے ساتھ جنگ کریں پھر ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا۔ محمد بن یزید نے کہا : سیبویہ نے اس میں غلط کی اور عبادت کو غلط معنی پہنچایا ہے۔ ابن عربی نے کہا : اس وقت مسلمانوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ وہ مشرکوں کو سلام کریں اور نہ ہی انہیں اس سے منع کیا گیا بلکہ انہیں درگزر کرنے اور خوبصورت پیرائے میں پہلو تہی کرنے کا حکم دیا گیا۔ نبی کریم ﷺ ان کی مجالس کے پاس کھڑے ہوتے، انہیں سلام کہتے، ان کے قریب ہوتے اور ان کے ساتھ مداہنت کا رویہ اختیار نہ کرتے لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ مومنوں میں سے کوئی بیوقوف تجھ پر زیادتی کرے تو تیرے لیے یہ کہنا جائز ہے : سلام علیک۔ میں کہتا ہوں : یہ سنت کے دلائل کے زیادہ مناسب ہے ہم نے سورة مریم میں کفار کو سلام کہنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ذکر کردیا ہے، اس لیے نسخ کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ نضر بن شمیل نے ذکر کیا مجھے خلیل نے بیان کیا میں ابو ربیعہ اعرابی کے پاس آیا میرے نزدیک وہ سب سے بڑے عالم تھے وہ چھت پر تھے جب ہم نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے ہمیں سلام کا جواب دیا اور ہمیں فرمایا : استود اہم حیران کھڑے ہوئے ہم نہیں جانتے تھے کہ انہوں نے کیا کہا۔ ان کے پہلو میں موجود ایک بدو نے کہا : تمہیں حکم دیا ہے اوپر آ جائو۔ خلیل نے کہا : یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مآخوذ ہے :” ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ وَھِیَ دُخَانٌ“ ہم ان کی طرف اوپر گئے۔ فرمایا : کیا تمہیں روٹی جو خمیری نہیں، عمدہ دودھ اور تازہ پانی کی طلب ہے ؟ ہم نے جواب دیا : ابھی ابھی ہم اس سے فارغ ہوئے۔ فرمایا : سلاما ہم نے کچھ نہ سمجھا کہ انہوں نے کیا کہا۔ اس بدو نے کہا : آپ نے تمہیں کہا ہے تم چلے جائو اس میں کوئی بھلائی نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی شر ہے۔ خلیل نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مآخوذ ہے : واذا اخاطبھم الجھلون قالوا سلما ً ابن عطیہ نے کہا : میں نے ایک تاریخ میں دیکھا کہ ابراہیم بن مہدی جو ان لوگوں میں سے تھا جو حضرت علی ؓ شیر خدا کی طرف سے میلان رکھتے تھے مامون کے پاس گیا جب کہ ان کے پاس جماعت تھی میں خواب میں حضرت علی ابن ابی طالب ؓ کو دیکھتا ہوں میں انہیں کہتا ہوں آپ کون ہیں ؟ وہ خواب میں کہتے ہیں : علی بن ابی طالب۔ میں ان کے ساتھ ایک پل کی طرف آتا ہوں وہ جانتے ہیں وہ اس کے عبور کرنے میں مجھ سے پہل کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : آپ اس امر کا ایک عورت کی وجہ سے دعویٰ کرتے ہیں جب کہ ہم اس کے آپ کی بنسبت زیادہ حق رکھتے ہیں۔ میں نے ان کے جواب میں ایسی بلاغت نہیں پائی جیسی بلاغت ان کے بارے میں ذکر کی جاتی ہے۔ مامون نے کہا : انہوں نے تجھے کیا جواب دیا ؟ کیا : وہ مجھے سلاما کہتے۔ راوی نے کہا : ابراہیم کو آیت یاد نہیں تھی یا اس وقت اس کے حافظہ سے نکل گئی۔ مامون نے حاضرین کو اس آیت پر متنبہ کیا۔ فرمایا : اے میرے چچا جان اللہ کی قسم ! وہ علی بن ابی طالب ہیں آپ نے تجھے بلیغ ترین جواب دیا ہے۔ ابراہیم شرمدنہ ہوا اور اسے حیاء آئی وہ خواب یقینا سچے تھے۔
Top