Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 65
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ١ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اصْرِفْ : پھیر دے عَنَّا : ہم سے عَذَابَ جَهَنَّمَ : جہنم کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَهَا : اس کا عذاب كَانَ غَرَامًا : لازم ہوجانے والا ہے
اور وہ جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے
( والذین یقولون۔۔۔۔۔ ) والذین یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جہنم وہ اطاعت کرنے کے لیے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : وہ اپنے سجدوں اور اپنے قیام میں یہ دعا کرتے ہیں۔ ان عذابھا کان غراما جہنم کا عذاب لازمی، دائمی اور جدا نہ ہونے والا ہے، اس وجہ سے قرض خواہ کو غریم کہتے ہیں کیونکہ وہ مقروض کو لا حق رہتا ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : فلان مغرم بکذا یعنی اسے لازم ہے، اس کے ساتھ سخت محبت کرنے والا ہے۔ کلام عرب میں یہی اس کا معنی ہے جو ابن عربی، ابن عرفہ اور دوسرے علماء نے کہا : اعشی نے کہا : ان یعاقب یکن غراما وان یعط جزیلا فانہ لا یبالی اگر وہ عقاب دے تو وہ عقاب لازم رہنے والا ہے اور بڑا اجر دے تو اسے کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : سب کو علم ہے کہ ہر غریم، غریم کو چھوڑنے والا ہے مگر جہنم کا غریم چھوڑنے والا نہیں۔ زجاج نے کہا : غرام سخت ترین عذاب ہے۔ ابن زید نے کہا : غرام سے مراد شر ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : اس سے مراد ہلاکت ہے۔ معنی ایک ہی ہے۔ محمد بن کعب نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ان سے دنیا میں نعمتوں کے ثمن کا مطالبہ کیا تو انہوں نے وہ ادا نہ کیے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اس کے ثمن انہیں جہنم میں داخل کرنے کے ساتھ لازم کردیئے۔ انھا ساءت مستقرا ومقاما وہ کتنا برا ٹھکانہ ہے، وہ بات علم سے کہتے ہیں جب انہوں نے یہ بات علم سے کہی تو وہ اس شے کی عظیم قدر کو پہچاننے والے ہوگئے جس کا ان سے مطالبہ کیا جا رہا تھا، یہ چیز ان کی کامیابی کے قریب ترین ہے۔
Top