Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَشْهَدُوْنَ : گواہی نہیں دیتے الزُّوْرَ : جھوٹ وَاِذَا : اور جب مَرُّوْا : وہ گزریں بِاللَّغْوِ : بیہودہ سے مَرُّوْا : گزرتے ہیں كِرَامًا : بزرگانہ
اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بےہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں
(والذین لایشھدون۔۔۔۔۔۔ مسئلہ نمبر 1 :۔ والدین لا شھدون الزور جو کذب اور باطل کے پاس حاضر نہیں ہوتے اور نہ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ زد و اس باطل کو کہتے ہیں جسے آراستہ کر کے پیش کیا جائے۔ ان میں سے سب سے عظیم شرک اور شریکوں کی تعظیم بجا لانا ہے، ضحاک، ابن زیاد اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس کی تفسیر بیان کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے : مراد مشرکوں کی عیدیں ہیں۔ عکرمہ نے کہا : مراد لعب ( کھیل کود) ہے دور جاہلیت میں اسے زور کہتے۔ مجاہد نے کہا مراد گانا گانا ہے، یہ حضرت محمد بن حنیفہ کا بھی قول ہے۔ ابن جریج نے کہا : مراد جھوٹ ہے، مجاہد سے بھی یہی مروی ہے۔ علی بن طلحہ اور محمد بن علی نے کہا : معنی ہے وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے، یہ شہادت سے مشتق ہے مشاہدہ سے مشتق نہیں۔ ابن عربی نے کہا : جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ یہ کذب ہے تو یہ صحیح ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک جھوٹ کی طرف راجع ہے۔ جس نے یہ کہا : یہ دور جاہلیت میں کھیل کود تھا اگر اس میں جو ہوا یا جہالت ہو یا ایسا امر ہو جو کفر کی طرف لے جانے والا ہو تو یہ حرام ہوگا، جہاں کا نا گانے کا تعلق ہے تو وہ اس حد تک نہیں پہنچتا۔ میں کہتا ہوں : گانے میں ایسی صورت بھی ہے جس کا سننا حرمت تک جا پہنچتا ہے وہ ان اشعار کی طرح ہیں جن میں حسین صورتوں اور شراب وغیرہ کی صفت بیان کی جاتی ہے جو طبیعتوں میں حرکت پیدا کرتے ہیں اور اسے اعتدال سے نکال دیتے ہیں یا ہو کے بارے میں چھپی محبت کو ابھارتے ہیں، خصوصاً جب ان اشعار کے ساتھ آلات لہو و لعب بھی شامل ہوجائیں۔ جس طرح آج کے دور میں کیا جاتا ہے، جس کی وضاحت ہم نے کئی مواقع پر کردی ہے۔ حسن نے کہا : اس سے مراد جھوٹی گواہی ہے : تو یہی دوسرا مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ جھوٹے گواہ کو چالیس کوڑے مارتے، اس کے چہرے پر کالک ملتے، اس کے سر کا حلق کراتے اور بازام میں پھراتے۔ اکثر اہل علم نے کہا : اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی اگرچہ وہ توبہ کرے اور اس کا حال اچھا ہوجائے۔ اس کا امر اللہ کے سپرد ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اگر وہ اعلانیہ جھوٹی شہادت دینے والا نہ ہو اور اس کا حال اچھا ہو تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی، جس طرح اس کی وضاحت سورة حج میں گزر چکی ہے وہاں اس میں غور و فکر کرلے۔ واذا امرو باللغو مروا کراما لغو کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے اس سے مراد ہر وہ قول اور فعل ہے جو پایہ ثقاہت سے گرا ہوا ہو اس میں غنا، لہو اور اس کے قریب قریب کی چیزیں مراد ہیں۔ اس میں مشرکین کے بےوقوفانہ عمل، ان کا مومنوں کو اذیت دینا، عورتوں کا ذکر اور ان جیسے ناپسندیدہ عمل ہیں۔ مجاہد نے کہا : جب انہیں اذیت دی جائے تو وہ در گزر سے کام لیتے ہیں، ان سے مروی ہے : جب وہ نکاح کا ذکر کرتے ہیں تو کنایہ سے کام لیتے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : لغو سے مراد تمام قسم کی نافرمانیاں ہیں (1) یہ جامع قول ہے۔ کراما اس کا معنی ہے وہ اعراض کرتے ہیں ناپسند کرتے ہیں، اس پر راضی نہیں ہوتے، وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھتے، یعنی وہ کریم لوگوں کی طرح گزر جاتے ہیں وہ باطل میں داخل نہیں ہوتے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : تکرم فلان عما یشینہ، فلاں نے عیب دار چیز سے اپنے آپ کو پاکیزہ رکھا اور اس سے اپنے نفس کو معزز رکھا۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے نغمہ کو سنا تو جلدی چلے اور وہاں سے چلے گئے، یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو فرمایا : لقد اصبح ابن ام عبد کریما، ابن ام عبد کریم ہوگیا ہے، اس قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔
Top