Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 153
قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۚ
قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تم مِنَ : سے الْمُسَحَّرِيْنَ : سحر زدہ لوگ
وہ کہنے لگے کہ تم تو جادو زدہ ہو
قالوا انما انت من المسخرین یہ سحر سے مشتق ہے، یہ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے جس طرح مہدوی نے بیان کیا ہے۔ یعنی تجھ پر جادو کا اثر ہے تو تیری عقل باطل ہوگئی ہے کیونکہ تو ہماری مثل بشر ہے تو تو ہمارے سوا کس طرح رسالت کا دعویٰ کرتا ہے ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تو ان لوگوں میں سے ہے جنہیں بار بار کھلایا پلایا جاتا ہے یہ حضرت ابن عباس ؓ کلبی، قتادہ اور مجاہد کا قول ہے جو ثعلبی نے ذکر کیا ہے اس تعبیر کی بناء پر وہ سخر سے مشتق ہے جو رئہ ہے یعنی تجھے سحر لا حق ہوگیا ہے جو ہماری مثل کھاتا پیتا ہے جس طرح لبید نے کہا : فان تسالینا فیم نحن فاتنا عصا فیر من ھذا الانام المسحر اگر تو ہمارے بارے میں سوال کرتی ہے کہ ہم کس حال میں ہیں بیشک ہم چڑیاں ہیں جو ان جانداروں سے ہیں جن کو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔ امراء القیس نے کہا : نسحر بالطعام وبالشراب ہم کو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔ فات بایۃ ان کنت من الصدقین کوئی نشان لے آئیں اگر آپ سچے ہیں۔ قال ھذہ ناقۃ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : انہوں نے کہا اگر آپ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے جو اس پہاڑ سے سرخ اونٹنی نکالے جو دس کی گابھن ہو وہ بچہ جنے جب کہ ہم دیکھ رہے ہوں، وہ اس پانی پر واردہو وہ پانی پئے اور اگلے روز اتنا ہی دودھ ہمیں دے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا : ھذہ ناقۃ لھا شرب یہ اونٹنی ہے پانی میں اس کا حصہ ہے ایک روز تمہاری پانی کی باری ہے اور ایک روز اس کی باری ہے جس روز اونٹنی کے پانی پینے کی باری ہوتی تو وہ سارا پانی پہلے پہر پی جاتی اور دن کے پچھلے پہرا نہیں اتنا ہی دودھ دیتی جب ان کی باری ہوتی تو وہ پانی ان کے لیے اپنے لیے، ان کے چوپائوں کے لیے اور ان کی زمین کے لیے ہوتا۔ جس روز اونٹنی کی باری ہوتی تو اس میں سے کوئی پانی نہ پی سکتے اور جس دن ان کی باری ہوتی اونٹنی اس میں پانی نہ پیتی۔ فراء نے کہا : شرب سے مراد پانی کا حصہ ہے۔ نحاس نے کہا : جہاں تک مصدر کا تعلق ہے تو اس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ شرب شربا و شرباو شربا۔ مصدر اکثر مضموم ہوتا ہے کیونکہ مک سورة اور مفتوحہ کسی اور چیز کے ساتھ شریک ہوتے ہیں تو شرب پانی کا حصہ کو کہتے ہیں۔ شرب یہ شارب کی جمع ہے۔ جس طرح شاعر نے کہا : فقلت للشرب فی درنا وثملوا میں نے درنا ( جگہ) میں پینے والوں سے کہا جب کہ وہ مست ہوچکے تھے۔ محل استدلال الشرب ہے۔ مگر ابو عمرو بن علاء اور کسائی شرب فتحہ کے ساتھ مصدر میں پسند کرتے ہیں۔ اور بعض علماء کی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا انھا ایام اکل و شرب یہ کھانے پینے کے ایام ہیں (1) ۔ ولا تمسوھا بسوء یہاں تضعیف کا اظہار جائز نہیں کیونکہ یہ دونوں ایک جنس سے متحرک حروف ہیں۔ فیاخذ کم یہ نہی کا جواب ہے اس میں سہ فاء کا حذف جائز نہیں جس میں جزم جائز نہیں جس طرح امر میں ہوتی ہے مگر کسائی سے مروی ہے کہ وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ 1 ؎۔ سنن دارقطنی، باب فی الصوم، باب قبلۃ الصائم، جلد 2 ص 187، دارالمحاسن۔ فعقر وھافا صبحوا ندمین جب انہیں عذاب کا یقین ہوگیا تو اس کی کونچیں کاٹنے پر شرمندہ ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں تین دن کی مہلت دی تو ان پر ہر روز علامت ظاہر ہوتی انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا اور عذاب کے معاینہ کے وقت شرمندگی نے انہیں کوئی نفع نہ دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا، شرمندگی نے انہیں کوئی نفع نہ دیا کیونکہ انہوں نے توبہ نہ کی بلکہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو تلاش کیا تاکہ انہیں قتل کریں جب انہوں نے عذاب کو دیکھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کی ندامت اس بچے کے چھوڑنے پر تھی کیونکہ انہوں نے اس بچے کو دوسروں کے ساتھ قتل نہ کیا تھا۔ یہ قول حقیقت سے بعید ہے۔ ان فی ذلک لایۃ آخر تک کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ ایک قول یہ کیا جاتا ہے : ان لوگوں میں دو ہزار اور آٹھ سو افراد مردوں اور عورتوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا : وہ چار ہزار تھے۔ کعب نے کہا : حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم بارہ ہزار قبیلے تھے اور یہ قبیلہ عورتوں اور بچوں کے علاوہ بارہ ہزار افراد پر مشتمل تھا قوم عاد ان سے چھ گناہ بڑی تھی۔
Top