Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ لُوْطِ : قومِ لوط ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
(اور قوم) لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
( کذبت قوم لوط المرسلین۔۔۔۔۔ ) کذبت قوم لوط المرسلین اس کا معنی اور قصہ سورة الاعراف اور سورة ہود میں مفصل گزر چکا ہے الحمد للہ۔ اتاتون الذکر ان من العٰلمین وہ ان کی دبروں میں اپنی خواہش پوری کیا کرتے تھے وہ یہ عمل اجنبی اور مسافروں کے ساتھ کیا کرتے تھے، جس طرح سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ وتذرون ما خلق لکم ربکم من ازواجکم یعنی عورتوں کی شرمگاہیں چھوڑ دیتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جنہیں نکاح کے لیے پیدا کیا۔ ابراہیم بن مہاجر نے کہا : مجاہد نے مجھ سے کہا حضرت عبد اللہ اس آیت وتدرون ما خلق لکم ربکم من ازواجکم کو کس طرح پڑھا کرتے تھے۔ میں نے کہا : وتذرون ما اصلح لکم ربکم من ازواجکم۔ کہا مراد شرمگاہ ہے جس طرح ارشاد فرمایا :” فاتوھن من حیث امر کم اللہ “ ( البقرہ : 222) بل انتم قوم عدون “ تم اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والے ہو۔ قالو لئن لم تنتہ یلوط اے لوط ! اگر تم اپنی اس بات سے نہ رکے۔ لتکونن من المخرجین یعنی ہمارے ملک اور ہماری بستی سے نکالے جانے والوں میں سے ہوگے۔ قال انی لعملکم من القالین یعنی لواطت کے عمل سے بغض رکھنے والا ہوں۔ ق لی معنی بغض ہے تلیتہ القلیہ قلی و قلاء۔ شاعر نے کہا۔ فلست بمقلی الخلال ولا قالی۔ نہ میں دوستوں کو ناراض کرنے والا ہوں اور نہ ہی بغض رکھنے والا ہوں۔ ایک اور شاعر نے کہا : علیک السلام لا مللت قریۃ وما لک عندی ان نایت قلا تجھ پر سلامتی ہو قریب ہو تو تجھ سے کوئی اکتاہٹ نہیں اگر تو دور ہو تو میرے نزدیک کوئی ناراضگی نہیں۔ رب رجنی واھلی مما یعملون اے میرے رب ! مجھے اور میرے اہل کو ان کے عمل کے عذاب سے نجات عطاء فرما۔ جب آپ ان کے عذاب سے مایوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ انہیں ان کا عذاب نہ پہنچے۔ فنجینہ واھلہ اجمعین ان کے اہل میں ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں جس طرح سورة ہود میں گزرا ہے الا عجورا فی الغبرین سعید نے قتادہ سے روایت نقل کی ہے غبرث فی عذاب اللہ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب میں باقی رہی۔ ابو عبیدہ اس طرف گئے ہیں کہ معنی ہے وہ بڑھا پے میں باقی رہنے والوں میں سے ہوئی۔ یعنی وہ باقی رہی یہاں تک کہ بوڑھی ہوگئی۔ نحاس نے کہا : جانے والے کو غابر اور باقی رہنے والے کو بھی غابر کہتے ہیں۔ جس طرح شاعر نے کہا : لا تکسع الشول باغبارھا انک لا تدری من الناتج تیزی سے خدمت کرنے والے کو بچی کھچی چیز کے ساتھ نہ دھتکار تو نہیں جانتا کہ نتیجہ دینے والا کون ہے۔ فما ونی محمد مذ ان غفر لہ الالہ ما مضی وما غبر حضرت محمد ﷺ کمزور نہ ہوئے جب سے اللہ تعالیٰ نے ان کے گزشتہ آنے والے اعمال کو معاف کردیا۔ ما غبر سے مراد مابقی ہے۔ اغبار سے مراد باقی ماندہ دودھ ہے۔ ثم دمرنا الاخرین ہم نے انہیں دھنسا کر اور پتھروں کی مار کے ساتھ ہلاک کردیا۔ مقاتل نے کہا : اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو زمین میں دھنسا دیا اور جو بستی سے باہر تھا اس پر پتھروں کی بارش کی۔ وامطرنا علیھم مطرا یعنی پتھروں کی بارش کی۔ فساء مطر المنذرین ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت جبریل امین نے ان کی بستی کو زمین میں دھنسا دیا اور اس کے اوپر والے حصہ کو نیچے کردیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد پتھروں کی بارش کی۔ ان فی ذلک لایۃ وما کان اکثرھم مومنین اس میں کوئی مومن نہیں تھا مگر حضرت لوط (علیہ السلام) کا گھر اور ان کی دو بیٹیاں۔
Top