Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور یہ (قرآن خدائے) پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے
(وانہ لتنزیل رب العلمین۔۔۔۔۔ ) وانہ لتنزیل رب العٰلمین سورت کے آغاز میں جس کا ذکر ہے اس کی طرف رجوع کیا کہ مشرکین نے قرآن سے اعراض کیا۔ نزل بہ الروح الامین۔ علی قبلک، نزل کو نافع، ابن کثیر اور ابو عمر نے مخفف پڑھا باقی فراء نے نزل کو مشدد پڑھا ہے بہ الروح الامین منصوب ہے۔ وہ ابو حاتم اور ابو عبیدہ کا پسندیدہ قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وانہ لتنزیل یہ نزل کا مصدر ہے۔ جس نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ کہے یہ مقدر نہیں کیونکہ معنی ہے قرآن رب العالمین کی نازل شدہ ہے جسے جبریل امین نے تیری طرف نازل کیا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ “ (البقرہ : 97) یعنی وہ تجھ پر اسے تلاوت کرتا ہے اور تیرا دل اسے یاد کرتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تاکہ تیرا دل ثابت رہے۔ لتکون من المنذرین۔ یلسان عربی مبین تاکہ یہ نہ کہیں جو تو کہتا ہے : ہم اسے نہیں سمجھتے۔ وانہ لفی زبر الاولین ان کے نزول کا ذکر انبیاء کی کتب میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت محمد ﷺ کا ذکر پہلوں کی کتابوں میں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ “ (الاعراف : 157) زبر کا معنی کتابیں ہیں واحد زبور ہے جس طرح رسول کی جمع رسل ہے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top