Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 198
وَ لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر نَزَّلْنٰهُ : ہم نازل کرتے اسے عَلٰي بَعْضِ : کسی پر الْاَعْجَمِيْنَ : عجمی (غیر عربی)
اور اگر ہم اس کو کسی غیر اہل زبان پر اتارتے
ولو نزلنہ علی بعض الا عجین ایسے آدمی پر جو عربی زبان والا نہیں۔ فقراہ علیھم، لغت عرب کے بغیر ان پر پڑھتا تو وہ ایمان نہ لاتے اور کہتے ہم اسے سمجھے ہی نہیں۔ اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَلَوْ جَعَلْنٰـہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا “ (فصلت : 44) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے اگر ہم اسے غیر عربی آدمی پر بھیجتے تو تکبر کی وجہ سے وہ ایمان نہ لاتا۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ رجل اعجمی واعجم۔ جب وہ فصیح نہ ہو اگرچہ وہ عربی ہو۔ رجل عجمی اگرچہ فصیح ہو اسے اپنے اصل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے مگر فراء نے اجازت دی ہے کہ یہ کہا جائے : رجل عجمی یہ اعجمی کے معنی میں ہے۔ حضرت حسن بصری نے علی بعض الاعجمیین قرأت کی ہے۔ یعنی مشدد پڑھا ہے دویاء ہیں اسے اسم منسوب بنایا ہے جس نے الاعجیین قرأت کی ہے یعنی مشدد پڑھا ہے دویاء ہیں اسے اسم منسوب بنایا ہے جس نے الاعجمین قرأت کی تو ایک قول یہ کیا گیا : یہ اعجم کی جمع ہے۔ اس میں بعد ہے، کیونکہ وہ اسم جو صفات میں سے ہو جس کی مونث فعلاء کے وزن پر ہو اس کی جمع وائو اور نون سے نہیں بنائی جاتی اور نہ ہی الف اور تاء سے جمع بنائی جاتی ہے نہ احمرون کہا جاتا اور نہ 1 ؎۔ تفسیر طبری 2 ؎۔ تفسیر بغوی حمرادات کہا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کی اصل اعجمین ہے جس طرح جحدری کی قرأت ہے پھر یاء نسبت کو حذف کردیا اور اس کی جمع یاء اور نون سے بنائی جو اس پر دلیل ہے یہ ابوالفتح عثمان بن جنی نے کہا : یہ سیبویہ کا مذہب ہے۔ کذلک سلن کہ ٗ ہ ضمیر سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن کا کفر۔ فی قلوب المجرمین۔ لا یومنون بہ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ہم نے ان کے دل میں تکذیب کو داخل کردیا یہی وہ چیز تھی جس نے انہیں ایمان سے روک دیا : یہ یحییٰ بن سلام کا قول ہے۔ عکرمہ نے کہا : ہ ضمیر سے مراد سختی ہے۔ معنی قریب قریب ہے۔ سورة حجر میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ فراء نے لایومنون میں جزم کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ اس پر شرط اور جزاء کا معنی موجود ہے۔ یہ گمان کیا گیا ہے کہ عربوں کا معمول ہے جب لا کوئی لا کی جگہ رکھا جائے جس طرح یہاں ہے تو بعض اوقات یہ ما بعد کو جزم دیتا ہے اور بعض اوقات ما بعد کو یہ رفع دیتا ہے تو کہتا ہے : ربصت الفرس لا ینفلت فعل مضارع پر رفع اور جزم دونوں جائز ہیں کیونکہ اس کا معنی ہے اگر میں اس کو نہ باندھتا تو وہ کھسک جاتا اور رفع کیلا ینفلت کے معنی میں ہے۔ بنی عقیل کے آدمی کا شعر پڑھا : وحتی راینا احسن الفعل بیننا مساکنۃ لایقرف الشر قارف لایقرف مرفوع ہے کیونکہ کی محذوف ہے۔ اور جزم دوسرے کے قول میں ہے : لطالما حلاتماھا لا ترد فخلیا ھما والسجال تبترد محل استدلال تبترد ہے۔ نحاس نے کہا : یومنون میں یہ سب کچھ بصریوں کے نزدیک خطاء ہے جازم کے بغیر جزم جائز نہیں۔ کوئی ایسی چیز نہیں جو عمل کرے اور جب اسے حذف کیا گیا تو وہ ایسا عمل کرے جو اس کے اس عمل سے اقول ہو جب کہ وہ موجود ہے۔ یہ واضح استدلال ہے۔ حتیٰ یرو العذاب الالیم۔ فیایتھم بغتہ، قیا تیھم کا فاعل العذاب ہے۔ حضرت حسن بصری نے پڑھا فتاتیھم معنی ہے قیامت ان پر اچانک آجائے گی۔ اسے مضمر کیا گیا ہے، کیونکہ العذاب اس پر دلالت کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ الساعۃ کا ذکر قرآن میں کثرت سے واقع ہوا ہے۔ ایک آدمی نے حضرت حسن بصری سے کہا جب کہ آپ نے فتاتیھم پڑھا : اے ابا سعید ! عذاب ان پر اچانک آجائے گا ؟ تو آپ نے اسے جھڑکا، فرمایا : وہ قیامت ہے جو ان پر اچانک آئے گی۔ وھم لا یشعرون وہ اس کے آنے کا احساس بھی نہ کریں گے۔ فیقولوا ھل نحن منظرون کیا ہمیں مہلت دی جائے گی وہ وہاں رجوع کا مطالبہ کریں گے تو انہیں کوئی جواب نہ دیا جائے گا۔ قشیری نے کہا فیاتیھم اس کا عطف حتی یروا پر نہیں بلکہ یہ لا یومنون کے قول کا جواب نہیں۔ جب یہ نفی کا جواب ہے تو اس کا نصب دی اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فیقولوا۔
Top