Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 204
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ
اَفَبِعَذَابِنَا : کیا پس ہمارے عذاب کو يَسْتَعْجِلُوْنَ : وہ جلدی چاہتے ہیں
تو کیا یہ ہمارے عذاب کو جلدی طلب کر رہے ہیں ؟
(افبعذابنا یستعجلون۔۔۔۔۔ ) افبعذابنا یستعجلون مقاتل نے کہا : مشرکین نے نبی کریم ﷺ سے کہا : اے محمد ! کب تک آپ ہمیں عذاب کی دعوت دیتے رہیں گے اور اس کو لائیں گے نہیں ؟ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : افبعذابنا یستعجلون۔ افریت ان متعنھم سنین یعنی دنیا میں ہم لطف اندوزہوتے رہیں۔ ضحاک اور دوسرے علماء کے نزدیک مراد اہل مکہ ہیں۔ ثم جاء ھم ما کانو یوعدون عذاب اور ہلاکت جس کی انہیں دھمکی دی جاتی تھی۔ ما اغنی عنھم ماکانوا یمثعون پہلا ما استفہامیہ ہے اس کا معنی تقریر ہے اغنی کی وجہ سے یہ محل نصب میں ہے۔ دوسرا ما محل رفع میں ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ دوسرا ما نافیہ ہو اس کا کوئی محل اعراب نہ ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : پہلا ما نافیہ ہے اور دوسرا ماء اغنی کی وجہ سے محل رفع میں ہو ضمیر عائد محذوف ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے ما اغنی عنھم الزمان الذی کانوا یمتعون زہری سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز جب صبح کرتے تو اپنی داڑھی کو پکڑ لیتے پھر اسے پڑھتے ” افرء یت ان متعنھم سنین۔ ثم جاء ھم ما کانو یوعدون۔ ما اغنی عنھم ما کانو یمتعون۔ پھر روتے اور کہتے : نھارک یا مغرور سھو و غفلۃ ولیلک نوم والردی لک لازم فلا انت فی الایقاظ یقطان حازم ولا انت فی الثوام ناج فسالم تسربما یفنی و تفرح بالمنی کما سر باللذات فی النوم حالم وتسعی الی ما سوف تکرہ غبہ کذلک فی الدنیا تعیش البھائم اے دھوکہ میں مبتلا شخص تیرا دن بھول اور غفلت میں ہے اور تیری رات نیند میں ہے ہلاکت تجھے لازم ہے۔ تو بیداری میں بیدار اور محتاط نہیں نہ ہی تو سونے والوں میں نجات پانے والا اور سلامت رہنے والا ہے۔ جو چیز فانی ہے اس سے تو خوش ہوتا ہے اور تو آرزئوں پر خوش ہوتا ہے جس طرح لذات سے نیند میں خواب دیکھنے والا خوش ہوتا ہے۔ تو اس کی طرف دوڑتا ہے جس کو توکل ناپسند کرے گا جس طرح دنیا میں چوپائے خوش ہوتے ہیں۔ وما اھلکنا من قریۃ من زائدہ ہے معنی ہے وما اھلکنا قریۃ، الا لھا منذرون مگر اس کیلئے کے لیے رسل تھے۔ ذکریٰ کسائی نے کہا : حال ہونے کی حیثیت میں محل نصب میں ہے (1) نحاس نے کہا : یہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس میں فراء اور 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4 صفحہ : 244 ابو اسحاق کا قول ہے کہ یہ مفعول مطلق ہونے کی حیثیت سے محل نصب ہے۔ فراء نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے کہ یذکرون ذکری۔ یہ قول صحیح ہے کیونکہ الا لھا منذرون کا معنی ہے مگر اس کے لیے نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ذکری میں اعراب واضح نہیں ہوتا کیونکہ اس میں الف مقصورہ ہوتا ہے۔ اسے تنوین کے ساتھ ذکری پڑھنا بھی جائز ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہو اور اس کا مبتداء مضمر ہو۔ ابو اسحاق نے کہا : ہمارا ڈرنا نصیحت ہے۔ فراء نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے ذلک ذکری وتلک ذکری۔ ابن انبازی نے کہا : بعض مفسرین نے کہا سورة شعراء میں کسی جگہ وقف تام نہیں ہوتا مگر الا لھا منذرون پر وقف تام ہے۔ ہمارے نزدیک یہ وقف حسن ہے پھر کلام کو شروع کرے۔ ذکریٰ کلام یہ بنے گی ھی ذکریٰ یعنی انہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ ذکریٰ پر وقف عمدہ ہے۔ وما کنا ظلمین یعنی انہیں عذاب دینے میں ہم ظالم نہیں کیونکہ ہم نے ان پر حجت مکمل کردی ہے اور تمام عذر ختم کردیئے ہیں۔
Top